آپ اپنا حصہ کب ملائیں گے؟

اس کو بھی مان لیا جائے کہ قوم پر جوعذاب ٹوٹا ہوا ہے اس میں سارا کا سارا قصور سابقین ہی کا ہے۔ انھوں نے قوم کو اتنا مقروض کر دیا تھا کہ آنے والوں کو وہ قرض چکانا مشکل ہو گیا۔ قرض چکانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو کچھ بھی پاکستان کے خزانے میں تھا وہ سب کا سب خالی ہو گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو چلانے کیلئے مزید قرضہ لینا موجودہ حکومت کی مجبوری بن گیا۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ جو کچھ موجود تھا وہ تو سابقہ لئے گئے قرضے اتارنے کی نذر ہوا جس کی وجہ سے بے شک نئے قرضوں کی ضرورت پڑی لیکن جو قرض لیا گیا وہ کہاں چلا گیا؟۔ ایک سال کے دوران جتنا قرض حاصل کیا گیا ہے وہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران لئے گئے قرضوں کے برابر ہے اس لئے یہ عذر کہ حکومت کے پاس ملک چلانے کیلئے سرمایہ نہیں ہے، درست نہیں۔ یہ عذر اس وقت تو قابل قبول ہو سکتا تھا جب کسی بھی ذریعے سے پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی قرض نہ ملا ہوتا۔ اس قرض میں وہ مد بھی ہے جو ادھار ڈیزل اور پٹرول کی صورت میں پاکستان کو 3 سال تک ملتی رہے گی گویا پاکستان کو فی الحال اس مد میں بھی تین سال تک کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی۔ ادھار پر تیل ملنے کا وعدہ و معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا انوکھا اور پہلا واقعہ ہے جو اس حکومت کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے خزانے میں جو بھی رقم تھی وہ بے شک قرض اتارنے میں صرف ہوئی لیکن حاصل شدہ بڑے بڑے معاہدے، پیکجز اور ادھار ترسیلات کے مد میں جو کھربوں ڈالرز حاصل ہوئے وہ آخر کہاں غائب ہوگئے؟۔ اب دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ قرضوں کے حاصل کرنے کا دعوے غلط ہیں یا پھر سابقہ حکومتوں سے بھی کہیں بڑے بڑے غاراور سرنگیں موجودہ حکومت میں ہیں جس کی وجہ سے اگر ایک جانب سے بڑی تعداد میں قرضہ مل رہا ہے تو وہ دوسری سمت سے بڑی بڑی سرنگوں اور غاروں میں جارہا ہے جس کا علم یا تو حکومت کو بالکل بھی نہیں یا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس لئے خاموش ہے کہ وہ غار اور سرنگیں ایسے مقتدر حلقوں کی ملکیت ہوں جس کی بیساکھیوں پر موجودہ حکومت کھڑی ہوئی ہے۔

بے تحاشہ قرضے حاصل کرنے کے باوجود بھی عالم یہ ہے کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ہے کہ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ وہ کون سی اشیائے ضروریہ ایسی ہیں جن کی قیمت آج سے ایک سال قبل اگر 100 روپے تھی تو اب 150 سے 200 روپے نہ ہو گئی ہو۔ لیکن حکومت کا پیٹ ہے کہ پھر بھی بھرتا دکھائی نہیں دے رہا۔

کھانے پینے کی عام اشیا تو پہلے ہی کونسا عوام کی پہنچ میں تھیں۔ اب تو عالم یہ ہوگیا ہے کہ عوام اگر ان کی جانب گہری نظروں سے دیکھ بھی لیں تو دکاندار دیکھنے تک کی قیمت طلب کر لیتے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے بعد تو کچھ بھی نہیں کہا جاستا کہ آنے والے دنوں میں عوام سانس بھی لے سکیں گے یا دم گھٹ جانے کے سبب دنیائے فانی سے ہی کوچ کر جائیں گے۔

روزانہ 12 ارب کی کرپشن پر بند باندھ دیئےجانے کے باوجود، ہر کسی قسم کی کرپشن سے پاک حکومت کے ہوتے ہوئے، حکومتی اخراجات میں حد سے زیادہ کفایت شعاری اختیار کرنے اور ملک کی دولت کو لوٹنے والوں کے پیٹوں کو چیر کر لوٹی ہوئی دولت نکال لینے کے باوجود اگر ڈالرز 94 روپے سے 160 روپے پر پہنچ جائے، عوام پر ٹیکسوں کے پہاڑ توڑے جائیں اور کھانے پینے کی عام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو باتیں تو بنیں گی اور ان باتوں کا جواب بھی بہر صورت موجودہ حکومت دینا پڑے گا۔

میں نے اپنی 66 سالہ زندگی میں کبھی افواج پاکستان کی جانب سے، کسی بھی بجٹ کے پیش کئے جانے کے بعد یہ نہیں سنا کہ “مشکل ترین معاشی صورت حال کی وجہ سے عوام کو موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کو قبول کرنا ہی ہوگا”۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا دور حکومت ہے، خواہ فوجی ہو یا من موجی، جس میں ہمیشہ یہی راگ نہ الاپا گیا ہو کہ مشکل معاشی صورت حال کی وجہ سے حکومت کو مشکل اقدامات اٹھانا ہی ہونگے۔ یہ جملہ ہر حکومت نے ہر بجٹ کے موقع پر دہرایا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ افواج پاکستان نے عوام سے یہ کہا ہو کہ وہ حکومت کے ان مشکل اقدامات اور فیصلوں کو قبول کرے بلکہ اس کے بر عکس حکومتوں کا تیا پانچہ ان کے ایسے ہی “مشکل” اقدامات اٹھانے کا سہارا لیکر کیا گیا اور ان کے “مشکل” اقدامات کو بدعنوانی کا نام دیکر عوام کی ہمدردیا سمیٹی گئیں جس کی عوام سے داد تحسین حاصل کی گئی۔

ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس بیان کو مثبت انداز میں کچھ یوں لیتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سول حکومت اور عسکری قوت ایک پیج پر ہے لیکن اگر ایک پیج پر ہونے کے باوجود بھی، ایک سول حکومت روپے کو ردی کے کاغذ میں تبدیل کردے، بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتیں آسمان تک پہنچادے، عوام پر ٹیکسوں کی بمباری کردے، اشیائے ضروریہ کو عوام کی پہنچ سے دور سے دور تر کردے، عوام پر نوکریوں کے دروازے بند کردے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دے کر لاکھوں کو بے روز گار کردے، شہروں کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے بہانے نصف صدی سے بھی پرانی مارکٹوں کو بلڈوز کردے، زمینوں کی بحالی کے بہانے ستر ستر سال سے آباد غریبوں کے گھروں کو مسمار کردے اور لوگوں کی زندگی ہر اعتبار سے جہنم بنا کر رکھ دے تو اس ایک پیج سے کیا وہ بیشمار پیجز والی حکومتیں اچھی نہیں تھیں جن کی ساری کرپشن، لوٹ مار اور بد عنوانیوں کے باوجود روز گار کے نئے نئے مواقع لوگوں کو مل رہے تھے۔ لوگ اپنے کاروبار میں مصروف تھے، اشیائے ضروریہ آج کے اعتبار سے بہت ارزاں تھیں اور عوام پر ٹیکسوں کی بمباریاں نہیں ہو رہی تھیں۔

جب بھی کوئی “مشکل” قدم اٹھانے کی بات ہوتی ہے، روئے سخن ہمیشہ عوام ہی کیوں ہوتے ہیں۔ جب بھی یہ بہانے سامنے رکھے جاتے ہیں کہ ملک کی دولت کو فلاں فلاں سیاستدانوں نے لوٹا تو اس لوٹ گھوٹ کے سارے بدلے غریبوں ہی سے کیوں طلب کئے جاتے ہیں۔ کیا ہر کرپشن، ہر لوٹ مار، ہربدعنوانی اور ہر حرام خوری کے ذمہ دار عوام ہی ہوتے ہیں؟۔

سننے میں آرہا ہے کہ اب گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں تک کو ٹیکس نیٹ میں شامل کئے جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ وہ ریڑھی والے جو سارا دن، ہر قسم کے موسم کی سختی اپنے اوپر جھیل کر اپنے بیوی بچوں کیلئے شام کی روٹی کا انتظام کرنے کیلئے اپنی جان کو کھلا رہے ہوتے ہیں ان کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے گا۔ پان کی دکان کے کھوکھے والے، چھوٹے چھوٹے کیبنوں میں معمولی معمولی کاروبار کرکے دال دلیے کا بند و بست کرنے والے بھی ٹیکس کے پنجہ خونی سے نہیں بچ سکیں گے۔ اگر ایک پیج پر سب کے جمع ہونے کا یہی مطلب ہے تو پھر ہر چہرہ کیوں نہ کئی کئی صفحوں والے ادوار کے گیت گاتا نظر آئے گا اور شاید اب پاکستان کے عوام اسے جانب نہایت سرعت کے ساتھ بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔

عوام تو پاکستان بننے سے کئی دھائیوں پہلے سے قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ یہ پاکستان بیس لاکھ سے زیادہ انسانی جانوں کی قربانی کے بعد حاصل ہوا۔ ہر تبدیلی کی اچھی امید کی خاطر عوام ہی سڑکوں پر آئے اور دامے درمے سخنے شریک سعی و جہد ہوئے۔ عوام ہی تھے جو روس کے آگے ڈٹ گئے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت کے پہاڑ کو رائی کی طرح بکھیر کر رکھ دیا۔ پھر یہی عوام تھی جو امریکہ کو خوش کرنے کیلئے دہشتگرد قرار دیئے گئے اور پھر ہماری عسکری قوت نے ان پر دن رات بمباری کرکے ان کی بوٹیاں بوٹیاں کردیں۔ پھر یہی تو وہ عوام تھے جو آئی ڈی پیز بنا دیئے گئے اور آج تک وہ اپنے گھروں کو نہ لوٹ سکے، یہی تو وہ عوام تھے جو لال مسجد میں بیدردی کے ساتھ مارے گئے اور یہی تو وہ ہیں جو موجودہ حکومت کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر اس امید پر لے کر آئے کہ پٹرل 34 روپے، ڈالر 50 روپے اور ہر قسم کی اشیائے ضروریہ ارزاں داموں میسر آئیں گی۔ ایک کروڑ نوکریاں ملیں گی، 50 لاکھ گھر تعمیر ہونگے۔ ڈیم بنیں گے، انصاف گھر کی دہلیز پر میسر ہوگا اور لوگ باہر کی ذلت بھری ملازمتیں چھوڑ کر اپنے پاکستان کی جانب کروڑوں کی تعداد میں لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین ہوں یا اسٹبلشمنٹ۔ کارخانے دار ہوں یا مل مالکان، سرمایہ دار ہوں یا سردار، ملک، چوہدری، خان یا وڈیرے یا پھر طاقتور ترین ادارے کے اعلیٰ عہدیداران، قوم کے مشکل وقت میں یہ خود کتنا پیش پیش ہوتے ہیں؟۔ یہ قربانی طلب کرنے والے خود عثمان غنی کی طرح کتنے اونٹوں پر لدے اناج کو اللہ کی راہ میں مفت تقسیم کرتے ہیں، کتنی کوٹھیاں یا زمینیں بیچتے ہیں، کتنے ڈالرز بینک میں جمع کراکر پاکستانی روپے خریدتے ہیں، کتنی زمینیں عام کسانوں میں تقسیم کر تے ہیں، اپنی جائیدادوں کی درست مالیت کتنی ظاہر کرتے ہیں اور ان جائیدادوں کے مطابق کتنا ٹیکس ملک کے خزانوں میں جمع کراتے ہیں؟۔

عوام نان شبینہ کو بھی ترسیں، ملک کے خزانے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھریں، عوام ہی قربانیاں دیں اور اور عوام ہی ہر مشکل فیصلے کی سزا بھگتیں اور پاکستان کے سارے حرام خور ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھا کر بغیر ڈکار لئے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو چند فیصد منہا کرکے ہضم کر جائیں۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہی موجودہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو کرنا تھا تو یہ کام ضروری تھا کہ اِن ہی بے ضمیر لوٹوں کے ٹولوں سے لیا جاتا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں