بچوں کی تربیت کا اُن کی شخصیت پر اثر

والدین نہ صرف بچوں کی اعلیٰ پرورش کرتے ہیں بلکہ اُن کی ذہنی، جذباتی اور سماجی زندگی میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کا فرض نہ صرف بچوں کے ابتدائی سالوں میں اُن کی بنیاد بنانا ہے، بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اُنہیں تمام ضروریاتِ زندگی مہیاء کرنا اور بھرپور توجہ دینا ہے۔ بچے جب تھوڑے بڑے اور خود مختار ہونے لگتے ہیں، تو والدین بھی اپنے فرائض سے دستبردار ہونے لگتے ہیں۔ دوسرے بچے کے آنے کے بعد بھی والدین کی توجہ اکثر بٹنے لگتی ہے یا پھر جب بچے اسکول جانے لگتے ہیں تو بھی اکثر والدین بچوں کو بھرپور وقت نہیں دے پاتے۔ بچوں کو صرف یہ احساس دلا دینا کہ آپ اُن کی بات سن رہے ہیں جبکہ حقیقت میں آپ موبائل پر یا کسی اور کام میں مصروف ہوں، یہ بچوں کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے اور بچوں میں اعتما د کی کمی ہو جاتی ہے۔ اکثر مائیں یہ رپورٹ کرتی ہیں کہ وہ بچوں کو بھرپور وقت دے رہی ہیں جبکہ حال میں ہی کی گئی تحقیق کے مطابق ایشیاء کی خواتین اپنے بچوں کو ہر وقت اپنی نگرانی میں تو رکھتی ہیں مگر انھیں کوالٹی ٹائم نہیں دے پاتیں، جبکہ یورپین مائیں اپنے بچوں کو کم وقت دیتی ہیں مگر اُس کم وقت میں بھی وہ اُنہیں اتنی بھرپور توجہ دیتی ہیں جو بچوں کے اعتماد میں اضافہ کرتا ہے اور اُنھیں ذہنی، سماجی، جذباتی میدان میں آگے آنے میں مدد کرتا ہے۔ اِسی لیے مغربی ماؤں کے بچے ذہین، تندرست و توانا اور جذباتی طور پر کہیں آگے تھے ایشیائی ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں۔
پڑھے لکھے والدین کے معاملات بھی کچھ فرق نہیں، آج کل کے مشینی دور میں ملازمہ پیشہ مائیں جب دفتر سے گھر آتی ہیں تو بچوں کو ٹیب، لیپ ٹاپ، موبائل وغیرہ پکڑا دیتی ہیں اور خود گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ باپ بچوں کو گھمانے پھرانے لے جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کی وہ اپنے فرائض خوب سرانجام دے چکا ہے۔ جبکہ ماہرِ نفسیات کے مطابق بچوں سے تفصیل سے بات کی جائے، اُن سے اُن کی دِن بھر کی مصروفیات پوچھی جائیں، اُن سے مکمل نظریں ملاتے ہوئے اور سر ہلاتے ہوئے بات کی جائے۔ اُن سے اُن کے جذبات کے بارے میں پوچھا جائے اور اُن کے رویے، جذبات اور احساسات کی عکاسی کی جائے۔ بچوں کو یہ احساس دلانا کہ اُن کی بات آپ کے لئے بہت اہم ہے اور اُن کی بات کو بہت غور سے سنا جا رہا ہے، بچوں کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ماں باپ کے آپس کے تعلقات، لہجہ، بات کرنے کا انداز بھی بچوں کی یاداشت پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ کبھی کبھار والدین نوکر کو بے دھیانی میں اکثر ڈانٹ دیتے ہیں یا بچوں کے سامنے جھوٹ بول دیتے ہیں، جس سے بچے وہ رویہ غیرشعوری طور پر اپنے ذہن میں نقش کر لیتے ہیں، جو کہ بعد میں اُن کے کردار ورویہ میں نفی انداز میں رونما ہوتا ہے۔ جیسے بیجالاڈپیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے اسی طرح، بے جا ڈانٹ ڈپٹ، تشدد، بھی اُن کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق بچپن میں کی گئی جسمانی /جذباتی زیادتی یا لاپرواہی آگے جاکر غیر سماجی شخصی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ایسے بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ کر مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور نشے کا عادی بھی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح سوتیلے ماں باپ، سوتیلے بہن بھائی، چچاچچی/تایاتائی یا رشتہ داروں کا غیر مناسب رویہ بھی بچوں کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
پاکستان میں کی گئی تحقیق کے مطابق ہر روز، 2 1بچے زیادتی اور لاپرواہی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق جو افراد بچپن میں زیادتی یا لاپرواہی کا شکار ہوتے ہیں، ان کا اپنے بارے میں تصور خراب ہو جاتا ہے اور ان کی کارکردگی بہت برُے طریقے سے متاثر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنی ذاتی، سماجی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں بہت سارے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق بیس چالیس فیصد مریض جو نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، وہ زندگی میں زیادتی اور لاپرواہی کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔ ایک اور تحقق کے مطابق 78فیصد خواتین اور 82فیصد مرد جو کہ مختلف بیماریوں کا شکار تھے وہ بچپن میں ماں باپ کی سختی، گھریلو ماحول کی زیادتی اور لاپرواہی کا شکار رہے۔ مزید یہ کہ بچوں کی قابلیت کو سراہنا چاہیے۔ اُنکا دوسرے بہن بھایؤں سے مقابلہ کرنا، اُنہیں بھرپور وقت نہ دینا، دوسروں کے سامنے اُنکی خامیاں افشاں کرنا، اُن میں ضد اور ڈھیٹ پن پیدا کرتا ہے۔ بچوں کی صلاحیت کو جانچیں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ صرف جنرل نالج بڑھانے کیلئے استعمال کریں اور بچوں کا اعتماد بحال کریں۔غیر معیاری بات پر بھی اُنہیں جھرکنے کی بجائے اُنکی مثبت طریقے سے اصلاح کریں۔ اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ہر بات آپ سے شئیر کریں اور اگر کوئی اُن کے ساتھ بدسلوکی یا بے جا رویہ اختیار کرے تو وہ آپ کو ضرور بتائیں۔یقین جانیے آپ کی تھوڑی سی توجہ آپ کے بچے کا مستقبل سنوار سکتی ہے اور ذرا سی لاپرواہی اسے ذہنی مریض بنا سکتی ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں