امریکا ایران کشیدگی، انجام کیا ہوگا؟

USA vs Iran

یہ اس زمانے کی بات ہے جب پرویز مشرف کے رخصت ہونے کے بعد آصف زرداری پاکستان کے صدر ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کے متعدد علاقوں پر نہ صرف امریکی ڈرون محوِ پرواز رہتے تھے بلکہ وہ جب چاہتے اور جہاں چاہتے حملہ آور ہوجایا کرتے تھے جس کی زد میں امریکا کے نقطہ نظر کے مطابق  “دہشتگرد” تو بمشکل ایک یا دو آتے تھے لیکن بیسیوں معصوم و بے قصور شہید ہوجایا کرتے تھے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ٹی وی رپورٹر نے ان سے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک نہیں؟، جواب ملا ہے۔ کہا تو کیا ہمارے ملک میں یہ صلاحیت نہیں کہ ہم امریکی ڈرون مارگرائیں؟، جواب ملا پاکستان کے پاس بھر پور صلاحیت ہے کہ وہ امریکی ڈرون مارگرائے۔ پھر سوال کیا گیا کہ پاکستان امریکی ڈرون گراتا کیوں نہیں؟، جواب ملا بات ڈرون گرانے کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ پھر کیا ہوگا؟۔

اصل میں بات یہ ہے ہم جس کا کھارہے ہوتے ہیں اس پر غرانا بہت مشکل ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ڈالر آسمان سے برس رہے تھے۔ پاکستان نے کوئی بڑی بڑی ملیں اور کارخانے نہیں بنالئے تھے کہ جن سے اچانک پاکستان خوشحالی کی جانب گامزن ہو گیا تھا۔ پاکستان نے کوئی ایسی انوکھی شے ایجاد نہیں کرلی تھی کہ پوری دنیا ان کی طالب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے پاس غیر ملکی کرنسی نہروں اور دریاؤں کی صورت میں پاکستان کی جانب بہہ کر آ رہی تھی۔ جب ایسا کچھ نہیں تھا تو پاکستان کے عوام نے کبھی سوچا کہ آخر وہ کونسا قارون کا خزانہ ہے جس کو پاکستان نے دریافت کر لیا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں ترقیاتی کاموں کا ایک جال بچھ گیا ہے۔ پورے ملک میں بڑے بڑے کشادہ روڈ بننا شروع ہو گئے ہیں، انڈر پاسز بننا اور اورہیڈ پل اگنا شروع ہو گئے ہیں۔ پورے پاکستان میں سڑکیں چمچمانے لگی ہیں لیکن دولت ہے کہ پھر بھی ختم ہو کر نہیں دے رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سارے ترقیاتی کاموں کے نتیجے میں پورے ملک میں خوشحالی آئی، سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ملازمتوں کے مواقع ملے۔ سرمایاداروں کا اعتماد بحال ہوا۔ کئی شعبے بہت ہی مضبوط و توانا ہوئے۔ سڑکوں کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے اعلیٰ، آرام دہ اور تیزرفتار ٹرانسپورٹ کا اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ کے اضافے کی وجہ سے  ٹرانسپورٹ سے متعلق نہ جانے کتنے اور کارو بار کھلے۔ بہت سارے ایسے شعبے وجود میں آئے جن کے قیام کا کوئی تصور پاکستان میں موجود تھا ہی نہیں جن میں موبائل فون کا کھلونا بن جانا، اے ٹی ایم کا قیام، بینکوں کے جال بچھ جانا اور عوام کیلئے قرضوں کی اسکیم کی وجہ سے گھر گھر کاریں اور موٹر سائیکلوں کی ارزانی بلا شبہ گزشتہ دور حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔

آصف زرداری کے ہر سوال کا جواب اس بات کا مظہر تھا کہ ہم جس کا کھا رہے ہیں، تمام تر جوابی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود اس کا جواب اس لئے نہیں دے سکتے کہ ہم کھلانے والوں پر غرا نہیں سکتے۔

مذکورہ ساری ترقی یا ترقیاتی کاموں کے پس پردہ جو حقائق ہیں وہ بہت تلخ ہیں اس لئے کہ اس ساری جاہ و حشمت کے پسِ پشت اپنی دھرتی ماں اور ماں کے بیٹے بیٹیوں کی عزت و آبرو کا سودا تھا جو اس وقت کے حکمرانوں نے کیا۔ اپنی شاہراہیں ان کے حوالے کیں تاکہ وہ خوں ریزی کا سارا ساز و سامان بآسانی لا اور لے جا سکیں۔ اپنی ایئر بیسز ان کے حوالے کئے تاکہ وہ افغان سر زمین کو آگ و خون میں نہلا سکیں اور دھرتی کے بیٹوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کو ان کے حوالے کیا گیا۔ یہ  وہ انتہائی بے شرمی کے اقدامات تھے جس کے عوض آسمانِ شیطنت سے پاکستان پر ڈالروں کی وہ بارش ہوئی کہ پوری غیور قوم غرانا ہی بھول گئی اور بے حمیت کے عوض حاصل ہونے والی دولت کے مزے لوٹتی رہی۔

ان حقائق کو نگاہوں کے سامنے رکھا جائے تو اس وقت کے صدر پاکستان، آصف زرداری کا یہ بیان کہ “ہم ڈرون گراسکتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا” درست ہی لگتا ہے اس لئے کہ ہم ان پر غرانے کا منھ ہی نہیں رکھتے جن کا کھا رہے ہیں۔ ہم کبھی شاہین و شہپر ہوا کرتے تھے لیکن ہم نے اپنے آپ کو “طائر لاہوتی” بنا لیا۔ مردار کھا کھا کر ہمارا وجود تو شاہین و شہپر سے کئی گناہ بڑھ گیا لیکن پرواز کی تگ و تاز سے محروم ہو گیا اس لئے ہم آج تک ڈرون گرانے صلاحیت رکھنے کے باوجود بھی ایک ڈرون گرانے میں اس لئے ناکام ہیں کہ ڈرون کا ہر حملہ اگر ایک جانب بم مارکر بیسیوں بے گناہوں کی جان لیتا ہے تو دوسری جانب ڈالروں کی بارش برساتا ہوا واپس چلاجاتا ہے۔

خودار قوموں کے اطوار ہی الگ ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ جب کھاتے ہیں اپنا شکار کیا ہوا کھاتے ہیں۔ ایران جو امریکا کے مقابلے میں کنجشک فروع مایہ بھی نہیں اس نے امریکا کا ایران کی جانب بھیجا گیا ڈرون مار گرایا۔ ایران کہہ چکا ہے کہ وہ خلیج میں موجود امریکی فوجی بحری بیڑے کو ہدف بنائے گا اور ایران پر حملے کی صورت میں وہ لازماً جوابی کارروائی کریگا اور اس نے ایسا کر دکھایا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رد عمل کے طور پر امریکا ایران کے ساتھ بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ممالک جو امریکا کے اتحادی ہیں اور امریکا کے خلاف کسی بھی قسم کے مخاصمانہ عزائم نہیں رکھتے کیا وہ امریکا کی دست برد سے بچے ہوئے ہیں؟۔ کیا عرب ممالک پر اس کا عملاً قبضہ نہیں؟، کیا پاکستان اس سے محفوظ ہے؟، کیا افغانستان امریکا کے خلاف کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کیا ترکی امریکا کے نشانے پر نہیں؟۔ اگر یہ سب درست ہے تو پھر تمام اسلامی ممالک میں ایران “شیر” ہوا کہ نہیں۔

یہاں دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ امریکی ڈرون گرائے جانے کے بعد صدر ٹرمپ ایران پر حملہ کر بیٹھنے کی پوری منصوبہ بندی کر چکے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ  “پیر کو بین الاقوامی پانیوں میں اڑنے والے ایک ڈرون کو مار گرائے جانے کے بعد ہم گذشتہ رات تین مختلف مقامات پر جوابی کارروائی کرنے کے لیے تیار تھے“۔ گویا یہ بات طے کرلی گئی تھی کہ ایران کو اس کی “بدمعاشی” کی سزا دی جائے گی تو وہ کیا بات تھی جس کی وجہ سے امریکا نے ایسا نہیں کیا؟۔ اس سوال کا جواب بھی وہ اپنے ٹوئٹ میں خود ہی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ “جب میں نے پوچھا کہ اس کارروائی میں کتنی ہلاکتوں کا خطرہ ہے تو ایک جنرل نے جواب میں بتایا کہ سر 150۔ لہذا حملے سے دس منٹ پہلے میں نے فیصلہ تبدیل کر دیا”۔ واہ ڈونلڈ ٹرمپ واہ

بڑے بھولے بڑے سیدھے کہیں کے

ذرا دھبے تو دیکھو آستیں کے

جس کی نظروں میں 150 تو کیا لاکھوں کی کوئی اہمیت نہ ہو اور انسانی خون کو پانی کی طرح بہانا جس کا معمول ہو اس نے حملہ نہ کرنے کا بہانا ڈھونڈا تو وہ بھی کیا ڈھونڈا۔

ایک اور ٹوئٹ میں فرماتے ہیں کہ “ایک ڈرون کو مار گرائے جانے کا جواب دینے کی مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہماری فوج تیار اور دنیا کی بہترین فوج ہے۔ پابندیاں انھیں (ایران کو) تنگ کر رہی ہیں اور گذشتہ رات مزید عائد کر دی گئی ہیں۔ ایران امریکہ اور دنیا کے خلاف کبھی جوہری ہتھیاراستعمال نہیں کر سکے گا”۔

ایک جانب اس قسم کی گیدڑ بھپکیاں ہیں تو دوسری جانب ایران کے ایک سرکاری اہلکار نے خبردار کیا کہ ایران کے خلاف کسی بھی حملے کے علاقائی اور بین الاقوامی نتائج ہوں گے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب آپ ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کریں گے تو ہم اپنی سر زمین کا دفاع کریں گے۔

ایران کا یہ خودارانہ انداز ہی ہے جو ایران پر امریکا کے حملے کو روکے ہوئے ہے۔ مجھے اس بات کا اندازہ تو نہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں کس حد تک با صلاحیت ہے لیکن اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ڈاکٹر عبد القدیر پر ایران کے ہاتھوں ایٹمی راز منتقل کرنے کا ہی الزام تھا اس لئے ممکن ہے کہ ایران صلاحیت کے اعتبار سے بہت کچھ راز رکھتا ہو جس کی وجہ سے امریکا حملہ کرنے سے پہلے کافی کچھ سوچنے پر مجبور ہو۔

ایران کے پاس اور کوئی دفاعی صلاحیت ہو یا نہ ہو، ایمان کی مضبوطی اس کی اتنی بڑی قوت ہے جس کا مقابلہ شیاطین کے بس کی بات نہیں۔ انقلاب ایران کے بعد سے تا حال ایران جن بین الاقوامی پابندیوں میں گھرا ہوا ہے، یہ پابندیاں کسی بھی ملک کو تباہ و برباد کردینے کیلئے کافی تھیں لیکن اگر وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے سامنے جھکے بغیر قائم و دائم ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس نے “اُس” طاقت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہوا ہے جس کی طاقت کے آگے دنیا کی کوئی طاقت طاقت نہیں۔

پاکستان کیلئے ایران کا یہ کردار قابل تقلید ہونا چاہیے۔ ماضی میں کیا ہوا، اس کو بھول کر حال سے اپنے مستقبل کا سفر شروع کرنا چاہیے۔ ایک مرتبہ دل بڑا کرکے کڑا جواب پاکستان کو ایک نئی توانائی فراہم کر سکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. ماشاءاللہ حبیب الرحمن صاحب، آپ نے جو مندرجہ بالا تجزیہ کیا ہے وہ بلاشبہ آپ کی حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے کا اشارہ دیتا ہے۔ پاکستان واقعی ایک پاورفل آزاد مملکت ہے مگر ہمارے کمزور ، بے ضمیر اور نااہل سیاستدانوں نے ہمیشہ پاکستان پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے امریکہ کے سامنے سجدہ ریز رہ کر ملک کو کھوکھلا کردیا۔ عوام ہر مرتبہ ایک نئے دکھائے گئے خواب کے زیر اثر نئی حکومت منتخب کرواکر تعبیر خواب کے انتظار میں یا تو خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے یا نئی حکومت تبدیل کر وانے کے لئے اپنی املاک کو تباہ کرتے رہے۔ جبکہ منتخب ہوتے ہی حکمران اپنی حکومت بچانے کے لئے امریکہ کی گود میں بیٹھ کے اپنے عوام کو ذلیل کرواتے رہے۔
    جہاں تک ایران کی بات ہے امریکہ کو اس پر حملہ آور ہونے کے لئے سو بار سوچنا پڑےگا کیونکہ ایران نے اپنے میزائلوں کی صلاحیتیں بار بار دکھانے کے بعد واضح اعلان کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پہ حملہ کیا تو ہم براہ راست اسرائیل پہ حملہ کردیں گے۔ لہذا امریکہ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے لئے کوئی خطرہ مول لے۔ لیکن اسے اسرائیل کو بچانے کے لئے آپ کے مضمون میں حوالہ دیے جانے والے ایسے ہی نام نہاد اسلامی حکمران درکار ہیں جو اسرائیل کی حمایت میں ایران پر امریکہ کے حکم پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ دنیائے عرب میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کروانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

جواب چھوڑ دیں