جگر، معدے اور آنتوں کی بیماریاں اور روزے

جگر، معدے اور آنتوں کی بیماریاں دنیا کی مشترکہ بیماریوں میں شمار ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ۵۲ سے ۰۳ فیصد لوگ ان میں مبتلا ہیں۔ ملک کی ۰۱ فیصد آبادی جگر کی بیماری، جسے ہیپٹائٹس بھی کہتے ہیں، میں مبتلا ہے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد وہ ہے جس کو معدے یا آنتوں کی کوئی باقاعدہ بیماری نہیں ہے لیکن وہ معدے کی مختلف تکالیف کی شکایت کرتے ہیں، مثلاً بدہضمی، معدے میں تیزابیت، السر وغیرہ۔ ہمارے ہاں قبض اور ڈائریا کی شکایت بھی عام ہے۔ بنیادی طور پر ان ساری بیماریوں کا تعلق غذا سے ہے کہ انسان کیا کھاتا ہے، کتنا کھاتا ہے اور کس طریقے سے کھاتا ہے، اور پانی کس طرح استعمال کرتا ہے۔ غرض ان تمام بیماریوں کا غذا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ روزے رکھنے سے ان بیماریوں پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
معدے کی بیماری کا بڑا سبب غذا کی زیادتی اور غذا کے استعمال میں عدم توازن ہے۔ رمضان میں انسان کے معمولات میں بڑی تبدیلی یہ واقع ہوتی ہے کہ اس کا غذا کا توازن بہتر ہو جاتا ہے، غذا کے اوقات بھی متعین ہو جاتے ہیں اور مقدار بھی کنٹرول ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں معدے کو آرام ملتا ہے۔ معدے اور آنتوں کو آرام ملنے سے بہت سی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ دنیا بھر میں جہاں لوگ روزے نہیں رکھتے وہاں ’فاسٹنگ تھراپی، کو باقاعدہ علاج کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو معدے اور آنتوں کی بیماریوں کا شکار ہوں۔ اس موضوع پر بڑی تحقیق ہوئی ہے کہ آخر غذا کو روک دینے سے اور اس کا نظام مرتب کرنے سے معدے اور آنتوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ ریسرچ جاپان میں ہوئی ہے۔
انھوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایک فرد کو ۰۱دن تک فاقہ کرایا جائے، اس کے بعد پانچ دن تک کنٹرولڈ فیڈنگ دی جائے، پھر دس دن تک فاقہ کرایا جائے تو مہینہ، ڈیڑھ مہینہ میں اس کی معدے اور آنتوں کی بیماریاں بھی درست ہو جاتی ہیں اور اس کے سسٹم بھی بہتر ہو جاتے ہیں۔ اس ریسر چ نے یہ دروازہ کھول دیا ہے کہ مختلف بیماریوں میں ’فاسٹنگ تھراپی، کس طرح استعمال کی جائے۔ یہ بات ہم خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں ۵۱گھنٹے کے وقفے کے بعد شام میں جو افطار کیا جاتا ہے اس میں وہ غذائیں شامل ہوتی ہیں جو ہماری جسمانی ضروریات پوری کرتی ہیں، چنانچہ افطار ایک متوازن غذا بن جاتی ہے جس کے انسانی معدے کے نظام پر کافی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
السر معدے کی عام بیماری ہے، اس میں معدے میں تیزابیت بڑھنے کی وجہ سے زخم ہوجاتا ہے، خون کا اخراج ہونے لگتا ہے جو مہلک بھی ہو سکتا ہے۔ السر پر روزوں کے اثرات کے حوالے سے خاصی تحقیق کی گئی ہے۔ جن لوگوں کو ’ایکٹو السر، ہو ان کے بارے میں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انھیں لمبے عرصے تک فاقہ یا پیٹ خالی نہیں رکھنا چاہیے، بعض اوقات تیزاب کی زیادتی ان کو نقصان پہنچا سکتی ہے چنانچہ روزے کے معاملے میں احتیاط کرنی چاہیے، ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ روزہ رکھنے سے السر بڑھ نہ جائے اور السر کے کنڑول کی دوائیں کس طرح استعمال کی جائیں، سحری میں اور افطار میں یا رات کو سوتے وقت کتنی لینی چاہئیں۔ کسی کو آنتوں یا معدے کی بیماری ہے تو پھلوں، سبزیوں کا استعمال زیادہ بہتر ہے، تلی ہوئی اور چٹ پٹی چیزیں معدے اور آنتوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ایک اور عام شکایت ری فلکس (Reflux) ڈزیز کہلاتی ہے جس میں معدے میں تیزابیت بعض اوقات اوپر حلق تک محسوس ہوتی ہے اور سینے میں جلن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس شکایت کا بھی بڑا گہرا تعلق غذا کے ساتھ ہے۔ یہ شکایت زیادہ تر ان لوگوں کو ہوتی ہے جو چکنائی سے بھرپور چیزیں زیادہ استعمال کرتے ہیں جن میں کولیسٹرول اور چربی ہوتی ہے، ایسی غذاؤں کے استعمال سے تیزابیت بڑھ جاتی ہے، ایسے لوگوں کو غذائی احتیاط بھی کرنی چاہیے اور کچھ مزید اقدامات بھی، مثلاً بستر پر لیٹیں تو اپنے سر کو کس طرح رکھیں، کھانے کے کتنی دیر بعد پانی پیئیں، اور کون سی دوائیں استعمال کریں جن سے ری فلکس کی بیماری کو کنٹرول کیا جاسکے۔ پیٹ خالی رکھنے کے 14-15 گھنٹوں کے دوران یہ بیماری بعض اوقات کافی تکلیف دیتی ہے، بعض اوقات اس کو سحری کی غذا سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر صرف اس بات پر توجہ رہے کہ سحری میں کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا، تو اس سے بھی کافی بہتری ہو جاتی ہے۔ ایسی بہت سی دوائیں موجود ہیں جو سحری یا نہار منہ لے لی جائیں تو یہ خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں، اور اگر ہو بھی جائیں توزیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتیں۔
آنتوں کی اور بیماریاں بھی ہیں جن کے بارے میں میڈیکل سائنس نے ریسرچ سے ثابت کیا ہے کہ روزے رکھنے سے ان کے وقوع میں کمی آ جاتی ہے، مثال کے طور پر اپینڈی سائٹس معروف بیماری ہے، عام بھی ہے، بہت سے لوگوں میں آپریشن کے ذریعے اپینڈکس نکال دیا جاتا ہے لیکن یہ بات تحقیق نے ثابت کی ہے کہ سال کے اور مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں اپینڈکس کی شرح بہت کم ہو جاتی ہے۔ اور جو لوگ روزے رکھتے ہیں ان کو اپینڈکس کی بیماری کم ہوتی ہے یا انہیں درد سے نجات کے لیے آپریشن کرانے کی ضرورت کم پیش آتی ہے۔
آنتوں کی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن میں روزے دار کو احتیاط کرنی چاہیے۔ Intestinal Obstruction ہو، اُلٹیاں آ رہی ہوں یا معدے کی حرکت کم ہوگئی ہو تو ایسے مریضوں کی غذا اور پانی بالعموم روک دیا جاتا ہے اور ایک عرصے تک انتظار کیا جاتا ہے کہ ان کی آنتوں کی حرکت معمول پر آ جائے، آنتوں کی حرکت معمول پر آ جانے کے بعد ان کی غذا دوبارہ شروع کی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو Intestinal obstruction یا Volvulus ہو ان کو روزے نہیں رکھنا چاہیے اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے کہ اس طرح کی صورت جب باقی نہ رہے تو وہ کب روزہ رکھ سکتے ہیں؟
دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں آنتوں کی ایک اور عام بیماری (IBS)syndrome Irritable bowel کہلاتی ہے۔ اس میں بعض اوقات معدے میں درد ہوتا ہے، بعض اوقات قبض ہو جاتا ہے اور بعض اوقات دست شروع ہو جاتے ہیں، اس کا بھی بالعموم تعلق غذا کے استعمال سے ہوتا ہے اور بعض اوقات انسان کی دماغی اور نفسیاتی کیفیت سے ہوتا ہے۔ IBS کے حوالے سے بھی کافی تحقیق ہوئی ہے جس نے ثابت کیا ہے کہ IBS کے مریضوں کی تقریباً ۰۵فیصد علامات روزے رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہیں، ایسے لوگوں کو اپنی غذا میں خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، بعض اوقات ایسے لوگوں کو اسپغول کی بھوسی استعمال کرنی ہوتی ہے اورجو لوگ ایسا کرتے ہوں ان کو سحر اور افطار میں اس کا مستقل استعمال کرنا چاہیے تاکہ علامات کو کنٹرول کیا جا سکے۔
آنتوں کی بیماریوں میں ایک بہت عام بیماری قبض ہے۔ رمضان میں قبض کی بیماری بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ رمضان میں لوگ پانی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، عام دنوں میں لوگ ڈیڑھ یا دو لیٹر پانی پیتے ہیں لیکن رمضان میں تین لیٹر یا اس سے بھی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے قبض بہتر ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی کو قبض کی شکایت ہو اور بڑھ رہی ہو تو اس کا ایک آسان علاج تو یہ ہے کہ پانی کے استعمال کو بہتر کیا جائے، دوسرے جو غذا سحر اور افطار میں لی جا رہی ہے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں میں قبض کی شکایت ہو تو ان کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح کی غذا سحر اور افطار میں استعمال کریں۔ اسپغول کی بھوسی بہت مفید ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو دس بارہ گھنٹے کے لیے پانی میں بھگو دیا جائے اور جب وہ پانی کو جذب کر لے تو اس کو کھا (یا پی) لیا جائے، یہ قبض کے لیے کافی مفید ہے۔ ڈاکٹروں کا عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں غذا کے معاملے میں بے احتیاطی کے باوجود آنتوں کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔
جگر کی بیماریاں بھی ہمارے ملک میں عام ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق ہو رہی ہے کہ رمضان میں جگر کی بیماری پر کیا اثرات مرتب ہو تے ہیں، اُمید ہے کہ مستقبل میں اس حوالے سے جو ریسرچ آئے گی وہ ثابت کر دے گی کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں جگر کی بیماریوں پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں