بے جا تنقید تو ہر جگہ ہوتی ہے۔پہلے یہ تنقید گلی، محلوں اور دکانوں میں ہوا کرتی تھی۔دنیا میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھتے ہی، یہ تنقید تیزی سے پھیلنا بھی شروع ہوگئی۔ایسی ہی تنقید پاکستان کے زیر سمندر گیس اور معدنیات کے ذخائر کی دریافت میں ناکامی کے باعث بھی سامنے آئی۔کیکڑا ون کے مقام پر5560 میٹر زیر سمندر کھدائی پر چودہ ارب روپے خرچ ہوئے۔ مخالفین نے حکومت کو اس ناکامی پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔اسی طرح چندریان ٹو کی ناکامی پر انڈین حکومت کو بھی مخالفین کی تنقید کا سامنا ہے۔دنیا میں تحقیقات پر بڑی رقم خرچ ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ پہلی ہی کوشش میں کامیابی ملے۔بہت سے سائنسدانوں نے ناکامیوں سے سیکھا۔تھامس ایڈیسن نے ہزار کے قریب کوششوں کے بعد بلب ایجاد کیا۔تحقیق نہ ہو تو دریافت و تخلیق کیسے ہو۔تحقیقات جدت کو رائج کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ،تحقیقات پر خرچ کرنے والے آج دنیا میں سرفہرست ہیں۔
بھارت نے ’چندریان‘ نامی منصوبہ کے تحت اکتوبر 2008 میں اپنا پہلا سیارا چاند پر بھیجا۔یہ سیارا چاند پر لینڈ تو نہ کر سکا۔البتہ چاند کے مدار میں چاند سے 200کلومیٹر اونچائی پردس ماہ تک گردش کرتا رہا۔جس نے چاند پر معدنیات کا جائزہ لیا۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے بعد میں ان معلومات سے چاند کے قطب جنوب پر موجود گڑھوں پرپانی کوبرف کی شکل میں دریافت کیا۔جس سے انسان کے چاند پر قدموں کے امکانات ظاہر ہونے لگے۔ ان معلومات کو بنیاد بنا کر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
اسی ضمن میں بھارت نے’چندریان ٹو‘ کے نام سے چاند کے قطب جنوب پر اترنے کا منصوبہ بنایا۔’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘نے اسے ترتیب دیا۔جس پر 140ملین ڈالر کا خرچ ہوا۔جو ’سری ہاری کوٹا اسپیس سینٹر‘ سے22جولائی2019کو چاند پر جانے کے لئے’جیو سنکرونس سیٹلائیٹ لانچ وہیکل مارک3‘کے ذریعے لانچ کیا گیا۔چندریان ٹو ایک ’لونار آربیٹر‘،’لینڈر‘ اور’روور‘ پر مشتمل تھا۔ان تمام مشینوں کو بھارت میں ہی تیار کیا گیا۔اس سیارہ کا اہم سائنسی مشن نقشہ تیار کرنا اور چاند پر پانی تلاش کرنا تھا۔’لینڈر‘ اور’روور‘ نے چاند پر اتر کر وہاں موجود کیمیاء کا جائزہ لینا تھا۔’آربیٹر‘ اور’لینڈر‘نے زمین پر معلومات بھیجنا تھیں۔اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا، تو چاند کے قطب جنوب پراترنے کی پہلی مثال ہوتا۔
گزشتہ روز معلوم ہوا کہ سیارہ اپنے مطلوبہ حدف سے محض 2.1کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا کہ، اچانک اس کا زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔چاند زمین سے 384800کلومیٹر کی دوری پر ہے۔یعنی بھارتی سیارہ اپنے ہدف سے 0.000546فیصد دوری پر تھا۔بعض کے نزدیک سیارہ چاند کے مدار میں داخل ہونے کے بعد اپنی رفتار برقرار نہ رکھ سکا۔ جس کے باعث وہ چاند سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔تاہم اصل حقائق تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گے۔’بھارتی اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘ کے چیف ناکامی کے باعث اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوگئے۔وہاں موجود بھارتی وزیر اعظم انہیں دلاسہ دیتے رہے۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ، وہ ایسے پروگرام پر فخر محسوس کرتے ہیں جو چاند پر تحقیقات کے بالکل قریب آچکا تھا۔مزید کہا کہ ایسے مواقع دوبارہ بھی آئیں گے۔جہاں اس ناکامی کی خبریں دنیا بھر میں گردش کرنے لگیں۔وہیں خود بھارت اور پاکستان میں اس منصوبے کی ناکامی پر تنقید سامنے آنا شروع ہوگئی۔بھارتی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر لونے راجر کے مطابق یہ منصوبہ صرف خلائی ملبے میں اضافے کا سبب بنا۔اس سے بھارت اپنے سماجی مسائل پر قابو پا سکتا تھا۔ روایتی حریف پاکستان کا تو اس منصوبے میں بظاہر کوئی عمل دخل نہیں۔تاہم پاکستانیوں نے بھی بھارتی ناکامی کو آڑے ہاتھوں لیا۔پاک فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے کہا کہ، کیا بھارت دیگر الزامات کے طرح اس ناکامی کا ملبہ بھی آئی ایس آئی اور معصوم کشمیریوں پر ڈالے گا؟
معاملہ سوشل میڈیا پر شدت اختیار کر گیا جب فواد چوہدری نے بھارتی ناکامی کا تمسخرااڑاتے ہوئے کہا کہ، جو کام آتا نہیں پنگا کیوں لیتے ہو۔چاند کی بجائے ایک کھلونا زمین پر اتر گیا۔مزید انہوں نے مودی کو خلا نورد سے تشبیہ دی اور لوک سبھا سے مودی سے جواب طلبی کا مطالبہ کیا۔وغیرہ وغیرہ۔ان کی تنقید پر زیادہ ردعمل اس وجہ سے آیا کہ یہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں۔ ان کا چاند کو دیکھنے متعلق علماء سے تناؤ بھی چلتا رہا۔ایک سوشل میڈیا صارف کے مطابق،وہ قوم چاند پر جانے والوں پر تنقید کر رہی ہے، جو آج تک چاند کو دیکھنے پر متفق نہیں۔ ماضی میں انہوں نے زبانی تخمینہ بھی لگایا کہ، ہیلی کاپٹر 55روپے میں کلومیٹر کی مائلیج دیتا ہے۔ ماضی میں انہیں بے جا تنقید کے باعث ہی وزرات اطلاعات سے ہاتھ دھونا پڑھااور ایسی وزرات ان کا مقدر بنی،جس کو پاکستان میں رجحان کم ہونے کی بنا پر کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ بے روزگا ر ہیں۔فواد چوہدری کو جہاں بھارتی صارفین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔وہیں بعض پاکستانیوں نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک صارف نے کہا کہ پاکستان نے فواد چوہدری کی قیادت میں پہلا قدم زمین پر رکھ دیا ہے،اب ہم چاند سے محض 384800کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔
پاکستان خلائی تحقیقی ادارہ’سپارکو‘ چین کی مدد سے دو ہی موسمی سیارچے خلا میں بھیج سکا ہے۔جبکہ بھارتی خلائی ادارہ اکیلے ہی 104سیٹلائٹس لانچ کر چکا ہے۔اگر آج چین کے مفادات بدل جائیں،تو ہمیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کس کی حمایت حاصل ہوگی؟کیا ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں خودمختار بن پائیں گے؟ہمارے ہاں تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والوں کامستقبل کیا ہے؟سوچنا ہوگا!
پاکستان میں بڑا طبقہ(انہیں پڑھا لکھا کہنا شاید درست نہ ہو) یہ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے کہ،چاند پر لینڈنگ محض افسانہ ہے۔تو عرض ہے کہ، کیا دنیا میں امریکہ کی تحقیق کی بنا پر برتری بھی محض ڈرامہ ہی ہے؟متعدد تحقیقی مرکز،بڑی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے بھی محض افسانہ ہی ہیں کیا؟اگر واقعی ایسا ہے تو ہمیں سیٹلائٹ کے نظام سے بھی منحرف ہونا چاہئے۔حتی کہ ہمیں پھر فنی و تکنیکی علم کی جستجو ہی نہیں کرنی چاہئے۔
ایسے لوگ صدیوں پہلے موبائل فون اورہوائی جہاز کو بھی افسانہ ہی سمجھتے ہوں گے۔مگر وقت کے ساتھ تحقیقات سے حاصل ہونے والی جدت سے مستفید ضرور ہوتے ہوں گے۔
اللہ تعالی نے دنیا میں انسانی عقل اور حیرت کے لئے بہت کچھ بنایا ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ، ہم اللہ کی تخلیقات کی کھوج کریں یا پھر منکر ہوکر غور و فکر ہی چھوڑ دیں۔پنجابی کا محاورہ ہے کہ،’عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں،عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘۔ ہم مسلمان قوم تحقیقات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔جبکہ مسلم تاریخ میں کئی سائنسدان گزرے ہیں۔جو تحقیق کی دنیا میں آج بھی زندہ ہیں۔یورپ نے تحقیق کی بدولت ہی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ امریکہ دنیا کے ذہین دماغ استعمال کرتا ہے۔پڑھے لکھے لوگوں کو اچھا معاوضہ دے کر تحقیقات کرا تا ہے۔ وہی قومیں دنیا کی دوڑ میں شامل رہیں گی،جو جدت کو ساتھ لے کر چلیں گی۔جس کو خود کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہو،وہی دوسروں کی ناکامیوں پر خوش ہو سکتا ہے۔ مگرہم تو ایسے نہیں ہیں۔ ہر گز نہیں!
60 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
کیاہمیں واپس لوٹناہوگا؟
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملکی حالات کو دیکھ کر یہ سوال آپ کے اذہان میں بھی گونجتا ہوگا کہ کیا ہمیں واپس لوٹنا ہو گا ؟ اگر ہم اپنے ماضی کی طرف نظریں دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ ہماری کچھ روایات تھیں اور ایک مخصوص طرز زندگی تھا۔ بزرگ اشخاص اکثر یہ بیان کرتے ہیں کہ صبح کے وقت ہمیں لسی ملتی تھی۔ لسی ایک بہترین اور صحت افزاء مشروب ہے۔ اس کی وجہ سے اس دور کے لوگوں کے اندر طاقت تھی۔ ذرائع آمد و رفت کے لیے اونٹ اور گھوڑے استعمال ہوتے تھے اور لاہور جیسے بڑوں شہروں میں ٹانگے بہترین سواری تھے۔ پھر وقت بدلا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ ہوئی لسی کے مشروب کی جگہ چائے اور کافی نے لے لی اور اونٹ، گھوڑوں کی جگہ بسوں اور کاروں نے لے لی۔ ہر چیز اچھی چل رہی تھی اور ملک پاکستان کے حالات 76 سال ہوگئے ہیں کبھی بھی مکمل طور ٹھیک نہیں ہوسکے ہمیشہ سیاسی عدم استحکام رہا ہے جس کے اثرات عوام آج بھی برداشت کر رہی ہے۔
مہنگائی اس سے قبل بھی ہوتی تھی لیکن جس شرح سے موجودہ دور میں ہوئی ہے اس نے جو رفتار پکڑی ہے اس پرعوام حیران و پریشان ہے۔ اب شاید ہمیں اپنی روایات کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ہمیں وہی لسی کا مشروب اطمینان دے گا اور وہی اونٹ، گھوڑے کام آئیں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے جب انسان کے پاس معاشی آسودگی ہوتو وہ اپنی طرززندگی کو بہتر بناتا ہے لیکن جب اس طرح کی مہنگائی ہو تو بندہ روایات کا پاسبان بن جائے یہ بہترین عمل ہے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو واپس تو ہمیں لوٹنا پڑے گا۔ موت بھی حقیقت ہے اور ہماری روح نے ایک دن پرواز کر جانا ہے۔ ہمیں واپس اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور جواب دینا ہے لیکن شاید ظالم طبقہ اس بات سے بے خبر ہے کہ صرف اس مہنگائی میں غریب لوگ روایات کی طرف لوٹیں گے لیکن ظالم طبقہ کو بھی واپس لوٹ کر جانا ہے اور جوابدہ ہونا ہے۔ اگر آج بھی پاکستانی قوم صرف اللہ کی راہ پر واپس آجائے اور احکام دین پر عمل کرے تو اللہ اپنی مدد فرمائے گا۔
آج پورے ملک کی معیشت سود پر چل رہی ہے ہر بینک میں سودی سسٹم ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی سود پر امداد مہیاء کرتے ہیں۔ ہماری پوری قوم سود کھا رہی ہے اور اسی سود کے متعلق حکم ہے کہ سود والوں کی اللہ اور اس کے رسول سے کھلی جنگ ہے۔ ایک طرف ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نعوذ باللہ جنگ کا حصہ ہیں اور دوسری طرف دعائیں کر رہے ہیں اور پریشان ہو رہے ہیں۔ کیا ہم نے پاکستان سود قائم کرنے کے لیے حاصل کیا تھا؟
نہیں ہمیں اللہ کی راہ میں واپس لوٹنا تھا اس وجہ سے پاکستان حاصل کیا تھا۔ آج ہم جیسی عوام تمام کفار ممالک کو گالیاں دیتے تھکتے نہیں ہیں اور پھر ہمیں کہیں ڈالر نظر آجائیں تو منہ میں پانی آجاتا ہے۔ آج پورے سوشل میڈیا پر...
حیا اور ادیانِ عالم
دنیا کے باسی پردہ، حجاب، نقاب، حیا، صرف مسلمان عورت کے ساتھ منسلک کر کے اسے متشدد ہونے کا رنگ کیوں دیتے ہیں۔ حالانکہ حیا کی صفت اپنانے کی تعلیم تو دنیا کے تمام ادیان دے رہے ہیں۔ مصنف Han Licht کے مطابق قبل از اسلام بھی اقوام قدیمہ میں جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے وہ اہلِ یونان ہیں۔ ان کا ایک دور ایسا بھی تھا جب ان میں خواتین کے پردہ کا رواج تھا اور گھریلو شریف عورت کی معاشرے میں عزت تھی۔
ایتھنز میں بھی شادی شدہ عورتوں کو ان کے کمروں تک ہی محدود رکھا جاتا تاکہ یہ دوسرے مردوں کی نظروں سے محفوظ رہیں اور صرف اپنے شوہروں کے لیے مخصوص رہیں۔ اسی طرح رومیوں کی پرانی تہذیب میں بھی عورت کی حیثیت ایک باوقار اور عفت و حیا کے پیکر کی تھی۔ روم میں جو عورتیں دایہ گیری کا کام کرتی تھیں۔ وہ بھی اپنے گھروں سے نکلتے وقت بھاری نقاب میں اپنا چہرہ چھپا لیتیں تھیں۔ بڑی چادر اوڑھ کر بھی اس کے اوپر ایک قبا اوڑھی جاتی تھی جس کے سبب نا شکل نظر آتی تھی اور نہ ہی جسم کی بناوٹ ظاہر ہوتی تھی۔
جسٹس سید امیر علی عورتوں کے بارے میں عیسائیت کے نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابتدائی زمانے کے راسخ العقیدہ کلیسا نے خواتین کے لئے ضروری کر رکھا تھا کہ اگر وہ کبھی گھر سے باہر جائیں تو وہ اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک لپیٹ لیں۔بائبل کے عہدنامہ قدیم میں بھی "برقع" کا لفظ کئی جگہ ملتا ہے اور بے پردگی پر سخت مذمت کی گئی ہے۔
عہد نامہ جدید میں عورت کا اپنا سر ڈھانپنا ضروری قرار دیا گیا۔ ایران میں بھی پردہ کا رواج تھا۔ بلکہ ایرانی حرم میں تو اس قدر شدت رائج تھی کہ نرگس کے پھول بھی محل کے اندر نہیں جا سکتے تھے کیونکہ نرگس کی آنکھ مشہور ہے۔ عرب کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔" چہرہ اور تمام اعضاء کا پردہ عرب میں اسلام سے پہلے موجود تھا۔ مندرجہ بالا چند حوالوں سے واضح ہوتا ہے کہ حجاب کی ضرورت و اہمیت اور افادیت مختلف تہذیبوں اور علاقوں میں مسلم رہی ہے اور قرآن مجید میں احکام حجاب کے نازل ہونے سے پہلے بھی حجاب کا رواج تھا۔
موجودہ دور میں بھی کئی غیر مسلم خواتین اسلامی طرز لباس اپنا کر اپنے تجربات بیان کر رہی ہیں اور وہ خود کو اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور پارہی ہیں کہ واقعی حجاب و پردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔ مغرب و مشرق میں کئی خواتین حجاب کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور اپنی حیا و پردگی والی زندگی پر مسرور و مطمئن نظر آرہی ہیں۔
"ناومی والف" امریکہ کی ایک عیسائی خاتون ہیں جو "خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت و احترام" کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مسلم لباس اور حجاب کے حوالے سے انہوں نے اپنے آپ پر تجربہ کیا کہ اس لباس...
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
اسلام خدمت انسانیت کا دین ہے۔اس کی بنیاد اخلاقیات،محبت،اخوت اور بھائی چارے پر رکھی گئی ہے۔ اس میں تمام انسانیت کی خدمت کو لازمی قرار دیتے ہوئے عبادت کادرجہ دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں تمام انسانیت کی خدمت ایک مقدس فریضہ ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے بعد سب سے افضل اور فرض حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں خدمت انسانیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ ہمارے جائز اور حلال مال میں محتاجوں اور مساکین کا مخصوص حصہ مقرر فرمایا:’’اور ان کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں)کا حق مقررہوتاتھا‘‘(الذاریات 19:51)اسلام خدمت خلق میں رنگ ونسل اور مذہب کا امتیاز نہیں رکھتا ۔پڑوسی کے حقوق ہویا مریض کی عیادت ،مسافر کے حقوق ہوں یا ادائیگی زکوۃ ،کسی قسم کے حقوق العباد میں مسلمان اور غیر مسلم کا فرق نہیں رکھا گیا۔
اسلام میں کسی ایک شخص کی جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ آج نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ انسان ہی انسان کو کاٹ کھا رہا ہے ۔آج کہیں کوئی حادثہ ہوجائے تو لوگ متاثرین کو بچانے کی بجائے اس کو لوٹ لیتے ہیں اخبارات ایسے بے شمار واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ایسی ویڈیوز دیکھ کر جس میں حادثہ کا شکار افرادہجوم کی طرف امید کی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر انسانیت سے عاری لوگ انکی مدد کرنے کی بجائے یا تو انکی جیبوں کی تلاشی لے رہے ہوتے ہیں یا پھر ویڈیوز بنا رہے ہوتے ہیں۔
بے شک حقوق اللہ کی معافی ممکن ہے مگر حقوق العباد کی معافی نہیں۔ آج بہت کم ایسے لوگ اور ایسی جماعتیں ہیں کہ جن کی زندگیوں کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، اس کے بندوں کی خدمت کرکے اوروہ بلاامیتاز انسانیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔جماعت اسلامی سے بعض مقامات پر شدید نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس حقیقت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں کہ جماعت اسلامی نے خدمت خلق میں بہت سی نام نہاد’’ خدمت خلق‘‘ کی دعویدار جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔جماعت اسلامی کاذیلی ادارہ ’’الخدمت فائونڈیشن‘‘کی خدمت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں۔
جماعت اسلامی نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیںوہاں صحت کے شعبے میں مثالی کام کیا ہے ۔لاہور کے دل چوبرجی میں واقع جماعت اسلامی کا ہسپتال ’’ثریا عظیم ‘‘اس کی روشن مثال ہے کہ جہاں پر غریبوں، لاچاروں، محتاجوں کو مفت یا معمولی فیس پر اعلیٰ معیار کے علاج ومعالجہ کی سہولیات میسر ہیں ۔ ڈاکٹر فواد نور( ایم ایس ثریا عظیم)، افتخار احمد چوہدری(سیکرٹری گورننگ باڈی ) خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ وہ اتنی محنت ،لگن اور پوری ایمانداری سے انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جن جماعتوں، اداروں کے سربراہان ایمان دار ،دیانت دار ہوں وہ جماعتیں وہ ادارے کبھی زوال کا شکار نہیں ہوتے ۔یہ ڈاکٹر فواد نور، افتخار چوہدری کی محنت، لگن، ایمان داری اور دیانت داری کی زندہ مثال ہے کہ وہ بے لگام مہنگائی اور شدید بحرانوں کے اس دور میں غریب ،مستحق افراد کو...
ہرا بھرا پاکستان
ہم جب کسی ایسی جگہ یا سڑک سے گزر رہے ہوں جس کے دونوں اطراف میں ہرے بھرے درختوں اور پھولدار پودے لگے ہوں تو ہماری طبعیت خوش ہو جاتی ہے ایک تازگی اور آنکھوں میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔
ہمیں پاکستان میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور ابلتے گٹر نظر آتے ہیں یہ ایک بڑا المیہ ہےاس میں ہم ہی قصور وار ہیں ہم سارا ملبہ حکومت اور اداروں پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔
یہ ہماری ہی غلطی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہماراعلاقہ، شہر اور ملک اس حالت کو پہنچتا ہے۔ ہم اپنے گھر کی صفائی کر کے کچرا باہر رکھتے ہیں کہ کچرے والا اٹھا لے جائے،لیکن ہم میں سے کچھ لوگ چند پیسے بچانے کی خاطر اپنے گھر کا سارا کچرا ندی نالوں اور کھلے گٹروں میں ڈال دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے سیوریج کا نظام درھم برہم ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پھر جب بارشیں ہوتی ہیں تو ہمارے ملک میں تباہی آجاتی ہے۔
ہمیں چاہیےکہ جیسے اپنے گھر کی صفائی کرکے کچرا کوڑےدان میں ڈالتے ہیں اسی طرح اپنے علاقے کی صفائی کا بھی خیال رکھیں کیونکہ یہ ملک بھی ہمارا گھر ہی ہے۔اور اسے ہم سب نے مل کر خوبصورت بنانا ہے۔ ہم نے خبروں میں دیکھا اور سنا کہ بارشیں ہو ئیں اور ان بارشوں کی وجہ سے ملک کے کئی حصے زیر آب آگئے، کئی دیہات ڈوب گئے، سڑکیں ٹوٹ گئیں لیکن کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ آخر ایسا کیوں ہوا یا ہورہاہے۔ اس تباہی کا تعلق کہیں نا کہیں ہم سب سے جڑا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کے جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ کیونکہ جس تیزی سے درخت کاٹے جارہے ہیں اس تیزی سے درخت نہیں لگائے جارہے۔ اب آپ یہ سوچیں گے کہ ہمارا جنگلات کے کٹنے سے کیا تعلق؟ تو بھئی جنگلات سے لکڑی کاٹ کر ہمارے ہی کسی نا کسی کام میں آرہی ہوتی ہے۔ جیسے فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں اور بہت سی ہماری روز مرہ کے استعمال کی چیزیں۔ لیکن اگر درخت اسی تیزی سے کٹتے رہے تو ایک دن ہم ان تمام اشیاء سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی وجہ سے ہم سیلابی صورتحال سے بھی بچ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں درختوں کے ہونے سے بہت فائدے ہیں۔ انہی درختوں کی وجہ سے بارش کا پانی چشموں اور تالابوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جنگلات سے آبادی والے علاقے سیلابی صورتحال سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہمیں اپنے ملک کو ان خطرات سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی اور اپنے حصے کا کام انجام دینا ہوگا۔ اب آپ کہیں گےکہ وہ کیسے؟ تو وہ ایسے کہ آپ آج سے یہ تہیہ کرلیں کہ آپ کے گھر میں جتنے افراد موجود ہیں وہ سب اپنے اپنے حصے کا ایک ایک درخت لگائیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک درخت تو لگا ہی لیں۔ یہ آپ کے لیے ایک صدقۂ جاریہ بھی ہوسکتا ہے اور کوشش کریں کہ اپنے دوست احباب کو بھی تحفے میں...
اشرافیہ جمہوریہ پاکستان
وطن عزیزمیں ہرنیادن مہنگائی اور بلوں میں اضافےکی خوفناک خبروں سےشروع ہوتاہے۔ عام آدمی کی مشکلات میں بےپناہ اضافہ ہوتاجارہاہے۔ ہر شخص اپنی آمدنی کوبڑھانےکی فکروں میں گم ہے۔ امراض بڑھتےجارہےہیں ادویات کی قلت ہے۔ قوت خریدکم ہورہی ہےاوربےروزگاری عروج پرہےنتیجتا گھرگھرمیں فسادمچاہواہے۔ دنیاکےدھندوں نےہمیں دین سےپوری طرح غافل کردیاہے۔
یہ کہانی توہےعام آدمی کی اورہمارےحکمران طبقے کی عیاشیاں ہیں کہ ان میں کمی کاتصوربھی نہیں۔ ان لوگوں کےبچےباہر، جائیدادیں باہر، بینک بیلنس باہر، رہائش باہر، علاج باہر، پاکستان میں تویہ لوگ صرف حکومت کرنےاتےہیں اورملک کودونوں ہاتھوں سےلوٹ کرواپس پلٹ جاتےہیں۔ جس بستی کےرکھوالےہی ڈاکوہوں اسکی تباہی اوربدحالی میں کیاشک رہ جاتاہے۔
ملک میں بسنےوالوں کی بہت بڑی تعدادتوبنیادی سہولتوں سےپوری طرح محروم ہوچکی ہے۔ یہ لوگ دن بھرمحنت کرکےبھی بھوک مٹانےمیں ناکام ہیں۔ انکی محنت کی کمائی ظالمانہ بلوں اورٹیکسوں کی نظرہوچکی ہے۔ غریب بیچارہ خوراک یاعلاج کےلیے چوری کرلےتواسکی خوب خبرلی جاتی ہے۔ جبکہ اشرافیہ اپنی شاہ خرچیوں کےلیےقومی خزانےکو بھی لوٹ لےتو رعایت کی مستحق ہے۔ عام نوجوانوں کےلیےصحت مندتفریح کےمواقع ختم ہوچکےہیں جبکہ اشرافیہ کےلیےبڑےبڑے گالف کلب سرکاری سطح پرحاضرہیں۔ ڈیرھ لاکھ سرکاری گاڑیاں، مفت پٹرول اورمفت بجلی کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ رہائش کےلیےشاندارمحلات، نوکرچاکر، اسپیشل پروٹوکول، بھاری الاؤنسزاورتنخواہیں ہیں۔
17.4 ارب ڈالرسالانہ افسرشاہی پرخرچ ہورہاہے جبکہ ملک کےکل ذخائرپانچ یاچھ ارب ڈالرز ہیں۔ پچھلےایک سال میں بجلی کے34کروڑ یونٹ اشرافیہ نےمفت استعمال کیے۔ پی ڈی ایم حکومت میں 500ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ پرائیویٹ کمپنیاں انتہائی مہنگی بجلی بنارہی ہیں اورعوام ادائیگی پرمجبورہیں۔
غریب فاقہ کش عوام کی محنت کی کمائی سے اشرافیہ کی عیاشیوں کاسامان کیاجارہاہے۔ نئی نسل کودین بےزارتعلیم دی جارہی ہے۔ نوجوانوں کو موبائل کلچرکاعادی بنادیاگیاہےتاکہ نہ وہ بیدار ہوں اورنہ اشرافیہ کی عیاشیوں میں رکاوٹ بنیں۔
اس سنگین صورتحال میں اگرہم گھروں میں بیٹھ کرکوسنے، گالیاں اوربدعائیں دیتےرہیں، ظالمانہ بلوں اورٹیکسوں کی ادائیگی اپنے خون پسینےکی کمائی سےکرتےرہیں۔ بنیادی ضرویات سےمحرومی کےباوجوداگرہم یونہی پس پس کرجیےجائیں گےتو ائی ایم ایف بھی راضی اورہمارادرندہ صفت حکمران طبقہ بھی خوش۔ ہماری بددعاؤں اورکوسنوں سےان لوگوں کوکوئی فرق نہیں پڑےگا۔
دجالی میڈیاکاکام ہےمایوسی پھیلانا۔ ہرطرف یہی صدائیں سننےکومل رہیں ہیں کہ ملک میں لیڈرشپ کافقدان ہےلیکن حقیقت یہ ہےکہ لیڈرشپ موجودہے لیکن ہم پہچاننےمیں غلطی کررہےہیں۔ عام آدمی کےلیےجتنا ریلیف اسلام کےنظام رحمت میں ہے ڈھونڈےسےبھی کہیں اورنہیں مل سکتا۔ حکمرانوں اورذمہ دارافرادکاجتناکڑامحاسبہ خلفائےراشدین کے دورمیں ہوااسکی نظیرپوری انسانی تاریخ میں موجودنہیں۔ ہم اسلام سےڈررہےہیں اسی لیےاسلام پسندوں سےدوررہناچاہتےہیں۔ افسوس کہ جوچیز زندگی بخشنےوالی ہےاسکاتوہم نام بھی لینانہیں چاہتےاورجوچیزہماری موت کاپروانہ لیےہمارے سروں پرسوارہےہم اسی کےپیچھےدوڑرہےہیں۔ اشرافیہ کااسلام بےزاررویہ توقابل فہم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلام آگیاتو خیرنہیں لیکن عام آدمی کی اسلام بےزاری توجاہلانہ حماقت کےسوااورکچھ نہیں۔ ان حماقتوں کاانجام ہم سب کےسامنےہے۔ ماضی کی غلطیوں کی سزاپارہےہیں۔ اب بھی بازآجائیں توہمارےنقصان کی تلافی ممکن ہے۔ لیکن اگرہم نےانکھیں کھولنےسےانکارہی کیےرکھاتوجلدہی پانی سرسےگزرجائےگااورہم چاہ کربھی اپنےاپ کوتباہی سےبچانہیں سکیں گے۔
اگرہم اپنی نسلوں کوتباہی سےبچاناچاہتےہیں توہمیں چاہیےکہ فوری طورپربےدارہوں، متحدہوں، اسلام کے سایہ رحمت میں آئیں، دوست اوردشمن میں تمیزکرناسیکھیں، ایمانداراوراہل لوگوں کوتلاش کریں انکےہاتھوں میں ہاتھ دیں اوراپنےقیمتی ووٹ سے انھیں کامیاب بنائیں۔
اگرہم کچھ کرپائےتواُمیدہےاشرافیہ جمہوریہ پاکستان کواسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدل سکیں گے۔ جماعت...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
When someone writes an paragraph he/she keeps the thought of a user in his/her brain that how a user can know it.
Therefore that’s why this piece of writing is amazing.
Thanks!
magnificent points altogether, you simply won a new reader.
What would you suggest in regards to your post that
you simply made a few days in the past? Any sure?
When someone writes an article he/she keeps the plan of a user in his/her mind that how a
user can understand it. Therefore that’s why this post is amazing.
Thanks!
I don’t even know how I finished up here, however I thought this put up was once good.
I do not recognize who you are however certainly you are
going to a well-known blogger for those who are not already.
Cheers!
It’s really very complex in this full of activity life to listen news on TV,
therefore I simply use the web for that purpose, and obtain the most recent
information.
Hello, I enjoy reading through your article post.
I like to write a little comment to support you.
Wow, that’s what I was looking for, what a material!
present here at this weblog, thanks admin of this web site.
I have been exploring for a bit for any high quality articles or blog posts on this
sort of space . Exploring in Yahoo I eventually stumbled upon this
web site. Studying this information So i am satisfied
to convey that I have a very just right uncanny feeling I discovered exactly
what I needed. I such a lot unquestionably will make certain to
do not omit this website and provides it a look on a relentless
basis.
Everyone loves what you guys are up too. This sort of clever work and reporting!
Keep up the fantastic works guys I’ve included you
guys to blogroll.
I love your blog.. very nice colors & theme. Did you
make this website yourself or did you hire someone to do it for you?
Plz reply as I’m looking to create my own blog and would like to know where u got this
from. thank you
I was curious if you ever thought of changing the structure of
your blog? Its very well written; I love what youve got to
say. But maybe you could a little more in the way of content so
people could connect with it better. Youve got an awful lot of text for
only having one or two images. Maybe you could space it out
better?
What’s up to every single one, it’s in fact a nice for me to visit
this website, it consists of valuable Information.
No matter if some one searches for his essential thing, therefore he/she needs to be available that in detail, thus that thing is maintained over here.
I think the admin of this website is in fact working hard in favor
of his web page, as here every data is quality based material.
This is the right webpage for anyone who wishes to understand this topic.
You realize a whole lot its almost hard to argue with you (not
that I really will need to…HaHa). You definitely
put a fresh spin on a topic that’s been written about for many years.
Excellent stuff, just great!
Quality articles or reviews is the key to attract the users to
pay a quick visit the site, that’s what this web site is providing.
I read this post fully on the topic of the difference of
newest and earlier technologies, it’s remarkable article.
I’m amazed, I must say. Rarely do I come across a blog
that’s equally educative and interesting, and let me tell you,
you’ve hit the nail on the head. The problem is something that too few folks are speaking intelligently about.
I am very happy I came across this during my hunt for something relating to this.
I’m not sure exactly why but this site is loading incredibly slow for me.
Is anyone else having this problem or is it a problem on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
Hi there it’s me, I am also visiting this site regularly, this web page is truly pleasant and the
viewers are truly sharing fastidious thoughts.
Helpful information. Lucky me I discovered your site unintentionally, and I am shocked
why this accident did not happened earlier! I bookmarked it.
I think this is one of the most significant information for me.
And i am glad reading your article. But should remark on few general things, The site style is great, the articles
is really excellent : D. Good job, cheers
Thanks on your marvelous posting! I seriously enjoyed reading it,
you could be a great author. I will make sure to bookmark your
blog and definitely will come back someday. I want to encourage yourself to continue your great posts, have a nice
holiday weekend!
Hi there superb website! Does running a blog such as this require a large amount
of work? I’ve virtually no knowledge of computer programming
but I had been hoping to start my own blog soon. Anyway, if you have any
suggestions or tips for new blog owners please share.
I understand this is off topic however I simply had to ask.
Kudos!
Howdy! This blog post couldn’t be written any better! Looking at this post reminds me of my
previous roommate! He continually kept preaching about this.
I will forward this information to him. Pretty sure he’ll have
a very good read. Many thanks for sharing!
Thank you, I’ve just been searching for information about this topic for a long time and yours is the
greatest I’ve came upon till now. But, what concerning the bottom line?
Are you positive concerning the supply?
If you wish for to grow your know-how just keep
visiting this website and be updated with the hottest news posted
here.
Fastidious replies in return of this matter with real arguments and describing everything concerning that.
After going over a handful of the blog articles on your blog, I
honestly like your technique of writing a blog. I book-marked it to my
bookmark website list and will be checking back in the
near future. Please check out my website as well and tell me your opinion.
I was wondering if you ever considered changing the layout of your blog?
Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so
people could connect with it better. Youve got an awful lot of text for only having one or two
pictures. Maybe you could space it out better?
When some one searches for his required thing, thus he/she wants to be available that in detail, thus that
thing is maintained over here.
This is the perfect webpage for everyone who wants to find out about this topic.
You know a whole lot its almost hard to argue with you (not that I actually would want to…HaHa).
You certainly put a brand new spin on a topic that has been written about for ages.
Excellent stuff, just great!
Does your blog have a contact page? I’m having trouble locating it but, I’d like to shoot you an email.
I’ve got some creative ideas for your blog you might be
interested in hearing. Either way, great blog and I look forward
to seeing it improve over time.
It’s an amazing article for all the online visitors;
they will get advantage from it I am sure.
When I originally left a comment I seem to have clicked the
-Notify me when new comments are added- checkbox and from
now on every time a comment is added I get four emails with the exact same comment.
Is there a means you are able to remove me from that service?
Thanks a lot!
At this time I am ready to do my breakfast, after
having my breakfast coming yet again to read further news.
I have been browsing online more than 2 hours today, yet I never found any interesting
article like yours. It’s pretty worth enough for me. In my view, if all web owners and bloggers made good content as you did, the web will be a lot more useful than ever before.
I’m truly enjoying the design and layout of your site.
It’s a very easy on the eyes which makes it much more pleasant for me to come here and visit more often. Did you
hire out a designer to create your theme? Superb work!
Asking questions are truly pleasant thing if you are
not understanding anything completely, but this article provides pleasant
understanding yet.
It’s actually very difficult in this full of
activity life to listen news on Television, so I just use internet for
that reason, and get the hottest information.
I was wondering if you ever considered changing the structure of your website?
Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so people
could connect with it better. Youve got an awful lot of text for only having
one or two images. Maybe you could space it out better?
Do you have a spam problem on this site; I also am
a blogger, and I was curious about your situation; many of us
have created some nice procedures and we are looking to exchange strategies with others, why not shoot me an email if interested.
I’m not sure why but this site is loading very slow for me.
Is anyone else having this issue or is it a issue on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
Very shortly this web page will be famous amid all
blogging and site-building people, due to it’s good content
Hey there! This post couldn’t be written any better! Reading
this post reminds me of my good old room mate! He always kept
talking about this. I will forward this article to him. Fairly certain he will have a good read.
Thanks for sharing!
Hello there! This post could not be written much better!
Looking at this article reminds me of my previous
roommate! He always kept talking about this. I’ll send this information to him.
Pretty sure he will have a good read. Thanks for sharing!
Hurrah! After all I got a blog from where I be capable of actually
get useful data regarding my study and knowledge.
Thanks for sharing such a pleasant idea, piece of writing is
pleasant, thats why i have read it fully
Do you have a spam issue on this blog; I also am a blogger,
and I was curious about your situation; we have developed
some nice practices and we are looking to exchange strategies with others, please shoot me an e-mail if interested.
Heya i am for the first time here. I found this board
and I find It truly useful & it helped me out much.
I hope to present one thing again and aid others such as you
aided me.
This is a topic that is near to my heart… Many thanks!
Exactly where are your contact details though?
I’m not sure why but this blog is loading very slow for me.
Is anyone else having this issue or is it a issue on my end?
I’ll check back later and see if the problem still exists.
If you wish for to increase your know-how simply keep
visiting this web page and be updated with the newest news
posted here.
I quite like looking through a post that can make men and women think.
Also, many thanks for allowing for me to comment!
It’s truly very difficult in this full of activity life to listen news on Television, therefore I simply use web for that purpose, and take the
hottest news.
Why visitors still use to read news papers when in this technological world
everything is available on net?
I needed to thank you for this very good read!! I absolutely loved every bit of it.
I have got you book-marked to look at new things you post…
It’s a pity you don’t have a donate button! I’d definitely
donate to this superb blog! I guess for now i’ll settle for bookmarking and adding your RSS feed to my
Google account. I look forward to new updates and will share this site with my Facebook group.
Talk soon!
This is a topic which is close to my heart… Take care!
Exactly where are your contact details though?
I do not know if it’s just me or if perhaps everyone else experiencing problems with your website.
It appears like some of the written text in your content are running off the screen. Can someone else please comment and
let me know if this is happening to them as well? This might be a
issue with my web browser because I’ve had this happen before.
Cheers