یہ کیا جانیں’’شہید‘‘کس بلا کا نام ہے

بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ پر کیے گئے فضول اور احمقانہ خطابات سُن کر بے اختیار مجھے اِن کی محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر ’’گڑھی خدا بخش‘‘ میں کی گئی تقریر کے چند اقتباسات’’صرف دو سال میں میری راہ میں کانٹے اور ذات پر حملے کیے گئے،میری رگوں میں شہیدوں کا خون دوڑ رہا ہے،ان تمام قوتوں سے کہتا ہوں، میں تم اور تمہاری سازشوں سے لڑوں گا ،شاید سلیکٹڈ وزیر اعظم کو پتہ نہیں ،وفاق کمزور ہورہا ہے،
کیا وجہ ہے کہ ’’کے پی کے‘‘ میں نوجوانوں کی تحریک زور پکڑ رہی ہے،کیوں اسمبلیوں سے قرارداد کے بعد بھی کالاباغ ڈیم بنانے کی مہم چلائی جارہی ہے،کیوں گلگت بلتستان سے سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے‘‘۔
’’میاں صاحب ! کو سزا ملنے کے بعد جو نعرے بنجاب میں لگے اُس کا تصور کیاجاسکتاتھا،ملک کی باگ ڈورناتجربہ کار شخص کو دی گئی ہے،جہاں نظریں دوڑائیں ،غم وغصہ پایا جاتا ہے،کوئٹہ میں لاپتا افراد کے بارے میں کیوں کسی کو احساس نہیں،گلگت بلتستان میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے،ملک ہاتھ سے نکلتا جارہاہے جبکہ نام نہاد ٹھیکیدار طاقت کے نشے میں مست ہیں،اگرخان صاحب کو حکومت دیناتھی تو تھوڑی سی تیاری کرائی ہوتی،یہ تو سمجھادیتے ،مرغی اور انڈوں سے قوم کی تقدیر نہیں بدلتی،عمران خان ملک کو ون یونٹ بنانا چاہتے ہیں ،عمران خان چاہتے ہیں 18 ترمیم کا خاتمہ ہوجائے اِس سلسلے میں اُن کا ساتھ دیا جائے،وہ کہتے ہیں قبروں سے غداری کرو۔۔۔۔۔۔۔ایساکبھی نہیں کروں گا،قسم ہے شہیدوں کے لہوکی ،میں تم سے لڑوں گا،تمہاری ڈوریں تو کوئی اور ہلارہاہے،آپ نے بے نامی اکاؤنٹس کی تفتیش کرائی،ہمت ہے تو بے نامی وزیراعظم کی تفتیش بھی کروائیں‘‘۔
’’آؤ ایک نئی لڑائی کے لیے خود کو تیار کریں،یہ لڑائی میں اگلے مورچوں پر خود لڑوں گاملک کو کٹھ پتلیوں سے نجات دلائیں گے،آئیے ہم اِن غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کریں۔‘‘
یاد آگئے اور ساتھ ہی پیارے دوست کالم نویس ’’ڈاکٹر جاوید ملک‘‘ جو ’’امید سحر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتے ،کی باتیں بھی یاد آگئیں،جو فرماتے ہیں کہ’’جناب بلاول بھٹو کی یہ گولہ باری میں نے سنی،ویسے توجناب زرداری اور جناب بلاول ،عمران خان کو یوٹرن لینے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے تو پیٹ پھاڑ کر سڑک پر گھسیٹنے والوں کوسینے سے لگانے کو کیا نام دیا جائے۔جناب نوازشریف کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے زرداری آج اُنہی کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔واہ کیا کہنے۔
حیرت اِس بات پر ہے ،جناب عمران خان کو باربار سلیکٹڈ وزیر اعظم کی جگت مارنے والے یہ بھانڈ شاید بھول رہے ہیں کہ اِسی الیکشن میں وہ صوبہ سندھ کے تن تنہامالک بنے۔قومی اسمبلی میں پہلے سے زیادہ نشستیں لے اُڑے تواِس بارے بھی کچھ ارشادات عالیہ فرمادیتے۔
ہر وقت قبروں کی سیاست کا پرچار کرنے والے،یہ نام نہاد مظلوم کب تک عوام سے مظلومیت کارڈ کا استعمال کرکے اپنا سودافروخت کریں گے،روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگانے والے اپنی بادشاہت وشہنشاہیت کے نشے میں چور یہ فرعون کہتے ہیں ،انڈوں اور مرغی سے غریب عوام کی تقدیر کیسے بدلو گے۔یہ کیا جانیں غربت کیسے عزتوں کو نیلام کرتی ہے۔کاش بلاول سخت سردی کے موسم میں رات کے پچھلے پہر کسی گلی محلے میں ’’گرم انڈے لے لو‘‘کی صدا لگاتاتو سونے کاچمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے کے چودہ طبق روشن ہوجاتے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاکہ ہاں انڈے ہی اُس کے کنبے کا خرچہ چلائیں گے۔اُف خدایا،
کراچی کو تعفن زدہ ،آلودہ ،کوڑے کرکٹ میں خودکفیل کرنے والے ،سندھ کی مفلسی پررقص کرنے والے ،تھر میں بھوک ،ننگ دھڑنگ کے ذمہ دارلوگ گلے پھاڑپھاڑکر کہتے ہیں ،ہم نے کس اناڑی کو حکومت دے دی،تھوڑی تیاری ہی کروا دیتے۔اُو عقل کے عاری لوگو،یہ تیاری ہی تو ہے۔پاکستانی ملکی تاریخ میں پہلی بار مگر مچھوں،سیسیلین مافیا،گاڈفادرز،قومی اداروں کے خلاف بکواس بازی کرنے والوں کی شامت آئی ہوئی ہے،جبھی تو سب کی چیخیں نکل رہی ہیں،کوئی جاکر اِن کو کان میں بتائے آپ کا شو ختم شدجناب۔وہ کہتے ہیں نا،امید پردنیا قائم ہے اور یہ دیس پاکستان تو بنا ہی تاقیامت قائم دائم رہنے کے لیے ہے۔
اب تو ادارے یک زبان ہوکر ایک پیغام دے چکے ’’اور کتنا کھائیں گے حضور‘‘اب آپ کی باری آچکی ۔ابھی اِن کا غارنما پیٹ بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔کوئی تو بتائے عمروعیار کی زنبیل آخر کب بھرے گی۔
کہتے ہیں کہ ملک ہاتھ سے نکلے جارہا ہے،اِن کو کہنا یہ چاہیئے تھا،سندھ بھی اب اِن کے ہاتھ سے نکلا جارہاہے،آپ کی موجیں ختم ہونے والی ہیں،اب کسی این آرار کا تصور ایک خواب ہی ہوگا،اب کوئی اندرونی یا
بیرونی مائی باپ اِن کی جان خلاصی کرانے نہیں آئے گا،بجھتے چراغ کی طرح ٹمٹماتے ،پھڑپھڑاتے ،اِدھراُدھر سر مارتے اِن بدمست ہاتھیوں نے صحیح کیا،اب اِن کو اپنی لڑائی تنہا ہی لڑنا پڑے گی۔یہ اب جان چکے ،عوام میں آنے والے شعور کی بدولت بچہ بچہ یہ کہنے پر مصر اور یہ پکارنے کا آرزومند ہے کہ ’’ٹھگز آف پاکستان ‘‘سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانے کا وقت آن پہنچا۔
صد افسوس !قومی سلامتی کے ضامن اداروں پر سنگ باری کرنے والے اِس بات کو جاننے سے قاصر ہیں ،یہ جو گڑھی خدا بخش اور ٹرین مارچ میں بغیر کسی حفاظتی سکرین کے گھن گھرج کررہے تھے، یہ اِنہی شہید بیٹوں کی بدولت ہے جنہوں نے مادروطن کی حفاظت کی خاطراپنا کل ہمارے آج کے لیے قربان کردیا۔پاک سرزمین کے شیر جوان بہادرسپوتوں کے خلاف چنگاڑنے والے یہ کیا جانیں ،’’شہید‘‘کس بلا کا نام ہے‘‘۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں