کیکڑا ون تحقیقات مانگتا ہے

نہایت افسوس کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ کیکڑا ون کے پہلو میں جو شور سنا جارہا تھا وہ “خاموشی” کا تھا کیونکہ جب اس کا دل چیرا گیا تو وہاں سوائے “سکوت” کچھ بھی نہیں تھا۔

پنجاب کے گاؤں میں رہنے والے ایک فرد کا دعویٰ تھا کہ اللہ نے اس کو بڑی صلاحیت دی ہے اور اس کو ایک خاص عصا عطا کیا ہے جو زمین کے اندر کا حال بتانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور خاص طور سے تیل اور گیس کے سلسلے میں وہ عصا سو فیصد درست اطلاعات فراہم کرتا ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے مہنگے ترین سروے کرکے نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنا سرمایہ ضائع کرنے کی بجائے اس کی مدد لے۔ اللہ کے حکم سے اس کا عصا جہاں اس بات کی نشاندہی کردے گا کہ فلاں مقام پر گیس اور تیل کے ذخائر موجود ہیں وہاں سے تیل اور گیس لازماً دریافت ہونگے۔ ممکن ہے کہ اس کا علم سچا ہو لیکن کیا آج سے بیس بائیس سال قبل، اس وقت کی حکومت کا کوئی ایک بھی صاحب عقل فرد یا صاحب اختیار ادارہ محض اس کے کہنے پر اتنا بڑا قدم اٹھا سکتا تھا کہ اس کی بتائی ہوئی جگہ پر، اس زمانے کے لحاظ سے کروڑوں روپے کے اخراجات کرنے کا خطرہ، وہ بھی کسی سائنسی طریقہ کار کو عمل میں لائے بغیر، مول لینے پر تیار ہوجائے؟۔

موجودہ حکومت نے آتے ہی پاکستان کے مشکلوں میں گھرے عوام کے چہروں پر اس وقت امید کی ایک رمق پیدا کردی جب اس نے یہ اعلان کیا پاکستان سمندر کے اندر تیل اور گیس کی تلاش میں ایک ایسے مقام پر کھدائی کر رہا ہے جہاں سے نکلنے والا ذخیرہ پاکستان کی ضرورتوں کیلئے ہی کافی نہ ہوگا بلکہ پاکستان وہاں سے حاصل ہونے والے تیل اور گیس کے ذخیرے سے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی تیل اور گیس فراہم کرکے پاکستان کو ایک خوشحال ترین ملک بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ ایک ایسی خبر تھی جس کو سن کر ہر فرد جتنا شاداں و فرحاں تھا آج یہ سن کر کہ وہاں سے کچھ بھی دریافت نہیں ہو سکا، اُتنا ہی ملول اور کبیدہ خاطر ہے۔

کیکڑا کے مقام پر تیل اور گیس کے ذخائر کی موجودگی، اور وہ بھی بہت بڑے پیمانے پر، اس اطلاع کی بنیاد کیا تھی؟۔ پاکستان میں ایک عام تاثر یہ موجود رہا ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر بہتے دریا کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر کہیں سے یہ دونوں پیداوار حاصل ہو رہی ہیں تو اس کے آس پاس ان پیداوار کا کوئی نہ کوئی “سوتا” ضرور موجود ہوگا۔ یہ تصور درست نہیں اس لئے کہ یہ ذخائر چھوٹے بڑے “پیالہ” نما اسٹریکچروں، تالابوں یا جھیلوں کی صورت میں ہوتے ہیں اور کسی بھی جانب اپنا بہاؤ نہیں رکھتے۔ یہ جہاں ہوتے ہیں وہیں ہوتے ہیں البتہ کسی زلزلے یا زمین کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اگر کہیں اور ذخیرہ کرنے کی جگہ موجود ہو تو وہاں منتقل ضرور ہو سکتے ہیں یا پھر زمین کے سارے بندھن توڑ کر زمین سے باہر نکل پڑتے ہیں۔ اس لئے یہ گمان کرنا کہ اگر کہیں تیل اور گیس کا ذخیرہ موجود ہے تو اس کے اطراف میں لازماً تیل اور گیس موجود ہوگا، درست نہیں جیسا کہ اکثر افراد کا خیال یہ ہے کہ ایران کی اور خلیجی ریاستوں کی سرحدوں کے آس پاس پاکستان کیلئے بھی تیل اور گیس کے ذخیرے ہوسکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد اچانک تیل اور گیس کی کھدائی کا جو منصوبہ سامنے آیا اس کی بنیاد کیا تھی؟۔ میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ کیونکہ یہ کھدائیاں بہت زیادہ اخراجات والی ہوتی ہیں اس لئے کسی بھی مقام پر کھدائی کرنے سے قبل اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ جہاں کھدائی کی جارہی ہے وہاں گیس یا تیل موجود ہونے کا امکان ہے یا نہیں، کئی طرح کے سروے کئے جاتے ہیں۔ وہاں کے پتھروں اور ریت کے نمونے حاصل کئے جاتے ہیں، مصنوئی زلزلوں کے ذریعے زمین کی گہرائیوں کی تصاویر حاصل کی جاتی ہیں اور مختلف ریزز کے ذریعے بھی زمین کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ان تمام سروے رپورٹوں کے باوجود جہاں کسی اسٹرکچر کے ہونے کا امکان ہوتا وہاں بھی پہلا کنواں اسٹریکچر کے بالکل بیچوں بیچ کھودا جاتا ہے تاکہ ناکامی کے امکانات کم سے کم ہوں۔ ان تمام باتوں کے باوجود اکثر کنویں خشک نکل جاتے ہیں۔ خشکی میں کھودے جانے والے کنووں کیلئے جب اتنی احتیاط برتی جاتی ہے تو پھر سمندر میں کی جانے والی کھدائی کیلئے تو یہ احتیاط اس سے بھی کئی گناہ ضروری اس لئے ہوجاتی ہے کہ سمندر میں کھدائی کے اخراجات خشکی سے بیسیوں گنا زہادہ ہوتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سمندر میں جس مقام پر تیل اور گیس کے سلسلے میں جس کھدائی کا اچانک اعلان کیا گیا وہ کیا محض قیاس پر تھا یا اس کے لئے اس مقام کا کوئی سروے بھی کرایا گیا تھا؟۔

یہ بات ہر خاص و عام کے علم میں آنی چاہیے کہ سمندر کے اندر جس مقام پر تیل اور گیس کے سلسلے میں کھدائی کی گئی ہے اس کو پاکستان کی حدود میں آئے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ خشکی سے سمندر کی حدود پہلے پچاس ساٹھ میل تک ہی محدود ہوا کرتی تھیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ان حدود میں توسیع کے بعد یہ حدود کئی سو میل تک بڑھادی گئیں۔ جس مقام پر “کیکڑا ون” کو کھودا گیا یہ کراچی سے 3 سو میل کے فاصلے پر ہے۔ تیل اور گیس کے سلسلے میں ناروے اور پیٹروکینیڈا کی مدد سے پہلے بھی “محدود” سمندری حدود کے سروے اور کھدائیاں عمل میں آتی رہی ہیں لیکن کامیابیاں ہاتھ نہ آسکی تھیں۔ ان ایریاز کے سروے کا علم تو بندہ عاجز کو ہے لیکن جہاں کیکڑا ون کا تجربہ کیا گیا وہاں کبھی کوئی سروے ہوا؟، اس کا علم کم از کم بالکل بھی نہیں اور نہ ہی اب تک سامنے آنے والی خبروں میں ایسی کسی بات کا اشارہ ملتا ہے۔ اگر وہاں سروے کے بعد کھدائی کی گئی ہے تو 14 ارب سے بھی زیادہ نقصان کسی حد تک قابل معافی ہے لیکن اگر کہ کسی قیاف یا قیاس پر کھودا گیا ہے تو یہ بات ضروری ہوجاتی ہے اس کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے کیونکہ اتنی بڑی رقم سے ہم خشکی پر کم از کم 14 سے بھی زیادہ مقامات پر کھدائیاں کر سکتے تھے۔

یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ اس کھدائی کی رغبت دلانے میں کس کا ہاتھ تھا؟۔ پاکستان کی کسی کمپنی کی جانب سے ایسا کیا جانے کا امکان میرے نزدیک اس لئے نہیں کہ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک کمپنی بھی ایسی نہیں جس کے پاس سمندر میں کھدائی کرنے کے کسی بھی قسم کے آلات موجود ہوں۔ اس قسم کی ماضی کی کوششیں بھی غیر ممالک کی مدد سے ہی عمل میں آتی رہی ہیں اور اب بھی ایسا سب کچھ پاکستان سے باہر کی کسی بڑی کمپنی نے ہی کیا ہوگا۔ اس بنیاد پر میں نہایت یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کی ایسا کرنے کی رغبت بھی کسی باہر کی کمپنی نے ہی دلائی ہوگی۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) اورآئیل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) محض پیسہ خرچ کرنے کے ہی ذمے دار بنائے گئے ہونگے۔ اگر اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو جو کچھ بھی ہوا اس کے نتیجے میں تمام تر نقصانات پاکستان ہی کو برداشت کرنے پڑے ہونگے۔ یہ محض میرا اندازہ ہے۔ معاہدہ کیا ہے، یہ تو حکومت پاکستان ہی کو علم ہوگا لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ دنیا کی کوئی فرم بھی اپنا ایک دھیلے کا نقصان بھی برداشت کرنے کیلئے کبھی تیار نہیں ہو سکتی۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کی از حد ضرورت ہے کہ ان معاملات کی مکمل تحقیقات کی جائیں اور ذمے داریوں کا تعین کیا جائے۔ رغبت دلانے والوں اور اس کام کا بیڑا اٹھانے والوں کا سخت محاسبہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ایک موہوم سی امید پر “غریبی میں آٹا گیلا” ہوجانا پاکستان کا ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ امید ہے اس معاملے پر راقم کی باتوں پر لازماً توجہ دی جائے گی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں