پلاسٹک کے شاپر ہی کیوں بند؟

انسان اپنی سہولت کیلئے جتنی بھی ایجادات کرتا چلا آرہا ہے وہیں اس کے بیشمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی سامنے آتے جارہے ہیں۔ بہت ساری ایجادات ایسی بھی ہیں جس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں اور  بیشمارایجادات ایسی بھی ہیں جن کے نقصانات فی الحال فوائد کے مقابلے میں اتنے کم ہیں کہ ان پر کسی بھی سمت سے پابندی لگانے کی کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ ہر ایجاد کے منفی یا مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں جن پر نظر رکھنا اور نقصان پہنچانے والے پہلوؤں کو کم سے کم کرنا ہی تحقیق و جستجو کا دوسرا نام ہے۔

کبھی کبھی ہوتا یوں ہے کہ کسی بھی ایجاد کا بہت ہی آغاز میں یہ احساس ہوجاتا ہے کہ یہ انسان کیلئے بہت ہی خطرناک ثابت ہوگی اس لئے اسے فوراً ہی تلف کر دیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر ایجادات کے نقصانات کا اندازہ بہت بعد میں ہوتا ہے اور جب اس بات کا اندزہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بلائے جان بن جائیں گی تو اس وقت تک وہ اتنی عام اور جزوزندگی بن ہو چکی ہوتی ہیں کہ ان کی پیداوار کو بند کرنا یا پابندیاں لگانا نہایت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ پابندی کی صورت میں جو نقصانات سامنے آنے کے امکانات ہوتے ہیں وہ اور بھی زیادہ پُر خطر لگنے لگتے ہیں۔ ان ہی ایجادات میں سے ایک ایجاد پلاٹک کی مصنوعات ہیں جس میں دیگر بیشمار اشیا کے علاوہ مختلف سائز کے پلاسٹک بیگ اور شاپر ہیں جو سانپ کے منھ میں چھپکلی کی طرح بن کر رہ گئے ہیں جس کو اگلنے میں اندھے ہوجانے کا ڈر اور نگلنے میں کوڑھی ہوجانے کا خدشہ بدجہ اتم موجود ہوتا ہے۔

پلاسٹک انسانوں کی ایسی ایجاد ہے جس کو دوام حاصل ہے۔ اس میں اتنی ہمیشگی ہے کہ اگر موہنجودارو کی طرح آج سے ہزاروں برس بعد بھی کھدائی کے نتیجے میں کوئی بستی، گاؤں یا شہر مٹی کے نیچے دبا ہوا دریافت ہوا تو اس میں سے اپنی اصل حالت میں کوئی شے برآمد ہو گی تو وہ پلاسٹک سے بنی اشیا اور خاص طور سے مختلف سائز کے بیگ اور شاپر ہونگے۔ پلاسٹک کی اشیا پر کسی بھی قسم کا کیمائی عمل ہوتا ہی نہیں اور یہ ہر حال میں اپنی اصل شکل و صورت میں قائم رہتی ہیں۔ ان کی یہی خوبی انسانوں کیلئے ایک بہت بڑی خرابی کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے اس سے انسانوں کو بیشمار مشکلات کا سامنا ہے اور اگر اس سے نجات کا کوئی راستہ اختیار نہیں کیا گیا تو آنے والا مستقبل بہت ہی پر آشوب ثابت ہو سکتا ہے۔

دنیا اس سے جتنا بھی چھٹکارہ حاصل کرنا چاہ رہی ہے اتنا ہی اس کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی پلاسٹک بیگوں اور شاپروں سے نجات حاصل کرنے کی مہم بہت شد و مد کے ساتھ چلائی جارہی ہے اور اب حکومت پاکستان نے باقائدہ اس پر پابندی لگانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن کیا پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟۔ کیا پلاسٹک بیگ اور شاپر بننا بند ہو جائیں گے اور کیا ان کے بند ہونے سے پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی بہت بحران کا شکار ہے، مزید بے روزگاری اور بحران کی جانب نہیں بڑھ جائی گی؟۔ یہ ہیں وہ بنیادی سوالات جن پر پلاسٹک کے بیگ اور شاپرز پر پابندی لگانے سے پہلے غور کرنا، سوچنا اور اس کا متبادل تلاش کرنا بہت ضروری ہے ورنہ ملک کے طول عرض میں پھیلا ایک وسیع صنعتی نیٹ ورک متاثر ہونے کی وجہ سے کچھ اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ کتنے لاکھ گھروں کے چراغ بجھ جائیں گے، صنعتیں بند ہو جائیں گی اور لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔

یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی نئی ایجاد پہلے سے موجود کسی بھی ایجاد کیلئے ایک خوفناک خطرہ بن جاتی ہے اور ایسی ساری صنعتیں بند ہوجاتی ہیں جو کسی دوسرے بہتر یا کثیرالخواص کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی زمانے میں ریڈیو بنانے والی کمپنیاں اونچی اونچی عمارتوں کی مالک ہوا کرتی تھیں لیکن ٹی وی کی ایجاد نے ان کی حیثیت کو آہستہ اہستہ ایسا گہن لگا کر رکھ دیا کہ اب پوری دنیا میں بہت ہی کم افراد کے کانوں سے جیبی ٹرانسسٹر لگاہوا نظر آتا ہے۔ گھڑیاں ہاتھوں سے اتر کر موبائیل فون میں مدفن ہو گئی ہیں اور لینڈ لائن ٹیلی فون اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ہر نئی ایجاد کئی پرانی ایجادات کیلئے ایک عفریت بن جاتی ہے اور ایسی انڈسٹریز یا تو بند ہوجاتی ہیں یا پھر ان کو وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنا پڑجاتا ہے۔

الیکٹرونک کی دنیا نے اپنی ہی نہ جانے کتنی ایجادات کو صفر بنا کر رکھ دیا ہے۔ ڈسکٹس کی جگہ پہلے فلاپی ڈسک نے لی، پھر سی ڈی اس پر چھا گئی اور اب ان دونوں کی جگہ یو ایس بی اور میموری کارڈ نے لے لی ہے۔ ڈسک ٹاپ کمپیوٹر پرانے ہوئے اور لپ ٹاپ کا زمانہ شروع ہو گیا۔ موبائیل فون کثیرالصفات بنادیئے گئے اور انٹر نیٹ نے دنیا کو ایک کوزے میں بند کرکے رکھ دیا۔ بلا شبہ یہ ساری ایجادات ایسی ہیں جن کی خوبیاں گنانے بیٹھا جائے تو شاید گھنٹوں لگ جائیں لیکن خوبیوں شمار نہ ہو سکیں لیکن جب ان کی خطرناکیوں پر غور کیا جائے تو بدن میں ایک جھرجھری سی طاری ہو جائے۔

پلاسٹک کے بیگ ہوں یا شاپر، آپ کی اشیا کو کتنا تحفظ دیتے ہیں، انھیں ہر قسم کے موسمی اثرات سے محفوظ رکھتے ہیں، بازار سے اشیا کی خریداری کے وقت کسی زائد بوجھ کو ساتھ لیجانے کی زحمت سے بچاتے ہیں، ہر جنس کو الگ الگ پیک کرکے رکھنے میں آسانی ہوتی ہے اور خاص کر ایسی تمام اشیا جو مائع، جیسے تیل، دودھ یا دہی کی شکل میں ہوتی ہیں، ان کو محفوظ شکل میں گھر تک لیجانے میں کسی بھی قسم کی کوئی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

تھوڑی دیر کیلئے اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ ملک میں پلاسٹک بیگ اور شاپر بند ہو گئے ہیں تو آپ بازار سے خریداری کرنے کیلئے کتنی اقسام کے تھیلے، برتن یا ظروف لے کر جائیں گے اور آپ کیلئے ان تمام اشیا کا بروقت خرید کر گھر لانا کتنا دشوار اور کسی حد تک ناممکن ہو جائے گا۔

دلیل کیلئے اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ کسی زمانے میں جب پلاسٹک بیگ ہوا ہی نہیں کرتے تھے تو پھر بھی تو ہر گھر میں ضرورت کی ہر جنس آجایا کرتی تھی تو اب ایسا کیوں ممکن نہیں۔ بات میں وزن تو ہے لیکن اس طرح تو کسی زمانے میں بیشمار ایسی ایجادات نہیں تھیں جو فی زمانہ ہیں، مشینی دور نہیں تھا، ریلیں اور ہوائی جہاز نہیں تھے، اعلیٰ قسم کی بسیں نہیں تھیں، گھروں میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی، فریج، ٹی وی، فون، موبائیل جیسی لاتعداد ایجاداد کا کوئی تصور نہیں تھا تب بھی انسان زندہ تھا اور شاید آج سے کہیں بہتر زندگی گزارا کرتا تھا تو کیا یہ سب ایجادات تلف کردی جائیں اور زندگی کو عین فطرت کے مطابق بسر کرنے کا عہد کر لیا جائے؟۔

گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں میں انسان نے جس تیز رفتار انداز میں ترقی کی منازل طے کی ہیں وہ اپنی جگہ ایک حیرت انگیز بات ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ آنے والے دور میں کیا کیا کچھ دیکھنے کو ملے۔ انسان نے اپنی سہولت کیلئے جو کچھ بھی بنایا ہے وہ اب اس کی ایسی ضرورت بن چکا ہے جس کو ترک کرنے سے اس کی زندگی کی مشکلات میں اضافہ تو ہوسکتا ہے، اسے کوئی راحت کسی صورت نصیب نہیں ہو سکتی۔ سوئی سے لیکر ہوائی جہاز تک، ہر ایجاد اس کی زندگی کا جزولاینفک بن چکی ہے۔ بجلی، پانی، گیس، تیل اور اسی طرح اس کے گھر میں موجود بیشمار بجلی کے آلات اس کی زندگی بن چکے ہیں اور اب اس کیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ان تمام اشیا کو اپنی زندگی سے نکال کر پرسکون زندگی گزار سکے۔

ایک جانب ایجادات اس کی زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہیں تو دوسری جانب دنیا کے کروڑوں افراد کیلئے روزگار کا سبب بھی ہیں۔ دنیا کے کروڑوں افراد اس سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں اور وہی افراد جو اس سے روزی کماتے ہیں وہ مزید کروڑوں افراد کی پرورش کررہے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں پلاسٹک کی صنعتوں سے لاکھوں لوگ مختلف انداز میں وابستہ ہیں اگر ان صنعتوں پر پابندی لگادی جائے تو ان لاکھوں افراد اور افراد سے وابستہ گھرانوں کا کیا بنے گا جن کی زندگی کا انحصار اسی کاروبار سے ہے؟۔ یہ ہے وہ اہم ترین نقطہ جس پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انسان کی کوئی بھی ایجاد ایسی نہیں جس کے برے اثرات انسان کی زندگی کیلئے نہایت خطرناک انداز میں سامنے نہ آرہے ہوں۔ فضا میں ہر قسم کی بڑھتی ہوئی آلودگی، دھواں، شور، نکاسی آب کی دشواریاں، نہری نظام سے زمینوں کی تباہی، گولہ و بارود کی بھیانکی جیسے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیا اس کا حل یہی ہے کہ ہر قسم کی ایجاد کو نہ صرف روک دیا جائے بلکہ ان کو تلف کردیا جائے؟۔

تحقیق و جستجو کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایجادات میں جو جو خرابیاں ہوں ان کو کم سے کم کی سطح پر لایا جائے، ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے وہ خرابیاں جو پھیل چکی ہوں، ان کو کسی اور انداز میں دور کیا جائے، فضا کی آلودگی کو صاف کرنے کے اسباب کئے جائیں تاکہ زندگی کو سہل بنایا جاسکے۔

پلاسٹک کے بیگوں اور شاپروں کو بند کردینا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور جس مشسکل صورت حال سے اس وقت پاکستان گزررہا ہے تو ایسے وقت میں ایسا سوچنا بھی بہت بڑی غلطی ہوگی لہٰذا اس پر پابندی لگانے کی بجائے اس بات غور کیا جائے کہ ہم پلاسٹک کی مصنوعات میں ایسا کیا شامل کریں کہ وہ کاغذ کی طرح گل سڑ جایا کریں اور ان کی ہمیشگی ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اس کا متبادل تلاش کیا جائے۔ یہ دونوں کام ناممکن ہوں تب بھی ملک بھر کی تمام صنعتوں کو یک دم نہ بند کیا جائے بلکہ ان کو مرحلہ وار بند کیا جائے تاکہ ان صنعتوں سے وابستہ ہر طبقہ اپنے روزگار کیلئے راہیں نکال سکے۔ بصورت دیگر پاکستان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ در اضافہ ہی ہوتا جائے گا جو کسی بھی لحاظ سے پاکستان کیلئے سود مند نہیں ہوگا۔

 

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں