(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۳
مدینہ منورہ کی یاد دل میں بسائے ہم مکہ پہنچ چکے تھے، حرم سے دور عزیزیہ کی ایک اقامت گاہ ہمارا مسکن تھی، ہم نے کمرے میں سامان رکھا، وضو کیا، تو باہر گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی، جس نے ہمیں صحنِ مسجد سے باہر کی زیر زمین پارکنگ میں اتار دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ عشاء کے بعد یہیں سے ہمیں واپس لیا جائے گا، ہم احرام میں تھے، عصر کی نماز ادا کر کے عمرہ شروع کیا، اور مغرب عشاء کے دوران مکمل کر لیا، اور اب لگے انتظار کرنے، یہ ۶ ذی الحج تھا، اگلے روز منی جانے کی تیاری بھی کرنی تھی، لیکن بہت دیر انتظار کے بعد بھی گاڑی نہ آئی، آخر مرد حضرات نے ہماری اور شاید اپنی بھی حالت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ویگن کو روکا، ہم اس میں بیٹھے تو تھکاوٹ کا اندازہ ہوا، اس روز تک تقریباً تمام حجاج مکہ پہنچ چکے تھے اور خوب رش تھا، ٹریفک بھی اور پیدل لوگ بھی، ہم سے کچھ آگے گاڑی نے ایک حاجی کو ٹکر ماری اور رکے بغیر آگے نکل گئی، اب وہ شخص زمین پر پڑا چیخ چلا رہا تھا، اس نے احرام پہن رکھا تھا، گاڑی اس کی ٹانگوں کے اوپر سے گزر گئی تھی، اور اب سفید احرام پر سرخی پھیلتی جا رہی تھی، کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے کنارے کیا، اور پولیس پہنچ گئی، اس حاجی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جو منی جانے سے ذرا پہلے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اور پھر وہ حجۃ الوداع کے سفر کا حاجی بھی یاد آگیا، جسے اس کی اپنی سواری کے جانور نے کچل دیا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے غسل دو اور اسی احرام میں کفن دے دو، اس کا سر ننگا رکھو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ، یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ ویگن عزیزیہ کی جانب بڑھی تو سڑک پر معمول کی ٹریفک تھی، اور ڈرائیور نے ایک جانب اتار دیا کہ عزیزیہ آگیا ہے، آپ چلے جائیں، سعودی ڈرائیور کے ایسے رویے پر سب کو اترتے ہی بنی، اور اب عزیزیہ کی شاہرائیں تھیں اور تھکا ہارا قافلہ تھا، گوگل میپ کا زمانہ تھا نہ ہی موبائل فونز کی بہتات تھی، ایک حاجی صاحب کے پاس یہ سہولت میسر تھی، اور انہیں کی عرق ریزی سے ہم اقامت گاہ تک پہنچے۔
اگلی صبح مردوں نے قریبی مسجد میں نماز پڑھی، اور ہم نے دن چڑھے ناشتا کیا، میاں صاحب قریب کے کسی ہوٹل سے عربی ناشتا لائے تھے، جس میں حمص بھی تھا اور فول بھی، پنیر اور مکھن بھی۔
آج رات منی کی جانب روانہ ہونا تھا، اس لئے ایک رونق اور مصروفیت تھی، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، اور کوئی نہانے دھونے میں مصروف، کسی کا مختصر بیگ تیار ہو رہا ہے، اور لوازماتِ زادِ راہ کا دقیق جائزہ لے رہا ہے، ایک کسک تھی دل میں کہ آج حرم نہیں جا سکے، لیکن رات کی بھول بھلیوں کا سوچ کر دل کو تسلی دے رہے تھے، کچھ لوگ حج سے پہلے آخری آرام کر رہے تھے تاکہ جسم مشقت کے لئے تیار ہو جائے،جوں جوں وقت گزر رہا تھا، واش رومز کی جانب بھیڑ بڑھ رہی تھی۔ مغرب تک سب تیار ہو چکے تھے، عشاء کے بعد بس آنی تھی، مرد احرام پہن چکے تھے، ایسے لگ رہا تھا اندر باہر نور کے ’’پرے‘‘ گردش کر رہے ہوں، بس میں بیٹھتے ہی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجنے لگیں، اللہ جی ہم اپنی زندگی کے سب سے پیارے سفر کی جانب نکل رہے ہیں، ہم نے تیری پکار پر لبیک کہا ہے، تلبیہ کے ایک ایک لفظ کو ہمارے دل کی آواز بنا دے، اے اللہ تو ہمارا ساتھی ہو جا، یہ سفر سارے کا سارا نیکی اور تقوی کا سفر ہو، اس کا لمحہ لمحہ تیری رضا میں بسر ہو، ہماری کمزور عبادتیں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، سب قبول فرما لے، اے اللہ ہمارے حج کو حجِ مبرور بنا دے، ہماری سعی و جہد کو قبولیت کا شرف عطا فرما دے، ہمارے گزشتہ تمام گناہوں، قصوروں اور لغزشوں کو معاف فرما دے، اے اللہ تو ہمیں پاک کر دے۔۔ آمین ثم آمین
بس نے ابھی حرکت بھی نہ کی تھی کہ باہر کھٹ پٹ سنائی دی، پاکستان ہاؤس سے فون آیا تھا کہ اس گروپ کی ایک خاتون گزشتہ رات سے غائب ہے اور وہ پاکستان ہاؤس میں ہے، آکر لے جائیں۔ ابھی یہی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کون ہے کہ پاکستان ہاؤس کا اہلکار خاتون کو لیکر آ پہنچا، اوہ ۔۔ یہ تو ماسی پٹھانی ہیں۔ انکی دیورانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ رات عمرے کے بعد ہی ان سے بچھڑ گئیں تھیں، اکرم بھٹی صاحب اپنی بھابھی کو وصول کرنے اترے، ماسی کھڑکی کے سامنے آئیں اور مسز بھٹی سے پورے جلال سے پوچھا: ’’میرا سامان کتھے اے‘‘، اور یہ سن کر کہ وہ تو ان کے کمرے میں ہی ہے، انکا غصّہ دو چند ہو گیا، ان دونوں نے نہ تو انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ ہی ان کا سامان ہی ہمراہ رکھا۔اب وہ دونوں اندر گئیں اور کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئیں، تو پھر بس چلی،اس سہو یا لغزش کا تدارک اکرم بھٹی صاحب نے اس طرح کیا کہ باقی کا سفر حج دونوں خواتین نے ہاتھ تھام کر بلکہ کئی مقامات پردوپٹے باندھ کر کیا، تاکہ وہ سدا اکٹھی رہیں، اسی تلخی کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج ماسی پٹھانی پر فرض تھا، وہ بیوہ ہو چکی تھیں اور محرم کی غیر موجودگی میں اپنے دیور دیورانی کو حج خرچ دے کر ساتھ لائی تھیں۔
ہماری بس عزیزیہ سے منی کی جانب رواں دواں تھی، رش سے بچنے کے لئے رات کو سفر کیا تھا، ورنہ ہمیں کل منی پہنچنا تھا، سڑک سے ہٹ کر کہیں کہیں سعودی نوجوانوں کی ٹولیاں دف بجا تی اور علاقائی رقص کرتی بھی دکھائی دیں، جو ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔
۵۵ نمبر کیمپ کے قریب بس نے اتار دیا، اب ہم خیمے میں تھے، چودہ مرد اور چودہ خواتین، اگلے حصے کی جانب خواتین چلی گئیں اور باہر کی جانب مرد۔ پھر کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ درمیان میں رسی باندھ کر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ لٹکا لیا جائے، رات اسی طرح گزری، صبح پردہ ہٹا کر با جماعت نماز ادا کی گئی، جس میں مرد اگلی صفوں، یعنی خواتین کی سائیڈ پر آ گئے اور خواتین پچھلی جانب! اسی کیمپ میں ہمیں حج کا تحفہ ملا جس میں خادمِ حرمین شریفین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جو انتہائی ضروری تھیں فراہم کی گئی تھیں، جن میں بے بو صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، سرجیکل ماسک وغیرہ۔
ظہر کے قریب ایک جوڑا کیمپ تلاش کرتا ہوا پہنچا، صفیں باندھے دیکھ کر انہوں نے سب سے پہلے با جماعت نماز پر اعتراض کیا، مرد صاحب تو باہر چلے گئے، خاتون یہ کہہ کر کنارے بیٹھ گئیں، ’’ان امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘‘۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ صاحب بھی آگئے اور لگے کیمپ کی پردہ چادر کو غلط ثابت کرنے، انکے مطابق محرم کے ساتھ حج کرنے کی روح ہی یہ ہے کہ ہر شحص اپنی محرم کے ساتھ ایک چادر لگا کر بیٹھے اور وہ دونوں اکٹھے عبادت کریں، اس طرح اس کیمپ میں چودہ چادریں لگائی جائیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی، ایک صاحب بولے: آپ ہمیں چھوڑیں، اپنی چادر لگائیں اور بیٹھ جائیں، دوسرے نے زیرِ لب تبصرہ کیا: ’’فیر دم وی آپے ای دینا‘‘۔بہر حال وہ صاحب کیمپ اور حج اور خادم حرمین کی شان میں بہت کچھ کہہ کر واک آوٹ کر گئے، انکی بیگم کو ایک دن حرم میں دیکھا تو وہ حرم کے امام کے پیچھے بھی نماز کے لئے نہ اٹھیں۔ محض فقہی مسلک کی بنا پر ہر روز دن میں پانچ مرتبہ ایک لاکھ نمازوں کے اجر سے محرومی!!
منی کے کیمپ کی اپنی ہی شان ہے، کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے کیمپ، یہ اللہ کی فوج ہے، یہ اس کی پکار پر خوشی اور شوق سے دور دراز کا سفر کر کے آنے والے پروانوں کا لشکر ہے، جو اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے نہیں تھکتے، گزشتہ گناہوں کا بوجھ انہیں بار بار لرزا دیتا ہے، زبان استغفار کے کلمات سے تر ہے، اور اس غفور ورحیم سے مغفرت کی آس بھی ہے۔جس حج میں فحش باتیں اور شہوانی کام نہ ہو ، فسق وفجور نہ ہو، وہ حجِ مبرور بن جاتا ہے جس کی جزا جنت ہی ہے۔
آٹھ ذی الحج یوم ترویہ ہے، کہتے ہیں کہ اس روز حاجی پانی جمع کرتے تھے، کیونکہ قدیم زمانے میں مکہ میں پانی کم تھا، تو حج کے لئے ایک دن پہلے منی میں پانی اکٹھا کر لیا جاتا تھا کیونکہ اب حاجی کو ۱۲ یا ۱۳ ذی الحج تک یہاں قیام کرنا ہے، دوسری روایت کے مطابق اس رات حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آٹھ ذی الحج کا دن آپ نے اس پر سوچ بچار میں گزارا، اور ۹ ذی الحج کو بیٹے سے اس کا ذکر کیا، جس کا جواب تھا:
’’ یا ابت افعل ما تؤمر، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲)
ابا جان، کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔
یوم الترویہ منی کے کیمپ میں تلبیہ پڑھتے، اور حج کی تیاری کرتے گزر گیا، رات سوئے تو آدھی رات کو مائیک پر آواز نے بیدار کر دیا، اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات جانے کے لئے تیار کھڑی ہے، جلدی آجاؤ ۔۔ اور یہ پیغام کیمپ کے چاروں جانب اس شدت سے کیا گیا، کہ کیمپ کے کچھ افراد نے اٹھ کر اسے یہاں سے جانے کو کہا، کیونکہ عرفات جانے کا وقت فجر کے بعد کا طے کیا گیا تھا، ابھی کیمپ والوں کی دوبارہ آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ ایک مرتبہ پھر کان پھاڑتا اعلان پوری طاقت سے کیا جا رہا تھا، کئی کیمپوں سے حاجیوں نے اس کی آوازکو دبانا چاہا، مگر اجرت پر حاصل کی گئی آواز کو اپنا رزق حلال کرنے کی بھی فکر تھی، ہم نے تکیہ سر پر رکھ کر آواز کی لہروں کو کم کرنے کی کوشش کی، اور ناکامی کے بعد وضو گاہ کی راہ لی، وہاں ابھی رش نہیں تھا، وضو کرنے کے بعد طبیعت میں چستی آچکی تھی، اور اب ’’اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات کے لئے تیار کھڑی ہے‘‘ کی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی، اس نے کسی کو سونے نہیں دینا، کہہ کر کوئی اور حاجن آنکھیں رگڑتی اٹھ بیٹھتی۔ہم اوّل وقت میں فجر کی نماز ادا کر کے بس میں بیٹھ چکے تھے، تلبیہات سے فضا گونج رہی تھی، اور اب حاجی تلبیہات پڑھ پڑھ کر تھک رہے تھے مگر بس ان سوئے ہوئے حاجیوں کے جاگ جانے تک منتظر کھڑی تھی۔ ابھی اشراق کا وقت تھا کہ بس نے حرکت کی، اور کچھ ہی دیر میں عرفات کے خیموں میں اتار دیا، یہ کھلے خیمے تھے، نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ابھی ہم بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ معلم کی جانب سے ملنے والا دوپہر کا کھانا تقسیم کیا جانے لگا، یعنی ناشتے سے پہلے، کھانا، اور نوالہ منہ میں ڈالا تو اتنی مہربانی کا سبب بھی معلوم ہو گیا، کھانا کافی پرانا تھا، چاول پانی چھوڑ رہے تھے، واپس کرنا چاہا تو ایک تلخی!!
سب کیمپ میں بیٹھے تھے، کوئی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، کوئی دعا اور مناجات میں، جب عقب سے آنے والی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا: السلام علیکم حاجی بھائیو، میں بہت پریشان ہوں، حج سے پہلے میری جیب کٹ گئی ہے، اسی میں میری ساری نقدی تھی، اللہ کی خاطر میری مدد کریں، ایک نوجوان پاکستانی اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کے ہمراہ مدد کا خواستگار تھا، (ایسے کئی قصّے ہم اس سے پہلے بھی سن چکے تھے) اسے شاید معلوم نہ تھا کہ اس گروپ میں کرنل صاحب بھی تھے اور میجر صاحب بھی، اکاؤنٹ آفسر بھی اور پروفیسر بھی! سب نے اس پر جرح شروع کر دی، جیب تو کٹ گئی، حاجی کا لاکٹ اور کڑا کہاں ہے، کب آئے؟ مکتب نمبر کیا ہے؟ پاسپورٹ کہاں ہے؟ وہ اتنے سارے سوالوں سے گھبرا گیا، جی میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں، تین ماہ پہلے عمرہ کے لئے آیا تھا، سوچا حج بھی کر لوں، اس کا پاسپورٹ چیک کیا گیا، اور سمجھایا بھی، جھوٹ بول کر حج؟ میدانِ عرفات میں دھوکہ؟ بس پھر اسے جانے دے دیا۔
عرفات کے کیمپ سے مسجد نمرہ کی جانب مارچ شروع ہو گیا، جو جتنا آگے جانے کے مشتاق تھے وہ تیز قدموں سے آگے چل دیے، کچھ مسجد کے اندر بھی پہنچ گئے، مسجد سے باہر حاجیوں کے لئے حرمین شریفین کے خادموں کی جانب سے لذتِ کام و دہن کا انتظام بھی تھا، راستے میں جگہ جگہ پانی کی بوتلیں حاجیوں کی جانب اچھالی جا رہی تھیں، کہیں آئیس کریم کی گاڑیاں سر راہ کھڑی تھیں کہیں جوس کی بوتلیں، کہیں لبن کی (لسی)۔جو سامنے آجاتا اسے وصول کرتے ہوئے حاجی آگے بڑھ رہے تھے، سڑک کے کنارے صف میں مرد ایک جانب اور خواتین ایک جانب بیٹھ گئیں، اب مجمعے میں بھی تنہائی تھی، ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف تھا، ہاں کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی سسکی سنائی دے جاتی، وقت گزر رہا تھا، اور سر پر چمکتا سورج پریشان نہیں کر رہا تھا، ہاں گناہوں، قصوروں، حق تلفیوں، بد اخلاقی اور رب کی بندگی میں تساہل ، اور نعمتوں کی بے قدری کا بڑا قلق تھا، اللہ تعالی سے معافی کی امید پر ہاتھ اس کے حضور پھیلے ہوئے تھے، آنکھیں اشک بار تھیں اور دل لرز رہا تھا، اللہ جی حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دیں، اللہ جی یہاں لا کر اکیلا نہ چھوڑ دینا، ہماری کمزور عبادت کو قبول کر لینا، ۔۔آمین۔
خطبہ شروع ہوا، اورہر جانب خاموشی، لاکھوں کے مجمعے میں بھی ایک ہی آواز ببانگِ دہل سنائی دے رہی تھی۔پیچھے والی ساری سڑک بھی صفوں میں تبدیل ہو گئی تھی، نمازِ ظہر اور عصر با جماعت قصر ادا کی گئیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کیمپ واپس پہنچے، کھانا پینا اور دعائیں وقفے وقفے سے جاری تھیں، ابھی مغرب میں کافی وقت تھا جب کیمپ سے باہر بسیں پہنچ گئیں، کیمپوں سے لوگ کھسک کھسک کر بسوں کے پاس پہنچنے لگے، جو ابھی تک مقفل تھیں، لیکن پھر بھی لائنیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، اور بسوں کے دروازے کھلتے ہی دھکم پیل شروع ہو گئی، کچھ دیر پہلے سیدھی صفوں میں نماز پڑھتے حجاج کا سلیقہ نجانے کہاں رخصت ہو گیا تھا، کچھ خواتین کو سوار کروانے اور نشستوں پر بٹھانے کی فکر میں پریشان تھے، اور کچھ لوگ رواداری اور تحمل سے بے نیاز بس میں جگہ پانے کے متلاشی! وہ وقت جو مقبولِ دعا ہے، اس سرگرمی میں نکلا جا رہا ہے، بسوں میں بیٹھ کر دعائیں جاری ہیں، بس ڈرائیور بھی حجاج کے لئے ثواب بڑھانے کا ذریعہ ہے، جو ڈانٹ ڈپٹ کر کے زمین پر بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے، احرام میں زمین پر بیٹھنا ایک دقت ہے، حاجیوں کے صبر کا پیمانہ بھی بار بار چھلک جاتا ہے، ’’اوے پٹھانوں، اپنی عورتوں کو تو سیٹوں پر جگہ دے دو، اس بزرگ خاتون ہی کے لئے جگہ بنا دو، کچھ لوگ زیرِ لب بڑبڑاتے ہیں، یہ عجب پٹھان ہیں، پٹھان تو غیرت کی مثال ہیں، اور یہ اپنی خواتین کے لئے بھی جگہ خالی نہیں کر رہے‘‘ کوئی دوسرا حاجی سرگوشی کرتا ہے: ’’حاجی صاحب، چپ ہو جاؤ، احرام کا
پاس کرو، کسی کو عصبیت کے ساتھ عار نہ دلاؤ‘‘، اور حاجی صاحب بآوازِ بلند استغفار شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح بار بار دھکے لگنے پر ایک نوجوان طاقت ور حاجی دوسرے حاجی پر پل پڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، ساتھ والے ان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، یومِ عرفہ ہے بھائی، پتا نہیں حج قبول ہوا بھی کہ نہیں، اگلا دفتر نہ کھولیں بھائی‘‘ ، اور وہ رو پڑتے ہیں، ایک حاجی بڑی عاجزی سے ایسے ہی کسی دھکے پر بے اختیار بولتے ہیں: ’’میں احرام میں نہ ہوتا نا تو پھر تمہیں بتاتا‘‘، اللہ تعالی لوگوں کے قصور معاف فرما رہے ہیں، آج رحمتِ خدا وندی جوش میں ہے، اللہ تعالی اتنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں ایسے پاک کر دیتے ہیں جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو،اور کوئی گناہ اس کے نامہء اعمال میں نہ لکھا گیا ہو،اسی لئے ’’شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل ، خوار، حقیر اور خشمناک نہیں رہتا‘‘ پس شیطان اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے، اسی لئے تو دوبارہ بندوں سے غلطیاں کروانے میں سرگرم ہوتا ہے۔ بندوں کے اونچے نیچے رویوں کے بیچ بسیں رینگنا شروع کرتی ہیں، اور صبر آزما سفر کے بعد آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ آتا ہے، یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں، ہمراہ کھانے میں سے کچھ ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے، اس کھلے میدان میں اپنے اپنے ساتھیوں کو مجتمع رکھنے کا اہتمام بھی ہے، ایک بزرگ کی طبیعت کچھ خراب تھی، اب انکی بیوی اور بیٹی کاسامان بھی باقی لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اور کرنل صاحب اس ثواب کا زیادہ حصّہ سمیٹ رہے ہیں۔اکرم بھٹی صاحب نے اپنی بیگم اور بھابھی کو اکٹھا رکھنے کے لئے انکے دوپٹوں کو گرہ لگوا رکھی ہے، اور خود ان سے آگے چل رہے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے، بیگ سے ٹیک لگا کر آنکھیں کیا بند کیں، صبح کے جھٹ پٹے میں آنکھ کھلی، پتا چلا سب اسی بے خبری میں یہاں وہاں سوئے پڑے تھے، بھاگ کر وضو خانوں کا رخ کیا، نماز پڑھ کر ساتھی دعا میں مشغول تھے، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوعِ فجر تک اللہ کا ذکرکثرت سے کرنے کا حکم ہے:
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام ۔۔) (البقرۃ، ۱۹۸)
پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
رمی کے لئے پتھر چن کر ہم واپس اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ آج عید کا دن تھا، میاں صاحب کسی افریقی سٹال سے گرما گرم گوشت اور روٹی لے آئے ہیں، اتنا مزے دار کھانا، نمک مرچ کم ہے، لیکن بہت عمدہ پکا ہوا،جس کے ساتھ شوربہ بھی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد ہم خواتین رمی کے لئے تیار ہو رہی ہیں، اچانک ایک صاحب اپنی بیگم کو بلاتے ہیں، واپس آکر وہ گروپ سے ذرا ہٹ کر بیٹھ جاتی ہیں، پھر دوسری، اور تیسری، آنے والی ہر خاتون کچھ خاموش ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد یہی پروگرام بنا رہے ہیں کہ عورتیں کیمپ میں رہیں، اور انکی رمی نیابتاً مرد کر آئیں، اتنے میں میاں صاحب مجھ سے پروگرا م کا پوچھتے ہیں، میں ذرا تلخی اور دکھ بھرے انداز سے پوچھتی ہوں، پروگرام پوچھنا چاہتے ہیں یا اپنا ارادہ بتانا چاہتے ہیں؟ وہ واقعی مجھ سے پوچھ رہے ہیں، میں خوشی سے ساتھ ہو لیتی ہوں، اور آہستہ آہستہ سب خواتین کو اجازت مل جاتی ہے، سوائے ان کے جو معذور ہیں۔
جمرات کے قریب پہنچتے ہیں تو جہاں تکبیرات کی پر سوز آواز فضا کو معطر کر رہی ہے وہاں ایمبولینس کے سائرن فضا کا سینہ چیر رہے ہیں، اوپر کا حصّہ بند کیا جا چکا ہے، اور کچھ دیر کے لئے نیچے بھی رمی بند ہے، شنید ہے کہ صبح کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے جس میں بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں۔کچھ دیر انتظار کے بعد حجاج پھر رمی کے لئے بڑے شیطان کی جانب بڑھتے ہیں، شروع میں کھلا راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہونے لگتا ہے، اور پھر پیچھے سے دھکے کئی قدم آگے لے جاتے ہیں، کبھی دائیں سے دباؤ کبھی بائیں سے، ساتھیوں کے احترام، تحمل، صبر اور برداشت سے عاری ہجوم، ایسا لگتا تھا یہ عرفات میں بلکتے اور معافی مانگنے والوں سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے، دائیں بائیں سے نصیحت اور سرزنش کی آوازیں بھی اٹھتی ہیں، مگر شیطان کی چال غالب آگئی ہے، ہم نے گرتے پڑتے خود کو سنبھالتے بڑی مشکل سے رمی کی، مجھے بچاتے ہوئے میاں صاحب گرتے گرتے بچے، جب باہر نکلے تو دونوں جوتیاں اتر یا ٹوٹ کر پاؤں سے الگ ہو چکی تھیں، اسی سے دائیں جانب حلاق سر مونڈنے میں مشغول تھے، اور استعمال شدہ بلیڈ بڑی فراوانی سے زمین پر پڑے تھے، ننگے پاؤں زخمی ہونے کا خطرہ تھا، پاس پڑی ایک ہوائی چپل میں پاؤں ڈالا تو دوسری بھی اسی پاؤں کی ملی، تھوڑا آگے گئے، تو ایک چپل سبز اور ایک نیلی، حاجی صاحب نے وہی پہن لی، حج اسی طرح مرغوب چیزوں کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اپنا لینے کا سبق ہے، احرام پہنتے ہی عمدہ اور قیمتی کپڑوں، خوشبو، زینت، اور لش پش کرتے جوتوں کو چھوڑا، مکانوں کے آرام کو چھوڑ کر منی، عرفات اور مزدلفہ کے کیمپوں میں مہاجرت کو محسوس کیا، اور یہ رمی تو شیطان سے عملی لڑائی ہی ثابت ہوئی تھی، جس میں سب سے بڑا حوصلہ اور ساتھ اللہ کا تھا، جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا، ایسا لگتا اپنے بندوں کی حالت دیکھ کر مسکرا بھی رہا ہے۔
ہم نے ٹیکسی لی اور حرم کے قریب جا اترے، خانہ کعبہ سے ظہر کی اذان سنائی دے رہی تھی، مروہ کے جانب کے ایک صحن میں ہم نے ظہر کی با جماعت دو رکعت پا لی،ہمارے گروپ کے تین خاندان بھی مل گئے، ہماری قربانی ہو چکی تھی،بالوں کی لٹ کاٹ کر احرام کھولا، غسل کیا اور بعد از نماز عصر طوافِ افاضہ شروع کیا۔ہم نے نیچے صحن میں طواف کیا، جہاں لوگوں کی کثرت سے کبھی طواف کسی گوشے میں رک بھی جاتا، آگے سے ہاتھ بلند ہوتااور پیچھے سب لوگ خاموشی سے رک جاتے، اور جونہی راستے کھلتا سب چلنے لگتے، پورے خشوع کے ساتھ، نہ کو ئی تیزی، نہ دھکا اور نہ دل میں ابلتا غصّہ، اگر دھکا لگ بھی جاتا تو یہی احساس غالب رہتا کہ کسی نے جان بوجھ کر نہیں دیا، رش کے سبب لگ گیا ہے، اللہ کے گھر کی کیا شان ہے، اور یہاں سلامتی کے کیا معنی ہیں، وہی ہجوم جو جمرات میں اتنا بے صبرا تھا، حرم کی تغظیم، تکریم، اور ہیبت نے اسے دبا دیا تھا، وللہ الحمد!! آنسو بہہ رہے تھے، عاجزانہ دعائیں بلند ہو رہی تھیں، اور کہیں رب کو چپکے چپکے پکارا اور گڑگڑایا جا رہا تھا، جو جتنا کمزور اور ضعیف تھا، اس کے لئے جگہ کھلی کی جا رہی تھی، میرے دل سے دعا نکلی، اے اللہ تو حرم سے باہر بھی ہمیں ایسا ہی باوقار بنا دے، آمین۔
نمازِ مغرب ادا کر کے سعی شروع کی، صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، مطاف میں سیکھا ہوا سبق حاجی پھر بھولنے لگے تھے، سبز روشنیوں کے مقام پر دوڑتے ہوئے، دھکے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی!! میرا دل رنج سے بھر گیا، میاں صاحب نے ایسے ہی بھاگتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑ کر کہا، صبح کا اتنا بڑا حادثہ آپ جیسوں ہی کی جلد بازی سے ہوا ہے، اب تو سبق لے لو۔عشاء سے پہلے سعی مکمل ہو چکی تھی، اور دل سے بے اختیار نکلا: اللہ جی حج اتنا آسان ہے، ہم نے حج کر لیا ہے، الحمد للہ، تو اسے قبول کر لینا، حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دے، آمین۔
مروہ کے باہر ہی ہم نے نماز پڑھی اور واپسی پر صاحب نے کہا: آج تو عید ہے، اچھا سا کھانا کھاتے ہیں، سب نے جو کھانا منگوایا، وہ مزے دار تو تھا مگر کافی حد تک ناکافی!! ہم نے سپیشل آفر میں جس مرغی کا آرڈر دیا تھا وہ تو اس کا چوزہ نکلا۔
ہم پانچ فیملیز نے واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا رخ کیا، صاحب نے کہا بھی کہ گھر فون کر لیتے ہیں، مگر جہاں بھی فون کرنے گئے، رش تھا، اور انتظار کی ہم میں سکت نہ تھی، اب تو یہی دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھیں اور منی اپنے کیمپ پہنچ کر سانس لیں۔
***
(جاری ہے)
اہم بلاگز
نوکری یا کاروبار؟
دنیامیں فی زمانہ اگر کسی کے معیارزندگی کا اندازہ لگانا ہو تو اس کی تعلیمی قابلیت کم،بینک بیلنس اور اس کے پاس مادی اشیا سے لگایا جاتا ہے۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ جیہندے گھر دانے اونہدے کملے وی سیانے۔لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ پیسہ ہر کسی پر عاشق نہیں ہوتا اور جس پر عاشق ہو جائے پھر وہ مٹی کو بھی ہاتھ میں پکڑے تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے وگرنی سونا بھی مٹی۔سوال یہ ہے کہ پیسہ کیسے کمایا جائے؟اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کام کیا جائے جس میں منافع ہو نا کہ اجرت،یعنی بزنس کیا جائے نوکری نہیں۔اگر کاروبار میں اتنا منافع نہ ہوتا تو کبھی بھی آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ کاروبار میں منافع کے نو حصے ہیں۔جب آپ کاروبار کر لیتے ہیں تو پیسے کو کیسے دوگنا کرنا ہے اس کا فارمولہ بھی ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بیان فرما دیا کہ کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ سے کاروبار کرلو۔یہی وجہ ہے اللہ دنیا میں دس گنا اور آخرت میں ستر گنا لوٹا کر دیتا ہے۔اس سے بھی زیادہ اگر آپ کو چاہئے تو اس کا بھی حل پیارے رسول ﷺ نے ہم پر واضح فرما دیا کہ صدقہ کرو مسلمان کا صدقہ اس کی عمر میں اضافہ کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے اور اللہ کے ذریعے تکبر اور فخر(کی بیماریوں)کو زائل کرتا ہے۔
لیکن ہم کاروبار کرنے سے قبل ہی اس کے نقصانات سے ڈرنا شروع کر دیتے ہیں اسی لئے پاکستان میں کاروبار کی بجائے نوکری کو ترجیح دی جاتی ہے کہ کچھ بھی نہ ہو کم سے کم اس سے ہر ماہ تنخواہ تو مل جایا کرے گی۔اس کا سب سے بڑا نقصان جو ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرنے کے بعد دوسرے ماہ کی تنخواہ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔جس کا سب سے بڑا نقصان ہمیں اور کمپنی کو یہ ہوتا ہے کہ ہم اس جوش وجذبہ سے کام نہیں کرتے جس ولولہ سے ذاتی کاروبار میں کر سکتے ہیں۔اسی لئے دنیا کے کامیاب بزنس مین خیال کرتے ہیں کہ منافع،اجرت سے بہتر ہوتا ہے۔کیونکہ اجرت آپ کا پیٹ پالتا ہے لیکن منافع آپ کی قسمت بدل دیتا ہے۔لہذا ہمیں یہ سوچے بغیر کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے کام کو ترجیح دیتے ہوئے چھوٹے سے کام سے ہی بھلے ہو اپنا کام کرنا چاہئے،ایک بار ایک صحابی پیارے رسول ﷺ کے پاس آئے اور مدد چاہی۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے تو صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میرے پاس اس کلہاڑی کے اور کچھ بھی نہیں،آپ ﷺ نے وہ کلہاڑی لی اور اپنے دست ِ مبارک سے لکڑی کا دستہ اس میں ڈال کر کہا کہ جاؤ اور جنگل سے لکڑیا ں کاٹ کر لاؤ اور اسے بازار میں فروخت کر کے اپنی گزر بسر کرو۔وہ آدمی چلا گیا اور پھر چند ماہ بعد دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ اپنا کاروبار...
ترکی کی شام میں مداخلت ۔ پس منظر و پیش منظر
اس قضیے کو سمجھنے کی ابتدا ترکی کے شام پر حالیہ حملے سے کی جائے تو گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھے گی ۔ اس لیے ہم اس معاملے کو بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کردستان
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ
ایران کا شمال مغربی علاقہ
عراق کا شمالی علاقہ
اور شام کا شمال مشرقی علاقہ
یہ کردوں کا مسکن ہے ۔ اسے کردستان کہا جاتا ہے ۔ یہ سارا خطہ تین لاکھ بانوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے ۔ کردستان کے اس منقسم خطے میں سے ترکی کے پاس ایک لاکھ نوے ہزار، ایران کے پاس ایک لاکھ پچیس ہزار، عراق کے پاس 65 ہزار اور شام کے پاس بارہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے ۔
کرد قوم اس خطے میں تین سو سال قبل مسیح سے آباد ہیں ۔ساتویں صدی میں یہ مسلمان ہوئے ۔ اس وقت نوے فیصد سے زائد کرد سنی مسلمان ہیں ۔ حالیہ وقتوں میں ان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ سب سے زیادہ تعداد ترکی میں آباد ہے ۔ یہ تعداد تقریبا ًڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے آس پاس ہے ۔ ایران میں قریب قریب نوے لاکھ ، عراق میں اسی لاکھ اور شام میں تیس لاکھ کے عدد کو چھوتے ہیں ۔
جنگ عظیم اول سے قبل یہ سارا خطہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا ۔ جنگ خلافت عثمانیہ کی شکست پر منتج ہوئی ۔ شکست کا سب سے نمایاں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چھوٹی چھوٹی قومی سلطنتیں تشکیل پاگئیں ۔ یہ صورتحال مسلمانوں کے حریفوں کے لیے بےحد حوصلہ افزا تھی ۔ یہیں سے مسلمانوں کا حقیقی زوال شروع ہوا ۔
معاہدہ سیورے
۔10اگست 1920 کو اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا، جو " معاہدہ سیورے " کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کے رو سے حجاز مقدس ترکی سے الگ ہوا۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ کردوں کی الگ ریاست بنے گی ۔
معاہدہ لوزان
مصطفی کمال اتاترک نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ خلافت کی بساط لپیٹی اور ترکی کی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ اس دوران ترکی میں یونانی فوج بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی تھی ۔ کمال اتاترک نے 1921 کو روس سے دوستی کا معاہدہ کرلیا ۔ اس عمل سے تقویت پاکر 1922 کو یونانی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور انہیں ترکی سے نکال باہر کیا ۔ کمال اتاترک کی اس شاندار فتح کی وجہ سے جنگ عظیم کے اتحادی مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور ہوگئے اور 24 جولائی 1923 کو سوئیٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں " معاہدہ لوزان " عمل میں آیا ۔ اس معاہدے کی رو سے سابقہ معاہدہ " معاہدہ سیورے " کو منسوخ قرار دیا گیا ۔ جس کی رو سے ایک آزاد کرد ریاست نے جنم لینا تھا ۔ معاہدہ لوزان کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ترکی ،شام اور عراق کی سرحدیں متعین کر دی گئیں ۔ دوسرے لفظوں میں کردوں کے ارمانوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا گیا، بلکہ انہیں عملاً ترکی ،شام...
اطاعت و استغفار کے ذریعے آفات سے نجات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”جب مال غنیمت کو دولت قراردیاجانے لگے،اورجب زکوٰۃ کوتاوان سمجھا جانے لگے، اور جب علم کو دین کے علاوہ کسی اور غرض سے سکھایا جانے لگے، اورجب مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے اورجب ماں کی نافرمانی کی جانے لگے،اورجب دوستوں کو قریب اورباپ کودور کیاجانے لگے، اورجب مسجد میں شوروغل مچایا جانے لگے اور جب قوم وجماعت کی سرداری،اس قوم وجماعت کے فاسق شخص کرنے لگیں اورجب قوم وجماعت کے زعیم وسربراہ اس قوم وجماعت کے کمینہ اور رذیل شخص ہونے لگیں،اورجب آدمی کی تعظیم اس کے شراورفتنہ کے ڈرسے کی جانے لگے، اورجب لوگوں میں گانے والیوں اور سازو باجوں کادوردورہ ہوجائے، اور جب شرابیں پی جانی لگیں اورجب اس امت کے پچھلے لوگ اگلے لوگوں کو براکہنے لگیں، اور ان پر لعنت بھیجنے لگیں تواس وقت تم ان چیزوں کے جلدی ظاہر ہونے کا انتظار کرو، سرخ یعنی تیزوتنداور شدید ترین طوفانی آندھی کا، زلزلے کا،زمین میں دھنس جانے کا، صورتوں کے مسخ وتبدیل ہوجانے کا،اور پتھروں کے برسنے کا،نیزان چیزوں کے علاوہ قیامت اور تمام نشانیوں اور علامتوں کا انتظارکرو،جو اس طرح پے درپے وقوع پذیر ہوں گی جیسے (موتیوں کی) لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے پے درپے گرنے لگیں“۔
مذکورہ بالا حدیث میں کچھ ان برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو اگرچہ دنیا میں ہمیشہ موجودرہی ہیں اور کوئی بھی زمانہ ان برائیوں سے خالی نہیں رہاہے،لیکن جب معاشرہ میں یہ برائیاں کثرت سے پھیل جائیں اور غیر معمولی طورپر ان کادوردورہ ہوجائے توسمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا سخت ترین عذاب خواہ وہ کسی شکل وصورت میں ہوا، اس معاشرہ پر نازل ہونے والاہے اوردنیا کے خاتمے کا وقت قریب ترہوگیا ہے۔ مال غنیمت کو دولت قراردئیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اگرسلطنت کے اہل طاقت وثروت اور اونچے عہدے دار مال غنیمت کو شرعی حکم کے مطابق تمام حقداروں کو تقسیم کرنے کی بجائے خود اپنے درمیان تقسیم کرکے بیٹھ جائیں اور محتاج وضرورت مند اور چھوٹے لوگوں کو اس مال سے محروم رکھ کر اس کو صرف اپنے مصرف میں خرچ کرنے لگیں تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اس مال غنیمت کے تمام حقداروں کا مشترکہ حق نہیں سمجھتے بلکہ اپنی ذاتی دولت سمجھتے ہیں۔ امانت کو مال غنیمت شمارکرنے سے مرادیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس امانتیں محفوظ کرائی جائیں وہ ان امانتوں میں خیانت کرنے لگیں اور امانت کے مال غنیمت کی طرح اپنا ذاتی حق سمجھنے لگیں جو دشمنوں سے حاصل ہوتاہے۔ زکوٰۃکوتاوان سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا لوگوں پر اس طرح شاق اور بھاری گزرنے لگے کہ گویاان سے ان کا مال زبردستی چھینا جارہاہے اورجیسے کوئی شخص تاوان اورجرمانہ کرتے وقت سخت تنگی اوربوجھ محسوس کرتاہے۔ علم کو دین کے علاوہ کسی اورغرض سے سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ علم سکھانے اور علم پھیلانے کا اصل مقصد دین وشریعت کی عمل اور اخلاق وکردار کی اصلاح وتہذیب انسانیت اور سماجی کی فلاح وبہوداور خداورسول...
”شکریہ جماعت اسلامی “
”بھائی! فون تو اٹھا لیا کر،میں نے قرضہ تونہیں لیناتھا،کل سے ستر فون کر چکا ہوں مجال ہے جو ایک بار بھی کال اٹھا ئی ہو،چلو بندہ مصروف ہوتا ہے لیکن فرصت میں تو کال کر سکتا ہے ،یعنی اب ہم ایسے گئے گزرے ہوگئے ۔۔۔“سیلانی فون پر جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیا،گذشتہ بارہ گھنٹوں میں جمیل کو گیارہ بار فون کر چکا تھا،بارہویں فون پر اس نے کال وصول کی تو سیلانی کاکھری کھری سناناتو بنتا تھا۔
جمیل احمد صغیر سے اسکا پرانا ساتھ اور بے تکلفی ہے ،کراچی یونیورسٹی کی بسوں پر دونوں نے لٹک لٹک کرخوب سفر کر رکھے ہیں ۔کیمسٹری کی کھٹی چنا چاٹ اور رول پراٹھے کھارکھے ہیں،ایک دوسرے سے چھین کر عبداللہ کی بریانی پلیٹ پربھاگتے رہے ہیں، جمیل پڑھنے لکھنے والا بچہ اورتقریبا آدھا جماعتی تھا،فکری اور نظریاتی طور پر وہ جماعتی ہی تھا،مولانا موددودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابیں اس کے بیگ میں رکھی ہوتی تھیں لیکن وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہونے پر تیار نہ ہوتاتھا ،یاروں نے بڑی کوششیں کیں، ربط میں رکھا،گھر کے چکر لگائے، بڑے بڑے لیکچر دیئے لیکن جمیل نے جمعیت میں نہ آنا تھا نہ آیا۔
یونیورسٹی کے بعد غم روزگار نے سارے ہی دوست محبتیں اوررفاقتیں یاد بنا دیں، وہ احباب جن سے روز آرٹس لابی میں مصافحے معانقے ہوا کرتے تھے انہیں بھی گردش دوراں جانے کہاں لے اڑی جو نہیں اڑے جمے رہے ان سے بھی ملاقاتوں میں وقفہ بڑھتا چلا گیا۔جمیل سے بھی کبھی کبھار ہی ملاقات ہوپاتی کبھی اس کا فون آجاتا یا کبھی سیلانی اسے فون کر لیتا ،کل ایک کام کے سلسلے میں سیلانی کو جمیل کی ضرورت پڑ گئی سیلانی نے فون کیا لیکن اس نے اٹھایاہی نہیں پھر فون کیا جواب ندارد،تیسراچوتھا اور وقفے وقفے سے کتنے ہی فون کئے لیکن جمیل سے رابطہ نہ ہواپہلے اسکے نمبر پر گھنٹی بج رہی تھی پھر اس نے فون بھی بند کر دیا،سیلانی کا غصہ پریشانی میں بدل گیا طرح طرح کے وسوسے اسے ڈسنے لگے اس نے چاہا کہ کسی اوردوست سے جمیل کی خیر خبر لی جائے لیکن دونوں کا کوئی مشترکہ دوست بھی ایسا یاد نہ آیا اب جو صبح جمیل کے نمبر سے اپنے فون پر مس کال دیکھی تواس نے نمبر ملایا اور جمیل کی ہیلو سنتے ہی شروع ہو گیاسناتے سناتے سیلانی ذرا دم لینے کو رکاتو دوسری طرف سے آواز آئی
”بس یا کچھ اوررہتا ہے ۔۔۔“
”ابے ! چپ میں سامنے ہوتا ناں تو طبیعت صاف کر دیتا “
”واپس آجا کراچی میں صفائی کرنے والوں کی بڑی ضرورت ہے یہاں سیاست ہی صفائی پر ہورہی ہے“جمیل ہنس پڑا
”یار ! میں تجھے کل سے فون پر فون کئے جارہا ہوں مگر تو نے جواب دینے کے بجائے فون ہی بند کر دیا“
”بدگمان نہیں ہوتے دوست فون بند نہیں کیا تھا ہو گیا تھا اور کال میں اس لئے نہیں لے سکا کہ لاکھوں لوگوں کے شور میں گھنٹی کیا گھڑیال کی بھی کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی“
”لاکھوں لوگ۔۔۔کیامطلب ؟“
”میں کل کشمیر کی ریلی میں تھا“
تو بھی کل جماعت اسلامی کی...
امت کو طعنے
امت کا تصور اتنا جاندار ہے کہ استعمار نے اس کو ختم کرنے کے لیے امت کے وجود کو بزور شمشیر کیک کے ٹکڑوں کی طرح تقسیم کیا،خاردار باڑیں لگائیں،آمد و رفت محدود کی، پاسپورٹ اور ویزے کا دھندا قائم کیا،پھر بندوق کے پہرے بٹھائے،ایک کے بجائے درجنوں پرچم دیے اور ہر قومیت کو صرف اپنے وطن کی عظمت پر لگا دیا، اپنے تئیں باقی سب بھلا دیا اور پھرسب سے اوپر ذہنی غلامی کو قائم دائم رکھنے کے لیے اپنے کالے غلام اس سارے بندوبست کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیے۔۔۔!
لیکن امت نے اپنے وجود کا ثبوت دیا اور ہر محاذ پر دیا۔
اڑتالیس کی عرب اسرائیل جنگ میں مجاہدینِ امت نے بے سروسامانی میں اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔۔۔73ء کی جنگ میں اسرائیلی پوچھتے تھےاس دفعہ فدائین تو نہیں لڑ رہےنا! پھر جتنی جنگیں عرب قومیت کے نعرے پر لڑی گئیں،ہمیشہ منہ کی کھائی اور جب جب امت کی،قرآن کی صدا بلند ہوئی، دشمن خون کے گھونٹ پی کرر ہ گیا۔آج بھی غزہ کا قید خانہ اور القدس کے مینار خون سے تر ہیں ، امت تابندہ ہے!
افغانستان کی تو مثال ہی دینا وقت کا زیاں ہے ،انڈونیشیا سے مراکش تک امت کے نمائندے بارگاہ الٰہی میں منتخب ہو ہو کر پہنچے اور خون ِرگِ جاں سے حق کی شہادت رقم کی۔رحمھم اللہ۔
بوسنیا کی بات کم کومعلوم ہے۔۔۔1992ء میں نسل کشی شروع ہوئی تو ہر حکومت نے ویسے ہی تاریخی'' کھڑے ہونے'' پر اکتفا فرمایا جیسے آج پاکستان کشمیر کی چتا کے سرہانے ساتھ''کھڑا" ہے۔۔۔امت کو آواز پڑی،امت نے لبیک کہا،عالم اسلام سے جانباز آئے اوردو ہی سال میں سرب افواج کا زور توڑ دیا۔دشمن کو مجبوراََبوسنیا کے قیام کو تسلیم کرنا پڑا! صدرعلی عزت بیگوویچ کا خراج تحسین آج بھی موجود ہے،اسے پڑھیں،معلوم ہو گا امت کیا ہے، کیا کر سکتی ہے!
عراق میں امریکی تسلط کے خلاف ان کہی داستان کبھی لکھی جائے تو استعمار کے خلاف جدوجہد میں امت کاتاریخی کردار سامنے آئے گا اور یہ لکھا جائے گا۔انگریزی میں لکھا بھی گیا ہے،اردو تاحال محروم ہے!
اعلان آزادی 1995ء کے بعد آزاد چیچنیا کے صدر جوہر داؤدییف نے آرمی کا کمانڈر ایک عرب کمانڈر امیر الخطاب کو مقرر کیا تھا،کس قاعدے کے تحت؟یہ امت ہے! وہی خطاب جس نے سعودی عرب میں والدہ کو فون پر کہا تھا کہ جب چیچنیا سے روسی استعمار کا جنازہ نکل جائے گا،خطاب اپنی ماں سے ملنے آ جائے گا!
صرف کشمیر میں پچیس ہزار پاکستانی امت کے وجود کی سند خونِ رگِ جاں سے رقم کر چکے ہیں۔کسی ایک کا باپ یا بھائی بھی یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ وہ' 'سب سے پہلے پاکستان'' پر قربان ہوا۔ہر شہید نے امت کے لیے قربانی دی!خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی!
حماس کے ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کا بانی تیونس کا شہری محمد الزواری بنتا ہے۔۔۔کس نسبت سے؟؟اسی نسبت سے جس نسبت سے بوڑھا شیرسیدعلی گیلانی اپنا آپ پاکستان سے منسوب کرتا ہے۔۔پاکستان کو امت کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے۔۔ "اسلام کی نسبت سے ۔۔۔اسلام کے تعلق سے۔۔۔اسلام کے رشتے سے۔۔۔ہم پاکستانی ہیں۔۔پاکستان ہمارا ہے!"
اقبال ابھی تک غلطی سے قومی شاعر ہی ہے،بہت...
طنز و مزاح
عرق النساٗ (طنزومزاح)
عرق النسا کو میں اس وقت تک حکیم کی دکان سے ملنے والے عرقِ گلاب،عرقِ سونف،عرقِ انجبارکی طرح ایک عرق ہی خیال کرتا رہا ، جب تک خود اس مرض میں مبتلا نہ ہو گیا ، نتیجہ یہ نکالا کہ عرق النسا کوئی نسائی مرض ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق نسوانیت سے ہے۔بلکہ جوانی میں عرقِ انفعال کی وجہ سے پیدا ہونے والا درد اصل میں عرق النسا ہوتا ہے جسے درد ریح اور بادی کا درد بھی کہا جاتا ہے۔درد ریح میں مبتلا شخص ریح کے نکلنے تک چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔اگر یہ درد بڑھ جائے تو گٹھیا کا درد بن جاتا ہے جو کہ بہت ہی’’ گھٹیا‘‘قسم کا درد ہوتا ہے۔یہ درد اگرحد سے بڑھنے لگے تو مریض کو انٹی بائیوٹک دی جاتی ہے،کبھی’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘والا معاملہ درپیش ہوجائے تو دوا کی بجائے دعا کروانی چاہئے اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو ’’آنٹی بائی او ٹک‘‘سے شادی ہی اس کا واحد حل ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کی پہلی شادی جوانی میں ،کہ شیوہ پیغمبری ہے، دوسری چالیس کے پیٹے میں ،کہ جب پیٹ نکل آئے اور تیسری شادی بڑھاپے میں ،کہ جب بیماری دل کی دوا لینے کی بجائے ہمارے بوڑھے دل ہارنا شروع کر دیں۔بڑھاپے کی شادی کو ”کم عمری“کی شادی بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے بعد انسان کی زندگی کم ہی رہ جاتی ہے۔اس عمر کے بارے میں ہی اکھان ہے کہ”ہنگ لگے نہ پھٹکڑی تے رنگ وی چوکھا“
رنگ(color) دیکھ کر اگر کوئی بوڑھا دنگ رہ جائے تو سمجھ لیں دل ہار بیٹھا ہے اور اگر کلر دیکھ کر ’’جوان‘‘کا رنگ اڑ جائے تو سمجھ جاؤ کہ پاکٹ ہار بیٹھا،ایک طالب علم کمر دردکے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا ، ڈاکٹر نے طالب علم خیال کرتے ہوئے ، نفسیاتی طور پر ریلیکس کرنے کے لیے پوچھ لیا، کیوں بیٹا’’میر درد‘‘کو جانتے ہو،طالب علم نے اسے بھی ایک’’درد‘‘کی قسم سمجھتے ہوئے فوراً جواب دیا، جی ڈاکٹر صاحب کمر درد سے قبل میں ’’میردرد‘‘کا ہی شکار تھا۔ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ لو بچے یہ دوائی کمر درد ہو یا میر درد دونوں صورتوں میں افاقہ اور تسکین کا باعث بنے گی۔ایک ہفتہ دوائی کھانے کے بعد افاقہ تو ہو گیا مگر ’’تسکین‘‘کی تلاش ابھی تک جاری ہے۔اسی طرح ایک فربہ جسم کی حامل خاتون نے جب ڈاکٹر سے کمر درد کے علاج کے لیے دوا ئی چاہی تو داکٹر نے ’’ڈبل ڈوز‘‘double dose لکھتے ہوئے کہا، یہ اس لیے کہ آپ کمر نہیں بلکہ کمرہ اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہیں،موقع ملے تو کچھ سامان کسی مناسب جگہ اتار پھینکیں ،کمر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔
ماؤ نے کہا تھا کہ مسائل کا حل بوڑھوں کے پاس نہیں جوانوں کے پاس ہوتے ہیں ، جب کہ آج کے جوان کئی قسم کے درد، ایام جوانی میں ہی پال رکھتے ہیں۔خاص کر جوان طلبا، کیوں کہ تحقیق بتاتی ہے کہ طلبا میں’’ مخفی‘‘ درد سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔جیسے کہ سر درد، پیٹ درد، یہ ایسے...
لوٹ سیل
موسم گرما کی تعطیلات سے کوئی ایک ماہ قبل قطر کے ہر بڑے سٹور اور شاپنگ مال میں آپ کو ایک ہی بورڈ آویزاں نظر آئے گا جس پر لکھا ہوگا ’’خصم%50۔عربی میں ڈسکاؤنٹ کو خصم کہا جاتا ہے۔دوحہ آمد کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب پہلی بار میرا واسطہ خصم سے ہوا (پنجابی والے نہیں عربی والے سے) یعنی ہر اسٹور پر خصم % 50کے بورڈ نظر آئے ، چند لمحے حیران وششدر امن بورڈز کو تکتا رہا کہ کیا واقعی دنیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب ’’خصم‘‘بھی برائے فروخت ہوگا وہ بھی اچھے خاصے ڈسکاؤنٹ پر۔وہ تو بھلا ہو میرے دوست کا جس نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے ’’خصم‘‘ کا اردو ترجمہ کردیا۔قطر میں اگر کلیئرنس سیل کا بورڈ آپ کو نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ وہ مال چند دنوں میں ہی کلیئر ہو جائے گا، یعنی واقعتا ہر شے سستی ہی ملے گی، پاکستان میں اگر کسی مال پرلوٹ سیل کا بورڈ نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ آٓپ واقعی لٹنے والے ہیں۔اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب دوحہ سے دو ماہ کی تعطیلات گرما گزارنے پاکستان گیا ،چند روز بعد ہی بیگم نے فرمائش کی کہ ساہیوال چلتے ہیں، وہاں سارے برانڈز پر سیل لگی ہوئی ہے،کس وناکس سیل پوائنٹ کا رخ کیا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بہت سے شاپنگ مالز پر واقعی جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ لوٹ سیل۔ ایک برانڈ میں ہم بھی گھس گئے، روشنیوں کی چکا چوند میں ہر سوٹ ہی پرکشش لگنے کی بنا پر بیگم نے بھی کوئی ستر ہزار کو چونا لگا دیا، گھر پہنچے تو سوٹ کی چمک سے زیادہ بیگم کا چہرہ دمک اور چمک رہا تھا۔ مارے خوشی کے اپنی بھانجیوں کو نمائشی نظر کے لیے یونہی پہلا سوٹ کھول کر دکھایا تو مجھے اندازہ ہوگیا کہ مراد میاں واقعی لوٹ سیل میں ہم لٹ چکے ہیں۔وہ جو جلی حروف میں’’لوٹ سیل‘‘لکھا ہوا تھا اب جعلی سا لگنے لگا۔اس روز میرا ایمان اس بات پر اور بھی پختہ ہو گیا کہ لوٹ سیل محض لوٹنے کے لیے ہی لگائی جاتی ہے۔لوٹ سیل میں لٹنے کے بعد دوتجربات میرے علم میں اضافے کا باعث بنے،ایک یہ کہ لوٹ سیل کا سامان چائنہ کے مال کی طرح ہوتا ہے’’چلے تو چاند تک وگرنہ رات تک‘‘دوسرا یہ کہ لوٹ سیل میں خواتین کے لٹنے کا چانس سو فیصد ہوتا ہے۔
عورت کے لٹنے کی خبریں اکثر اوقات آٓپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں مگر مرد کے لٹنے کی کبھی کوئی خبر کسی اخبارمیں شائع نہیں کی جاتی حالانکہ مرد بے چارہ ہر لوٹ سیل پر اپنی بیوی اور دوکاندار کے ہاتھوں لٹتا ہے، عورت لٹتے سے شور مچا دے تو پوری قوم یک آواز سراپا احتجاج بن جاتی ہے اور تو اور منہنی جسم کے متحم چاچا ،ماجھا بھی حسب استطاعت ’’چھیڑو‘‘کے منہ پر طمانچہ دے مارنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ ایک آدھ کو تو ان کی ہمت کی داد بھی دینا پڑتی ہے ، لیکن لوٹ سیل مرد کے ’’لٹنے‘‘کا ایسا ذریعہ ہے جس پر...
مارچ میں مارچ، اکتوبر میں مارچ
ہم حب بھی حالات حاضرہ سے واقفیت کے لیے ٹی وی آن کرتے ہیں تو ہر طرف مارچ مارچ کی آواذیں سنائی دیتی ہیں ۔
اوہ یہ مارچ ، اس سے تو ہمیں ہمیشہ ہی خوف آتا رہا ہے،
جب بھی مارچ قریب آتا تھا ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے۔ بھوک اڑ جاتی تھی۔اسکول کی کتابیں پہاڑ نظر آتی تھیں،جن کو مارچ سے پہلے سر کرنے کا اساتذہ کی جانب سےحکم ملتا تھا اور ۳۱ مارچ تو یوم جزاء کی طرح محسوس ہوتا تھا،دعائیں وظائف اور مننتیں مانی جاتیں کہ اس مارچ کا اختتام عافیت سے ہو جائے اور ہماری عزت رہ جائے،
مارچ کی اہمیت تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے، کیونکہ ہمارے امتحانات ہمیشہ مارچ میں ہوتے تھے اور ۳۱ مارچ کو رزلٹ آؤٹ ہوتا تھا۔
پھر اللہ کے کرم سے ہم نے میٹرک کر لیا تو مارچ سے نجات کا جشن منایا ،کہ اب یہ ایسا مارچ ہمیں ڈرانے کبھی نہیں آئے گا۔
پھر اچانک مارچ کی اہمیت بڑھ گئی۔ اب اس کا جب دل چاہے آجاتا ہے۔
جولائی میں مارچ ،دسمبر میں مارچ ،مارچ میں مارچ اور اب تو اکتوبر میں مارچ ۔ ہائے ، اللہ رحم کرے!
اب اتنی جلدی مارچ لانے والوں سے میں پوچھتی ہوں، کاش آپ کشمیر کے لے مارچ کرتےاور حکومت کو مجبور کرتے کہ جن لوگوں کوگھروں میں بھوکہ مارا جا رہا ہےانکو آزاد کیا جائے ، لیکن یہ مارچ تو مزید انکو ختم کرنے کے لے آرہا ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ آپ کے آباء جوکہ ہند سے تعلق رکھتے ہیں ،انہوں نے مودی کےخوف سے اسی کےدامن میں پناہ لے لی ہے اور اپنےمسلمان بھائیوں کےلہو کا سودا کرلیا ہے اورمزید یہ کہ پاکستان کو اپنا دشمن ملک کہہ کر اس کا دل خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
لیکن آپ تو اسی ملک میں رہتے ہیں۔ اسی ملک کی *کشمیر کمیٹی* کے ۱۳ سال چیئرمین رہے ہیں۔ 6کروڑ کا سالانہ بجٹ استعمال کرتے رہے ذرا بتائیں اس کا کیا ہوا؟ آپ نے پاکستان کامقدمہ پاکستان کی طرف سے لڑا یا بھارت کی گود میں ڈال دیا ؟
اب آپ انہیں اپنے پیاروں کے ایجنڈے کو مدد دینے کےلیے اچانک ملک میں *مارچ* لاکر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں؟ اور اگر اب پھر بےنظیر کے دور کی طرح آپ کو کچھ مال غنیمت سےفیض یاب ہونے کی راہ مل گئی، تو پھر کیا آپ کو آرام مل جائے گا؟
*میں کیوں کہیں اور اپنا لہو تلاش کروں*
*مرے اپنوں ہی کہ ہاتھ ہیں رنگے ہوئے*
”دنیائے مزاح“
”ہاں بھئی کھانے میں کیا ہے؟“
”بلی کا گوشت ہے، کتے کا گوشت ہے،چوہے کے کباب ہیں۔۔۔“
”ارے ارے بھائی!! کیا ہوگیا ہے؟ کیا جنگل میں کھول رکھا ہے ریسٹورنٹ آپ نے۔۔۔“
ویٹر اور گاہک کے درمیان ہونے والی یہ گفتگو میرے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ ایک معروف ریسٹورنٹ میں prank (مذاق) کرتا Prankster ہے۔ میں اس قسم کی ناقابلِ فہم گفتگو کبھی تحریر نہیں کرتی لیکن میرا موضوع انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں حال ہی میں آنے والا ”پرینک کلچر“ ہے۔ یوں تو تفریح اور مزاح تھکے ہوئے، اعصاب کے لئے ٹانک کا کام دیتے ہیں اور انسان ان سے لطف اندوز ہو کے تازہ دم ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کی بھی کچھ حدود ہیں جن کو پار کر لیا جائے تو سوائے بد تہذیبی کے کچھ نہیں بچتا۔
یہ پرینکس عوامی مقامات مثلاََ معروف شاہراہیں، پارکس، شاپنگ مالز یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی کئے جاتے ہیں۔ اکثر یہ لچر گفتگو، گھٹیا الفاظ، تحقیر آمیز رویے اور مخاطب کی تضحیک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے سبب پرینکسٹر کو جان کے لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔ پھر یو ٹیوبر یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کرا دیتا ہے کہ ”بھائی!! کیمرے کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔“ اور وہ متاثرہ بھائی اپنی تمام تر ذلت بھول کر بتیسی نکال کر اس کی بات پر من و عن عمل کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو کئی پرینکس قابلِ اعتراض ہیں جو تعلیمی اداروں کے احترام کو مجروح کرتے ہیں۔ انکے کمنٹس پڑھ کے اندازہ ہوجاتا ہے کہ عوام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ ایک پرینک کی مثال دیتی ہوں جس کا عنوان ہے Cute Girl Asking Strangers, Guess Who??? دو دوست ایک معروف شاپنگ مال کے فوڈ کورٹ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں ایک محترمہ نازل ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کے کہتی ہیں: ”پہچانو کون؟؟ یاد کرو ہم اسکول میں ہوتے تھے۔۔۔!“ جب پورا پرینک مکمل ہوگیا اور ان حضرات کو حقیقت کا علم ہوا تو ان افراد میں اتنی بھی غیرت نہ تھی کہ کسی بھی قسم کے غصے کا اظہار کرتے بلکہ ان خاتون کے کہنے پر ایک روبوٹ کی مانند کیمرے کو دیکھ کرہاتھ ہلا دیا۔ جب اس پرینک کے کمنٹس پڑھے تو عوام کی اکثریت اس پرینک کے خلاف تھی اور پاکستان میں بڑھتی بے راہ روی کی طرف توجہ دلا رہی تھی۔ وہیں کچھ روشن خیال افراد اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک بھائی لکھتے ہیں: ”یہاں پر کچھ افراد مفتی بن کر فتویٰ لگا رہے ہیں۔ بھائی!! کیا اب پاکستانیو ں کو سانس بھی نہیں لینے دو گے؟؟ پاکستان اسی extremism کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہے۔“
تو بھئی، بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان اگر بدنام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں رہنے والے کچھ افراد کو ضرورت سے ذیادہ سانس لینے دی جا رہی ہے اور وہ معاشرتی اقدار و روایات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی ان لوگوں میں شامل تھی جو...
ماس-ٹر
محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ“مار نہیں پیار“نوٹیفیکیشن سے قبل ماسٹر(استاد)کو ایسے خطرناک کردار کے طور پرمعاشر ہ میں پیش کیا جاتاتھا کہ جس کو دیکھتے ہی طالب علم کے جسم کا ماس(skin)ٹر،ٹر کرنا شروع کردیتا تھا۔میرا ایک دوست فرخ الحسن بھٹی بچپن سے ہی پختہ عزم کئے ہوئے تھا کہ اسے بڑے ہو کر اس وجہ سے ماسٹر بننا ہے کہ جتنا ماسٹروں نے اسے مارا ہے خود ماسٹربن کربچوں کو مار پیٹ کر اپنا بدلہ لینا ہے،ماسٹر تو نہ بن سکا البتہ محکمہ جنگلات میں آجکل ٹمبر کوخوردبرد کرنے میں کافی ”ماسٹر“ہو گیا ہے۔اپنے ماسٹرپن کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ کیا ہوا درخت کٹوا کے پیچ دیا ایک کی بجائے دس درخت لگواتا بھی تو ہوں،کیا فلسفہ ہے کالے دھن کو سفید کرنے کا،اس کے اسی فعل کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے کتنی بار سیاست میں آنے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے ماسٹر پن کی ایک مثال ملاحظہ ہوکہ ایک بار جوکالیہ بیلا فاریسٹ میں نئے پودے لگانے کا حکم صادر ہوا،موصوف نے کہیں نئی گاڑی خریدنی تھی تو ظاہر ہے پودے نہ لگوا سکا۔اتفاق سے سیکرٹری فاریسٹ کا دورہ تھا،جناب انہیں گھنٹہ بھر لانچ میں بیلا کے ارد گرد گھماتا رہا،سیکرٹری کے پوچھنے پر کہ کیا تم نے پودے لگوائے بھی ہیں کہ ایسے ہی ہمیں گھماتے جا رہے ہو۔فرخ نے نہائت معصومیت سے جواب دیا کہ سر دریائی علاقہ ہے پانی کا کیا بھروسہ،ہو سکتا ہے کہ دریا کا پانی بہا کے لے گیا ہو۔موصوف برطرف ہوئے اور ماموں کی سفارش سے نوکری پر بحال ہوئے اور انہیں پیسوں سے خرید کردہ گاڑی پر دفتر حاضری دینے پہنچ گئے۔اب آپ ہی بتائیں کہ اس سے بڑا ماسٹر کوئی ہو سکتا ہے۔مگر جس ماسٹر کی بچپن میں فرخ بھٹی بات کیا کرتا تھا اس سے مراد سکول اساتذہ تھے۔وہ تو ماسٹر نہ بن سکا البتہ میں فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر دوحہ قطر میں ضرور ایک پاکستانی اسکو ل میں ماسٹربن گیا۔اب میرے پاس سب کچھ ہے ماسوا پیسے کہ کیونکہ فرخ کا کہنا تھا کہ استاد کا کام پیسہ کمانا نہیں یہ کام دیگر”پیشہ ور“لوگوں کا ہے۔جب پیسے کی اہمیت کی سوچ اجتماعیت کی سوچ بن جائے گی تو ماسٹر بھی تو ایسا ہی سوچنے والے ہونگے جیسے کہ ایک گاؤں میں اسکول میں معائنہ ہورہا تھا اور ماسٹر صاحب بچوں کو cupسپ(سانپ) پڑھا رہے تھے انسپکٹر نے اعتراض کرتے ہوئے ماسٹر نے کہا کہ سر یہ سپ نہیں بلکہ کپ ہوتا ہے تو استاد محترم استادی دکھاتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں گویا ہوئے کہ سر جب تک میری تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی اس وقت تک cup سپ ہی رہے گا۔
ایک بار مجھے ایک طالب علم نے پوچھا کہ سر یہ استاد اور ماسٹر میں کیا فرق ہے تو میں نے جواب دیا کہ ماسٹر و ہ ہوتا ہے کہ وہ جب بچے کو مارے تو ماس ٹر،ٹر ہو جبکہ استاد مارتے ہوئے بھی ایسی استادی دکھا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔میرے ایک استاد محترم تھے جن کے پاس ایک سہراب کی سائیکل تھی وہ...