مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

میں اب تک اسی فریب میں مبتلا تھا کہ مومن کے بے تیغ لڑنے کی باتیں اب یا تو محض قصے کہانیوں، ڈراموں اور فلموں کی باتیں ہی بن کر رہ گئی ہیں یا بھر ماضی کا حصہ بن کر تاریخ کی کتابوں کے بہت پرانے بابوں میں دفنا دی گئی ہیں۔ ہر وہ فرد جو آج کی فضا میں سانس لے رہا ہے اور مومنین کی حالت زار دیکھ رہا ہے اس کے ذہن میں اگر ایسی رائے جنم لے رہی ہے تو اس میں اس فرد کو کوئی دوش نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا میں اس وقت جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور خاص طور سے وہ ممالک جو مسلمان ممالک کہلاتے ہیں، وہاں کے ایک ایک مسلمان کا حال دیکھ  کر اور جن حالات سے اس وقت مسلمان یا مسلمان ممالک گزر رہے ہیں اس کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنا اور سمجھنا کہ اب مومن بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے، ایک ایسا احمقانہ انداز فکر ہو سکتا ہے جس میں پیٹ دبا کر ہنسا جاسکتا ہے یا خون کے آنسو بہائے جاسکتے ہیں۔ بے تیغ لڑنے کی بات تو ویسے بھی بہت دور کی بات بن کر رہ گئی ہے، وہ ممالک جن کے پاس ہتھیاروں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور کچھ کے پاس تو ایسے بھی ہتھیار ہیں جو پورے دنیا کو ایک آن میں خش و خاشاک میں تبدیل کر سکتے ہیں، وہ ممالک بھی “چڑیائیں” بنے ہوئے نظر آتے ہیں اور اہل کفر کے خلاف صرف اور صرف منھ سے گولہ باری کے علاوہ اور کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔

بے تیغ لڑنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنی جانیں عزیز نہیں ہوتیں اور ان کے نزدیک دنیا کی زندگی بے معنیٰ ہوتی ہے۔ جن کو دنیا اس کی چمک دمک عزیز ہوجاتی ہے وہ جان تو کیا اپنے تن پر دشمن کی ایک خراش تک سہنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ساری دنیا کے “سپاہیوں” کا یہ حال ہے کہ اگر ان کی دولتوں کا انبار لگایا جائے تو ہمالیہ کی بلندی بھی اس کے سامنے ہیچ ہو کر رہ جائے اور اگر سر شمار کئے جائیں تو ان کی گنتی ناممکن ہو جائے لیکن عالم یہ ہے کہ چند لاکھ یہودی بھی ان کیلئے کوہ گراں بنے ہوئے ہیں اور اسرائیل کے چاروں جانب بکھرے ہوئے کروڑوں مومنین ان کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جب مسلمان چند لاکھ یہودیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی نہ رکھتے ہوں، اپنے فلسطینی بھائیوں پر شب و روز ظلم ہو تا دیکھ کر بھی ان کے ماتھے پر شکنیں نہ پڑتی ہوں تو پھر یہ سوال اٹھانا کہ وہ دنیا بھر کے کافروں کے ظلم و جبر کے سامنے آواز احتجاج تک بلند کرنے سے کیوں گریزاں ہیں اور بیشمار دولت اور طاقت رکھنے کے باوجود بھی ہونٹوں پر تالے لگا کر کیوں بیٹھے ہیں، بے موقع و محل ہی ہوگا۔ جب جان عزیز ہوجائے اور دنیا کی زندگی پیاری لگنے لگے تو یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ آوازہ حق بلند کیا جا سکے۔

تسلیم کہ دنیا کے بیشمار مسلمان ممالک کے پاس اپنی تربیت یافتہ فوج بھی نہیں ہے اور 90 فیصد ممالک کے پاس تو جنگی ہتھیار تک موجود نہیں لیکن کیا ایسا نہ ہونا دنیائے کفر کا قصور ہے؟۔ کیا دنیا میں آج جو جو ممالک بہر لحاظ بہت مضبوط اور توانا نظر آتے ہیں اور جدید سے جدید ترین ہتھیاروں کی بڑی بڑی فیکٹریوں کی مالک ہیں کیا ماضی قریب میں وہ مسلمانوں سے زیادہ مضبوط، جنگی ہتھیاروں سے لیس، مہذب اور منصف المزاج ہوا کرتے تھے؟۔ کیا چین، کیا روس، کیا امریکہ، کیا جاپان اور کیا وہ ممالک جن کی ہم کاسہ لیسی کرتے نظر آتے ہیں، یہ مسلمانوں سے زیادہ طاقتور اور تعلیم کے میدان میں مسلمانوں سے آگے تھے؟۔ جب جب بھی ہم تاریخ کے آئینے کا گرد و غبار جھاڑ کر اِن ممالک کی جانب بغور دیکھیں گے تو ان کی گلیوں، بازاروں اور شہروں میں کیچڑ، دھول اور مٹی کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ ان کی یہ کایا کسی دوسری قوم نے نہیں پلٹی اور مسلمانوں کی تباہی و بربربادی کسی اور کے ہاتھوں نہیں آئی۔ جب کوئی قوم اپنے آپ کو بنانے کیلئے تیار و آمادہ ہوجائے تو وہ چینیوں جیسی افیون میں دوبی قوم کو بھی فرش سے اٹھا کر عرش تک لیجاتی ہے اور جب قوم چنگ و رباب کا شکار ہوجائے تو وہ عرش سے نہ صرف زمین پر پھینک دی جاتی ہے بلکہ ان کی پوری کی پوری آبادیاں زمین کی گہرائیوں سمیت اٹھا کر پہلے آسمان تک بلند کی جاتی ہیں پھر پوری کی پوری آبادی کو پلٹ کر اسے زمین کے اندر پٹخ کر دفن کر دیا جاتا ہے۔

اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو مسلمان قوم کے زوال اور اقوام عالم کے عروج کے پیچھے یہی کہانی نظر آئے گی لیکن بقول اقبال

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے ساتھ احساس زیاں جاتا رہا

عروج و زوال ہر ملک و قوم کی کہانی ہے۔ اصل زوال ظاہرہ شکست نہیں ہوا کرتی بلکہ دلوں کا ہار جانا شکست کہلاتا ہے۔ جب تک عزم و حوصلہ سلامت رہتا ہے، تاریخ نے کئی رو بہ زوال قوموں کو ابھرتے دیکھا ہے اور کئی ایسی جنگیں جن میں بظاہر کوئی قوم شکست کے قریب تر ہونے کے باوجود بھی اپنی ہمت اور جرات کو یک جا کرکے دشمن کو میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کرتی نظر آئی ہے۔

ماضی کے یہ سارے عروج و زوال تو قصہ پارینہ ہوئے لیکن حال آج بھی اس بات کا گواہ ہے کہ کتابوں میں لگھی گئی یہ بات کہ “مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی” ایک ایسی حقیقت کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے کہ دنیا لاکھ اس کو خواب و خیال ثابت کرے لیکن یہ روز روشن کی طرح منور اور روشنی کا مینارہ بنی ہوئی نظر آئے گی۔

دنیا کو یاد ہوگا کہ امریکہ جیسی عظیم طاقت نے دنیا کے نحیف ترین ملک “ویتنام” پر حملہ کیا اور اس دور میں جو بھی اس کے پاس خطرناک سے خطرناک ترین جنگی ہتھیار تھے، اس کے خلاف استعمال کئے، لیکن ایک ایسا ملک جو مسلمان بھی نہیں تھا، اس کے عوام اور جوانوں نے عزم و ہمت کی ایسی لازوال داستان رقم کی کہ امریکہ کو وہاں سے عزت بچا کر بھاگنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔

عزم و ہمت کے آگے دنیا کی ہر طاقت صفر ہوجایا کرتی ہے۔ پاکستان بنانے کیلئے بر صغیر کے مسلمانوں کو چو طرفہ جنگ کا سامنا تھا، ہندو، عیسائی، سکھ اور انگریز، چاروں مسلمانوں کی راہیں مسدود کئے ہوئے تھے لیکن بے تیغ انسانوں کے سمندر نے جدید ترین ہتھیار بند دستوں کے تختوں کا تختہ کر کے رکھ دیا تھا۔

ہم بہت دور نہیں جاتے، وہی افغان مجاہدین جن کو پاکستان سمیت پوری دنیا دہشتگرد کہتی رہی اور جن پر دنیا کی ہر طاقت اور قوت کو آزمایا گیا، جن کے مقابلے پر ایک دو نہیں، نیٹو کی درجنوں افواج نے حملہ کیا اور ان پر بموں کی بارشیں کی گئیں۔ جن کے خلاف ان کی اپنی ہی قوم کے لوگوں کو تیار کرکے ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی گئی وہی طالبان جن کے پاس روایتی ہتھیاروں کے علاوہ آج بھی کچھ نہیں ہے، طیارے، توپیں، میزائل اور ایٹمی ہتھیار جیسا کوئی ایک حرب جنگ جن کومیسر نہیں، جو پہاڑوں، جنگلوں، بیابانوں اور غاروں میں مقید ہوکر گزشتہ 20 سال سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سامنے سینہ سپر ہوں، آج پوری دنیا، بشمول امریکہ و پاکستان، ان کو دہشتگرد کہنے کی بجائے “مجاہدین” کہنے پر مجبور نظر آرہے ہیں اور جو امریکی ان کی زندگیوں کے در پے رہے ہوں آج ان سے اپنی عزت اور زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور نظر آ رہے ہوں تو یہ دیکھ کر بے اختیار میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ بلا شبہ

کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

چین کا افیون سے آسمانوں تک کا سفر، مسلمانوں کا ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور انگریزوں سے خطہ زمین کا چھین لینا، ویتنامیوں کا امریکہ کو ذلیل کرنا اور افغان مجاہدین کا “دہشتگردوں” سے “مجاہدین” کہلانا اس بات کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہا ہے کہ جنگ صرف جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے ہی نہیں جیتی جاتی بلکہ جنگ کیلئے ایک ایسے حوصلے کی ضرورت ہے جس کے سامنے دنیا کا آرام، مال متاع اور اس کی سحر انگیز رنگینیاں بے حقیقت ہوتی ہیں کیونکہ ایسی قوم جس کی نظر میں حقیقی امن، انصاف، حاکمیت الٰہی اور اُخروی زندگی کی ابدی خوشیاں رقص کر رہی ہوں، وہی قوم جنگ جیتا کرتی ہے۔

آج پاکستان کے پاس دنیا کا وہ کون سا جدید حربِ جنگ ہے جو موجود نہیں لیکن اس کے اپنے کشمیر میں میں 80 لاکھ سے زیادہ زندگیاں جاں بلب ہیں، عزتیں تار تار ہورہی ہیں، مریض دواؤں کی کمی کا شکار ہیں، بچے دودھ کیلئے بلک رہے ہیں اور گھروں میں قید کشمیری مردار تک کھانے پر مجبور ہیں لیکن اپنے ہی کشمیر میں ایسا سب کچھ ہوتے دیکھنے کے باوجود بھی ساری تلواریں اس لئے رقص میں مصروف نظر آرہی ہیں کہ لڑنے والے سپاہیوں کے ذہن رنگ آلود ہو چکے ہیں۔ موجود ہتھیار یوم پاکستان، یوم دفاع پاکستان اور یوم آزادی پاکستان کے موقع پر صرف اور صرف نمائش کیلئے پاکستانی عوام اور دنیا کو دکھانے کیلئے رہ گئے ہیں۔

ایک جانب بے تیغ سپاہیوں کو میں دنیا کے پسماندہ ترین ملک افغانستان میں لڑتے دیکھ رہا ہوں تو دوسری جانب دنیا کی آٹھویں بڑی ایٹمی طاقت کے مالک پاکستان کو دیکھ رہا ہوں۔ دونوں کو دیکھ کر یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہتھیاروں کے اتنے انباروں کی حقیقت عزم و ہمت کے سامنے رائی کے پربت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے عالم میں میں پاکستانی حکمرانوں سے صرف اتنا ہی عرض کر سکتا ہوں کہ

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیری بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں