”پاکستان نازک دور سے گزر رہا“

زندگی میں جب ذرا سا ہوش سنبھالا تو اُس وقت کے وزیر اعظم کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ یہ تھے کہ”ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا،ابھی ہمیں چند دن ہوئے ہیں،حکومت سنبھالے ہوئے“
۔پھر جب 1993ء میں لڑکپن کو پہنچے تو برسر اقتدار حکمران نے یوں کہا کہ”پاکستان اِس وقت نازک دور سے گزر رہا،قوم جمہوریت کے ثمرات جلد دیکھے گی“۔اِسی طرح 1997ء میں پاکستان کے وزیر اعظم کچھ یوں گویا ہوئے”ہم اِس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے،قوم صبر کرے“۔2008ء آیا تو تب حکمران کی جانب سے یہ خبر ملی کہ ”وطن عزیز نازک دور سے گزر رہا،دس سال بعد جمہوریت واپس لوٹی ہے“۔2013ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم فرما رہے تھے کہ”پاکستان اِس وقت تاریخ کے انتہائی نازک و کٹھن دور سے گزر رہا،ہمیں اِس وقت بدترین دہشت گردی،بدامنی،مالی بحران،غربت اور بے روزگاری کا سامنا ہے،قوم ہمیں پانچ سال موقع دیں“۔اب 2019ء میں بھی موجودہ حکومت کے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ”ملک تاریخ کے نازک و مشکل دور سے گزر رہا،معیشت ڈانواں ڈول اور ملک کی حالت انتہائی دگرگوں ہے،بہت جلد حالات سدھرجائیں گے،ہم کوشش کررہے ہیں،ملک کو بہتری کی طرف لیجانے کی،قرضوں سے نجات دلانے کی طرف،مشکل اور تکلیف دہ حالات میں قوم صبر کرے،گھبرائے بالکل نہیں،برے حالات بہت جلد چھٹ جائیں گے،ابھی ہمیں چند دن ہوئے ہیں،حکومت سنبھالے ہوئے“۔بچپن،لڑکپن،جوانی اور اب تک اپنے ہر آنے والے حکمران کو اِسی قسم کی باتیں کرتے سُنا ہے،ملک عزیز پاکستان کو بنے ستر سال سے زیادہ ہوگیا ہے،مگر ملک کی حالت نہیں سنبھلی،بہتری اور اچھے کی اُمید میں آنکھیں ترس گئی ہیں،مگر بہتری اور اچھائی کا عنصر ناپید ہے،بہتر ہوا کچھ بھی نہیں۔
بے روزگاری،مہنگائی،بدامنی،دہشت گردی کا ناسور اب تک ہم سے کنٹرول نہیں ہوپا رہا،اداروں کی کرپشن و لوٹ مار پر روک تھام ہم نہیں کرسکے،ملک کی ترقی و خوشحالی کا سپنا،جو ہمارے آباؤ جداد نے دیکھا تھا،کو عملی جامہ ہم نہیں پہنا سکے،ملکی کرپٹ سسٹم میں بہتری ہم نہیں لاسکے،محکموں میں کرپشن و لوٹ مار کا سلسلہ ہم سے تھما نہیں،رشوت کے آگے پُل ہم نہیں باندھ سکے،ملک کے داخلی و خارجی مسائل کاپائیدار حل ہم سے نہیں ہوسکا،ملکی معیشت کو اپنی منہ زور کرپشن کے باعث ہم نہیں سدھار سکے،ملکی معاشی نظام میں عوام دوست ہمدردانہ پالیسیاں ہم نافذ نہیں کرسکے،جاگیردار،سرمایہ دار،زمیندار،صنعتکار کو پرموٹ ہم کرتے،ملک کے اہل،قابل،روشن دماغ افراد کو ہم آگے نہیں آنے دیتے،ملکی خزانے و وسائل کو ”باپ کی جاگیر“”لوٹ مار“ کا سامان سمجھ کر ہم ہڑپ کر جاتے،ملک کو بنانے،سنوارنے،سدھارنے کی جانب ہم نہیں بڑھتے،کفائت شعاری ہم میں نہیں ہے،فضول خرچی اور بے جا اسراف کے ہم قائل،حلال وحرام کی تمیز نہ ہمارے اشخاص میں ہے اور نہ اداروں میں،اُوپر کی کمائی کو ہم رشوت نہیں سمجھتے”محنتانہ“ جانتے۔ وسائل کی لوٹ مار،بندر بانٹ ہم سے نہیں رکتی،ملکی ترقی و بہتری کے منصوبے ہم تخلیق نہیں کرپاتے، سارے منصوبے باہر سے بن کر آتے،ہماری معاشی ترقی کے سروے بیرون ملک کے ادارے کرتے،ہمارے ملک کو چلانے کے لیے بیرونی ڈکٹیشن پر امپورٹڈوزیراعظم شوکت عزیزاورماہرین دیار غیر سے آتے رہے،ہماراموجودہ ملکی بجٹ غیر منتخب،باہر سے لائے گئے ”نمونے افراد“ آئی ایم ایف و دیگر بیرونی اداروں کے احکامات کی روشنی میں بناتے،مُلک کیسے چلنااور چلانا سارے پیغامات و احکامات باہر سے حکما آتے،سیاست میں کون IN کونOUT سارے فیصلے کہیں اور سے آتے،سارے فیصلے مصلحتوں مارے،ذاتی مفادات کی غرض لیے ہوتے،ملک کے لیے ایک بھی صحیح فیصلہ نہ لے پاتے،اپنی مشکلات و مصیبتیں خواب خرگوش کے مزے لیے خواب غفلت میں رہ کر خود بڑھاتے اور پریشان ہوتے، اپنی کرسی و اقتدار کے لیے ہی ہر ایک حکمران نے سوچا،ملکی عزت ووقار کس میں،کبھی نہ دیکھا،ملک کی رعایا کیا چاہتی،کبھی نہ جانا،کون سے فیصلے ملکی تقدیر بدلنے والے،دور رس نتائج کے حامل اور کون سے ملکی نصیب کھوٹا کرنے والے،نہ سمجھا۔اپناسارا قیمتی پریڈ خوشامدیوں،فریبیوں،قصہ گوئیوں،درباریوں،شعر گوئی،جی حضوری کرنے والوں میں گزارا،ملک کی درست سمت کا تعین نہ کیا اور اصل مقام کون سا اور کہاں جانا،نہ جانا۔ملک کو اپنی عیاشیوں،اللوں تللوں کے باعث قرضوں کی دلدل اور پستیوں میں دھکیلا،اپنے خرچے کم نہ کیے،عوام کو ہی ہر طرف سے رگیدا،خود بطور حکمران BWB سرکاری لکثرریزگاڑیوں اور بہترین ہیلی کاپٹروں،جہازوں میں عیش وعشرت کا سارا سازوسامان لیے بیدردی سے گھومے،قوم کو حال و بے حال کردیا، کے پلے ککھ نہ چھوڑا،اپنی عیاشیوں اور سیر سپاٹوں کے لیے بے مقصد،بے کار،بغیر کام کے غیر ملکی دورے کرکے ملکی خزانے کا غلط اوربے دریغ استعمال کیا، خود تو گئے ہی بیرونی دوروں پر،ساتھ بھاری”فوج ظفر موج“ کو بھی لیجاکر اُن کا حصہ بھی برابر بٹورا، ملک کو اپنے لالچ،ہوس کی بھینٹ چڑھایا،اِس کو بیدردی سے نوچا،لوٹا،کھایا،صاف کیا،بعض تو اِس ملک کو ملنے والے تحفے تحائف بھی کھاگئے،ملک کے ککھ پلے نہ چھوڑتے ہوئے اسے کسی قابل نہ چھوڑا،پھر کیاکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ما سوائے ”قائداعظم وقائدین تحریک پاکستان“ سارے حکمران عنانِ اقتدار سنبھالتے وقت سے ہی کہے جا رہے ہیں کہ ”ملک نازک دور سے گزر رہا،ابھی ہمیں چند دن ہوئے حکومت سنبھالے ہوئے“۔
ملکی معیشت ڈانواں ڈول،ملک دیوالیہ ہونے کے قریب، حالات پہلے سے بھی ابتر،رعایا پراگندہ اورپریشان حال،مہنگائی کا جن قابوسے باہر،ملک کی داخلی و خارجی صورتحال انتہائی خراب،دشمن کا خطرہ ہر دم موجود۔آخر ایسا کیوں۔۔۔۔۔۔؟کبھی اِس بارے بھی سوچا کیا۔۔۔؟۔میرے دل میں اُبھرتے،سینے میں چھبتے،بدن و وجود میں سے آر پار ہوتے اِن سنگین معاملات و تلح حقائق پر اُٹھتے سوالات پر بحثیت وزیر اعظم پاکستان آپ کو کبھی فرصت ملے تو اپنے قیمتی ٹائم سے وقت نکال کر اِس بارے میں بھی سوچیئے گا ضرورکہ آخر ایسا کیوں؟اورآخر ایسا کب تک چلتا رہے گا۔#

حصہ

جواب چھوڑ دیں