وزیر اعظم کے نام کھلا خط

دنیا ئے کرکٹ “Legendary Star” جناب عمران خان صاحب، ابھی چند عشرے ہی گزرے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کرکٹ کے میدان میں بے مثال کامیابیاں عطا کیں اور آپ نے اپنی بہترین کارکردگی سے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔
آپکی اس لاجواب کارکردگی کی وجہ سے ہر بچہ بوڑھاجوا ن ہر کوئی آپ سے عقیدت و محبت رکھنے لگا۔ یہ عقیدت و محبت آپ کو بلند بانگ دعووں اور تقریروں کی بدولت حا صل نہ ہوئی تھی بلکہ صرف اور صرف آپ کی اعلیٰ کارکردگی اور دنیائے کرکٹ میں آپکی سچی لگن اور جذبے سے حا صل ہو ئی تھی۔ آج کئی سال گزرنے کے بعد جب آپ کو ایک مرتبہ پھر سے موقع ملا اپنے ملک وقوم کیلئے کچھ بہترین کر دکھا نے کا، تو آپ کے سب بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور عملی طور سے جو صورتحال آج ہمارے سامنے آئی وہ نہایت بدنما اور آپکے لمبے چوڑے دعووں کے بالکل برعکس ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی ہی تقریر میں آپ نے نہا یت دردمندانہ انداز سے “Stunted growth” کے بچوں اور ان سوا دو کروڑ پاکستانی بچوں کا ذکر کیا تھا جو اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں اور بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا کہ آپ “صحت اور تعلیم” دونوں ہی شعبوں پر خصوصی کام کریں گے۔
محترم جناب وزیر اعظم صاحب غذائی قلت کا شکاربچے جن کا ذکر آپ نے کیا اور جو تعلیم حا صل کرنے سے محروم ہیں ان کی محرومیوں کیلئے آپ کیا کام کریں گے جو بچے اسکول جا رہے ہیں ان کی اور ان کے والدین کی محرومیوں اور پریشانیوں کا بھی کوئی احساس ہے آپ کو؟
ہر سال کی طرح جب موسم گرما کی چھٹیوں کے اختتام کے بعد اس بار اسکول کھلے اور نئی کلاسوں کا آغاز ہوا اور والدین کو “درسی کتب ” خریدنے کیلئے “اردو بازار” یا “کتب بازار” جانے کا اتفاق ہواتو کتابوں اور کاپیوں کے نرخ دیکھ کر والدین کے ہوش ہی اڑ گئے۔ جناب وزیر اعظم صا حب اگر آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر ان کتابوں کی مارکیٹوں کا دورہ کریں تو آپ کو وہاں 90% فی صدوالدین اپنے نونہالوں کیلئے نئی کے بجائے پرانی کتب خریدتے نظر آئیں گیکیونکہ دن رات بڑھتی مہنگائی کے نتیجے میں نئی کتابیں اب ان کی دسترس سے دور جا چکی ہیں۔
تنگ دست اور متوسط طبقے کے محنت کش والدین اور ان کے پریشان حال تھکے چہرے اور گہری سوچوں میں گم نگاہیں شاید آپ کے دل پر کچھ اثر کردیں اور آپ کو معلوم ہے کہ آج عوام کس اذیت و کرب سے دوچار ہے۔ عام شہری اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے اپنی تمام خوا ہشات اور ضروریات کا گلا گھونٹ کر اور لاکھوں جتن کر کے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے ہیں، مگر دن بہ دن معیشت کے زوال کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مرہون منت یہ بھی مشکل ہوتا نظر آرہا ہے.
“مدینہ کی کامیاب اسلامی ریاست” میں اگر دس لوگوں کو تعلیم دینے پر ایک قیدی کو رہائی دینے کا نظام رائج تھا تو آج آپ کیوں نہیں اپنی عدالتوں میں اسے رائج کرتے۔ کیوں نہیں آپ عدلیہ کو حکم دیتے کہ قیدیوں سے ضمانت کی موٹی موٹی رقمیں لینے کے بجائے نادار اور مستحقین بچوں کے تعلیمی اخراجات کا ذمہ ان پر ڈالیں۔
“جناب وزیر اعظم صا حب” آپ اس وقت با اختیار ہیں اگر سچے دل سے تعلیمی معیار کی بہتری چاہتے ہیں تو اسی طرح کے کچھ عملی اقدامات ناگزیر ہیں کیونکہ عوامی مسائل کا حل زبانی جمع خرچ میں نہیں بلکہ فوری اقدامات اٹھانے میں ہے۔ جزاک اللہ

حصہ

جواب چھوڑ دیں