معاشرے میں عدم برداشت کابڑھتا ہوا رجحان

پُر امن معاشرے کی تشکیل کئی اکائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔اِ ن اکائیوں کے باہم مربوط اور منظم رہنے سے ہی معاشرے کی بقا اور فروٖغ ممکن ہے جس کی پہلی شرط اتحاد ہے اور اس کے لیئے ضروری ہے ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنا۔ یہ برداشت ہی ہے جو انسان کو مہذب بناتی ہے اور زندگی کے تمام حالات میں پیش قدمی سے رہنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ آ ج ہمارے معاشرے میں برداشت کی روایت دم توڑ نے لگی ہے اور یہیں سے فسادات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔اِن فسادات کی بوچھاڑ سے بدامنی وجود میں آتی ہے جو مخدوش حالات کو جنم دیتی ہے۔ میرے نزدیک معاشرے کی بد حالی کی دواہم وجوہات ہیں جن میں قوموں کے درمیان اتحاد کا نہ ہونا اور عدم برداشت کا معدہ نہ ہونا شامل ہیں جو معاشرے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
بدقسمتی سے دنیا میں عدم برداشت بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور بالخصوص ہمارے ملک پاکستان کا حال دنیا کے باقی ممالک سے زیادہ پریشان کُن ہے۔جس کا اندازہ ہم ہر آئے دن رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے کر سکتے ہیں۔ آج کا ہر انسان اُلجھے ہوئے حالات کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث قوت ِ بر داشت کا خاتمہ ہورہا ہے، اور نتیجے میں کوئی بھی ایک دوسرے سے اختلافی بات سُننے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے ہر انسان اپنے نظریے کو صحیح ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہوتا ہے اور اُسے اپنا ہی قبلہ درست لگتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ اگر کسی کی بات ناگوار گزرے یا کسی کے مزاج کے خلاف ہو تو لوگ مارا ماری پر اُتر آتے ہیں، اور اگر یہی صورتِ حال کسی گھر کے فریقین کے درمیان ہو تو ایک چھت کے نیچے رہنے والے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور کئی دنوں تک اختلافات قائم رکھتے ہیں۔ یہ عدم برداشت ہمیں اِس نہج پر لے آئی ہے کہ آج ہمیں اپنے آگے باقی سب جاہل لگتے ہیں۔ آج کا ہر انسان چار کتابیں پڑھ کر اپنے دلائل دے کر سامنے والے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت کا ثبوت آج کل کے ایسے درندے ہیں جن کے لیئے کسی بھی معاملے میں خون بہانہ، انسان کی جان لینا معمولی سی بات ہے۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ مذہبی جذبات کو ہوا دے کر انسان کی غیرت کو للکارا جاتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں اوربنا سوچے سمجھے قتل و غارت پر اُتر آتے ہیں،نتیجے میں لاکھوں بے گناہوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور معا شرے میں انتشار پیدا کرکے عوام میں ہراس پھیلایا جاتا ہے۔
ایسے کئی واقعات نہ صرف تاریخ کاحصہ ہیں بلکہ آج بھی ایسی اذیت ناک مثالیں اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہیں جن سے موجودہ حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔خواتین کے سا تھ ظلم و تشدد کے واقعات، کبھی سرے عام معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی،کبھی بے قصور لوگوں کے ساتھ ناانصافی جیسے واقعات اِس زمرے میں آتے ہیں جو ہما رے برائے نام اسلامی معاشرے پر لگے ہوئے کبھی نہ مٹنے والے کلنک ہیں۔
باضمیر اور مہذب گھرانوں کے لیئے یہ صورت ِ حال لمحہ فکریہ ہے۔ آج پاکستان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار میڈیا ہے،جسے جب چاہے اور جیسے چاہے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اُس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ میڈیا میں تما م ٹی وی چینلز اپنے نمبر بڑھانے کے لیئے ہر واقعے کو کوریج دینے کی صف میں آگے آگے رہتے ہیں اور عوام کے ذہنوں پر سنگین اثرات ڈالنے کے لیئے تمام واقعات کو مصالحہ دار بناکر پیش کیا جا تا ہے۔ہر ٹا ک شو میں ایسے واقعات کو بڑھاوا دینے کے لیئے بحث ِ موضوع بنایا جاتا ہے، سیاسی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں جس سے خواتین اور نوجوانوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ میڈیا کا یہ فرض ہے کہ ایسے واقعات کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے منظرِ عام پر لائیں نا کہ اُسے عوام کے لیئے تفریح کا سامان بنائیں۔
میری رائے کے مطابق عدم برداشت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم وجہ ہمارا نظامِ تعلیم اور نصاب ہے جو نئی نسل میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔دوسری وجہ تعلیم کا فقدان،غربت، لالچ، مفاد پرستی، دولت کا حصول اور عالمی حالات ہیں جو دوسرے مسلم ممالک میں بھی بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور کرپشن کے باعث عوام میں خوف و ہیجانیت پیدا کرتا ہے۔ یہ تمام اسباب مل کر معاشرے میں عدم برداشت کی فضا قائم کر چکے ہیں جو ہم سب کی اُلجھنوں میں مزید اضافے کا سبب بنتی جارہی ہے جس کے باعث اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہورہی ہے۔
اب ضرورت اِس امر کی ہے اِس کی روک تھام کے لیئے عملی اقدامات کیئے جائیں۔میڈیا اور فلاحی تنظیموں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اِس کے متعلق لوگوں میں شعور پیداکریں۔ مزید یہ کہ نظام ِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیئے نصاب میں تبدیلی کی جائے جو نئی نسل کو ایک مثبت سمت سے روشناس کرواسکے اورجس سے اُن کی اصلاح ہو سکے۔
اب وقت ہے آگے بڑھ کر معا شرے سے عدم برداشت جیسے فتنے کا خاتمہ کرنے کا جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں