میں مزدور ہوں

مجبوری کے افسردہ حوالوں سے سحر ہوگی
مزدور ترے ہاتھ کے چھالوں سے سحر ہوگی
تمام لغات،قاموس،انسائیکلوپیڈیا اور محیط المحیط میں مزدور کی تعریف کچھ اس طرح سے بیا ن کی گئی ہے کہ”ایسا انسان جواپنی تمام تر کاوشیں عملًا کسی مخصوص ہنر کے لئے بروئے کار لائے یا ایسا فردجو اپنا کام ذہنی وجسمانی محنت و مشقت سے سر انجام دے مزدور کہلاتا ہے“دین اسلام جسے دین فطرت اور مکمل دین کا درجہ حاصل ہے،اس مذہب کے مطابق بھی حکم ہے کہ الکا سب حبیب اللہ یعنی محنت و مزدوری کرنے والا اللہ کا حبیب ہے،اسی طرح فرمان عالی شان ہے کہ ”مزدورکی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی جائے“باوجود ان فرمان اعلی و ارفع کے مزدور کی حالت زار اتنی خستہ کیوں ہے؟دنیا بھر خصوصاً مسلم ممالک میں مزدور اتنا خستہ حال کیوں ہے جبکہ اسلام اور حقوق انسانی کی تمام تنظیموں نے ان کے حقوق بھی وضع کئے ہوئے ہیں تو اس کا جواب ہمیں یوم مزدور منا کر نہیں عملی اقدامات کر کے تلاش کرنا ہوگا۔یوم مزدور تو فی زمانہ ایک فیشن بنتا جا رہا ہے کہ کچھ نام نہاد انسانی حقوق کے ٹھیکیدار چند مزدوروں کو اجرت پر بلا کر پلے کارڈز ہاتھوں میں تھماکر مشہور شاہراہوں اور چوراہوں پہ کھڑا کر کے یا پھر چند سیمینار،مشاعرے اور تقریبات منعقد کر کے دنیا کے سامنے یہ نمائش کرتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کی پامالی و استحصال کے خلاف ہیں حالانکہ انسانی قدروں کو اپنے پاؤں تلے سب سے پہلے یہی لوگ روندتے ہیں۔
یوم مزدور ہم کیو ں مناتے ہیں اور اس کو منانے کا مقصد کیا ہے؟اس کے لئے ہمیں انیسویں صدی کے دور کا مطالعہ کرنا پڑے گا کہ جب یورپ میں صنعتی ترقی کا دور دورہ تھا،بھاپ اور کوئلے سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہو چکے تھے۔یورپ نے ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھ لیا تھا اور انقلاب فرانس کی آمد آمد تھی۔یورپ کی بعض ترقی پسند دانش ور،شاعر،ادیب،صحافی،قلم کار اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مزدور اور محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔کارل مارکس کے نظریات جرمن سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہے تھے۔کمیونسٹ پارٹی اور اس کا منشور بھی دنیاکے ہاتھوں میں آچکا تھا۔فیکٹریوں اور کارخانوں میں مزدور متحداور منظم ہو رہے تھے،انہوں نے اپنے آپ کو اور اپنی محنت کو پہچان لیا تھا یعنی انہیں اتنا شعورآچکا تھا کہ وہ اس بات کی حقیقت کو جان چکے تھے کہ۔
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے مزدور کھا گیا مات
مگر اب حالا ت تبدیل ہو چکے ہیں مزدور سرمایہ دار اور صنعت کاروں کی حیلہ سازی اور ظلم و استبداد کو پہچان چکے ہیں اور یہ وہی وقت تھا کہ جب شکاگو کے مزدوروں نے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا تھا اور یکم مئی 1886 کو مشہور زمانہ Hay market کی جانب بڑھتے ہوئے نعرہ بازی کر رہے تھے کہ ”دنیا کے مزدور!ایک ہو جاؤ“یہ ہڑتال اتنی کامیاب ہوئی کہ پہیہ جام ہو گیا،ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھوا ں نکلنا بند ہوگیا گویا کاروبار زندگی رک گیا ہو۔یہ پہلا موقع تھا کہ جب محنت کشوں نے اتحاد و منظم طریقے سے علم بغاوت بلند کیا۔وہ نعرے لگا رہے تھے کہ ”ظالم حاکموں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو،ہمارے اوقات کار مقرر کرو اور ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو“مزدوروں نے چوبیس گھنٹوں کو اس طرح تقسیم کیا تھا کہ 8گھنٹے مسلسل کام کریں گے،8گھنٹے آرام کریں گے اور بقیہ 8گھنٹے اپنے اہل خانہ کو دیں گے۔حکمران کب اپنے گریبان کو مزدور کے ہاتھوں میں دے سکتے تھے،حکمرانوں نے نہتے مزدوروں اور محنت کشوں پر اندھا دھند فائرنگ کروا دی اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سڑک سرخ خون میں تر بہ تر ہوگئی،ایسے میں ایک مزدور اپنی سفید قمیص کو اپنے خون سے تر کر کے ایک چھڑی پہ آویزاں کرتے ہوئے چلایا کہ مزدورو!آج کے بعد یہی سرخ جھنڈا ہمارا پرچم ہوگا۔آخر کار حکومت،کارخانہ دار اور سرمایہ داروں کو مزدوروں کے مطالبات ماننے پڑے اور اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر ہو گئے۔بعد ازاں حکومت نے سات مزدور راہنماؤں کے خلاف جھوٹا بغاوت کا مقدمہ دائر کر کے ان میں سے چار کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔سزائے موت اور پھانسی بھی ان مزدوروں کوان کے نصب العین اور نظریہ سے پیچھے نہ دھکیل سکی۔ان راہنماؤں نے پھانسی کے پھندوں کو چومتے ہوئے گلے میں ڈالتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
1۔ فشر نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے کام کے لئے جان دے رہے ہیں۔
2۔اینجل نے کہا کہ،تم اس آواز کو بند کر سکتے ہو،لیکن ایک وقت آئے گاجب ہماری خاموشی ہماری آواز سے زیادہ گرج دار ہوگی۔
3۔پٹرنسز نے کہا،تم ہمیں مار سکتے ہو،لیکن ہماری تحریک کو نہیں۔
4۔اسپائنز نے کہا،حاکموں،غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے۔لیبر پالیسی وضع کی جاتی ہے اور حالیہ پیش کردہ لیبر پالیسی کے مطابق مزدور کی تنخوا ہ یا اجرت 15000ہزار ماہانہ مقرر بھی کی گئی ہے،مگر جو ملکی معاشی و سیاسی صورت حال ہے۔قیمتوں میں جو گرانی ہے،کیا ایسے حالات میں ایک مزدور و محنت کش اس اجرت میں اپنا ماہانہ اخراجات پورے کر سکتا ہے یا نہیں،جبکہ ہمارے حکمران،سرمایہ دار،جاگیردار اپنے ہی ملک کے مزدوروں کو مذہبی،لسانی،اور علاقے کا نام پر تقسیم در تقسیم کرتے چلے جارہے ہیں،ان کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔آج ملک میں جمہوری حکومت کا راج ہے جو خواہاں ہے کہ عوام کی معاشی حالت کی بہتری ان کی اولین ترجیح ہے،درست ہے مگر وہ ادارہ جسے پارلیمنٹ کہتے ہیں،جو ملک کے لئے قوانین بناتا ہے اور اس کا اطلاق کرتا ہے اس ایوان میں مزدور کہ شمولیت کتنی ہے کبھی کسی حکومت یا عوامی نمائندوں نے سوچا؟نہیں وہ کبھی ایسا سوچیں گے بھی نہیں،کیونکہ ان کے خیال میں اگر عوام پر حکومت کرنی ہے تو انگریز کی پالیسی divide and rule پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ویسے بھی اگر پاکستان میں مختلف طبقہ ہائے زندگی سے وابسطہ پیشہ ورانہ افراد کی قوت پس اندازی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم سب وائٹ کالر بھی مزدور کے زمرے میں ہی آتے ہیں،بس ایک بھرم کے چکروں میں اپنے آپ کو مزدور سے ذرا بالا والا طبقہ خیال کئے ہوئے ہیں وگرنہ ہمارے حالات بھی ان مزدوروں کی طرح ہی ہیں جنہیں اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے ادھار اور بیٹے کی تعلیم کے لئے گھر گروی رکھنا پڑتا ہے۔کوئی اس حقیقت سے روگردانی کرے تو کرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی تنخواہ یا اجرت سے اتنی پس اندازی نہیں کر پاتا کہ اپنی آئندہ نسل کے لئے کچھ دے سکوں تو میں ایک مزدور ہوں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

  1. میں اک گارڈ ہوں بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہوں اور رات کی تنخواہ ساڑھے سات ہزار ملتی ہے

جواب چھوڑ دیں