شوق کے مسافر

اگر میں آپ کی جتنی عقل، شعور، علم، دانائی اور حکمت حاصل کرنا چاہوں، تو مجھے کم از کم کتنا عرصہ درکار ہوگا؟ نوجوان نے ان بزرگ سے پوری دلچسپی کے ساتھ پوچھا، بزرگ مسکرائے اور فرمایا “پانچ سال”۔ نوجوان نے پہلو بدلتے ہوئے کہا اور اگر میں اپنی محنت دگنی کردوں پھر؟ بزرگ نے بےنیازی سے جواب دیا “دس سال”۔
اور اگر میں دن، رات، صبح، شام، ہر لمحہ، ہر وقت مطالعہ میں غرق ہوجاوں، ہر وقت اسی ایک کام میں لگا رہوں تب؟ بزرگ نے اسی سپاٹ لہجے میں کہا “پھر تو تمہیں 15 سال لگ جائیں گے”۔ پریشان ہونے کی باری نوجوان کی تھی، اس نے کہا جب جب میں اپنا علم، اپنی محنت بڑھانے کی بات کرتا ہوں آپ مجھے مزید پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔
بزرگ نے قہقہہ لگایا اور بولے “برخوردار! اللہ تعالی نے انسان کو دو قسم کی آنکھیں دی ہیں، ایک وہ جو ظاہربیں ہیں اور دوسری وہ جو باطن میں جھانکتی ہیں۔ صرف مطالعہ تمہاری معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے تمہارا علم بڑھا سکتا ہے یہ تمہاری نظر کا کمال ہے، لیکن تم جتنا وقت اپنی نظر پر صرف کرو گے تمہاری “بصیرت” اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیگی۔
تم راستوں کے مشاہدے، تجربوں کے فائدے اور لوگوں سے معاملات میں کمزور تر ہوتے چلے جاؤ گے تمہارا یہ “علم” تمھیں آگے لے جانے کے بجائے دن بدن پیچھے لے کر جائے گا۔ تو پھر مجھے کیا کرنا پڑے گا؟ نوجوان متجسس کر پوچھا۔
“مستقل مزاجی” اور “استقامت” کے ساتھ “صبر” کرنا پڑے گا۔ جلد باز لوگ نتائج تو جلد حاصل کر لیتے ہیں لیکن وہ اس کے مزے اور پائیداری سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یاد رکھنا تم اس دنیا میں منزلوں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ “سفرشوق” کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ کبھی تم نے سوچا کہ دنیا میں اتنی جدت اور نت نئی ٹیکنالوجی آجانے کے باوجود ہیلی کاپٹرز، فوکر طیاروں اور جہازوں کی موجودگی کے بعد بھی یہ کوہ پیما اتنی مشقت اور جان جوکھوں میں ڈال کر کر پہاڑ کیوں سر کرتے ہیں؟
نوجوان نے حیرت سے پوچھا” کیوں؟”۔
کیونکہ چوٹی پر پہنچنے سے کہیں زیادہ مزا انھیں سفر میں آتا ہے، جو وہ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے کرتے ہیں۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بے مقصد زندگی گزاردے؟
نوجوان نے طنز مارتے ہوئے کہا۔
بزرگ نے قہقہہ مارا اور کہنے لگے؛ “بے مقصد زندگی اور زندگی میں صرف ایک ہی منزل کو مقصد سمجھنے میں بڑا فرق ہے میرے بچے! عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مراکش کے ساحلوں پر گھوڑے اتارے تو فرمایا “خدا! گواہ رہنا اگر سمندروں سے آگے بھی تیری مخلوق ہوتی ہم تیرا پیغام پہنچانے کے لیے وہاں تک چلے جاتے”۔
“سفرشوق” کرنے والوں کو منزلیں پناہ دیا کرتی ہیں ہاں لیکن شرط صرف ایک ہے اور وہ ہے “یقین”۔ وسوسوں ڈر جانے والے، معمولی لالچوں اور خواہشوں کے پورا ہونے پر پھسل جانے والے اکثر قدم قدم پر بہک کر جایا کرتے ہیں۔
کبھی تم انبیاء اکرام علیہم السلام کو دیکھ لو اللہ تعالی عام طور پر انبیاء کو چالیس سال کی عمر میں ہی نبوت دیتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی چالیس دن کے لیے ہی کوہ طور پر بلایا جاتا ہے، اس کی وجہ ان کے صبر کا امتحان لینا ہوتا ہے۔ حضرت ابو ایوب علیہ السلام کو 17 سال تک صبر کروایا جاتا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کو 13 سال تک اور حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو سال تک صبر کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے اور تم چاہتے ہو کہ چار دن میں ہی تم شعور، حکمت اور دانائی کی منازل طے کر لو؟
اس جلد بازی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم نے اللہ کی کتاب تک سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے “شارٹ کٹس” لینے شروع کر دیئے ہیں۔ وقت کا رسول اور خالق کائنات کا محبوب 23 سال تک صبر، استقامت اور مستقل مزاجی کی تصویر بنا کھڑا رہتا ہے تب کہیں جاکر اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے اور اس کے امتی کبھی 40 دفعہ، کبھی 10 دفعہ اور کبھی 100 دفعہ سورتوں اور قرآن کو ختم کرکے “جنت کا حصول” چاہتے ہیں۔
چاول جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی لذیذ ہوتا ہے۔ چائنیز بمبو پانچ سال تک زمین کے اندر رہ کر خود کو مضبوط اور توانا کرتا ہے اور 5 سال بعد زمین کو پھاڑ کر 80 اور 90 فٹ بلند ہوجاتا ہے۔ میرے بچے! دانہ تو خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے اورتم چاہتے ہو کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا؟
میرے بیٹے! دنیا میں کامیابی اور ناکامی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ اس دنیا میں صرف اسباق ہوتے ہیں اسباق، اس دنیا میں صرف تجربے ہوتے ہیں۔اچھا تجربہ، اچھا سبق، براتجربہ اور برا سبق، اس دنیا میں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، ہر رات کے بعددن اور ہرشام کے بعدصبح ہے۔ یاد رکھنا سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے الگ ہوتی ہے۔
اس دنیا میں “اندھیرا” نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اندھیرا تو “عدم روشنی” کا نام ہے۔ تم چراغ روشن کردو بلب جلادو، اندھیرے کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ اسی لئے تو فرمایا گیا کہ مایوسی کفر ہے اور امید عبادت۔ میری اور تمہاری مثال تو کسان کی سی ہے، جو اپنا سارا کام مکمل کرنے کے بعد بس پھر صرف “انتظار” کرتا ہے اور روز پانی ڈالتا ہے۔تم بھی روز پانی ڈالو، اپنے جذبات پر، اپنے احساسات پر، اپنے خیالات پر، اپنے مقاصد اور اپنے حالات پر انھیں تازہ رکھو اور پھر انتظار کرو۔آج نہیں تو کل تمہاری “فصل” بھی آئے گی “شوق کے مسافروں” کا پیچھا منزلیں کیا کرتی ہیں وہ منزلوں کا پیچھا نہیں کیا کرتے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں