ایک پودا جنت کا سودا

واقعی کیا اچھا سودا ہے۔ اللہ ہم سب سے یہ سودا کر والے۔ (آمین) ہر شخص اپنی جگہ اپنی سی کوشش بھی کرتا ہے صدقہ جاریہ کرنے کی،اس کڑی کی ایک بات ایک راز یا ایک وصیت سمجھ لیں ہم تمام لوگوں کیلئے یکساں ہے کہ نیکی کبھی ضا ئع نہیں ہو تی اجر صرف اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتے ہیں بس نیت نیک ہو نی چاہئے۔ میرے پاس ایک پیغام آیا تھا جس میں ایک صاحب سیف اللہ کشمیری نے بیجوں کو محفوظ کرکے درخت لگانے کی بہت آسان سی ترکیب بتائی کہ جو بھی پھل چھوٹا بڑا آپ کھاتے ہیں ان کے بیجوں کو نرم گیلی مٹی میں لپیٹ کر بال سی بنالیں اور ان بولوں کو ٹھنڈک میں سکھائیں دھوپ میں نہیں۔ پھر جہاں کہیں آپ پکنک یا سیرو تفریح کیلئے جائیں یا گھر کے اردگرد۔ مختلف خالی جگہوں سڑکوں کے کنارے یا اپنے ہی گھروں میں مناسب جگہوں پر پھینک دیں۔ جب موزوں حالات موسم بارش یا اس کے مطلب کے سازگار حالات ہونگے۔ مٹی کی گولیاں مٹی میں ہی اگ جائیں اور ان شاء اللہ ہزاروں میں سے سب نہ سہی سینکڑوں درخت مستقبل میں ماحول کو توازن دینگے۔آنے والے گرم اور سخت ترین موسم کو معتدل بنا کر سب کیلئے تسکین اور صحت کا ضامن ہونگے۔ ان شاء اللہ بس ہر ایک کو اپنا حصہ ڈالنا ہے کامیابی رب دے گا۔ آمین
کسریٰ نوشیروان نے ایک بوڑھے کوزیتون کاد رخت کاشت کرتے ہوئے دیکھا۔ اپنے وزیروں کے ساتھ رک کر اس سے پوچھا اے پیر! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اس کا پھل کھانے (یعنی اس درخت کے پھل لانے) تک زندہ رہو گے؟
بوڑھے نے جواب دیا ان شا ء اللہ ویسے بھی اگلوں نے زیتون لگا ئے تھے جو ہم نے کھائے۔ آج ہم لگا رہے ہیں تو اپنے سے زیادہ آنے والے لوگوں کیلئے لگا رہے ہیں تا کہ وہ کھائیں! ایران کا بادشاہ کسریٰ نوشیرواں حیران رہ گیا اور بے ساختہ کہا “مرحبا” اس لفظ کے ادا ہو نے پر وزیر اس شخص کو اشرفیوں کی ایک پوٹلی انعام کے طو ر پر دیتے تھے لہٰذا بوڑھے بابا کو اشرفیوں بھری تھیلی ملی۔ انعام پا کر ضعیف شخص نے مسکرا کر بادشاہ کو دیکھا جس کا خیال تھا کہ بابا اپنے ہاتھ سے لگائے جانے والے درخت کا پھل کھانے تک زندہ نہیں رہ پائے گا سوالیہ نظروں سے مسکرانے کا سبب پوچھا۔
ضعیف شخص نے کہا دیکھا بادشاہ سلامت! ابھی تو یہ بیج اُگا بھی نہیں لیکن پھل لے آیا اور اشرفیوں کی تھیلی دکھائی۔ نو شیرواں نے دوبارہ کہا “مرحبا” لہٰذا دوسری بار اسے اشرفیوں کی تھیلی دی گئی۔ بابا مصلحتاً ہنسے پوچھنے پر پھر بادشاہ سلامت کو ادب سے جواب دیا کہ دیکھا بادشاہ سلامت! دنیا میں ہر درخت سال میں ایک مرتبہ پھل لاتا ہے جبکہ آپ نے دیکھا کہ میرا درخت بے موسم میں “دو بار ” پھل لے آیا اور اشرفیوں کی تھیلی دکھائی بادشاہ نے کہا سبحان اللہ یہ شخص اپنی مثال آپ ہے نیکی اپنا آپ انعام ہے “مرحبا” کہا اور آگے بڑھ گئے۔ تیسری بار! جب دنیا کے بادشاہ انعام و اکرام دیں تو رب کی عطا کے کیا کہنے! ہم تمام والدین اساتذہ اپنے بچوں کو ہمیشہ کہانیاں سنا تے ہیں۔ سمجھتے سمجھتے وہ بھی ہم اور آپ کی طرح سمجھنے لگیں گے کہ نیکیاں کرتے جائیں آگے بڑھتے جائیں۔ اللہ کا کتنا شکر کہ پہلے اسکول کے بچوں کو یہ باتیں اسکول میں سمجھاتے سکھاتے اور اپنی محدود حد تک عمل بھی کرواتے تھے لیکن آج آپ کے بلاگ کے توسط سے ساری دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے تو پھر اس دنیا کو گلستان بنانے میں کیوں پیچھے ہٹیں۔ مرتے وقت تک نیک کام میں لگے رہیں۔ آخری سانسیں ہوں اور بیچ بو رہے ہوں تو بودیں رکیں نہیں۔ پودا جنت میں لگ جائے گا ان شا ء اللہ۔ دنیا وی انعامات اور تعریفوں سے بے نیاز ہو کر ہمیشہ نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کا نام بھی انسانیت ہے۔ اس لئے ہم الحمد للہ انسان ہیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں