اور بھی غم ہیں زمانے میں ۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ انگریز وقت سے کہیں پہلے، سکھ سر پر پڑنے کے بعد اور مسلمان وقت گرزجانے کے بعد سوچتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا۔

دنیا میں جتنی بھی عقل مند مخلوقات ہیں وہ کسی بھی آفت کے آنے سے قبل اپنے بچاؤ یا اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں جن میں چیونٹیوں جیسئ چھوٹی مخلوق بھی ہے۔ وہ برسات یا بدلتے موسم کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچاؤ یا مستقبل کیلئے بہت ساری حفاظتی تدابیر اختیار کر لیتی ہیں۔ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اکثر غفلت کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وقت آنے یا حادثہ گزرجانے کے بعد وہ سوچتا ہے کہ کاش وہ اگر یوں اور یوں کر لیتا تو مصیبت کے یہ ایام اسے نہ دیکھنے پڑ تے۔

پاکستان بننے سے بیسیوں برس پہلے مسلمانوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں انھیں ایسا خطہ زمین مل جائے گا جس میں وہ اپنی مرضی یعنی اللہ اور اس کے رسول (ص) کے بتائے ہوئے طریقوں اور قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں گے۔ یہ بات بھی اس وقت کے مسلمانوں پر بہت اچھی طرح واضح تھی کہ پاکستان بنانے کا اصل مقصد بھی اللہ کے دین کے قیام کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پاکستان بنانے کی تحریک میں اس وقت جو جو رہنماشریک تھے ان سب کا یہی ایک نعرہ تھا کہ پاکستان کا مقصد کیا لا الہ الا اللہ لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی نظام زندگی کو آئین و قانون میں ڈھال کر ایک آئینی مسودے کی صورت میں ترتیب دینے کیلئے کسی ایک فرد یا رہنما نے مخلصانہ جد و جہد نہیں کی۔ اگر ایسا کر لیا جاتا اور پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اُس ترتیب دیئے ہوئے آئین کو پاکستان میں فوراً نافذ کر دیا جاتا تو آج پاکستان دنیا کے افق پر ایک ایسا روشن سورج بن چکا ہوتا جس کی روشنی پوری دنیا کو نورِ حقیقی سے منور کر رہی ہوتی۔

پاکستان بن جانے کے بعد ملک کا دستور اور آئین بننے میں 9 برس سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا اور اس دوران وہ ساری قوتیں جو اسلام، آئین اور قانون دشمن تھیں انہیں اپنے گل کھلانے کا موقعہ مل گیا اور یوں پاکستان ایک مرتبہ صرف نام ہی کا پاکستان رہ گیا ورنہ بلحاظ انداز فکر و تدبر اور نظریہ و قانون پاکستان محض ایک ایسا ملک بن کر رہ گیا جیسے دنیا میں اور بہت سارے ممالک ہیں جن کو دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ صورت حال جوں کی توں بر قرار ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والا ملک عملاً دنیا کے اور بہت سارے سیکولر ملکوں کی طرح کا ایک ملک ہے جہاں اسلام کا نام مختلف انداز میں استعمال کرکے بھولے بھالے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان ایک نہ ایک دن اسلام کا گہوارہ بن کر رہے گا۔ اگر پاکستان کے مخلص اور اسلام کے ہمدرد ایمانداری سے تجزیہ کریں تو وہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسا سب کچھ محض اس لئے ہوا کہ ہم نے پاکستان بنانے سے پہلے پاکستان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ محض ایک خطہ زمین حاصل کرنے کی جد و جہد کی جس کے متعلق ہم یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ وہاں پہنچ کر ہم وہ تمام مقاصد حاصل کر لیں گے جس کا ذکر ہم ہر مجلس، جلسے جلوس اور بڑے بڑے اجتماعات میں کرتے ہیں۔

“ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں” والی ریت جو 1947 سے پہلے کی مسلمانان پاکستان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اس ریت میں اضافہ در اضافہ تو ہوتا چلا جارہا ہے لیکن اس میں کمی کے امکانات دور دور تک بھی نظر نہیں آرہے۔ اسی ریت کو مزید پروان موجودہ حکومت بھی چڑھا رہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سنہ 2008 سے سنہ 2018 کے دوران ملکی قرضوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ منگل کی شب قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انھوں نے اپنی حکومت کے ساڑھے نو ماہ کے دوران پریشر کا سامنا کیا لیکن اب وہ ختم ہو گیا ہے۔ ایک وہ فرد جس کا کہنا ہے کہ اس نے یہاں تک پہنچنے کیلئے 22 سال جد و جہد کی تھی، اس سے سوال یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا یہ 22 سالہ جد و جہد امید بیم تھی جس میں انھیں کسی ایک لمحے بھی اس بات کا گمان نہ گزرسکا کہ وہ اور ان کی پارٹی پورے ملک کی حکران بن جائے گی۔ بس ہواؤں میں چھوڑا ہوا کوئی تیز تھا جو نشانے پر لگ گیا تو تیر اور نہیں لگا تو تکا تو کہلائے گا ہی۔  جب آپ کرسی اقتدار تک رسائی کیلئے جد و جہد کر رہے تھے اور قوم سے سامنے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے تو اس وقت آپ کے سامنے ملک کی اور اقتدار میں رہنے والوں کی پوری تاریخ کیوں سامنے نہیں تھی۔ جن مشکلات کا اس وقت شدت سے ذکر کیا جارہا ہے، ان سب مشکلات کا اندازہ آپ کو پہلے کیوں نہ ہو سکا۔ اب دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ ہر قسم کے حالات سے بخوبی واقف تھے اور قوم کے سامنے جو کچھ دعوے کر رہے تھے وہ قوم کو دھوکا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھے یا پھر یہ کہ آپ کو حکومتی امور کے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی معلومات ہی نہ تھیں۔

انھوں نے سابق صدرآصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہونے والی مبینہ کرپشن کا پتا لگانے کے لیے اپنی نگرانی میں اعلی سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ اس میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے)، ٹیکس اور کمپنیز کے ذمے دار ادارے ایف بی آر اور ایس ای سی پی اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور آئی بی بھی شامل ہوں گے۔

اقتدار کا ایک سال کم نہیں ہوتا ہے یہ اقتدار کی کل مدت کا 20 فیصد ہوتا ہے۔ 20 فیصد مدت گزارنے کے بعد اگر ایک کمیشن محض اس لئے بنایا جائے گا کہ وہ سابقین کی کرپشن کی معلومات جمع کرے تو کیا صرف معلومات ہو جانا ہی کسی جزا و سزا کا سبب بن جائے گا۔ جن جن اداروں کا انھوں نے ذکر کیا ہے ان اداروں کی پیش کردہ معلومات اور بنائی ہوئی رپورٹوں پر کیا کوئی ایک مجرم بھی اپنے انجام تک پہنچ سکا ہے؟۔ اس قسم کی ساری معلومات اور رپورٹیں ہمیشہ عدالت میں چلینج ہوئی ہیں اور مسترد کی جاتی رہی ہیں۔ اس لئے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عمران خان کی نگرانی میں جو کمیشن تشکیل دیا جائے گا اس کی مرتب شدہ رپورٹیں اور معلومات قانون کی نظر میں “فیصلوں” جیسی ہی ثابت ہونگی۔ میرا اپنا خیال ہے کہ عمران خان اس معاملے میں بہت تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ ایک ہی “بتی” کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو جو بھی ڈاکو اور لٹیرے ہیں، جنھوں نے بھی اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ان کو کسی قیمت میں بھی معاف نہیں کرنا چاہیے لیکن “اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا”۔ ایک تو یہ کہ ملک کے وزیر اعظم کے یہ سارے اکیلے کےکام نہیں۔ ملک میں بہت سارے ادارے ایسے ہیں جو انھیں مقاصد کیلئے بنائے گئے ہیں۔ جن اداروں کے یہ کام ہیں ان کو یہ کام حوالے کریں اور اس ملک کے جو اصل مسائل ہیں ان کو حل کرنے اور قوم سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی جانب پیش قدمی کریں۔

عوام ایک کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے انتظار میں ہیں۔ مہنگائی سے اللہ کے بعد آپ کی پناہ کے خواستگار ہیں، انصاف کو اپنے دروازے کی دہلیز پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں، تعلیم عام اور سستی دیکھنے کے متمنی ہیں اور اشیائے ضروریہ قوت خرید کے اندر ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔

لوگ اگر گرفتاریاں دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی دیکھیں گے کہ لوٹی ہوئی رقم کی واپسی بھی ہوئی یا نہیں۔ گرفتاریوں کی وجہ سے لوگوں پر لگے ٹیکس کم ہوئے۔ کیا پٹرول، بجلی اور گیس کی قیہمتیں کم ہوئیں، کیا تعلیم مفت ہوئی، کیا بسوں، گاڑیوں اور ریلوے کے کرایوں میں کمی آئی، کیا حج اور عمرہ سستا ہوا، کیا نوکریاں درختوں پر اگنے لگیں، وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزرائے اعلی کے گھر اور گورنرز کی سرکاری رہائش گاہیں یونیورسٹیاں بنا دی گئیں اور کیا حکمرانوں کی عیاشیوں میں کمی آئی۔ محض گرفتاریوں کا جشن نہ تو ان کا پیٹ بھر سکے گا اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کوئی کمی لا سکے گا۔ بے شک ایک بہت بڑا طبقہ ان گرفتایوں پر خوش ہوگا لیکن غریب طبقہ اپنے پیٹ سے آگے کچھ بھی نہ سوچ سکے گا اور یہ صورت حال آپ کیلئے اور آپ کی پارٹی کیلئے سونامی بن جائے گی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں