کراچی پولیس کی پیشہ ورانہ اوراخلاقی تربیت ناگزیر

پولیس کا نظام کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ رہا ہے،حضرت عمرؓ کے دور میں پولیس کا نظام رائج ہوا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں چھاگیا۔ پولیس معاشرے میں امن وامان کے نفاذ کے ساتھ ساتھ قوت کا جائز استعمال کرتے ہوئے عوامی وسماجی نظم ونسق کو برقرار رکھنے کی ذمے دار ومختار ہوتی ہے۔ فارسی میں اسے دربان،چوکیدار،نگہبان اورحفاظت کرنے والے کے طورپر جانا جاتا ہے۔ پولیس کا براہ راست تعلق عوام سے ہے اور اسے عوام کے بیچ رہ کر ہی اپنا کام سرانجام دینے کی تربیت فراہم کی جاتی ہے،جس طرح ایک بچے کی تربیت کی ذمے دار ی ماں پر عائد ہوتی ہے اسی طرح پولیس ملازمین کی تربیت کی ذمے داری بھی محکمے کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے،پولیس اپنی طاقت اوراختیارات کی بدولت معاشرے میں امن وامان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے اپنے جائز اختیارات کو استعمال کرکے اسے ممکن بناتی ہے۔
پاکستان میں پولیس کا محکمہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی عمل میں آگیا تھاکیوں کہ اس کے بغیر کسی بھی معاشرے کا پروان چڑھنا ناممکن ہے،پولیس کے بغیر معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے اور قتل وغارت کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور چوری،ڈکیتی کی وارداتیں عام ہوجاتی ہیں،جس سے معاشرہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی سیدھی سی مثال صومالیہ اور سوڈان جیسے ممالک کی ہے جہاں پولیس ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوڈان اورصومالیہ جیسے حالات آج کل پاکستان کے سب سے بڑے اوردنیا کے ساتویں بڑے شہرکراچی کو درپیش ہیں۔ کراچی پولیس اس وقت کراچی میں امن وامان کی دعویدار تو ہے مگر اس کے پیچھے رینجرز اورانٹیلی جنس اداروں کا ہاتھ بھول گئی ہے،جس نے انتھک محنت اورخفیہ اطلاعات پرکئی آپریشن کے بعد کراچی کو امن کا گہوارہ بنایا۔ تاہم اب رینجرز شاید ان معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی اوراپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا ہے اور تب سے صورت حال واپس پرانی سطح پر جاتی نظرآرہی ہے۔
کراچی پولیس آج معاشرے میں امن وامان کے بجائے عدم استحکام کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ جہاں لوٹ مار کرنے والوں کو بھتے کے عوض کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کراچی کے علاقے صدر ٹاؤن میں موجود پریڈی تھانہ کراچی کے اہم اور حساس تھانوں میں شمارہوتا ہے،لیکن یہاں اقربا ء پروری اور کھلی رشوت عام ہوچکی ہے،اہلکاروں میں نہ بولنے کی تمیز رہی اور نہ ہی روڈ پر کھڑنے ہونے کا کوئی ڈھنگ نظرآتا ہے۔ یہاں ہونے والی تمام اچھائی برائی کے ذمے دار ایس ایچ او نے اپنے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ اگر کوئی عام شخص انہیں اپنی مدد کے لیے طلب کرے تو پہلے ہی اسے یہ کہہ کر انکار کردیا جاتا ہے کہ یہ کام پولیس کا نہیں۔ عید کی چھٹیوں میں جہاں ہزاروں شہری کراچی سے باہر کا سفر کرتے نظرآتے ہیں وہیں مسافر کوچز مالکان کی بھی چاندی ہوجاتی ہے،اسی ایک معاملے کو پولیس تک پہنچانے کی ایک گستاخی ہم سے بھی ہوئی جب میں نے ایس ایچ اوپریڈی کو فون کیا تو ایس ایچ اوصاحب نے پہلے سلام کیا اورپھر جب میں نے انہیں مسئلہ بتایا کہ تاج کمپلیکس پر مختلف کوچز کے مالکان نے ازخود اضافہ کرکے کرایہ 500کے بجائے 1500اور1800روپے وصول کیاجارہاہے جو عوام کے ساتھ سراسرظلم ہے۔ آپ اس سلسلے میں پریشان حال مسافرفیملیز کی مدد کریں۔ تاہم ہماری یہ بات ایس ایچ کو اتنی ناگوار گزری کے انہوں نے آگے سے جو مجھے جواب دیا وہ بھی آپ ملاحظ فرمائیں۔(اب یہ کام بھی ہمارا رہ گیا ہے،گٹر بھی ہم کھلوائیں،کرائے بھی ہم کم کرائیں،پورے کراچی کا ٹھیکہ ہم نے لے کر رکھا ہے، اپنا کام کروبھائی۔)ابھی ان کی بات جاری تھی کہ میں نے صرف یہ کہہ فون بند کردیا کہ (جناب بہت بہت شکریہ آپ کا،مجھ سے غلطی ہوگئی جو میں نے آپ کو فون کیا۔ معذرت چاہتاہوں۔) اس طرح کے الفاظ سننے کے بعد کیا عام شہری کے دل میں پولیس کے لیے عزت بڑھے گی؟ جس کا سیدھا اور آسان جواب یہی ہے کہ ہرگز نہیں بلکہ عام شہری کے دل میں پولیس کے لیے مزید نفرت پیدا ہوگی اوروہ یہی سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ جب پولیس نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا تو اب میں بھلا کس سے اپنی فریاد کروں؟۔ اس طرح وہ اضافی کرایہ دینے پر مجبور ہوجائے گا،جس سے ملک میں کرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
آپ جب بھی سڑک پر نکلتے ہوں گے تو کہیں نہ کہیں پولیس اہلکار کسی موٹر سائیکل سوار کو روکے اپنے جیب خرچ کا بندوبست کرتا نظر آئے گا،کہیں پولیس اہلکار کے ہاتھ میں سگریٹ ہوگی تو کسی کا گریبان کھلا دکھائی دے گا،سرپر ٹوپی جسے وہ صرف اپنے افسرانِ بااعلیٰ کے سامنے پہنتے دکھائی دیتے ہیں لیکن آج تک روڈ پر کھڑے اہلکاروں کے سر پرٹوپی نظرنہیں آئی۔ اکثر پولیس اہلکاروں کودوران ڈیوٹی پان گٹکا کھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے، جب کبھی ان سے بات کرنی پڑجائے تو پہلے وہ آپ کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے آپ کوئی دہشت گرد یا پھر خلائی مخلوق ہوں۔ان سے بات کرتے ہوئے شریف آدمی کو ہمیشہ ایک خوف محسوس ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کب ان کا میٹر گھوم جائے اور یہ ہمیں ایک مشہور اورمعروف دہشت گردبناکر اندر کردیں۔
گٹکے پر پابندی کے باوجود صدر جیسے مصروف ترین علاقے میں جابجا گٹکا فروخت ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے،سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ پریڈی تھانے کی دیوار کے ساتھ موجودہ پان کے کیبن پر گٹکا فروخت ہورہاہے۔کیا اب ایس ایچ او صاحب کو بتانا پڑے گا کہ یہ کام آپ کا ہے۔ اگر کرائیوں میں کمی کا کام ان کا نہیں تو پھر گٹر کھلوانے کا کام ان کا کہاں سے ہوگیا؟ زہریلی گٹکے کی فروخت پر افسران کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں غیرقانونی کام ہورہاہے لیکن عوامی مسائل کے حل کیلیے کبھی ان سے مدد طلب کی جائے تو پھر وہ ان کا کام نہیں ہوتا۔
اسی طرح بلدیہ ٹاؤن میں پولیس اہلکارجب موٹر سائیکل پر گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں تو عوام انہیں محافظ کے بجائے دہشت گرد،بھتہ خورجیسے الفاظ سے پکاراکرتی ہے اورایسا ہونا کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیوں کہ جن پولیس اہلکاروں کے گریبان کھلے ہوں،موٹرسائیکل کی نمبر پلیٹ غائب ہو،چھوٹااسلحہ ہاتھ میں تھام کر ہوا میں لہراتے ہوئے چل رہے ہوں تو پھر کوئی بھی انہیں پولیس والا کم بدمعاش زیادہ کہے گا۔ اس سلسلے میں ایس ایچ او اتحاد ٹاؤن کوایک میسج کے ذریعے یاد دہانی بھی کرائی جا چکی ہے مگر وہاں بھی اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان پولیس اہلکاروں کے طورطریقے تبدیل ہوئے۔ یہ معاملات صرف ایک تھانے کی حدود میں نہیں بلکہ بلدیہ ٹاؤن سمیت کراچی کے ہر تھانے میں نظرآتے ہیں۔ تاہم بلدیہ ٹاؤن میں جابجا گٹکا مافیا کا نظرآنا اب تعجب کی بات نہیں رہی، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کو کرسٹال چرس اور ہیروئن جیسی گندی عادتیں لگ چکیہوں وہاں گٹکا بکنا عام سی بات تصور کی جاتی ہے، لیکن مجال ہے کہ اس معاملے میں پولیس جسے عوام کا نگہبان کہاجاتا ہے کے کان پر کوئی جوں تک رینگ جائے۔
متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اگر اب بھی پولیس کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت پر دھیان نہ دیا تو وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے ہر گلی محلے میں چرس،جوا،سٹہ اور دیگر جرائم کے اڈے کھل جائیں گے اور شہر کا بچہ بچہ اس گندی صحبت میں پڑ کر ملک کے لیے ناسور بن جائے گا۔ اگر ان میں ایک بچہ میرا ہوگا تو دوسرا بچہ یقیناً آپ کا ہوگا۔لہذا اب بھی وقت ہے اپنی پولیس پر دھیان دیں اور اپنے اس اہم محکمے میں موجود افسران واہلکاروں کو نکال باہر کریں جو محکمے کی بدنامی کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی میں بھی مصروف ہیں۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں