”بدعت اور کاپی رائٹ“

کاپی رائٹ کے قانون کو دُنیا کا اجتماعی ضمیر ایک قطعی اخلاقی اصول اور قانونی حق کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اِس کی خلاف ورزی قابل دست اندازی جرم قرار پاتی ہے۔ اِس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کسی کی لکھی ہوئی تحریر و تقریر، کسی اورکے نام سے منسوب نہیں کر سکتے نہ اُس کی اجازت کے بغیر استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی اُس کے نام کو استعمال کرکے اپنا کوئی نظریہ اُس کی طرف سے دُنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔
آج کی جدید دُنیا جس اُصول کو کاپی رائٹ کے نام سے جانتی ہے اسلام اُسی اصول کو اپنی اصطلاح میں بدعت کا نام دیتا ہے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو ہمارے اِس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے“۔ (صحیح مسلم، رقم ۸۱۷۱)
اگر بدعت کے تصور کو اِس تناظر میں دیکھا جائے تو اِس سے بدعت کے بارے میں طویل مباحث کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اور یہ مسئلہ علم و عقل کی روشنی میں نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اِس دُنیا میں رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ کے بعد کسی شخص کو اب یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کام کا آغاز کرے اور اُس کو دین سے منسوب کردے۔ صحابہ کرامؓ کی قید بھی صرف اس لیے لگائی گئی ہے کیونکہ وہی ہم تک دین کو پہنچانے کا ذریعہ بنے ہیں اور انہوں نے حضور اکرمؐ کے ہی قول و فعل کو ہم تک پہنچایا ہے۔ مگر اصلاً صرف آنحضرتؐ ہی کا مقام و مرتبہ ہے کہ جس چیز کو چاہیں قیامت تک کے لیے دین قرار دیں۔
سورۃ مائدہ میں پروردگار عالم کے اس فرمان کے بعد کہ:
”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پہ اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا“۔ (سورۃ مائدہ: آیت نمبر۵)
یہ بات صراحت کے ساتھ واضح ہوجاتی ہے کہ دین کی تکمیل ہوچکی ہے اور اگر اب کوئی شخص یا گروہ اپنے کسی عمل یا نظریے کو دین سے منسوب کرے اور اِس بات کا دعویٰ کرے کہ اِس کے ذریعے خدا کے عذاب سے بچا جاسکتا ہے یا اجر و ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے تو یہ دعویٰ ہرگز قابل سماعت نہیں ہوسکتا۔
ہم اِس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ اگر یورپ کا کوئی نومسلم سالگرہ کے تہوار کو اُسی طرح مناتا ہے جیسا اسلام قبول کرنے سے پہلے مناتا تھا مگر اُس کو ہرگز دین کا کوئی حکم یا جز نہیں سمجھتا تو اسلام کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کیونکہ سالگرہ منانا کسی بھی معاشرے کا کلچر کا حصہ ہوسکتا ہے۔ ہاں، اسلام کو اگر اعتراض ہوگا تو اِس بات پر کہ کسی بھی تہوار میں شرک اور غیر اخلاقی معاملات نہیں ہونے چاہیے۔
دوسری طرف اگر کوئی مسلمان کوئی ایسا تہوار مناتا ہے یا کوئی ایسا عقیدہ یا نظریہ پیش کرتا ہے جس کو وہ دین سے منسوب کرتا ہے اور دلیل کے طور پر تاریخ کو پیش کرتا ہے تو اب اسلام کو اِس شخص پر مکمل اعتراض ہوگا۔ اسلام اس بات کے علی الرّغم کہ یہ مسلمان ایک اسلامی شجرہ نسب بھی رکھتا ہے اِس سے مطالبہ کرے گا کہ اپنے عمل و قول پر قرآن و سنت سے دلائل پیش کرے، ورنہ جس طرح کاپی رائٹ کے قانون کے مطابق آپ کسی اور کا نام اپنے کسی نظریہ سے منسوب نہیں کرسکتے اِسی طرح اسلام کا نام بھی اِس طرح استعمال نہیں کرسکتے۔
رسول اللہؐ نے اِس بات کو جس شان و صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اِس کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث نبویؐ سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ:
”رسول اللہؐ اپنے خطبے میں اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتے جو اُس کی شایانِ شان ہوتی پھر آپؐ فرماتے جسے اللہ راہ دکھائے کوئی اسے گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمدؐ کا طریقہ ہے، اور بدترین کام نئے کام ہیں، ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے“۔ (سنن نسائی: رقم ۹۷۵۱)
مندرجہ بالا بحث سے ایک یہ ضمنی نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اگر اُن دینی مسائل کو جو ایک طویل عرصے سے مسلمانوں میں باعث نزاع ہیں، عصر حاضر کی عام فہم زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے اور انہیں پیچیدہ فنی اصطلاحات سے الگ کرکے عوام کے لیے سہل بنادیا جائے تو اِس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اِس سے اُس مناظرانہ ماحول اور کشیدگی میں کمی لائی جاسکتی ہے جو ایک طویل عرصے سے مسلمانوں میں موجود ہے۔ اور اسی طرح ایک علمی ماحول میں اپنا نقطہ نظر پیش بھی کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے مختلف گروہوں کو آپس میں قریب آنے کے مواقعے میسر آئیں گے۔

حصہ

3 تبصرے

  1. Masha Allah ak aur Naya rukh sumne Aya apka ab ap kitaab bhi likha karainge chalein bohat acha kaam hai Allah Ta’ala humay ilam k saath saath Amal ki toufeeq bhi Ata farmaye. Ameen

جواب چھوڑ دیں