۔1947کی سچی کہانی

شکوراں ارے شکوراں۔ کہاں ہو تم،اللہ داد میں یہاں ہوں۔ خیر ہے کیوں اتنے گھبرائے ہوئے ہو، شکوراں نے بھینسوں کے باڑے سے آواز لگائی۔ شکوراں ہمارے جتنے زیورات ہیں ایک پوٹلی میں جمع کرلیں۔آج رات عشاء کی نماز کے بعد پورے گاؤں والوں نے پاکستان کی طرف کوچ کرنا ہے۔ساتھ والے گاؤں پہ سکھ بلوائیوں نے حملہ کردیا ہے اور ہر چیز لوٹ لی ہے۔ کئی مرد قتل کردئیے گئے،عورتوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔اللہ داد ایک ہی سانس میں بولتا جارہا تھا اور شکوراں بت بنی اسے تکے جارہی تھی۔ اللہ داد نے مزید کہا کہ گاؤں کے سر پنچ نے کہا ہے کہ اپنا قیمتی سامان باندھ لیں عشاء کی نماز پڑھ کے قافلہ کوچ کرے گا۔ہوسکتا ہے آج رات سکھ بلوائی ہمارے گاؤں پہ حملہ کریں کیوں کہ ہمارا گاؤں سکھوں کا آخری ٹارگٹ ہے شکوراں کبھی اللہ داد کو دیکھتی کبھی بھینسوں کو دیکھتی جو آوازیں نکال رہی تھیں کہ ان کے دودھ نکالنے کا وقت تاخیر ہوا جارہا ہے۔شکوراں نے بھینسوں کے بچے کھول دیئے کہ اب دودھ نکالنے کا وقت نہیں مغرب ہورہی ہے اور سامان باندھ لے، اللہ داد نے بیلوں کو دیکھا جو چارے سے پیٹ بھر چکے تھے اور ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ ڈال کر زور آزمائی کررہے تھے۔اللہ داد نے بیلوں کی کمر پہ تھپکی دی اور کہا شکریوں نہیں لڑو۔تھوڑا آرام کرلو۔پھر تمہیں بہت طویل مسافت طے کرنی ہے۔آخر عشاء ہوگئی ہر طرف سے بیل گاڑیاں نکل کر گاؤں کے چوک میں جمع ہورہی تھیں، اللہ داد کی شادی کو ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے اور شکوراں امید سے تھی۔۔اللہ داد باپ سے الگ ہوگیا تھا۔ شکوراں سب قیمتی سامان باندھ کے بیل گاڑی پہ رکھ چکی تھی۔اللہ داد بھی اپنی بیل گاڑی لے کر چوک میں آگیا تھا کہ اچانک اسے یاد آیا کہ اسکی دو نالی بارہ بور بندوق بھی ہے جو وہ گھر میں ہی چھوڑ کے آرہا ہے۔ہوسکتا ہے راستے میں سکھ بلوائی حملہ کردیں۔اسے بندوق اٹھا لینی چاہیے۔وہ بھاگ کر واپس آیا اور بندوق اٹھائی ایک بستے میں چالیس کارتوس تھے وہ بھی اٹھائے اور قافلے میں پہنچ گیا جو رواں ہونے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ضلع فیروز پور سے چلنے والے قافلے کا روٹ تھا تحصیل زینت والی بنگلہ فاضل کا اور ہیڈ سلیمانکی کے مقام پہ اس قافلے نے پاکستان میں داخل ہونا تھا۔قافلہ ساری رات چلتا رہا۔صبح ہوئی تو ایک محفوظ جگہ پہ پڑاو ڈالا گیا۔ سکھ بلوائیوں نے اسی رات اللہ داد کے گاوں پہ حملہ کردیا تھا لیکن سارا گاؤں سنسان تھا ایک بھی آدمی نہ تھا بس جانور تھے بھینس گائے وغیرہ۔کچھ سکھ جانور جمع کرنے لگے اور کچھ سکھوں نے قافلے کا تعاقب شروع کردیا۔قافلہ تحصیل زینت والی کراس کرچکا تھا اور آگے بنگلہ فاضل کا آرہا تھا۔۔اللہ داد کا دادا کہتا بیٹا بنگلہ فاضل کا پہنچ گئے تو ایسے سمجھو پاکستان پہنچ گئے کیوں کہ فاضل کا سے پاکستان آدھے پونے گھنٹے کا سفر ہے۔قافلہ ابھی فاضل کا سے چند میل پیچھے ہی تھا کہ تعاقب میں آنے والے سکھ پہنچ گئے اور انہوں نے قافلے کے سالار کو للکارا۔قافلے میں تیس پینتس جواں مرد تھے باقی بچے بوڑھے عورتیں تھیں۔اللہ داد نے بیلوں کی لگامیں شکوراں کو تھما دیں اور خود بندوق اٹھا لی کارتوسوں والا بستہ بغل میں دبا لیا سکھوں کے پاس بھی بندوق تھیں کسی کے پاس تلواریں اور نیزے تھے
گھمسان کی جنگ ہوتی رہی قافلہ بھی چلتا رہا۔اللہ داد کے بازو میں گولی لگ چکی تھی جہاں پہ اس نے کمال پھرتی سے شکوراں کا دوپٹہ باندھ لیا تھا، سکھ حاوی ہورہے تھے اور قافلے والوں کے پاس زیادہ ہتھیار نہیں تھے کئی جوان لڑتے لڑتے گر پڑے تھے جن کو قافلے والے اٹھا بھی نہیں سکتے تھے عجب معرکہ تھا کہ قافلہ بھی رواں دواں تھا اور لڑائی بھی جاری تھی۔ اللہ داد کے پاس آخری کارتوس بچ گیا تھا اور وہ آخری کارتوس گنوانا نہیں چاہتا تھا وہ بیل گاڑی کے اوپر بیٹھ گیا۔سکھ سمجھے کہ مسلم تھک گئے ہیں جونہی آگے بڑھے اور ایک سکھ اللہ داد کی بیل گاڑی کے بلکل قریب آکے تلوار نکال کے للکارا۔رک جاو ورنہ کاٹ دوں گا۔اللہ داد نے آخری کارتوس ڈال کے ٹکا کے نشانہ لگایا۔وہ سکھ چیخا اور گھوڑے سے گر گیا۔وہ سکھ شاید سکھوں کا سردار تھا اور سکھوں کی کمان کررہا تھا۔دوسرے سکھوں نے جب اپنے سردار کو گرتے دیکھا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔اللہ داد نے شکر کا کلمہ پڑھا کیونکہ کارتوس بھی ختم ہوگئے تھے اور عزتیں و سامان بچانا مشکل ہو گیا تھا آخر قافلہ بنگلہ فاضل کا پہنچ گیا تھا یہاں پہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اور بڑے بڑے قافلے پاکستان جارہے تھے یہ قافلہ بھی ان میں جا شامل ہوا اور ہیڈ سلیمانکی کے مقام پہ پاکستان میں داخل ہوگیا اور پھر یہ قافلہ ضلع بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں آکر آباد ہوا۔
شکوراں کبھی کبھی اللہ داد سے شکوہ کرتی کہ ہماری کتنی بھینسیں تھیں زمین جائیداد تھی جو چھوڑ کے آگئے۔اللہ داد کہتا۔اللہ کی بندی خدا کا شکر کرو۔ اور انکو دیکھو جن کے پیارے سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔یہ آزادی قربانیوں سے ملی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں