نیلسن منڈیلااور عمران کے آٹھ نکاتی ایجنڈا میں فرق

پاکستان تحریک انصاف کے23 ویں یوم تاسیس سے وزیر اعظم عمران خان نے خطاب فرماتے ہوئے عوام کے سامنے ایسے آٹھ نکات رکھے کہ جس پر پی ٹی آئی کی حکومت بہت جلد کام شروع کر کے ملک کی تقدیر بدل دے گی،بطور ایک محب وطن پاکستانی میری بھی یہی خواہش ہے کہ میرا ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔عمران خان کے آٹھ نکاتی ایجنڈا سنتے ہی میرے ذہنی شعور میں نیلسن منڈیلا کے وہ آٹھ نکات امڈ آئے جو انہوں نے1994 میں اس وقت بیان کئے جب وہ عہدہ صدارت کا حلف لینے والے تھے۔وہ آٹھ نکات کچھ اس طرح سے تھے کہ
1۔ایوان صدر میں موجود تمام گورے اپنے عہدوں پر فائز رہیں گے،کسی گورے کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا۔
2۔میری سیکیورٹی انہیں گورے افسران کے پاس رہے گی جو گورے صدر کی کیا کرتے تھے۔
3۔میں اپنے مہمانوں کو خود چائے بنا کر دیا کروں گا،ویٹر مجھے اور میرے مہمانوں کی خدمت نہیں کریں گے،یہ کام میں خود کرونگا۔
4۔میں اپنے ذاتی گھر میں رہوں گا۔اور شام کے وقت نائٹ اسٹاف کے سوا میری کوئی ڈیوٹی نہیں کریگا۔
5۔ملک میں موجود تمام گورے جنوبی افریقہ کے شہری ہیں جو انہیں تنگ کرے گا اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
6۔آج سے میرا کوئی سیاسی یا ذاتی مخالف نہیں ہو گا۔
7۔ملک کی سرکاری میٹنگز میں میرا کوئی دوست یا رشتہ دار شامل نہیں ہوگا۔
8۔میں اس ملک کا عام شہری ہوں،چنانچہ میرے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ کیاجاتا ہے۔
یہ وہ آٹھ نکات تھے جنہیں نیلسن منڈیلا نے اپنی حلف برداری تقریب میں ہی بیان کر دیا اور پھر جتنا اور جس حد ممکن ہوسکا اس کا اطلاق اور اسے لاگو کرنے میں لگا دیا جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے،کہ وہ جنوبی افریقہ جسے دنیا کا غیر محفوظ ملک خیال کیا جاتا تھا اسی ملک میں نیلسن منڈیلا کے حلف اٹھانے کے صرف ایک سال بعد ہی یعنی 1995 میں رگبی کا ورلڈ کپ منعقد کیا گیا۔اور پھر 2003 میں اسی ملک میں کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی کھیلا گیا،وجہ کیا تھی نیلسن منڈیلا کی فہم و فراست اور قانون کا بلا امتیاز اطلاق اور نتیجہ ہم سب کے سامنے۔اگرچہ یوم تاسیس کے موقع پر وزیر اعظم نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے بھی آٹھ نکات ہی عوام کے سامنے بیان کئے کہ ان آٹھ نکات کی مدد سے پاکستان اتنی ترقی کر جائے گا کہ دنیا کے تمام راستے اور شا ہراہیں صرف پاکستان کی طرف ہی آئیں گی۔اللہ کرے ایسا ہی ہو،وزیر اعظم کے بیان کردہ نکات کچھ اس طرح سے تھے کہ۔
1۔غربت کا قلع قمع کرنے کے لئے احساس پروگرام کا آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ کم آمدنی والے لوگوں کو غربت کے حصار سے نکالاجا سکے۔
2۔عام لوگوں کوچھت فراہم کی جائے گی،اس سلسلہ میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کی جائے گی جس کا افتتاح اوکاڑہ میں وزیر اعظم کر رہے ہیں۔
3۔ٹور ازم کو فروغ دیاجائے گا،اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کودعوت دی جائے گی۔
4۔لوکل گورنمنٹ سسٹم کا آغازکہ جس سے عام آدمی کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے گی۔
5۔زراعت میں چائنہ سے ملکر جدید زرعی مشینری کا استعمال تاکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کو ممکن بنایا جا سکے۔
6۔چائنہ کی ہی مدد سے پرائم منسٹر ہاؤس میں پاک چائنہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا،جس میں آئی ٹی اور جدید تعلیم سے نسل نو کی تعلیمی آبیاری کی جائے گی۔
7۔ہیلتھ کارڈ کا اجرا کردیا گیا ہے،جس سے عام آدمی کو طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
8۔گیس کے ذخائر کی دریافت اور اس میں خود کفیل ہونے کا دعویٰ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیلسن منڈیلا اور عمران خان کے پیش کردہ نکات میں فرق کیا ہے،ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ عمران خان کے پیش کردہ نکات تقریباً تسلسل ہے جو سابق تمام حکومتیں وقتاً فوقتاً پیش کر کے عوام کے جذبات سے کھیلتی رہی ہیں۔اب اگر ان حکومتوں کی پالیسیوں کا ہی تسلسل پیش کرنا ہے تو پھر نیا نظام اور نیا پاکستان کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی؟۔دوسری جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے عملی اقدامات،جب تک قانون کے اطلاق کے لئے بلا امتیاز آہنی ہاتھوں کا استعمال نہیں کیا جائے گا،اس وقت تک آپ نواز و زرداری تو بن سکتے ہیں نیلسن منڈیلا نہیں،کیونکہ نیلسن نے جو کہا اسے کر کے دکھایا، لہذا عمران خان بھی اگر نیلسن منڈیلا بننا چاہتے ہیں جن کاذکر وہ خود کئی بار اپنی تقاریر میں بیان بھی کر چکے ہیں تو ان کی طرح کچھ کر کے دکھانا پڑیگا کہ خالی نعروں سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔ نیلسن منڈیلا کے بیان کردہ نکات کا اگر پھر سے جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ اس نے نہ تو ملک میں کسی دیوار چین بنانے کا اعلان کیا،نہ کوئی موٹر وے یا اورنج ٹرین کا وعدہ کیا،نہ فیکٹریاں لگانے کا خواب دکھایا اور نہ ہی اداروں کو آسمان پر لے جانے کی بات کی،اس نے اپنے ان نکات پر قوم کو ایک بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیے۔تاریخ نے دیکھا کہ صرف ان نکات پر عمل پیرا ہو کر جنوبی افریقہ کے لوگ ایک قوم بن گئے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس ایک عمل سے جنوبی افریقہ کے 80 فیصد مسائل یا تو حل ہو گئے یا پھر حل ہونا شروع ہو گئے۔ہمیں بھی اگر مسائل کا حل چاہئے تو باتوں اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے سے نہیں ممکن نہیں ہوگا، عملی اطلاق اور آہنی ہاتھ ایسے ہتھیار ہیں جس سے بڑے بڑے لائن پہ آ سکتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں