پراجکٹ انفال ۔۶۰

                   عظیم مفکر و مدبر دانشور ڈاکٹر ضیاء الہدیٰ مرحوم نے برسوں قبل ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’۔۔وقت برف کی طرح تیزی سے پگھل رہا ہے ،ہر گزرتا ہوا لمحہ موجودہ تہذیب کی قیامت کو قریب تر کرتا جا رہا ہے ۔یہ تہذیب اتنی جلدی مِٹ جانے والی ہے کہ جو لوگ باقی رہیں گے وہ حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ یہ تہذیب صرف خود ہی نہیں فنا ہوگی بلکہ اپنے علم برداروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گی ۔اور جو لوگ آنکھ بند کر کے ان کے پیچھے چل رہے ہوں گے اُن کا انجام بھی آگے چلنے والوں ہی جیسا ہوگا ۔خالص دنیوی نقطہ نظر سے بھی عقل مندی کا تقاضہ ہے کہ ہم وقت کے اشاروں کو سمجھیں اور مستقبل کے موڑ پر نگاہ رکھیں ۔۔دور اندیشی (یہی) ہے کہ موجودہ تہذیب کے ساتھ وفاداری ترک کر دی جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آنے والی تہذیب کیسی ہوگی ؟اور پھر اپنے ذہن، اپنے رجحانات اور اپنی خواہشوں کو اسی کے مطابق ڈھالنے اور اپنے عملی رویوں کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش شروع کر دی جائے ۔اب اس کے سِوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ جس پِٹِی پِٹَائی راہ پر ہم ابھی تک چلتے آرہے ہیں اُسے فوراً چھوڑ دیں۔‘‘                                       اور اس  سواء السبیل ،صراط مستقیم اور سیدھے راستے پر گامزن ہونے کی شعوری کوشش شروع کردیں  جس کی دعا روزانہ ہر نماز میں ہم یوں مانگتے ہیں کہ پالنے والے ہمیشہ سیدھے راستے کی ہدایت کرتا رہ ’اھدنا الصراط المستقیم ‘!

                 ہمارے زمانے کی خصوصیت یہ ہے کہ تبدیلی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی  ایسا  واقعہ ہوتا رہتا ہے جس کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہوتا۔ بالخصوص نائن الیون کے بعد سے تو اِن اٹھارہ برسوں میں جو کچھ دنیا میں ہو چکا ہے، ہماری نسل کے لوگ بھی آج سے پچاس سال قبل اس کا تصور  نہیں کر سکتے تھے ۔اب تو ان تبدیلیوں کو دیکھنے کے لیے کسی’ تیسری آنکھ ‘ کی بھی ضرورت نہیں رہی ،ان ہی دو گنہگار آنکھوں سے وہ کچھ نظر آرہا ہے جس کا کوئی سان و گمان بھی نہ تھا ۔

صاف دکھائی دیتا ہے کہ دو متوازی دھارے بہ رہے ہیں ۔دونوں کی رفتار میں قدرے فرق ہو سکتا ہے لیکن ان کا بہاؤ متوازی ہے ۔ایک دھارا تو ’’اسلامو فوبیا ‘‘کا ہے ۔یورپ ،امریکہ اور آسٹریلیا کم و بیش پوری دنیا متحد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ۔دنیا کی تینوں بڑی قومیں یہودی ،عیسائی اور مشرکین متحد ہو کر اسلام ،اسلامی تہذیب ،اسلامی اقدار و ثقافت کو نقصان پہنچانے اور قرآن و ذاتِ محمد ﷺ کو مشکوک بنانے اور ان کے تقدس کو پامال کرنے کے درپے ہیں ۔اس کا سبب ان کا’ مریضانہ‘ خوف (فوبیا ) ،ان کا نسلی تکبر اور اپنے برے انجام کا ’حقیقی خوف‘ہے جو موت کے ڈر اور دنیا و مال دنیا سے حد سے بڑھی ہوئی محبت(وَھَن) کی شکل میں ہر طرف پھیلا ہوا ہے ۔

                 قرآن کریم کے سورہ مائدہ کی آیت بیاسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تم اہل ایمان سے عداوت میں سب سے سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور ایمان لانے والوں کی دوستی میں قریب تر ان لو گوں کو پاؤ گے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔یہ اس وجہ سے کہ اُن میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں تکبر نہیں ہے ۔‘‘ہمارے زمانے میں نصاریٰ سے مراد وہ ’’پروٹسٹنٹ عیسائی ‘‘ ہیں جو ’بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کے وفادار ‘ کی مِثَل کے مصداق یہودیوں کے وفادار  اور فی الواقع’یہودی عیسائی ‘ یا ’عیسائی یہودی ‘ ہیں ! امریکہ، برطانیہ ،فرانس اور آسٹریلیا کے برسر اقتدار طبقات اور شاہی خاندان اسی زمرے میں آتے ہیں ۔

                     بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے سرب آرتھوڈاکس چرچ کے عیسائی تھے جو یہود و مشرکین  ہی کی طرح ظالم اور مسلم دشمن ہیں ۔اور امریکہ و آسٹریلیا میں لاکھوں ریڈ انڈینس اور ابو ریجنس ‘قبائلیوں کے قاتل بھی وہی یورپی سفید فام اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ(WASP) عیسائی لُٹیرے ہیں جنہیں اُن کے جرائم ہی کی وجہ سے یورپ سے نکالا گیا تھا اور جنہوں نے امریکہ اور آسٹریلیا پہنچ کر وہاں بھی قیامت برپا کی اور بالآخر دونوں بر اعظموں پر قابض ہو نے کے بعد  دنیا میں پہلے  دو عظیم جنگیں کروائیں اور کروڑوں بےگناہوں کی ہلاکت کا سبب بنے پھر ترکی میں خلافت عثمانیہ کا خؒاتمہ کیا اور بالآخر قلب مسلم میں ایک غاصب،  اسلام دشمن، مسلم دشمن اور انسانیت دشمن ،صہیونی، دہشت گرد ریاست اسرائل کا خنجر پیوست کر دیا ۔

                   بیسویں صدی ان ہی یہودیوں اور ان کے کار پردازوں کے مظالم کی صدی تھی اور بظاہر  اب ایسا لگتا ہے کہ اکیسویں صدی اس سے بھی زیادہ قیامت خیز ثابت ہو گی ۔ لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کا یہ واضح فرمان قرآن میں موجود ہے کہ ’’دل شکستہ نہ ہو ،غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو ۔اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے تمہارے فریق مخالف کو بھی لگ چکی ہے ،یہ تو زمانے کے اُلَٹ پھیر ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا ہے کہ اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میں سچے مؤمن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا ہے جو واقعی سچائی کے گواہ ہیں کیونکہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور وہ اس آزمائش کے ذریعے مؤ منوں کو الگ کر کے کافروں کی سرکوبی کرنا چاہتا ہے ۔کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں داخلہ مل جائے گا؟ حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں ‘‘ (سورہ آل عمران  ،آیات، ایک سو اُنتالیس تا بیالیس ) ۔

              موجودہ ملکی اور عالمی حالات کے پس منظر میں اور مستقبل قریب میں جو مزید سخت آزمائشیں آنے والی ہیں اُن کو بھی دھیان میں رکھیں تو صرف انہی آیات کی روشنی میں کم از کم تین باتیں قابل غور ہیں ۔

                (۱)ایک  یہ کہ قوموں کا عروج و زوال اللہ کی سنت ہیں (۲)دوسرے یہ کہ وہ آزمائشوں اور سختیوں کے ذریعے مؤمن اور منافق کا فرق واضح کر دینا چاہتا ہے کہ منافق،اہل ایمان کے سخت ترین دائمی دشمنوں  یہودو مشرکین  سے محض رشتہ ولایت ہی استوار نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی قیمت اپنے ایمان کا سودا بھی کر لیتا ہے جس کی مثالیں آج ملک و دنیا میں چاروں طرف بکھری پڑی ہیں ۔(۳) جبکہ غلبہ و اقتدار اعلیٰ کے لیے مؤمن ہونا شرط ہے ۔

                   ماہنامہ ’الفرقان‘لکھنؤ میں شایع اپنے ایک مضمون میں مولانا یحیٰ نعمانی نے بالکل درست لکھا ہے کہ بے شک ’’۔۔اس وقت عالمی سطح پر مسلمان نازک دور سے گزر رہے ہیں ۔عیارانہ پروپیگنڈے (اور اپنے زر خرید چاکروں )کے ذریعےدنیا بھر میں ان کے خلاف نفرت پھیلا دی گئی ہے ۔عالم عرب میں کہیں خانہ جنگیوں کا جہنم دہک رہا ہے، کہیں ظالم حکمرانوں کے مظالم کمر توڑے ہوئے ہیں اور ادھر اپنے ملک میں سنگھ پریوار ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے درپے ہے ۔لیکن ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ کہ صرف بی جے پی ہی نہیں دوسری سیاسی پارٹیوں کی پہلی ترجیح بھی یہی رہی ہے کہ مسلمانوں کو دبا کے رکھا جائے اور اُن پر اکثریت کا تسلط کمزور نہ ہونے پائے ۔حکومت کسی بھی رہی ہو مسائل ہمیشہ کم و بیش ایک ہی جیسے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے دور میں وہ کون سا ایسا کام ہے جو کانگریس کے دور میں نہ ہوتا رہا ہو ؟ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ پیٹھ میں چھرا گھونپتے رہے  ہیں اور یہ بے دھڑک سامنے سے وار کرتے ہیں اور منھ در منھ گالیاں دیتے اور مغلظات بکتے ہیں ۔

                پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پوری دنیا اس وقت سرمایہ پرستوں (قارونوں ) اور بازار کی قوتوں کے شکنجے میں ہے ۔(بے شک) مودی حکومت نے ڈنکے کی چوٹ پر ملکی وسائل کے(رافیل جیسے)  سودے کیے ہیں لیکن کانگریس دور میں یہ کام انیس سو نوے  سے (جاری ہے) ۔بنام گلوبلائزیشن ،نرسمہا راؤ اور مونٹیک سنگھ اہلو والیا نے جو کھیل شروع کیا تھا وہی آج عروج پر ہے ۔

                   لیکن اب بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع بہت ہیں ۔۔یہ ملک جتنا بڑا ہےاتنے ہی داخلی تضادات بھی یہاں موجود ہیں ۔اور خود برادران وطن میں سنگھ پریوار کے مخالفین کی تعداد شاید ہم سے بھی زیادہ ہے ۔یہاں مختلف نسلیں ،طبقاتی گروہ ،لسانی وحدتیں ،اور گہرے تنوع بلکہ اختلاف کی تاریخ رکھنے والی قومیں رہتی ہیں ۔صرف الکشن جیتنے سے  ملک کسی ایک پارٹی کی جاگیر  نہیں بن جایا کرتا ۔کوئی تعجب نہیں کہ تئیس مئی دو ہزار انیس  کو جو نتائج سامنے آئیں وہ دو ہزار چار کی تاریخ دہرانے والے ہوں ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ درجنوں بلکہ سیکڑوں ای وی ایم مشینیں ہی بدل کر فاشسٹ پریوار پھر سے  اقتدار پر قابض ہوجائے ۔

                   لیکن ،یاد رکھیے’’ فان مع العسر یسرا ۔ا ن مع العسر یسرا (سورہ الم نشرح آیات پانچ اور چھے ) حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ۔اور بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ‘‘۔

                   ویسے تو قرآن کریم کے سبھی تراجم میں سورہ شرح کی ان دونوں آیتوں کا لفظی ترجمہ یہی ملے گا جو اوپر درج ہے لیکن ماہرین نے لکھا ہے کہ عرب جب ایک ہی بات کو بعینہ دہراتے ہیں  تو دوسرا واحد  لفظ ،جمع کے  معنی دیتا ہے ،یعنی اہل عرب کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’بے شک ہر تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے ۔اور بے شک ہر مشکل کے ساتھ بہت سی آسانیاں بھی ہیں ‘‘!

ہم خوش قسمتی سے حامل قرآن و سنت قوم ہیں ۔بس ’پورے کا پورا اسلام میں داخل ہو جا نے ‘کی ضرورت  ہے ! ہم قرآن کریم کے ’انفال ساٹھ پراجکٹ ‘پر عمل کریں، اللہ کاوعدہ ہے کہ م’’تم ہی غالب رہوگے اگر تم مؤمن ہو ‘‘۔اور ’’یہ لوگ اپنے  منھ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ،لیکن اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔وہی تو ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری طرح غالب کر دے چاہے مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو  (سورہ صف آیات آٹھ اور نو)۔

              اور سورہ مبارکہ انفال کی ساٹھویں آیت میں دیا گیا پروگرام بس ہمارے انفرادی اور اجتماعی عمل کا منتظر ہے ۔پھر نتائج وہی ہوں گے جن کا قرآن نے وعدہ فرمایا ہے اور بے شک اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔۔انک لا تخلف ا لمیعاد ۔۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کا ارشاد گرامی یہ بھی ہے کہ ’’۔۔منکرین حق اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے ۔یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے ۔اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ قوت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے (کہ وہ تمہارے دشمن ہیں ) اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹا دیا جائے گا ۔اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا ۔(سورہ انفال آیت ۵۹۔۶۰)

                 تو آپ نے دیکھا کہ ’’ہمارے ساتھ ظلم نہ ہو ‘‘ اس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کس پروگرام پر عمل کو مشروط کیا ہے ؟

                 اس ملک کی کم از کم چالیس فی صد آبادی یعنی کم از کم ساٹھ کروڑ دبے کچلے ہوئے محروم و مقہور  لوگ (مستضعفین )آج بھی ہمارے منتظر ہیں ۔ہم خود ہی  بے لوث خدمت خلق  ، محبت ہمدردی اور خوش کرداری  کے ذریعے ان تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ۔لیکن اچھی طرح سمجھ لینے اور ٹھیک سے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تبلیغ کا سب سے زیادہ مؤثر آلہ گفتگو نہیں خود ہمارا  عمل و کردار ہوتا  ہے۔ ۔مشک آن باشد کہ خود بگوید نہ کہ عطار بگوید ۔

                   ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت چالیس سال کے سِنِ مبارک میں ہوئی تھی جبکہ حضرت عیسی ٰ ؑ نے تو آنکھ کھولتے ہی جھولے میں پڑے ہوئے یہ اعلان فرمادیا تھا کہ ’’ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے ‘‘(سورہ مریم آیت ۳۰)لیکن ہمارے نبی ﷺ نے چالیس برس تک پہلے صداقت ،امانت ،انصاف ،محبت ،مروت ،خوش خلقی (خوش اخلاقی )،سب کے ساتھ ہمدردی ،رحم اور خلوص پر مشتمل  اپنے اعلیٰ ترین کردار کا لوہا منوایا تب جاکے یہ اعلان کیا کہ ’’ کہو کہ نہیں ہے کوئی الہٰ مگر اس ایک اللہ کے سوا تاکہ تم فلاح پا سکو‘‘ وہ خالق و پروردگار اپنی مخلوق انسان کی فطرت سے بخوبی واقف تھا کہ وہ معجزے سے زیادہ اپنی عقل ،اپنی سمجھ، اپنی بصارت اور اپنے تجربے پر اعتماد کرتا ہے ۔اور دنیا نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنے معجزے کے باوصف اپنی پوری زندگی میں بارہ سے زیادہ ماننے والے نصیب نہیں ہوئے جبکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے ایک جامع نظام زندگی پر مشتمل ریاست قائم کر کے دکھا دی ۔

                لہٰذا آج بھی خوش کرداری کے معیاری نمونے پیش کیے بغیر مؤثر تبلیغ دین ممکن نہیں ۔اور ویسے بھی ۔۔ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسکم ۔۔لہٰذا ۔۔۔        سبق پھر پڑھ شجاعت کا صداقت کا امانت کا

                   لیا جانا ہے تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اور اللہ کا تو ارادہ ہے کہ مہربانی کرے ان لوگوں پر جو زمین میں دبا کر رکھے گئے تھے اور انہیں(کو اہل زمین کا ) امام بنا دے اور انہیں کو(زمین کا ) وارث بنائے (سورہ قصص آیت ۵)

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں