اپنے حصے کا درخت لگاتے جاتے

جنوب مشرقی ایشیا میں واقع اور 7،641 جزیروں پر مشتمل فلپائن اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ، اس کے اطراف میں تین سمندر بھی موجود ہیں۔ مغرب میں South China Sea، مشرق میں Philippine Sea اور جنوب مشرق میں Celebes Sea واقع ہے۔ جب آپ سمندروں کی حدود کو پار کر لیتے ہیں تو شمال میں تائیوان، شمال مشرق میں جاپان، مغرب میں ویتنام، مشرق میں پالو جبکہ جنوب میں ملائیشیاء اور انڈونیشیا موجود ہیں۔

فلپائن آبادی کے اعتبار سے ایشیاء میں 8 ویں جبکہ دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے، کمال یہ بھی ہے کہ فلپائن کے ایک کروڑ لوگ اپنے ملک سے باہر نوکریاں کر رہے ہیں۔ ہمارا موضوع نہ فلپائن ہے اور نہ ہی وہاں کی آبادی بلکہ حال ہی میں فلپائن کی اسمبلی میں پیش ہونے والا بل ہے-

یہ بل ان کے دو ارکان اسمبلی Gary Alejano اور Strike Revilla نے پیش کیا. اس بل کو Graduation Legacy for the Environment Act کا نام دیا گیا ہے اور اس بل کر رُو سے ہر وہ بچہ جو اسکول میں داخل کروایا جائے گا یا وہ بچے جو پہلے ہی سکول میں موجود ہیں وہ اپنا گریجویشن مکمل کرنے تک کم از کم 10 درخت ہر صورت میں لگائیں گے۔ اس طرح تقریبا ایک کے بعد دوسری نسل آنے تک 525 بلین درختوں کا ملک بھر میں اضافہ کیا جائے گا، یہ بل اس تحقیق کے بعد بھی پیش کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ 1990 سے لے کر 2005 تک فلپائن میں 3۔32 فیصد جنگل ختم ہو چکا ہے اور لکڑی کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے اس کی رفتار میں خاصی تیزی آ گئی ہے لیکن سلام ہے فلپائن کے ارکان اسمبلی پر جو اپنے ملک اور اپنی نئی نسل دونوں سے پیار کرتے ہیں وہ بلوچستان کے بچوں کے دودھ اور بسکٹ کے 12 ارب روپے ہڑپ کر جانے والوں کے “وزیر” بنانے کے بجائے ان کی خاطر اسمبلی میں درخت لگانے کا قانون پاس کرتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد پورے ملک میں ایگری کلچر انڈسٹری اور اس کی پڑھائی کرنے والوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو جائے گا، کیونکہ یہ درخت “بلین سونامی” کی طرح ہرگز نہیں ہوں گے بلکہ درختوں اور پودوں کے ماہرین پورے ملک میں دورے کرنے کے بعد علاقے کے ماحول، اس کی آب و ہوا، زرخیزی اور مٹی کے مطابق پودے اور درخت تجویز کریں گے۔ ان کی فہرست حکومتی سطح پر مقامی اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے حوالے کر دی جائیں گی۔ حکومت پودوں اور درختوں کی موجودگی کو بھی یقینی بنائے گی تاکہ یہ 525 بلین درخت بروقت لگ اور پنپ سکیں ۔

دوسری طرف آپ ہمارا المیہ ملاحظہ کریں کہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں11 فیصد یعنی کے 66۔2کروڑ یوکلپٹس کےدرخت لگا دیے گئے ہیں۔ یہ وہ درخت ہے جس پر نہ کوئی جانور مُنہ مارتا ہے اور نہ ہی کوئی پرندہ گھونسلہ بناتا ہے۔ ماہر جنگلات جناب سلمان رشید کے مطابق پاکستان کی اپنی تحقیق کے مطابق یہ درخت صرف چوبیس گھنٹے میں 150 لیٹر پانی پی جاتا ہے، اس درخت کو لکی مروت میں دریا کے کنارے لگایا گیا تو پورا دریا ہی سوکھ گیا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ 1980 پھر 1990اور 2000 کی دہائی کے آغاز میں یعنی تین مرتبہ سندھ اورپنجاب اسمبلی نے اسے ماحول دشمن قرار دیکر پابندی لگادی تھی۔سلمان رشید نے مزید بتایا کہ انہوں نے محکمہء جنگلات کے اعلیٰ حکام کو یہ کہتے سنا ہے کہ “لکڑ دکھانی ہے جی” اور کیونکہ یہ درخت بغیر کسی دیکھ بھال کے اور جلدی پنپ جاتا ہے اس لیے اسے آسٹریلیا سے بڑی تعداد میں منگوا کر لگایا گیا ہے۔

من حیث القوم کیونکہ ہم احسان فراموش واقع ہوئے ہیں، ہم اپنے ایٹمی سائنسدان تک کو اٹھا کر نظر بند کر دیتے ہیں اور اس کی عزت کو خاک میں ملا دیتے ہیں، اس لیے درخت جیسی دو ٹکے کی چیز ہمارے لیے کیا حیثیت رکھتی ہے؟ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خصوصاً کراچی میں اور عام طور پر پورے ملک میں درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بارشوں میں کمی واقع ہو چکی ہے، پورا کراچی بورنگ کروانے پر مجبور ہے، پانی کی سطح ہر گزرتے دن مزید نیچے ہوتی چلی جارہی ہے جبکہ ہر روز نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

آپ نے غور کیا ہوگا پہلے گھروں کے اطراف دیواروں کے ساتھ ساتھ کیاریاں ہوتی تھیں، کوئی نہ کوئی نیم، شریفے یا پھلی کا درخت لگا ہوتا تھا، یہ درخت، کیاری اور پودے درجہ حرارت کو قابو میں رکھتے تھے۔ شدید گرمی اور لُو میں بھی جب ہوا ان درختوں اور پودوں سے ٹکراتی تھی تو ٹھنڈک کا احساس دیتی تھی۔ کوئی مسافر ،پھل یا سبزی فروش کچھ دیر کے لیے درختوں کے سائے میں سُستانے لیٹ جاتا تھا اور جاتے جاتےمالک مکان کو مفت کی دعائیں بھی دے جاتا تھا۔ ہم نے لوگوں سے سایہ چھین لیا اور اللہ تعالی نے ہمیں ان کی دعاؤں سے محروم کر دیا۔

یاد رکھیں ہماری حکومت اور اس حکومت کے قابل وزراء سمیت ہماری اسمبلی کے “معزز” اور “مہذب” ارکان اسمبلی کو اس مسئلے سے کسی بھی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان سب کے خاندان اور بچے ملک سے باہر سکون کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ سب بھی اپنا فارغ وقت وہیں جا کر گزارتے ہیں، لیکن ذہن میں رہے کہ ہم اور آپ یہیں پیدا ہوئے ہیں اور کہیں بھی چلے جائیں واپس دفن اسی زمین میں ہونا ہے۔ ہمارے بچوں نے بھی یہیں رہنا ہے۔

ہر شہر میں آل پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے نام سے ادارہ موجود ہے، جس میں شہر بھر کے سینکڑوں اسکول موجود ہیں۔ آپ فلپائن والا بل اپنے طور پر طے کرلیں اور اسکول میں موجود ہر بچے سے کم ازکم پانچ درخت اور پودے لگوائیں جو ان بچوں کے اسکولز اور ان کے اپنے گھر کے باہر لگائےگئے ہوں تاکہ وہ باآسانی ان کی دیکھ بھال کرسکیں۔

ایسوسی ایشن کو بھی چھوڑیں، درد دل رکھنے والے اسکول مالکان اور پرنسپل صاحبان اپنے طور پر طے کرلیں، کالجز اور یونیورسٹیز میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر بچہ کم ازکم پانچ درخت لگائے اور وہ ایسی جگہ لگائیں جو ان کی پہنچ میں ہوں۔ ایک بچہ کم از کم دس سال اسکول میں، دو سال کالج اور چار سال یونیورسٹی میں گزارتا ہے اور اس دورانیے میں کوئی بھی درخت پھل پھول کر جوان ہو جاتا ہے۔

کورنگی انڈسٹریل ایریا، سائٹ ایریا اور جہاں بھی کراچی میں صنعتیں اور کارخانے موجود ہیں وہ اپنے ادارے، فیکٹری اور کارخانے کے آس پاس چند درختوں کا اضافہ کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے ادارے میں کسی مالی کی مستقل نوکری پکی کریں اور اس سے ان درختوں اور پودوں کی دیکھ بھال کروائیں اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنے طور پر زندگی میں ایک درخت کا اضافہ ضرور کریں جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن سکے کیونکہ بقول احمد فراز:

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں