ذہنی تحدیدات۔۔۔۔خودی میں ڈوب کے پاجا سراغ زندگی

جہاں ایک طالب علم کی آرزوہوتی ہے کہ وہ اچھا پڑھ لکھ کر عمدہ رینک حاصل کرے وہیں ایک فربہی کا شکار لڑکی مٹھا ئی سے پر ہیز کرتے ہوئے اپنا وزن کم کرنے کی آرزوکرتی ہے۔طلبہ اپنے ٹیلی ویژن دیکھنے کے جنون پر قابو تو پانا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی ناکام رہتے ہیں۔ کیوں یہ دونوں اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہ سکتے اور ناکام ہوجاتے ہیں؟۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم صرف اہداف و مقاصد طئے کرکے مطمین اور خوش تو ہوجاتے ہیں لیکن اہداف کے حصول میں معاون و کارآمد عملی کام سے پہلو تہی یا پھر یکسر غفلت برتتے ہیں۔ ہم بہتر تنائج کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن بہتر تنائج کے لئے درکار عملی اقدامات سے گریز پا رہتے ہیں۔بہتر نتائج کے لئے جن ا عمال اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے یا تو غفلت برتتے ہیں یا پھر انھیں درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ایلڈر(Elder)کے مطابق یہ غفلت اور پہلو تہی قوت ارادی کے فقدان کے سبب پائی جاتی ہے۔اسی لئے طلبہ کو عزائم میں پائیداری اور مستقل مزاجی سے کام لینے کی ہر جگہ تلقین کی جاتی ہے۔اکثر یہ مشورہ بے سود و بے فیض نظر آتا ہے کیونکہ استقامت اور پائیداری ایک مشکل اور محنت طلب شئے ہے۔ا گر یہ اتنی ہی آسان اور سہل شئے ہوتی تب کیوں ہم اپنے ایام طالب علمی میں اس سے اکثر چوک چکے ہیں۔اس کی وجہ ہمارے اند ر ہی کہیں پوشیدہ ہے۔ہم استقلال اور مستقل مزاجی کے فقدان کے سبب قوت ارادی یا عزائم کومضبوطی عطا نہیں کر پاتے ہیں۔ہمارے استقلال و عزائم میں کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں جنھیں ہم روڈ بلاکریا راستوں کو مسدود کرنے والے عناصر کہتے ہیں۔عزائم کو سینے میں بیدار کرنے اور ان کے حصول کے لئے ہمیں اپنے راستوں کی رکاوٹوں کو پہلے دور کرنا ہوتا ہے۔ہمارے راستے کی رکاوٹوں میں پانچ سائیکو سومیاٹک (psychosomatic)عناصر شامل ہوتے ہیں جو خود انضباط(self discipline)،اولوالعزمی اور ارادوں پر قائم رہنے سے باز رکھتے ہیں۔
ماحول (Environment)ماحول کسی بھی انسان کے ذوق اور عادات کے تعین میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔ایک طالب علم عارضی طور پر اپنے دوستوں کے کہنے پر اپنی پڑھائی کو کچھ وقت کے لئے التواء میں ڈال دیتا ہے۔ دوست اس کو باور کرواتے ہیں کہ چند لمحات کی لطف اندوزی سے ا س کی تعلیم و پڑھائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔وہ اپنی عادات کو حق بجانب قرار دینے کے لئے اس کو ترغیب دیتے ہیں کہ چندگھنٹوں کی لطف اندوزی اس کے مستقبل میں رکاوٹ پیدا نہیں کر ئے گی بلکہ ترو تازہ رہنے کے لئے دوستوں سے گفت و شنید و لطف اندوزی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی مصروفیات کو بہتر طور پر انجام دے سکے۔ایسے دوست ایک طالب علم کو بہتر فیصلہ کرنے اور اچھی عادات اپنانے اور ان کے فروغ سے باز رکھتے ہیں۔اگر آپ کی پڑھائی بہتر طور پر نہیں ہورہی ہے تب یہ طئے ہے کہ آپ کی قوت ارتکاز (Concentration)مجروح ہورہی ہے تب ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو دوبارہ منظم کریں۔ اگر آپ اپنی فلاح و بہتری کے لئے کوشاں ہیں تو آپ کو اپنے ماحول،تعلیمی ماحول اور سب سے اہم اپنے اپنے حلقہ احباب کو تبدیل کرنا اشد ضروری ہوجاتا ہے۔
پوشیدہ طاقتیں؛۔بعض مرتبہ اپنی ناکامی کے لئے ذمہ دار پوشیدہ خامیوں و کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے بجائے ہم اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے بہت ہی غیر عقلی و غیر معقول عذر تراشتے ہیں۔مضمون ریاضی میں بہتر کارکردگی نہ پیش کرنے پر چند طلباء شکوہ بہ لب رہتے ہیں کہ یہ مضمون تو ان کے والد کا پسندیدہ تھا اور ان پر زبردستی تھوپ دیا گیا ہے۔یا ایک بزنس مین اپنی تجارت میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے بہانہ بناتا ہے کہ اس کی ناکامی کی وجہ کاروبار کو منحوس گھڑی میں شروع کرنا تھا۔ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اکثرایسے ہی حیلے بہانوں کے ذریعہ اپنی ناکامیوں اور عملی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں جیسے تساہل، خوف ڈر،اور دباؤ و تناؤ پر اپنی سوچ و فکر کو معقول و مثبت بناکر دور کرسکتے ہیں۔اپنی ذات میں پوشیدہ کمزوری و خامی کو ڈھونڈنکالنا اور اس کی اصلاح کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔اکثر ہم اپنی ناکامی کے لئے ظاہر ی اسباب پر ہی نظر ڈالتے ہیں اور ظاہری اسباب تک ہی اپنی فکر کو محدود رکھتے ہیں۔ظاہر ی اسباب پر نظر ڈالنے سے قبل ہم کو اپنے اندرون پر نظر ڈالنے اور نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان کی اسی خوبی کو احتساب کہا جاتا ہے۔ جو افراد احتساب کی خوبی سے متصف ہوتے ہیں وہ نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا تے ہیں بلکہ کامیاب و کامران زندگی بھی گزارتے ہیں۔
اپنی صلاحیتوں کو اہمیت نہ دینے یا کم اہمیت دینے کا داخلی رجحان(تنقید ذات)؛۔اپنے اہداف و مقاصد تک رسائی کے لئے مسلسل و متواتر مثبت خودی کی نگرانی یا باالفاظ دیگر مثبت تنقید ذات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔منفی تنقید ذات اور اپنے آپ کو ہی رد کردینے یا اپنے افکار و خیالات کے آپ ہی نقاد بننے سے کامیابی کے راستے بند ہوجاتے ہیں۔اپنی ذات پر اعتبار کی کیفیت اور اپنے خیالات کو وقار عطا کرنے والے پہلے شخص آپ خود ہوتے ہیں تب جا کر زمانہ آپ کی توقیر و عزت کرتا ہے۔بے جا تنقید ذات اور منفی رجحانات سے خو د کو بچانا ضروری ہوتا ہے۔ان رجحانات کے حامل افراد کو ناکامی کے ظاہری اسباب پر نظر دوڑانے سے بہتر اندرونی اسباب کو تلاش کرنے کو ضرورت ہوتی ہے۔طاقت ور منفی خیالات اور لاامتناہی خودی کو تباہی کرنے والی خواب آور (ہائپناٹک) مایوسی جیسے میں بہت ہی کمزور ہوں، میں بہت بد صورت ہوں،میں یہ کام نہیں کر سکتا،اور میری کوئی مدد نہیں کر تا ہے یہ تمام کامیابی کی راہ میں حائل مستقل دائمی رکاوٹیں ہیں۔بدقسمتی سے انسان ان باتوں پر توجہ کرتے ہوئے مایوسی اور پھر ناکامی کا شکار ہوجاتا ہے جن پر توجہ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔بے جا اندیشوں،خوف و تردد سے انسان کو ہمیشہ بچنا چاہئے۔اللہ رب العزت ہر بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر کیوں انسان مایوسی اور خوف و تردد کا شکار ہوجاتا ہے یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے۔ اللہ پر کامل بھروسہ اور خودی پر مکمل اعتماد انسان کے قدموں کو کامیابی کے راستے سے کبھی متزلزل نہیں کر سکتے ہیں۔
دلفریب سرگرمیاں.۔رات دیر تک سماجی مصرفیت،رات دیر تک موسیقی سننا یا فلمی بینی کرنا یا پھر انٹر نیٹ و موبائل فون پر خو د کو مصرف رکھنا بے شک آپ کو وقتی لطف و سرور عطا کردیتے ہیں لیکن جب ان باتوں کے عاد ی ہوجاتے ہیں یا ان افعال کے غلام بن جاتے ہیں تب ان سے ایک چھوٹی سے کوشش کے ذریعہ پیچھے چھڑانا اور گلو خلاصی حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔اسی لئے عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ ابتداء سے طلبہ ان عادات و سرگرمیوں سے خو د کو بچا کر رکھیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔اگر آپ یہ مضمون پڑھ چکے ہیں تب ٹیلی ویژن دیکھنا چھوڑکر وقت گزاری کے صحت مند اور بہتر طریقوں پر عمل کریں۔دنیا کے کسی بھی فرد سے زیادہ آپ اپنی مدد خاموشی سے انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو وقتی لطف فراہم کرنے والی چیزیں جو کہ دلفریب ہوتی ہیں اور آپ کو اپنے مقصد سے بہکا دیتی ہے ان کے پر کشش خول سے خود کو آزاد کریں اور ان پر کشش اور دلفریب خول میں مقید ہونے سے بھی خو د کو بچائے رکھیں۔ہر وہ شئے جو آپ کو اپنی منزل اور مقصد سے بیگانہ کر دے یا غیر ذمہ دار بنا دے ان سے بچنا بہت ضروری ہے اگر طلبہ ان دلفریب سرگرمیوں اور پرکشش عادات سے خو د کو نہیں بچا پاتے ہیں تب اس عمل کوکسی بھی طرح خودکشی سے کم تصور نہیں کیا جاسکتا۔

شکست کا ساتھ دینا؛۔آدمی جب دوسروں کے جانب سے فراہم کردہ مصنوعی یا نمائشی راحتوں کے ذریعہ لطف اندوز ہوتا ہے تب اس کا یہ طرز عمل اس کو نا قابل بیان تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک طالب علم رات میں دیر تک جاگتے ہوئے خو د کو پڑھائی میں مصروف رکھنے کے لئے حد سے زیادہ چائے یا کافی پیتا ہے۔طالب علم کی کام کرنے کی نیت اچھی ضرور ہے لیکن یہ عمل وقت کے ساتھ عادت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔طالب علم اپنی اس کمزوری سے آگہی رکھتے ہوئے بھی چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔اسی عمل کو نفسیات کی زبان میں شکست سے پاسداری نبھانا یا ناکامی کا ساتھ دینا(coping with defeat)کہاجاتا ہے۔حد سے زیادہ احتیاط برتنے والے اولیائے طلبہ بھی اپنے طرز عمل کی بناء  بچوں میں دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچے دوسروں پر انحصار کرنے میں ہی عافیت و سکون محسوس کرتے ہیں جب کہ یہ کیفیت و عمل بچوں کے لئے زہر ہلاہل ثابت ہوتا ہے۔طلبہ کے تین دشمنوں کا توسیع مضامین کی شکل میں طویل احاطہ کیا گیا اور ان سے نبردآزمائی کے کارگر طریقے بھی بتائے گئے۔
طلبہ کے دشمنوں میں اولین دشمن اور ان کی کمزوریوں کا اصل سبب دباؤ (stress)ہوتا ہے۔ دباؤ پیدا کرنے والے اسباب پر جب قابو پالیاجاتا ہے تب آدمی آدھی جنگ جیت جاتا ہے۔لیکن دباؤ کے اسباب پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے اس ضمن میں ایک جاپانی واقعہ کے ذریعہ آپ میں مثبت فکر کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔جاپانی قوم تازہ مچھلی کی دلداہ واقع ہوئی ہے۔لیکن جاپان کے قریب پائے جانے والے سمندری علاقے میں مچھلیاں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ماہی گیر جتنی دور سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لئے نکل جاتے ہیں اتنا ہی وقت ان کی واپسی کے لئے بھی درکار ہوتا ہے اور وہ مردہ مچھلیوں کے ہمراہ لوٹتے ہیں۔مردہ مچھلیوں کو سڑنے گلنے اور بدبو سے بچانے کے لئے مچھلیوں کا شکار کرنے والی کمپنیوں نے اپنے بوٹس میں فریزرز کو لگوایا تاکہ مچھلیا ں محفوظ رہ سکیں۔مردہ مچھلی کا گوشت جاپانی کام و دہن کو ناگوار گزرا جس کی وجہ سے مچھلیوں کا شکار کرنے والی کمپنیوں نے اپنے بوٹس میں پانی کے ٹینکس کی تنصیب کی تاکہ زندہ مچھلیوں کو صارفین تک پہنچایا جاسکے۔اس عمل سے زندہ مچھلیاں صارفین تک پہنچائی جانے لگی لیکن مچھلیوں کی پانی میں حرکت میں کمی کی وجہ سے ان کے گوشت کے مزے و لذت میں کمی محسوس کی گئی۔ مچھلیوں کا شکار کرنے والی کمپنیوں کے لئے یہ بہت ہی تشویشناک بات تھی۔وہ تمام سر جوڑ کر اس مسئلہ کے حل میں جڑ گئے۔انھوں نے اس مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ بوٹس میں تنصیب شدہ پانی کی ٹینکیوں میں ایک چھوٹی سی شارک مچھلی کو ڈال دیا۔چند مچھلیاں شارک کی خوراک ضرور بن گئیں لیکن بہت ساری مچھلیاں ساحل تک پہنچنے تک ترو تازہ پائی گئی کیونکہ ان کو شارک سے اپنی زندگی بچانے کے لئے مسلسل تگ ودوکرنی ہوتی تھی۔اس واقعہ سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ جو بھی انسان دباؤ سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اس کے لئے مسلسل جدو جہد اور تگ و دو ضرور ی ہوتی ہے۔
ایک (1)سے آٹھ تک کے اعداد کا جملہ حا صل کیا ہوتا ہے؟جواب ہوگا 36۔اور اگر یہ 1تا 199پائے جانے والے جملہ اعداد کا جمع کیا ہوگا؟اس کا جواب ہزاروں میں ہوگا۔دونوں میں کونسا سوال آسان ہے؟یقیناً ہم تما م کی رائے میں پہلا سوال ہی آسان ہوگا۔لیکن اگر آپ کو ریاضی یا اعداد کا علم ہے تو دوسرا سوال نہایت آسان لگے گا۔اس میں 100کو 199 سے ضرب دینا ہوگا۔مذکورہ مثال ہماری اپنی زندگی پر بھی صادق آتی ہے۔ہم چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے ہیں جس طر ح وہ ہوتی ہیں۔ہم ان کو اپنی طرح دیکھتے ہیں (یعنی ہم جیسے ہیں ویسے ہی دیکھتے ہیں)۔  اس طرح ہم فضول فکر اور بے جا اندیشوں کی وجہ سے آسان اور اہم معاملات کو مشکل اور پیچیدہ بنا ڈالتے ہیں۔اپنی فکر اور بے جا اندیشوں کی وجہ سے مسائل کو ناقابل حل تصور کرتے ہیں۔اسی طرز عمل کی بدولت اکثر لوگ ہنسی جیسی قیمتی شئے سے بھی محروم رہتے ہیں اور یہ جہا ں بھی جائیں تفکرات و مسائل سے بھرا صندوق(سوٹ کیس) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہنسی کامیاب کے سفر کو مختصر بنا دیتی ہے یا د رہے زیادہ ہنسی دل کو مردہ بھی کر دیتی ہے۔کامیاب لوگ ہر وقت دو وجہ سے اپنے لبو ں پر مسکراہٹ کو سجائے رکھتے ہیں ایک مسائل سے بچنے کے لئے اور دوسرا تمام مسائل کے حل کے لئے۔ دباؤ ہم کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا ہے بلکہ دباؤ کے تعلق سے ہمار ہ طرزعمل یا ردعمل ہم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔
ایک دائرہ بنا کر سلسلہ وار اپنے مسائل،تفکرات، صحت کے مسائل،جسمانی کمزوریوں،احساس کمتری،عوامی جگہوں اور مجموعہ میں بات کرنے سے گھبراہٹ،معاشی مسائل، کام کا بوجھ یا زیادتی اور وقت کی قلت وغیر ہ کو تحریر کر لیں۔ان مسائل سے متعلق ممکنہ حل جو اس سے پیشتر مضامین میں بھی بیان کیے گئے ہیں جیسے تساہل اور سستی سے کیسے چھٹکارا پایا جائے،وقت کا نظم کیسے بہتر بنایا جائے ان ممکنہ حل پر سنجیدگی سے غور کریں اور دائرے پر تحریر کردہ مسائل کے تدارک اور انسداد میں ان تدابیر کو اختیار کریں۔ مسائل کے قریب ایک مثلث اتار کر جن مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ان کے حل میں معاون تدا بیر و لائحہ عمل کو تحریر کر دیں۔ جب ان مسائل کا سد باب ہوجائے ان کو دائرے سے نکل دیجیے یا پھر اس پر ایک باکس لگادیجیے۔اس طرح سے دائرے میں تین امور پائے جائیں گے ایک دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کی لسٹ دوسرے امور جو آپ کے لئے مسائل نہیں رہے جن پر آپ نے باکس بنادیا اور مثلث والے امور جو آپ کو کام کو انجام دینے کی یا د دہانی کراتے ہیں۔ہر آدمی کو اپنی کمزوریوں کا علم ہوتا ہے۔انگریزی کی کہاوت ہے کہ “Attack is the best way of deffence “اس کہاوت کی روشنی میں مسائل سے فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کا جوانمردی سے مقابلہ کیا جائے۔اگر آپ مسائل کا سامنا نہیں کریں تب آپ کی زندگی خو د ایک مسئلہ بن جائے گی اور زندگی میں کامیابی کے امکانات بھی موہوم کیا بلکہ معدوم ہوجائیں گے۔کسی بھی مسئلہ یا پریشانی کی عمر آپ کی زندگی سے بہت چھوٹی ہوتی ہے۔یہ نہ تو آپ کے ساتھ پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ آپ کی موت تک آپ کے ساتھ رہتی ہے۔مسائل اور پریشانیاں خار ہوتے ہیں اور جب ہم ان کو راستے سے نکال پھینکتے ہیں تب ہم کو حقیقی راحت اور سرور حاصل ہوتا ہے۔اگر زندگی مسائل سے پاک ہوتو پھر ایسی زندگی جینے میں بوریت اور بے مزہ ہونے کے علاوہ اور کیا رکھا ہے۔ زندگی کی خوبصورتی اور حقیقی مسرت تو مسائل کا سامنا کرنے اور ان کو حل کرنے کی تگ و دو اور جستجو میں پوشیدہ ہے۔جرات کا مطلب خوف کانہ پایا جانا نہیں ہے بلکہ جرات کا مطلب ہے کہ جب خوف آپ کے دروازے پر دستک دے  تب  آپ اپنا دروازہ کھول دیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ باہر کچھ بھی نہیں ہے۔خوف آدمی کا سامنا کرنے سے گھبراتا ہے اور جب آدمی خوف کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے تب خوف خو د سراسمیہ ہوکر راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے   پھر دیکھ خدا کیا کر تا ہے۔
حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں