شرم تم کو مگر نہیں آتی

کہنا اور سہنا بڑا مشکل کام ضرور ہے مگر ناممکن ہر گز نہیں “حیا” کے موضوع پر ہماری ساتھی محترمہ “توقیر فاطمہ” بہن کی تحریر پڑھنے کو ملی اللہ تعالیٰ ان کی نیت اور حسین اظہار تحریر کو لوگوں کے دلوں میں اتار کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
پڑھ کر علامہ اقبال شاعر مشرق اور مبلغ دین کا شعر ذہن میں آگیاکہ
“دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے ”
اور یہ کہ
بے خبر تو آئینہ گردش ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
احساسِ ذمہ داری اور خلیفہ ارض ہونے والے اس مسلمان مرد و عورت کو اپنی ذمہ داری اور مقصد زندگی کو سمجھتے ہوئے برائی کرنا تو کیا برائی کے خلاف ڈ ٹ جانا ایک یا دو تین دن کیلئے نہیں بلکہ مرتے وقت تک تاکہ اس کا پیغام عملی اور موثر ہو ور نہ کردار کا غازی کبھی نہ بن پائے گا۔ تو ساتھیوں ظلم کو سہنا ظالم بادشاہ کے خلاف کلمہ حق نہ ادا کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ بری باتیں برے کام کرتے ہوئے ہمیں خوف خدا نہیں تو سوچئے ہمارا ایمان کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ اللہ نے توآپ کو آپ کی مرضی کا شعور اور ضمیر جیسی عدالت دے کر ہر لمحے آپ کا امتحان مقرر کیا ہوا ہے سکھ اور چین آپ کے اپنے اختیار کی بات ہے۔ آزمائش پڑنے پر چاہے خوشی کی ہو یا غم اللہ کی رضا پر ثابت قدم رہنا ہم سب مسلمانوں کا کام نہیں؟ برائی کرکے احساسِ جرم نہیں تو پھر ہم کسی بھی مجرم سے کم نہیں۔تو سوچئے کیا ہم اللہ کی عدالت میں مجرم کہلا نا پسند کرینگے؟ واقعی گناہوں کی تاثیر سے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ ہم اکثر دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں اپنا فرمانبردار بنا ہماری اولاد کو پہلے اپنا اور پھر ہمارا فرمانبردار بنا اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنا۔ آمین۔ لیکن ذرا اس دعا کا جا ئزہ لیں۔ صدقہ صرف مال سے ہی نہیں ہو تا بلکہ کسی کو علم دینا “اچھا مشورہ دینا ” نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، محبت بے لوث صرف خدا کیلئے ہونا۔ تیمارداری کرنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا، کسی کا راستہ نہ روکنا اور کسی کو راستہ دینا، کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا اور یہاں تک کہ کسی کی مد د کرنا، بوجھ اٹھانا، آسانی پیدا کرنا، یہاں تک کے کسی کیلئے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی “غفلت” کے دوران تمہاری ہر سانس تمہارے خلاف شمار کی جائے گی۔تو پھر ساتھیوں جا ئزہ لیجئے اپنے اپنے اعمال کا اور ہر لمحہ سدھار کی طرف آکر ہی ہم عذاب الٰہی سے بچ سکتے ہیں۔ کیا ہمیں اس رب عظیم اور کریم سے حیا نہیں آتی؟ برائی کرتے وقت ہمارا ضمیر ہمیں نہیں چونکاتا؟ واقعی سچ کہا ہے
احساس مر نہ جائے تو انسان کیلئے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھو کر لگی ہوئی
ساتھیوں عبرت کیلئے تو موت ہی کافی ہے جو ہماری اور آپ کی ہر لمحہ منتظر ہے۔ روزانہ موت کی خبریں سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی آنکھوں سے میت کو دیکھتے ہیں۔ اکثر نہلاتے دھلاتے کفناتے دفناتے اور ان کی عزت دیکھو تکریم کے ساتھ آنسو بہا کر دعا ؤں کے ساتھ سپردخاک کرتے ہیں پھر بھی عبرت نہیں لیتے نہ سنبھلتے ہیں نہ بدلتے ہیں بس میں یہی کہوں گی کہ واقعی میرا رب
وہ شہ رگ سے بھی قریب ہے
وہی ذات سب سے عظیم ہے
جو تو کرسکے تو تلاش کر
وہ تو تیرے دل میں مقیم ہے
اس لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ
وقت ہے سنبھل جا
جو گیا وہ نہ آیا

حصہ

جواب چھوڑ دیں