مالیخولیہ اور صدر ٹرمپ

میں اکثر “مالیخولیہ” کا ذکر کیا کرتا ہوں جس پر اکثر میرے دوست احباب یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ مالیخولیہ ہوتا کیا ہے۔ مالیخولیہ ایک ایسا دماغی پاگل پن ہے جس کے مریض کو شروع میں کوئی بھی پاگل ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتا بلکہ جو بھی اس کو پاگل سمجھتا یا کہتا ہے، لوگ اسی کو پاگل سمجھنے لگتے ہیں۔

اس مرض میں ہوتا یہ ہے کہ مریض کے معمولات میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہوتی جسے خلاف معمول قرار دیا جائے اور اس کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کی جائے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی، دوسروں سے بات چیت کا انداز یا خوش گفتاری، غرض کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر اسے ذہنی مریض سمجھائے اور اس کے تدارک کی فکر کی جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ شروع میں اس کے مزاج میں ایک “ہٹ” یعنی ضد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ایسا مریض کسی بھی عمر کا ہو، اس کے مرض کی ابتدا ہٹ سے شروع ہوتی ہے جو بہت غیر معمولی بات نہیں ہوتی اس لئے کہ ایسا سب ہی کیا کرتے ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک عام انسان کسی ضد کے پورا نہ ہونے پر اکثر صبر کر لیا کرتا ہے یا اسے کسی اور وقت پر رکھ چھوڑتا ہے لیکن مالیخولیہ کا مریض ہٹ پوری نہ ہونے پر تشدد کی جانب چل نکلتا ہے اور اپنی بات ہر صورت میں منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ اکثر اس کے دوست احباب، عزیز، رشتہ دار یا جاننے والے بات کو ختم کرنے اور ضد کرنے والے کو معمول پر لانے کیلئے اس کی ضد پوری کرکے اپنے سر سے بلا ٹال دیا کرتے ہیں۔ یہ عمل مریض کو معمول پر لے آتا ہے لیکن کسی بھی ضد کے پوری ہونے کے بعد، جلد یا بدیر، ایک اور ضد جنم لیتی ہے اور اس ضد پر بھی وہی کیفیت ہوتی ہے کہ اگر اسے نہ مانا جائے تو مریض تشدد کی جانب چلا جاتا ہے۔ اب اگر مریض بچہ ہے یا نحیف ہے تو اس کو عارضی طور پر دبا لیا یا دھمکا لیا جاتا ہے لیکن اس کی ضد اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور پوری نہ ہونے پر کوئی اور شکل اختیار کرکے کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تیزاب گردی، ایذیت پسندی اور قتل و غارتگری کے واقعات کے پیچھے چھپے حقائق کو تلاش کیا جائے تو کسی نہ کسی سطح پر “مالیخولیہ” کی کارستانی اس میں بہت نمایاں نظر آئے گی۔ تیزاب اس لئے پھینکا گیا کہ بے حجاب پھرنے سے یا کسی اور سے بات کرنے سے منع کیا گیا تھا، اذیت اس لئے پہنچائی کہ کوئی فرمائش (ضد) پوری نہیں کی گئی اور قتل اس لئے کردیا گیا کہ ہماری مرضی کے بغیر شادی کیوں کرلی گئی۔ ایسا کیوں نہیں کیا یا ایسا کیوں کر لیا گیا کے پیچھے ایک ہی وجہ سامنے آئے گی جس کو ضد یا ہٹ کہا جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کا یہ مرض بڑھتے بڑھتے ایک ایسے درجے میں داخل ہوجاتا ہے جہاں ایک ضد پوری ہونے کے فوراً بعد دوسری ضد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس پر اس مرض کا چڑھاہوا “جن” صرف یہی کہتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے کہ “مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں”۔ یہ مرض کا وہ آخری درجہ ہوتا ہے جب لوگ اسے واقعی پاگل قرار دینے لگتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ اگر مریض جسمانی طور پر قابو میں آنے کے قابل ہو تو پاگل خانے کے پنجرے کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور اگر طاقتور ہوتو حال کا صدرِ امریکہ بن جاتا ہے یا ماضی کا فرعون۔ حال کا صدرِ امریکہ ہو یا ماضی کا فرعون، دونوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو جو بات ان دونوں میں مشترک ملے گی وہ یہی “مالیخولیہ” کی بیماری ہو گی جس کو عام طور پر کوئی بھی پاگل پن کہنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔

چند ہفتے قبل تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان اور پاکستان کے موجودہ حکمران کے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ نام سن کر ناک بھوں چڑھا لینا، آنکھوں سے شعلے برسانہ اور منھ سے جھاگ بہانا اس کے معمولات میں شامل تھا لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ پاکستان اور پاکستان کے حکمران پر ریشہ ختمی ہوا جارہا ہے۔ آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ میں اتنا پیار ٹپکتا نظر آرہا ہے جیسے دنیا میں پاکستان سے اچھا، دوست اور پیارا ملک کوئی اور ہے ہی نہیں۔ وہی صدر جس کے لبوں پر “اور اور” کے علاوہ اور کچھ ہوتا ہی نہیں تھا وہی اب “جی آیا نوں” کرتا نظر آرہا ہے۔ اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آئے گی کہ پہلے ہم “نہیں نہیں” میں لگے ہوئے تھے اب “جی حضور، حاضر سرکار اور جو حکم میرے آقا” کی گردان پر اتر آئے ہیں۔ مریض کی فرمائش پوری ہوگئی مرض دور ہوگیا لیکن ہم یہ بات یکسر فراموش کئے ہوئے ہیں کہ اس قسم کے سارے مریضوں کی ہر فرمائش کی تکمیل کے ساتھ ہی دوسری “ہٹ” کا آغاز ہوجایا کرتا ہے اور آپ پر لازم ہوتا ہے کہ آپ اس کی فرمائشیں یا تو پوری کئے جائیں یا پھر اس کے جنون کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کریں۔

وہی ٹرمپ جو ہر تخریب کاری کا الزام پاکستان پر لگایا کرتا تھا وہی اب یہ کہتا پھر رہا ہے کہ “بھارت نہیں پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کی ذمے داریاں دیگر ممالک بھی اٹھائیں”۔ کوئی بھی “مالیخولیاتی” مریض اچانک اگر معمول کے مطابق بات کرنے لگے اور اس کی تیوریوں پر پڑے بل دور ہوجائیں تو اس کو معمولی نہیں غیر معمولی بات سمجھنا چاہیے۔ جب تک اس کی کسی احتیاج، ہٹ یا ضد کی تسکین نہیں ہوجاتی اس سے پہلے اس کی منفی رائے اثبات میں تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشتگردوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اس جنگ میں اس نے بیشمار قربانیاں بھی دی ہیں اور نقصانات بھی اٹھائے ہیں لیکن دہشتگردی کے خلاف اس کے عزم میں کسی بھی قسم کی کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ جو ممالک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں ان میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو اس جنگ کو کامیابی سے لڑ رہا ہے لیکن آج سے چند ہفتے پہلے تک صدر ٹرمپ کو ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا اور اس کی نظر میں پوری دنیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جو دہشتگردوں کی فہرست میں سر فہرست تھا؟۔

رائے یونہی نہیں بدل جایا کرتی اور وہ بھی مالیخولیہ کے مریضوں کی۔ اس کے پیچھے فرمائشوں کا پورا ہونا یا ان کے پورا کرنے کی امیدیں دلانا ہی اولین بات ہوتی ہے۔ اب یہ قوم کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اس نقطے پر غور کرے کہ کل کا “برا” پاکستان ایک فرعون صفت انسان کی نظر میں آج کا “اچھا” پاکستان کیسے بن گیا؟۔

جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا کہ اس مرض کا حامل ایک ہٹ پوری ہوجانے کے بعد دوسری ہٹ سامنے رکھ دیتا ہے۔ پاکستان سے مسلسل “ڈو مور” کا مطالبہ اسی بات کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ وہ کونسی بات ہے جس کو پاکستان ایک عرصہ دراز سے پوری نہیں کرتا آیا لیکن “اور اور” کی فرمائش آج تک ختم ہو کر نہیں دی۔

جیسا کہ دنیا بھر کے مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے کشمیر پر اپنی ماضی کی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب پورے پاکستان کا ذہن یہ بنایا جارہا ہے کہ وہ کشمیر جو ہندوستان کے پاس تھا وہ اسی کا تھا لیکن جو ہمارے پاس ہے، اس کی حفاظت ہم بہر صورت کریں گے۔ کہا جارہا ہے کہ “اگر ہمارے کشمیر پر حملہ ہوا تو ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے” گویا جس کشمیر پر اس وقت بھارت نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں وہ ہمارا تھا ہی نہیں۔ یہ ہے وہ رضا مندی جو صدر امریکہ کے ماتھے پر پڑی شکنوں کو دور کرنے کا سبب نظر آرہی ہے۔ ملاحظہ کریں، ترجمان وائٹ ہاس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ جی سیون سمٹ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہو گی۔ واشنگٹن مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو گہری نظر سے دیکھ رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے جی سیون سمٹ کی سائیڈ لائن پر ملاقات کریں گے۔

قارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ وزیر اعظم پاکستان اور صدر امریکہ کے درمیان جو ملاقات چند ہفتے پہلے ہوئی تھی اس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت واضح طور پر یہ کہا تھا کہ وہ مودی سے ثالثی کی بات کر چکے ہیں اور اسے میری ثالثی قبول ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مودی سے ثالثی کی بات ہوچکی تھی تو پھر کشمیر کے حالات بات چیت کے فوراً بعد کیسے خراب ہوئے؟۔ اگر یہ عہدوپیمان کی خلاف ورزی تھی تو امریکہ کا رد ومل بھارت کے خلاف کیوں نہیں آیا؟۔ یہ بات اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ مودی سرکار اور ٹرمپ کے درمیان جو طے ہوا تھا اسی پر بھارت عمل کر رہا ہے اور کیونکہ پاکستان کو بتادیا گیا تھا کہ بھارت ایسا ہی کریگا اور آپ کو بہر صورت خاموش رہنا ہے تو معاہدے کے مطابق پاکستان پاکستانیوں کو مسلسل بہلانے میں مصروف ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پاکستان تاحال ٹرمپ کو ہی “ثالث” مانے ہوئے ہے۔ اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق نہیں ہو رہا ہوتا تو پاکستان امریکہ کی “ثالثی” کو کبھی کا چیلنج کرچکا ہوتا۔ رہی امریکہ یا جرمنی کا مسلسل بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر زور تو قوم کو بتایا جائے کہ گزشتہ 72 برس سے کیا کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو گیا ہے؟۔

ٹرمپ کے چہرے پر پاکستان کی جانب سے ہشاشت  بشاشت اسی وقت تک برقرار رہے گی جب تک وہ “ثالث” مانا جاتا رہے گا جس کا دوسرا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اس کے ہر فرمان کو “وحی الٰہی” سمجھا جائے گا ورنہ عذاب “ٹرمپ” نازل ہونے میں لمحہ بھی نہیں لگے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں