” قافلہ دلدل میں ہے ۔۔ “

 جمہوری حکمران ہوں یا پھر ناجائز طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمران پاکستان کی سیاسی تاریخ عوام کو دیئے گئے نئے نئے نعروں اور سبز باغ دکھانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے، ایوب خان کا صدراتی نظام کا نعرہ ہو یا بھٹو دور کا نعرہ روٹی کپڑہ اور مکان، جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے منعقد کیا جانے والا ریفرنڈم، نوازشریف کی قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم ہو یا نام نہاد بہادر  کمانڈر مشرف کا نعرہ “سب سے پہلے پاکستان “، زرداری کی ملک کو ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنانے کی بات ہو یا کپتان کا نعرہ نیا پاکستان اور تبدیلی،غرض ان 72 سالوں میں عوام آنکھوں پر اندھی تقلید کی پٹی باندھ کر لیڈر کی طرف سے جلائی جانے والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر سمجھتے ہیں  ساحلِ مراد پر پہنچ جائیں گے جبکہ صورتحال اس کے بر عکس ہوتی ہے۔

موجودہ حکومتِ عمرانیات کی جانب سے جلائی جانے والی بتی کا نام ” صدارتی نظام “ہے ملک کو اقتصادی ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے ملک کو اقتصادی لاغر بنا دیا ہے، حالت یہ ہے کے آٹھ مہینے میں ہی کپتان نے اپنے ارسطو یعنی اسد عمر سے استعفی لے لیا،  اور اب عوام کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کے ان آٹھ مہینوں میں ملک کی معاشی اور اقتصادی تباہی کا ذمہ دار یہ پارلیمانی نظام ہے جس کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں اور وہ اپنے اتحادیوں کے سامنے مجبور ہے، اس بتی کا اثر بھی عوام پر بہت گہرا پڑا، ٹیوٹر پر صدراتی نظام کے حق میں ٹرینڈز چلائے گئے، تحریک انصاف کے رہنما میڈیا پر بیٹھ کر صدارتی نظام کی افادیت میں بھاشن دیتے نظر آئے، ملک میں ایک بار پھر رائے بنانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت کی ناکامی کی وجہ اس کی نا تجربہ کاری اور کرپشن نہیں بلکہ موجودہ پارلیمانی نظام ہے، یہ ہی نظام ترقی کی راہ میں حائل ہے لہذا اس نظام کو ہی تبدیل کر دینا چاہئے ۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کے اگر حکمران اہل اور تجربہ کار ہوں تو وہ گلے سڑے نظام کے ذریعے بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں اور حکمران ہی نااہل، ناتجربہ کار اور بد عنوان ہوں تو بہترین سیاسی نظام بھی ان نا اہلوں کے ہاتھوں اپنی افادیت کھو دیتا ہے، لہذا عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے بجائے حکومت کو کنٹینر پر چڑھ کر عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے، تا کہ عوام بھی دو سو ارب ڈالرز باہر کے ممالک سے واپس آتا دیکھیں اور اگر خدانخواستہ یہ لوٹی دولت واپس نہ آسکی تو یہ دعویٰ بھی ماضی کے دعووں کی طرح  محض سیاسی بیان ہی ثابت ہوگا، اور تاریخ کے اوراق پر تحریک انصاف کی پوری سیاسی جدوجہد صرف جھوٹ، الزامات اور مخالفین کی کر دار کشی کا ذکر ہی موجود رہے گا ۔

قافلے دلدل میں جا ٹھیرے

رہنما پھر بھی رہنما ٹھیرے

حصہ

جواب چھوڑ دیں