اسی لاکھ سے زائد پاکستانی منشیات کے عادی

پاکستان میں منشیات کااستعمال روز بروز بڑھتا جارہاہے‘اس منشیات میں زیادہ تر افراد شراب‘ہیروئن‘چرس‘افیون‘بھنگ‘کرسٹل‘آئس‘صمد بانڈ اوردیگر سکون بخش ادویات شامل ہیں‘ منشیات کے عادی افراد میں خواتین کی تعداد22لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان چرس کے استعمال میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے‘جب کہ اسی طرح دیگر نشے کو دیکھاجائے تو سرنج کا استعمال پاکستان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ایک خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان غیرقانونی منشیات اسمگلنک کا ایک اہم روٹ بھی تصور کیاجاتا ہے۔
اس منشیات سے جہاں دوسری بیماری معاشرے میں پھیل رہی ہیں وہیں کینسر‘ایڈز‘اورہیپاٹائٹس میں بھی دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد آئس کے معاملے میں سرفہرست ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق آئس کا نشہ کرنے والا ایک عجیب وغریب سرور میں مبتلا رہتا ہے جس کی نیند بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے‘اس دوران نہ اسے کھانے کا کوئی ہوش رہتا ہے اور نہ ہی پینے کا‘صرف جاگتے رہنا ہی اس کی عادت بن جاتی ہے‘جو ایک انتہائی خطرناک صورت حال کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے۔ کیمیائی نشے کا استعمال جہاں دماغ پر وار کرتا ہے وہیں دانت بھی خراب کردیتے ہیں جس کے باعث منہ میں انفیکشن بڑھ جاتا ہے جوبعدازاں کینسر کی روپ میں سامنے آتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق آئس کی تیاری میں استعمال ہونے والے مخصوص کیمیکلز پاکستان میں بآسانی مل جاتے ہیں اور یہ اجزاء پاکستان بھر میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے ہیں، جن پر کوئی پابندی عائد نہیں اور نہ ہی لگائی جا سکتی ہے۔ آئس کے استعمال کی روک تھام میں ایک اور رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس کی فروخت روایتی انداز میں نہیں کی جاتی۔ اس کو بیچنے کے لیے آرڈر ملنے پر سپلائی ہوم ڈیلیوری کے ذریعے کی جاتی ہے۔ دوسری طرف کرسٹل میتھ یا آئس کے استعمال سے نیند کے غائب ہو جانے، طاقت کے احساس، اور خوشی کے جذبات کے ساتھ ساتھ متعلقہ فرد کے جارحانہ رویے میں شدت بھی آ جاتی ہے جبکہ بلڈ پریشر میں اضافہ اور ہارٹ اٹیک بھی ان منشیات کے استعمال کے طویل المدتی نتائج میں شامل ہیں۔
سگریٹ کا بے دریغ استعمال پاکستان میں موت بانٹنے کا سبب بننے لگا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اورگلوبل یوتھ ٹوبیکوکے سروے کے مطابق اس وقت 13.3فیصد لڑکے اور6.6فیصد لڑکیاں جن کی اوسط عمر13سے 15سال کے درمیان ہیں تمباکونوشی کے استعمال میں مبتلا ہیں۔یہ ایک انتہائی خوفناک تعداد ہے۔ اسی سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 274افراد تمباکونوشی کے باعث مررہے ہیں‘جب کہ ایک لاکھ60ہزار افراد ہر سال تمباکونوشی کے باعث خطرناک بیماریوں کاشکار ہوکر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اسی طرح سگریٹ زدہ ماحول میں رہنے والے صرف0 4ہزارافراد پاکستان جب کہ 6لاکھ افرادپوری دنیا میں سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان 15 ممالک میں ہوتا ہے، جہاں تمباکو کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ’نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد دکانیں اور پان کے کھوکھوں پر سگریٹ بآسانی دستیاب ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی کاآغاز کر رہے ہیں یعنی تمباکو نوشی کی جانب قدم بڑھانے والے ہر پانچ میں سے دو کی عمر دس سال ہے۔
گزشتہ دنوں اسپارک کے تحت منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کاشف مرزا نے تمباکو اور تمباکو نوشی کی ممانعت اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کے تحفظ سے متعلق آرڈیننس 2002 پر حقائق فراہم کیے جس میں ایسے اقدامات شامل ہیں جن میں تمباکو نوشی میں مبتلا افراد کو عوامی مقامات پر تمباکونوشی کی ممانعت، تعلیمی اداروں میں تمباکو کی مصنوعات کی رسائی اور 18 سال سے کم عمر افراد پر سگریٹ فروخت کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے-کاشف مرزا کے مطابق خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کے تحت18سال کے دوران کوئی ایک بھی شکایت درج نہیں کی گئی جو لمحہ فکریہ ہے۔ جب کہ 2016سے 2019ء تک تمباکو پرکم ٹیکسز کے باعث 77.85بلین روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
صدر کراچی پریس کلب امتیاز فاران کے مطابق نشہ کی ابتدا سگریٹ نوشی سے ہوتی ہے- امتیاز فاران کا کہنا ہے کہ ہم سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ تمباکو کی مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے کے ساتھ نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی عادت کی حوصلہ شکنی کی جاسکے- صحت مند طرز زندگی کے لئے بچوں کو سگریٹ فروخت کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں – اچھی صحت کے لئے تمبانوشی کی عادت کو کم کریں اور صحت پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کریں –
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال کے مطابق نکوٹین کے علاوہ بھی سگریٹ میں بہت سے مضر اجزاء ہیں – اس میں 4000 کیمیکلز ہوتے ہیں جس میں 50 کے متعلق پتا چلا ہے کہ وہ مضر نوعیت کے ہیں، مثال کے طور پر اس میں کاربن مونو آکسائیڈ ہوتا ہے جو کار سے خارج ہونے والے دھویں میں ہوتا ہے، بیوٹین لائٹر کے پانی میں شامل ہوتا ہے اور آرسینک، امونیا اور میتھانول راکٹ کے ایندھن میں استعمال ہوتے ہیں – ایک نوعمر بچے کا دماغ جو ابھی نشوونما کے مرحلے میں ہوتا ہے اسی دوران نکوٹین کا استعمال اس کو متاثر کرتا ہے اور نوجوانوں کے بچپن کے دوران دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت میں تبدیلی آتی ہے جس سے وہ زندگی بھر نشہ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ان کے رویوں اور رجحانات پر دوررس مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں -پروفیسر فرح اقبال کے مطابق تمباکو نوشی کئی ایک خطرناک رویوں کا باعث بھی ہے۔نیند کادورانیہ کم ہونا‘دماغ کی امپریشن کا تبدیل ہونا‘ٹیمپرہائی ہونا‘ڈپریشن کا خطرناک حد تک بڑھ جانا‘بے چینی کا ہونا‘کنفیوزیشن کابڑھنا‘ کام میں دشواری کاسامناکرنے سمیت چڑچڑا پن‘ جارحیت‘دماغ کے وائٹ سیل کم ہونے سے ذہنی کمزوری اوربھولنے کی عادتیں شامل ہوجاتی ہیں۔اس کے بعد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر فرح اقبال کے مطابق 13-15سال کی عمر کے 100بچوں میں سے 34بچے اس تمباکونوشی سے متاثر ہورہے ہیں۔
اسپارک SPARC کی منیجرشمائل وحید کے مطابق ان مسائل کے حل کے لیے میڈیا کا کردار بہت اہم ہے-ہم سماجی مسائل اور حقائق پر مبنی رپورٹس کے لیے کوشاں ہیں اورساتھ ہی مزید نشستیں میڈیا کے ساتھ منعقد کریں گے اور قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو درست کارروائی کے لیے زور ڈالیں گے۔
خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پبلک ہیلتھ پروفیشنل ڈاکٹر سبین خان کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے، جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابتدا سگریٹ سے ہوتی ہے، پھر چرس کی طرف جاتے ہیں، پھر انجیکشن کا استعمال ان کو زیادہ مزہ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ مزے کی تلاش میں وہ ہیروئن اور دیگر نشوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ دس سال یا اس سے بھی کم عمر کے ایسے نابالغ بچے جو عموماً فیکٹریوں میں یا پٹرول اسٹیشنوں پر کام کرتے ہیں، وہ اپنے ماحول کی وجہ سے صمد بانڈ یا پٹرول جیسے سستے لیکن خطرناک نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک بار جب انہیں ایسے نشے کی عادت ہو جاتی ہے، تو وہ دیگر منشیات بھی استعمال کرنے لگتے ہیں۔
منشیات کے بے دریغ استعمال میں قانون کس حد تک قصور وارہے اس حوالے سے ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں، آخر میں بدنامی ہماری ہی ہو تی ہے۔تاہم یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پولیس کے پاس جدید سہولیات‘ بجٹ اوراختیارات کا فقدان ہے۔ پولیس افسر کے مطابق فوج کا جتنا بجٹ ہے اگر اس کا آدھا بھی پولیس کو دے دیا جائے تو وطن عزیز کو اس لعنت سمیت دیگر جرائم سے پاک کرسکتے ہیں۔خبر رساں ادارے ڈوئچے کی رپورٹ کے مطابق معاشرے میں بدعنوانی بھی بہت بڑا مسئلہ بناہوا ہے، پولیس چھاپے مار کر مجرم اور منشیات پکڑتی ہے تو اوپر سے فون آ جاتا ہے کہ انہیں چھوڑ دو۔ منشیات فروشوں کے بااثر شخصیات سے رابطے ہوتے ہیں۔ جس کے باعث پولیس اکثر بے بس ہو جاتی ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات فروشی کے بہت سے واقعات میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کا عملہ بھی ملوث پایا گیاہے۔ پاکستان سے منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے مکمل منصوبہ بندی، کافی وسائل اور پختہ عزم کی ضرورت ہے، جس دوران کوئی بھی بااثر مجرم قانون کی گرفت سے دور نہ رہے۔
2013ء کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا77 لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں آبادی کے تقریبانصف حصے کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے۔
پاکستان میں فوڈ اتھارٹیز تو ہیں، مگر وہاں ریسرچ کا کوئی انتظام نہیں۔ سرکاری سطح پر منشیات کے عادی افراد کی ‘ڈی ٹاکسیفیکیشن‘کی سہولیات دستیاب ہی نہیں۔ اگر یہ سروسز ہیں بھی، تو نجی شعبے میں، جو بہت مہنگی ہیں۔ ایک عام پاکستانی خاندان اپنے کسی فرد کے لیے ان اخراجات کو برداشت کرنے کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ حکومت کی گزشتہ ڈرگ کنڑول پالیسی کیا تھی، اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے کہ اس کی خوبیاں اور خامیاں کیا تھیں۔ پھر موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اس پالیسی میں ترامیم کی جانا چاہییں۔“پاکستان میں نشے کے عادی افراد کو تلاش کرنے کے لیے آپ کو کوئی بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی۔ ایسے لاکھوں پاکستانی بھکاریوں کی طرح آپ کو ہر شہر میں جگہ جگہ نظر آئیں گے، دو سے تین سوروپے کے عوض ہیروئن کی پڑیا خریدنے والے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ چرس ہے، جو آسانی سے مل جاتی ہے اور مقابلتاً سستی بھی ہے۔ آئس پاکستان میں زیادہ تر ایران سے لائی جاتی ہے، جو خالص حالت میں بہت مہنگی ہوتی ہے لیکن منشیات کا کاروبار کرنے والے اکثر اس میں ملاوٹ کر کے بیچتے ہیں، جو مختلف طرح کے زہر یکجا کر دینے والی بات ہے۔
2002ء میں تمباکونوشی کے خلاف بنایاگیاقانون سیکشن 5کے مطابق پبلک مقامات پرسگریٹ نوشی منع ہے جس کی کم سے کم سزا ایک ہزار روپے جرمانہ مقرر ہے۔ سیکشن 6کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ‘کوچ‘مزدا‘ٹرین‘ہوائی جہاز میں تمباکوشی ممنوع ہے۔ خلاف ورزی کی سزاایک ہزار روپے سے 5ہزار روپے تک جرمانہ کیاجاسکتا ہے۔ سیکشن 7کے مطابق تمباکوشی نوشی کے حوالے کسی بھی پلیٹ فارم مثلاًاخبارات‘میگزین‘رسائل‘جریدہ‘ٹی وی چینل اورسوشل میڈیا سمیت بینرز اورپمفلٹ کی صورت میں بھی پبلسٹی ممنوع قرار دی گئی ہے۔خلاف ورزی پر 5ہزار روپے یا اس سے زائد کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔ سیکشن 8کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کوسگریٹ فروخت کرناممنوع ہے جس کی سزا ایک لاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قید درج ہے۔ اسی طرح سیکشن 9 کے مطابق سرکاری‘نیم سرکاری اورپرائیوٹ ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ کے پچاس میٹر کے دائرے میں کوئی بھی پان کاکھوکھا‘کیبن منع ہے۔ سیکشن 10کے مطابق پبلک سائن بورڈ پر پبلسٹی پرپابندی ہے۔ سیکشن 11کے تحت تمباکونوشی کی ماڈلنگ کے لیے عمر چالیس سال سے زائد ہونی چاہیے۔تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ 2002سے اب تک اس قانون کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیریں جارہی ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان اٹھارہ سالوں میں ایک بھی مقدمہ درج نہیں کیاگیا۔ جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس قانون کا نفاذ معاشرے پر کتنا موثر ہے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں