عمران خا ن یا پھر کوئی اجنبی؟

عمران خان نے اپنی ہر تقریر میں غربت اورکرپشن کے خاتمے،تعلیمی نظام میں اصلاحات اورروزگار کی فراہمی کی بات کی۔بے گھروں کو گھر دینے کے ساتھ تبدیلی کا ایک ایسا خواب دکھایا جو بظاہر ناممکن نظرآرہا تھا، مگر لیکن کسی ایک پر تو بھروسہ کرنا ہی ہو تا ہے اس لیے ہمیشہ کی طرح پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوام نے 25جولائی 2018ء کو ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا اندازہ بھی مشکل تھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس کے پیچھے غیبی ہاتھوں کا شاخسانہ ہے جسے کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ بہر حال ہاتھ کسی کا بھی ہو مگر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والا شخص وہ نہیں،بظاہر شکل وصورت تو اس سے ملتی جلتی ہے اورلب ولہجہ بھی وہی اختیار کیا گیا ہے لیکن عملی اقدامات کی جب بات کریں تو یہ وہ ہرگز نہیں ہوسکتا جسے عوام نے 25جولائی کو منتخب کرکے اس ملک کی بھاگ دوڑ کے لیے منتخب کیاتھا۔ یہ مجھے اجنبی لگتا ہے۔
عمران خان نے کہا تھا میں غربت ختم کروں گااور روزگار فراہم کروں گا۔ مگر آج غربت اتنی بڑھ چکی ہے کہ جس کا اندازہ ملک کی ڈرائیونگ سیٹھ پر بیٹھا یہ اجنبی شخص بالکل بھی نہیں لگا سکتا۔ روزگار کی بات کرنے عمران خان والا بھلا کیسے لوگوں کو بے روزگار کرسکتا؟ اس لیے کم سے کم میں نے مانتا اس شخص کو جو آج روپ بدل کر پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کررہاہے۔ عمران خان نے تو کہا تھا کہ میری حکومت میں کوئی کرپشن نہیں کرسکتا، میں کرپشن کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالوں گا۔ مگر یہاں تو سب الٹا ہورہا ہے۔آج عمران خان کے روپ میں موجود یہ بہروپیا کہتا ہے جن لوگوں کو جیلوں میں ڈالاگیا ہے وہ پرانے کیسز میں گئے ہیں،ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔ مطلب اپنے منہ سے مان بھی رہا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہ شخص ہرگز نہیں۔ عمران خان کہتا تھا کہ میں ان چور ڈاکوؤں کو رلاؤں گا۔ لیکن آج قومی سروے کیاجائے تو یقین جانیے عوام کو روتا ہوا پائیں گے۔ پھر میں کیسے مان لوں یہ عمران خان ہی ہے جس نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے وعدے کیے تھے۔؟ کم سے کم میں نہیں مان سکتا۔
عمران خان نے اپنی کنٹینر والی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ جب مہنگائی ہو جائے اورملک کے قرضے بڑھ جائیں،پیٹرول کے ریٹ بڑھ جائیں تو سمجھ لینا آپ کا حکمران چور ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوتی ہے،کیوں کہ میں اس بات کو مانتا ہوں یہ عمران خان نے کہا تھا۔ لیکن یہ عمران خان نہیں ہوسکتا اس لیے میں اس ڈرائیونگ سیٹھ پر بیٹھے شخص کو چور مانتا ہوں۔ آج غریب خودکشی کررہا ہے،مزدور بھیک مانگ رہا ہے،نوجوان نسل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے،اگر یہ شخص عمران خان ہوتا جس نے عوام کو ناامیدی میں امید کا ایک روشن چراغ دکھایا تھا وہ بھلا یہ سب کیسے دیکھ سکتا تھا؟ عمران خان تو عوام کا ہمدرد تھا،وہ عوام کے لیے سڑکوں پر نکلنے والا شخص تھا، پھر یہ کون ہے جو آج ہم پر مسلط ہے؟ کیاآپ میں سے کوئی ہے جو اسے جانتا ہے؟ کم سے کم میں نہیں جانتا،یہ مجھے بہروپیا لگتا ہے جو عوام کو رلانے آیا ہے،انہیں بے روزگار کرنے آیا ہے،جو غریب کو دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کررہا ہے،جس نے اناج تک غریب کے منہ سے چھین لیا ہے۔ یہ شخص ہرگز عمران خان نہیں ہوسکتا۔
عمران خان نے کہا تھا میں پروٹوکول کے خلاف ہوں،مگر یہ شخص تو بغیر پروٹوکول کے کہیں جاتا ہی نہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ یہ عمران خان ہی ہے؟ عمران خان نے یہ بھی کہاتھا کہ ہر غریب کے پاس اپنا گھر ہوگا، مگر آج شخص اور اس کے وزیرومشیر غریبوں کے سر سے کرائے کی چھت بھی چھین رہے ہیں۔ پھر بھلا میں کیسے یقین کرلوں کہ یہ عمران خان ہی ہے؟ شاید ہمارے ساتھ کوئی بہت بڑا دھوکا ہوا ہے،مجھے آج بھی ایک بھارتی فلم کا وہ سین یاد ہے جس میں ولن ایک لڑکی کو پسندکرتا ہے مگر چونکہ ولن خود بوڑھا ہوتا ہے اس لیے اپنی تصویر بھیجنے کے بجائے وہ اپنے ایک غلام کی تصویر اس لڑکی کے گھروالوں کو بھجوادیتا ہے جسے دیکھ کر لڑکی اور اس کے گھروالے رشتے کے لیے ہان کہہ دیتے ہیں،لیکن شادی کی پہلی رات جب دلہن دلہے کے انتظار میں گھوگھنٹ میں اپنا منہ چھپائے بیٹھی ہوئی ہوتی ہے اورجب وہ ولن کمرے میں داخل ہوکر اس دلہن کا گھوگھنٹ اٹھاتا ہے تو وہ لڑکی حیران اورپریشان ہوجاتی ہے،جب اسے ساری کہانی کا علم ہوتا ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ شادی تو ہوچکی تھی۔ شاید پاکستانیوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔جس میں ہمیں تقریر کسی کی سنائی گئی اورفلم کسی کی دکھائی جارہی ہے۔
عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے 100دن کا پلان پیش کیاتھا ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ اب آنے والا وزیراعظم ایک بھرپورپلاننگ کے ساتھ آرہا ہے،بھرپور اختیارات کے ساتھ آرہا ہے۔ 25جولائی کا انتظار کیا اورجب وہ دن آیا تو صرف بلے پر مہر لگائی گئی۔ ایک بہت بڑی کامیابی کے ساتھ عمران خان کو وزیراعظم کے منصب کے لیے منتخب کرایا، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس میں غیبی ہاتھ بھی کارفرما رہے ہیں جن کا ثبوت ہمارے پاس تو کوئی نہیں مگر میڈیا اوراپوزیشن آج بھی اسی بات پر ڈٹی ہوئی ہے۔ خیر عمران خان نے کامیابی کے بعد وزیراعظم کا حلف اٹھایا اورقومی اسمبلی میں پہلا خطاب بھی کنٹینر والا کیا۔ مگر اس کے بعد سے وہ غائب ہیں۔ عمران خان کی جگہ کسی اور نے سنبھال لی۔قوم432 دن گزرنے کے بعد بھی اس شخص کے انتظار میں شاید کہیں سے وہ آجائے اور ساری حقیقت بتا دے کہ کیسے وزیراعظم ہاؤس سے اسے اغواء کیاگیا اورکیسے اس کی جگہ کسی اور نے سنبھا ل لی۔ یہ تمام اقدامات میرے نہیں۔ اس غربت میں اضافے کی وجہ بھی میں نہیں،بے روزگاری کے اس طوفان کی وجہ بھی میں نہیں،بلکہ وہ شخص ہے جو میرا روپ دھار کر وزیراعظم ہاؤس پر قابض ہوا تھا،آج میں ان تمام تر اقدامات کو معطل کرتا ہوں اور اپنے سو دن کے پلان سے آغاز کرتا ہوں۔
مگر کیا یہ ممکن ہے جنہوں نے عمران خان کو ایک طرف کرکے اس بہروپیے کو ہم پر مسلط کیا وہ اتنی آسانی سے مان جائے گا۔ مجھے نہیں لگتا۔ یہ شخص خود کو درست ثابت کرنے کے لیے ضرور ہاتھ پاؤ ں مارے گا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں ایک پرجوش خطاب کرکے قوم کو اپنی طرف مائل کردیا ہے۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ سنایا کچھ جایارہا ہے اوردکھایا کچھ جائے گا۔اس لیے میں پھر بھی اس شخص کو ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ میں نے ووٹ اسے نہیں دیا تھا،میں نے جس عمران خان کو ووٹ دیا تھا مجھے تو اسی کی تلاش ہے۔ مجھے اس کے وعدوں کے وفاہونے کا انتظار ہے۔ تاہم میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ اس ملک کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ جو ایک بار آجائے وہ آسانی سے نہیں جاتا۔ قوم کواس اس شخص سے نجات کے لیے مزید 1393دن یا پھر 33432گھنٹے انتظار کرنا ہوگا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں