بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی۔ ایک سنگین مسئلہ

آئے دن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کئی واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں،اور کئی بے گناہ معصوم بچے درندہ صفت لوگوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتے ہیں جو معاشرے میں عام رجحان بن گیا ہے۔ ایک غیر معمولی شخص سے لے کر ہر گندے ذہن کا شخص اِس جرم میں ملوث ہے جو اب لوگوں کا کاروبار بن چکا ہے۔یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ہر خطے کا ہے، خواہ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر ممالک،غرض کہ ملک کے ہر گاؤں، شہر،اور قصبے میں یہ اخلاقی جرم عام ہے۔ یہ وحشی و بے رحم لوگ سماج سے اچھی طر ح پوشیدہ ہیں اور بہرو پیے بن کر گندے کاموں کو چلا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر بچے اپنے پڑوسیوں سے بھی محفوظ نہیں ہیں، یہاں تک کہ بیٹیاں بھی اپنے والد سے محفوظ نہیں۔اِس معاملے میں تعلیمی پیشہ ور بھی ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جس میں طلبہ و طالبات کو اچھے گریڈز کا لالچ دے کر اُنھیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور طالبات کی مزاحمت کے نتیجے میں اُن کا کیر یئر بر باد کر دیتے ہیں۔ یہ جرم آج کل ایک کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے جو نہ صرف ہمارے معاشرے میں بلکہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلتا جارہا ہے۔ اِس جرم کو کاروبار بنانے کے لیے بھی ایسے فحش گو لوگوں نے بہت وسیع طور پر پھیلایا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک دوسرے کی ڈھال بن کر اِس کام کو چلا رہے ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے حال ہی میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق، ۸۱۰۲ء میں مجموعی طور پر ۲۳۸،۳ بچوں کے ساتھ بد عنوانی کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں ۷۱۰۲ء میں ۵۴۴،۳ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اِس اذیت ناک مسئلے کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازا حال ہی میں رونما ہونے والے واقعے سے لگایا جا سکتاہے جو ۵۲ اپریل،۹۱۰۲کو پیش آیا ہے، جس میں والدین اپنی نو عمر بیٹیوں کو فروخت کرنے کے سنگین جرم میں ملوث تھے، جو فروخت ہونے کے بعد جنسی زیادتی کا شکار ہو گئیں۔ یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ نہ صرف اجنبی بلکہ قریبی رشتہ دار و اساتذہ یہاں تک کہ کچھ والدین بھی اِس گندی کارروائی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ مزید ایک رپورٹ کے مطابق۸۱۰۲ء میں ۲۹ مقدمات درج کیئے گئے تھے، جہاں متاثر ہ افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد اُن کو قتل کر دیا گیا۔
بچوں کی ایذا رسانی کا معاملہ نہ صرف پاکستان بلکہ تر قی یافتہ ممالک بھی ایک دوسرے کے تعا ون سے اِس جرم کو پھیلا رہے ہیں۔ ایسے بچے جو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں وہ ذہنی امراض کا بھی شکار ہوجاتے ہیں، جن میں اعلیٰ درجے کا ڈپریشن سرِ فہرصت ہے۔بچے اگر بدقسمتی سے بچ بھی جاتے ہیں تو ایسے وقعات و حادثات اُن کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایسے بچے ایک زندہ لاش کی مانند ہوتے ہیں جو خود کو مورد الالزام ٹھراتے ہیں اور خود کو تنہائی کا عادی بنا لیتے ہیں۔ ایسے متاثرین کو معمو لات ِ زندگی میں لانا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اُن کا ذہن مفلوج ہو چکا ہوتا ہے اور نتیجے میں وہ زندگی سے اپنی دلچسپی ختم کر دیتے ہیں۔
اگر ہم ایسی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے پر غور کریں تو یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ حکمران معاشرے سے اِن اخلاقی جرائم کا خاتمہ کرنے میں غیر سنجیدگی بر تتے نظر آئے ہیں،جس کے باعث اِس مسئلے کی روک تھام کے لیئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ غرض کہ اعلیٰ افسران و حکمران اِس مسئلے کی سنگینی کا اندازا نہیں کرسکے اِس لیئے اِس معاملے میں آج تک سخت قوانین اور مضبوط نظا م بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ بدترین ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اب حکومت کو چاہیئے کہ وہ اِس جرم کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیئے ایسے عملی اقدامات کرے جو سماج میں امن کی فضا قائم کر سکیں۔مزید یہ کہ اگر حکمران اس طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بن کر بیٹھے رہے تو یہ کئی نسلوں کی بربادی کا با عث بنتا چلا جائے گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں