جیک ما – جیتا جاگتا معاشی جادوگر

چین کے شہر ہنگ زُو کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ آئندہ چند سالوں میں تجارت کی دنیا میں کیسی قیامتیں ڈھانے والا ہے کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ دُھن کا پکا، من کا سچا اور انگریزی سیکھنے کے جنون میں مبتلا ”جیک ما“ نامی یہ لڑکا جس طرح کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا دنیا کا طاقت ور ترین شخص بن جاتا ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے اور جدوجہد کرنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ بھی۔ ایسا نہیں کہ وہ منھ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو یا قسمت کی دیوی شروع ہی سے اُس پر مہربان رہی ہو۔ اُس کا بچپن سخت جدوجہد اور مسلسل ناکامیوں سے بھرا ہوا ہے۔اپنی پہلی ملازمت کے لیے جب اُس نے دیگر ۲۳اُمیدواروں کے ساتھ کے ایف سی میں درخواست جمع کروائی تو بقیہ۲۳کو تو ملازمت پر لے لیا گیا مگر جیک ما کو چلتا کیا۔ اُن کی دانست میں یہ نالائق تھا۔ ایسا ہی کچھ سلوک میکڈونلڈ والوں نے بھی کیا۔
یہ جہاں بھی جاتا دھتکار دیا جاتا، معذرت کی جاتی….
تو کیا وہ مایوس ہوکر گھر بیٹھ گیا؟….نہیں ہر گز نہیں….شاید یہی وجہ ہے کہ ۱۰ستمبر ۲۰۱۹کو ۵۵ سال کی عمر میں جب یہ چُنی آنکھوں اور چپٹے چہرے والا، دھان پان سابندہ خود اپنی ہی کمپنی سے ریٹائر ہوا تو اس کے ذاتی اثاثوں کی مالیت ۳۵۰۶ بلین ڈالر تھی۔ اب ذرا اس رقم کو اپنے رُپے میں ترجمہ کرکے تو دیکھیے، یہ رقم ساڑھے پانچ کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
دنیا کے چند امیر ترین اور اہم ترین لوگوں میں شمار کیا جانے والا، چین کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن، دنیا بھر میں چینی مصنوعات اور تجارت کا سفیر،سیاست دان، فلن تھراپسٹ، سرمایہ کار اور دنیا کی سب سے بڑی تجارتی ویب سائٹ ”علی بابا“ کا مالک۔
بچپن اور جوانی کی مسلسل ناکامیوں کے بعد کیااتنی بڑی کام یابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے !! ”جیک ما“ نے دنیا بھر کے لوگوں کوحیران کردیا۔
ہمارے قارئین ضرور جانتے ہوں گے کہ جو لوگ ملازمت پر ذاتی کام کو ترجیح دیتے ہیں اور جو لوگ اپنی آنکھوں میں بڑے خواب سجا کر بہت کم وسائل سے چھوٹا سا کام شروع کردینے میں ہچکچاتے نہیں،تواس نوعیت کے نئے اداروں کو ”اسٹارٹ اپ“ کہا جاتا ہے۔دنیا میں ایسی بہت سے مثالیں ہیں کہ کسی نے معمولی رقم سے تجارت کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تجارت کو کام یابیوں کے بلندی پر پہنچا دیا،مگر جیک ما جیسی بلندی تو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔جیک ما نے جس ادارے کومحض ۱۸ کارکنان کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ سے شروع کیاتھا وہ ادارہ ۳۰ ہزار کارکنان تک جا پہنچا۔”جیک ما“ کہتا ہے میں نے ۱۴ ملین ملازمتیں پیدا کیں۔ گویا وہ ۱۰ ملین سے زیادہ خاندانوں کی کفالت کا ذریعہ بن گیا۔ کیا کہنے!
میرے بس میں ہو تو میں نئے تجارتی اداروں کی پیشانی پر ”جیک ما“ کی تصویریں آویزاں کر دوں اور درس گاہوں سے نکل کر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے نوجوانوں سے کہوں کہ، اس شخص کو غور سے دیکھو،محنت کے لیے اس کی کام یابیوں سے تحریک لو، بڑے ویژن کے لیے اس کی چُنی سی آنکھوں میں جھانکو اور اپنے آپ کو سمجھاؤ کہ اگر آہنی عزم اور دوربین نگاہیں کہیں سے مل جائیں تو اتنی بڑی کام یابی ممکن ہوسکتی ہے۔
جیک ما کی کہانی بھی خوب ہے، بچپن میں پڑھنے لکھنے کا ایسا کوئی خاص شوق نہ تھا، مگر ہاں انگریزی سیکھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ہنگ زُو کے انٹرنیشنل ہوٹل میں کسی غیر ملکی کو دیکھ لیتا تو فوراً بے تکلف ہوجاتا اور انگریزی میں بات چیت کی کوشش کرتا، پھر اسے اپنا ایڈریس دیتا اوریوں قلمی دوستی کا آغاز کردیتا۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر روز اپنی سائیکل پر ۷۰میل کا سفر کرتا اور سیاحوں کے ایک بڑے مرکز پہنچ کر ان سے انگریزی میں باتیں کیا کرتا۔ایک انگریز سیاح نے اس کا نام ”جیک“ رکھ دیا۔ واضح رہے کہ ”جیک“ اس کا پیدائشی نام نہ تھا۔ جیک مانے، جیسے تیسے ۱۹۸۸ میں انگلش میں بی اے کرلیا اور پھرکچھ عرصے کے لیے انگریزی کی تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ ہارورڈ بزنس اسکول میں دس مرتبہ داخلے کی کوشش کی، خیر سے ہر بار ناکام ہوا۔ سچ یہ ہے کہ کام یابی تو کہیں اور اس کی منتظر تھی۔ بل آخر اس نے چند کارکنان کے ساتھ مل کر ایک اپارٹمنٹ میں چھوٹی سی کمپنی قائم کی۔ آگے چل کر یہی کمپنی ”علی بابا“ کے نام سے دنیا میں شہرت پانے لگی۔ آج دنیا میں کوئی ایسا تجارتی ادارہ نہیں جو علی بابا پہ رجسٹر ہوئے بغیر کام یابی سے اپنی تجارت کو فروغ دے سکے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ ۱۰ ملین سے زیادہ لوگ ہر روز علی بابا کی ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہیں اور براہِ راست یا بالواسطہ اربوں کھربوں کی خریداری کرتے ہیں۔

جیکما نے کیا خوب صورت بات کہی “ اگر بندروں کے سامنے کیلے اور پیسے ایک ساتھ رکھے جائیں تو وہ ہمیشہ کیلوں کا انتخاب کریں گے ،اس لیئے کہ انہیں یہ بات نہیں معلوم کہ پیسوں سے بہت زیادہ کیلے خریدے جا سکتے ہیں ۔ یہی حال لوگوں کا بھی ہے، ان کی اکثریت ملازمت کو کاروبار پہ ترجیح دے گی ۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر حال میں منافع اجرت سے بہتر ہے ۔ اجرت سے پیٹ پالا جاسکتا ہے جبکہ منافع سے قسمت بدلی جا سکتی ہے، خواب کی تعبیریں خریدی جا سکتی ہیں “

گزشتہ ۱۰ستمبر کو جب ہمارے ٹی وی چینلز پر ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگار ہماری معاشی زبوں حالی کے اسباب پر بحث کر رہے تھے، عین اسی روز دنیا بھر کے ٹی وی چینلز ”جیک ما“ کو دنیا کا کام یاب ترین انسان ثابت کرنے پہ اپنی توانائیاں صرف کررہے تھے۔ اس روز ”جیک ما“ نے اپنی ۵۵ ویں سال گرہ کا کیک کاٹا اور اعلان کیا کہ ”میں خود اپنی ہی کمپنی سے ریٹائرمنٹ کااعلان کرتا ہوں، میری بقیہ زندگی تعلیم کے میدان میں کام کرتے ہوئے گزرے گی۔“
تعلیم جو قوموں کی کامیابی کی بنیاد ہے۔

حصہ
mm
پروفیسر سلیم مغل ان قلم کاروں میں شامل ہیں جو کسی بھی موضوع پر قلم اٹھا کر لکھتے ہیں،وہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں،ان دنوں وہ ہمدرد فائونڈیشن میں پروگرامز اینڈپبلیکیشنز کے ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ ہمددرنونہال کے ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں