افطاری

پاکستانیوں میں کوئی اور خوبی ہو نہ ہو ایک خصوصیت ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ جب بھی ان سے پوچھا جائے کہ کہاں جا رہے ہو تو360 دائرے نما پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوں گے”کھانا کھانے“اور کہیں سے آرہے ہوں تو بھی برابر جواب وہی ملے گا کہ ”کھانا کھا کے“۔گویا کھانا ہی زندگی ہے،حکما کا خیال ہے کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے کھانا کھانا چاہئے جبکہ ہم پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کھانے کے لئے زندہ رہا جائے اور وہ بھی کسی کے کھاتے سے۔اس مرض میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے سبھی شامل ہیں اپنے ایک پڑھے لکھے ادبی دوست سے ایک باراس کی بسیار خوری کی وجہ پوچھی تو جناب پٹ سے اردو ادب سے ایک حوالہ نکال لائے کہ جناب کیا آپ کے علم میں نہیں کہ ایک بار چچا غالب سے پوچھا کہ آپ کو کھانے میں کیا مرغوب ہے تو انہوں نے کیا کہا تھا کہ”آم ہوں اوربہت ہوں“۔ارے بھائی وہ تو موسمی پھل کاتذکرہ تھا سار ا سال کھانے کی تھوڑی بات ہو ری تھی تمہاری طرح۔ویسے ہمیں دو مواقع پر خوب کھانے کا موقع میسر آتا ہے،ایک کسی احباب کی دعوتِ ولیمہ اور دوسرا رمضان المبارک میں کسی کے ہاں افطاری۔افطاری کیا کھانے کی رفتار سے ہم اسے افتاری ہی بنا ڈالتے ہیں۔کیونکہ روزہ کشا ہوتے ہی جس رفتار سے روزہ دار کھانے پر یلغار یا دھاوا بولتے ہیں لگتا ہے یہ ان کی زندگی کا آّخری کھانا ہی ہوگا یا پھر کل عید ہوگی۔کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو اہل محلہ نے زبردستی روزہ رکھوا دیا تو جب بوقت افطاری اس سے پوچھا گیا کہ تم سب سے پہلی دعا کون سی کرو گے تو کہنے لگا کہ ”کل عید ہوجائے“۔ایسے ہی ایک روائت ہے کہ کسی گاؤں میں نمبردار نے اعلان کر دیا کہ گاؤں میں کسی بھی شخص کو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے جو بھی روزہ نہیں رکھے گا اسے کڑی سزا دی جائے گی۔اب گاؤں کے میراثی کوبھی بادل نخواستہ روزہ رکھنا پڑا،اب یونہی سورج سر پر آیا تو میر عالم صاحب اپنے بوریا بستر سمیٹ نمبردار کی حویلی کے سامنے سے بار بار گزر رہے ہوں،تجسس پر نمبردار نے بلا کر پوچھا کہ میر عالم کیا ہوا،یہ بستر اٹھا کر کہاں کا ارادہ ہے،تو میر عالم کہنے لگا کہ سرکار آپ تو مجھے زبردستی روزہ رکھوا رہے ہیں جبکہ ساتھ کے گاؤں کا نمبردار کہہ رہا ہے کہ تم کلمہ بھی نہ پڑھنا اور میرے گاؤں چلے آؤں۔
دوران رمضان مشاہدہ کیجئے گا کہ روزہ دار کی آنکھیں روزہ کشائی سے پہلے بمشکل کھل رہی ہوتی ہیں اور روزہ کشائی کے بعد آنکھوں اور منہ کا کھلنا ناممکن سادکھائی دیتا ہے۔افطاری کو رفتاری خیال کر بے تحاشا کھانے سے پیٹ کا اس قدر برا حشر ہوتا ہے کہ پیٹ بھی بندوں کے نادیدہ پن کو کوس رہا ہوتا ہے کہ یہ اونٹ کا نہیں انسانوں کا معدہ ہے یار۔افطاری کے بعد پیٹ کسی طور بھی پیٹ نہیں لگ رہا ہوتا پورے کا پورا ڈھول دکھائی دے رہا ہوتا ہے ایسے لوگ چاہیں تو دو چھڑیا ں لے کر بوقت سحری اسی”ڈھول“ کو بجا کر لوگوں کو بیدار کر کے ثواب کما سکتے ہیں۔اور زیادتی بسیار خوری کا شکار آنکھیں بھی ہوتی ہے جو زیادہ کھا لینے سے کھلنے سے قاصر اور مناسب سائز کے گول خربوزہ نما دکھنے لگتی ہیں،صد شکر اس ذات باری تعالیٰ کا کہ جس نے ”ڈکار“لینے کے عمل کو انسانی سسٹم میں شامل کر رکھا ہے وگرنہ جتنا ہم لوگ افطاری میں کھا لیتے ہیں عین ممکن ہے کہ آنکھیں چہرے سے نکل کر ہمارے ہاتھوں میں آ جائیں۔دستر خوان چھوڑتے ہی سب روزہ دار شکم پر ہاتھ پھیرے لمبے لمبے لامتناہی سلسلہ ڈکار سے بے سرُے،بے تالے گویوں کی طرح ماحول کو بدمزہ کرتے ہوئے کھسیانی بلی کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ان میں سے کسی نے یہ حرکت نہ کی ہو،حالانکہ ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ ایک لمبا ڈکار آجائے تاکہ نماز تراویح میں آسانی ہو۔تہ در تہ کھا لینے سے ڈکار لینے کا سلسلہ صلوۃ تراویح تک چلتا رہتا ہے،کبھی کبھار تو لحیم شحیم اجسام کے مالک لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ لمبا ڈکار لینے کے چکر میں اس کا وضو بھی قائم ہے کہ نہیں،دیگر نمازیوں کے”رد عمل“ سے اسے اندازہ ہو تا ہے کہ وضو تازہ کر ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔
ہمارے ہاں اتنا زور عبادات پہ نہیں جتنا افطاری پر دیا جاتا ہے،بعض افراد کے پاس تو پہلے عشرے کے بعد ہی وقت دستیاب نہیں ہوتا کہ کوئی افطاری اپنے گھر میں بھی کر لی جائے۔باقاعدہ افطاری لسٹ جیب میں ڈالے رکھتے ہیں اور اگر کسی افطار میں تصادم (یعنی دو دوستوں کا مدعو کر لینا)ہو جائے توقرعہ اس دوست کی طرف نکلتا ہے جس کی افطاری کی دھوم پورے شہر میں ہو۔ایک دوست نے تو باقاعدہ وقتِ افطار کے چند اصول وضع کر رکھے ہیں،آپ کی نذر اس نیت سے کر رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے کسی دوست کی شامت افطار آپ کے ہاتھوں سے بھی لکھی گئی ہو۔
سب سے پہلے اس ”تاڑ“میں رہیں کہ کوئی ایسی جگہ ملے جو گزرگاہ نہ ہو،یعنی عوام الناس کے گزرنے سے آپ کے کھانے میں خلل واقع نہ ہو۔کارنر پلاٹ کی طرح ایسی جگہ براجمان ہو جائیں جہاں سے ہر اقسام رکابی تک آپ کا ہاتھ بآسانی جا سکتا ہو۔کوشش کریں کہ زود ہضم خوراک سے شروع کر کے مقوی معدہ قسم کے کھانوں کی طرف آہستہ آہستہ بڑھا جائے۔وافر پانی،دودھ سوڈا اور روح افزا سے پرہیز رکھیں،ایسے مشروبات معدہ،جسم اور دماغ کے بھاری پن کا باعث ہو سکتے ہیں۔کولر اور پانی کے جگ سے دور رہیں وگرنہ لوگ آپ سے پانی اور شربت ایسے مانگیں گے جیسے آپ سبیل لگائے بیٹھے ہوں۔دوسروں پر نظر ضرور رکھیں مگر کھانے کو بھی نظر میں رکھیں۔لوگوں کی آنکھوں میں دیکھنے کی بجائے اپنے ہاتھوں اور سپیڈ پہ توجہ دیں۔اس بات سے صرف نظر کریں کہ لوگ کتنا کھا رہے ہیں،اس بات پہ دھیان دیں کہ آپ نے کیا کیا کھانا ہے۔فروٹ کی گٹھلیاں خصوصا آم کی دوسروں کی رکابی میں سجاتے جائیں اپنی پلیٹ میں صرف تین کھجور کی گٹھلیاں رہنے دیں تاکہ ظاہر ہو کہ آپ نے صرف کھجور اور پانی سے ہی افطاری کی ہے۔کوشش کریں کہ کھاتے وقت لوگوں کو باتوں میں لگائیں اور ان کی باتیں توجہ سے سنیں بھی مگر خود گفتگو سے اجتناب برتیں۔دوسروں کی من پسند گفتگو اور اپنی من پسند ڈش کا ہمیشہ خیال رکھیں اس طرح دوسروں کا گفتگو اور آپ کو کھانے کا موقع مل جائے گا۔روزہ کشائی کے وقت ”موقع پرست“ ہونا بنتا بھی ہے وگرنہ احباب موقع اٹھا جائیں گے۔اور پھر آپ کو اگلے موقع کے لئے آئندہ چوبیس گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔روزہ کشائی کے بعد ہر چند ساعت بعد تھوڑا تھوڑا پانی نوش فرماتے جائیں تاکہ ٹھونسی ہوئی اشیا خود کو اور آپ کو اطمینان مہیا کر سکے۔کوشش کریں کہ بوقت افطار آنکھیں اور کان بند رکھیں تاہم منہ اور ہاتھ نہ رکنے پائیں۔اٹھنے سے قبل دو باتوں کا اطمینان ضرور کر لیں کہ کوئی چیز دسترخوان پہ بچ تو نہیں گئی اور دوسرا،کیا آپ اٹھنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں،ہمت نہ بھی ہو تب بھی دیگر ساتھی کا سہارا نہ لیں تاکہ میزبان کی نظروں سے بچا جا سکے۔افطاری کے بعد محلہ کی جامع مسجد میں مغرب اد ا کریں تاکہ آنے جانے سے زود ہضم اشیا ہضم ہو کر کھانے کی جگہ پیدا کر دیں۔کھانا کھاتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھیں کہ اگر تو آپ کسی دوست کی یا اپنی گاڑی میں واپس آرہے ہوں تو خوب جی بھر کر کھاؤ اگرنہ اتنا کھائیں کہ اپنے پاؤں پر چل کر اپنا گھر تلاش کر سکیں۔
اچھا دوستو.اب مجھ سے بھی زیادہ ہی کھایا گیا ہے کوئی مجھے اٹھا کر میرے گھر چھوڑ کر ثواب دارین حاصل کرے گا کیا؟۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں