(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۳
مدینہ منورہ کی یاد دل میں بسائے ہم مکہ پہنچ چکے تھے، حرم سے دور عزیزیہ کی ایک اقامت گاہ ہمارا مسکن تھی، ہم نے کمرے میں سامان رکھا، وضو کیا، تو باہر گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی، جس نے ہمیں صحنِ مسجد سے باہر کی زیر زمین پارکنگ میں اتار دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ عشاء کے بعد یہیں سے ہمیں واپس لیا جائے گا، ہم احرام میں تھے، عصر کی نماز ادا کر کے عمرہ شروع کیا، اور مغرب عشاء کے دوران مکمل کر لیا، اور اب لگے انتظار کرنے، یہ ۶ ذی الحج تھا، اگلے روز منی جانے کی تیاری بھی کرنی تھی، لیکن بہت دیر انتظار کے بعد بھی گاڑی نہ آئی، آخر مرد حضرات نے ہماری اور شاید اپنی بھی حالت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ویگن کو روکا، ہم اس میں بیٹھے تو تھکاوٹ کا اندازہ ہوا، اس روز تک تقریباً تمام حجاج مکہ پہنچ چکے تھے اور خوب رش تھا، ٹریفک بھی اور پیدل لوگ بھی، ہم سے کچھ آگے گاڑی نے ایک حاجی کو ٹکر ماری اور رکے بغیر آگے نکل گئی، اب وہ شخص زمین پر پڑا چیخ چلا رہا تھا، اس نے احرام پہن رکھا تھا، گاڑی اس کی ٹانگوں کے اوپر سے گزر گئی تھی، اور اب سفید احرام پر سرخی پھیلتی جا رہی تھی، کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے کنارے کیا، اور پولیس پہنچ گئی، اس حاجی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جو منی جانے سے ذرا پہلے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اور پھر وہ حجۃ الوداع کے سفر کا حاجی بھی یاد آگیا، جسے اس کی اپنی سواری کے جانور نے کچل دیا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے غسل دو اور اسی احرام میں کفن دے دو، اس کا سر ننگا رکھو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ، یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ ویگن عزیزیہ کی جانب بڑھی تو سڑک پر معمول کی ٹریفک تھی، اور ڈرائیور نے ایک جانب اتار دیا کہ عزیزیہ آگیا ہے، آپ چلے جائیں، سعودی ڈرائیور کے ایسے رویے پر سب کو اترتے ہی بنی، اور اب عزیزیہ کی شاہرائیں تھیں اور تھکا ہارا قافلہ تھا، گوگل میپ کا زمانہ تھا نہ ہی موبائل فونز کی بہتات تھی، ایک حاجی صاحب کے پاس یہ سہولت میسر تھی، اور انہیں کی عرق ریزی سے ہم اقامت گاہ تک پہنچے۔
اگلی صبح مردوں نے قریبی مسجد میں نماز پڑھی، اور ہم نے دن چڑھے ناشتا کیا، میاں صاحب قریب کے کسی ہوٹل سے عربی ناشتا لائے تھے، جس میں حمص بھی تھا اور فول بھی، پنیر اور مکھن بھی۔
آج رات منی کی جانب روانہ ہونا تھا، اس لئے ایک رونق اور مصروفیت تھی، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، اور کوئی نہانے دھونے میں مصروف، کسی کا مختصر بیگ تیار ہو رہا ہے، اور لوازماتِ زادِ راہ کا دقیق جائزہ لے رہا ہے، ایک کسک تھی دل میں کہ آج حرم نہیں جا سکے، لیکن رات کی بھول بھلیوں کا سوچ کر دل کو تسلی دے رہے تھے، کچھ لوگ حج سے پہلے آخری آرام کر رہے تھے تاکہ جسم مشقت کے لئے تیار ہو جائے،جوں جوں وقت گزر رہا تھا، واش رومز کی جانب بھیڑ بڑھ رہی تھی۔ مغرب تک سب تیار ہو چکے تھے، عشاء کے بعد بس آنی تھی، مرد احرام پہن چکے تھے، ایسے لگ رہا تھا اندر باہر نور کے ’’پرے‘‘ گردش کر رہے ہوں، بس میں بیٹھتے ہی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجنے لگیں، اللہ جی ہم اپنی زندگی کے سب سے پیارے سفر کی جانب نکل رہے ہیں، ہم نے تیری پکار پر لبیک کہا ہے، تلبیہ کے ایک ایک لفظ کو ہمارے دل کی آواز بنا دے، اے اللہ تو ہمارا ساتھی ہو جا، یہ سفر سارے کا سارا نیکی اور تقوی کا سفر ہو، اس کا لمحہ لمحہ تیری رضا میں بسر ہو، ہماری کمزور عبادتیں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، سب قبول فرما لے، اے اللہ ہمارے حج کو حجِ مبرور بنا دے، ہماری سعی و جہد کو قبولیت کا شرف عطا فرما دے، ہمارے گزشتہ تمام گناہوں، قصوروں اور لغزشوں کو معاف فرما دے، اے اللہ تو ہمیں پاک کر دے۔۔ آمین ثم آمین
بس نے ابھی حرکت بھی نہ کی تھی کہ باہر کھٹ پٹ سنائی دی، پاکستان ہاؤس سے فون آیا تھا کہ اس گروپ کی ایک خاتون گزشتہ رات سے غائب ہے اور وہ پاکستان ہاؤس میں ہے، آکر لے جائیں۔ ابھی یہی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کون ہے کہ پاکستان ہاؤس کا اہلکار خاتون کو لیکر آ پہنچا، اوہ ۔۔ یہ تو ماسی پٹھانی ہیں۔ انکی دیورانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ رات عمرے کے بعد ہی ان سے بچھڑ گئیں تھیں، اکرم بھٹی صاحب اپنی بھابھی کو وصول کرنے اترے، ماسی کھڑکی کے سامنے آئیں اور مسز بھٹی سے پورے جلال سے پوچھا: ’’میرا سامان کتھے اے‘‘، اور یہ سن کر کہ وہ تو ان کے کمرے میں ہی ہے، انکا غصّہ دو چند ہو گیا، ان دونوں نے نہ تو انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ ہی ان کا سامان ہی ہمراہ رکھا۔اب وہ دونوں اندر گئیں اور کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئیں، تو پھر بس چلی،اس سہو یا لغزش کا تدارک اکرم بھٹی صاحب نے اس طرح کیا کہ باقی کا سفر حج دونوں خواتین نے ہاتھ تھام کر بلکہ کئی مقامات پردوپٹے باندھ کر کیا، تاکہ وہ سدا اکٹھی رہیں، اسی تلخی کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج ماسی پٹھانی پر فرض تھا، وہ بیوہ ہو چکی تھیں اور محرم کی غیر موجودگی میں اپنے دیور دیورانی کو حج خرچ دے کر ساتھ لائی تھیں۔
ہماری بس عزیزیہ سے منی کی جانب رواں دواں تھی، رش سے بچنے کے لئے رات کو سفر کیا تھا، ورنہ ہمیں کل منی پہنچنا تھا، سڑک سے ہٹ کر کہیں کہیں سعودی نوجوانوں کی ٹولیاں دف بجا تی اور علاقائی رقص کرتی بھی دکھائی دیں، جو ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔
۵۵ نمبر کیمپ کے قریب بس نے اتار دیا، اب ہم خیمے میں تھے، چودہ مرد اور چودہ خواتین، اگلے حصے کی جانب خواتین چلی گئیں اور باہر کی جانب مرد۔ پھر کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ درمیان میں رسی باندھ کر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ لٹکا لیا جائے، رات اسی طرح گزری، صبح پردہ ہٹا کر با جماعت نماز ادا کی گئی، جس میں مرد اگلی صفوں، یعنی خواتین کی سائیڈ پر آ گئے اور خواتین پچھلی جانب! اسی کیمپ میں ہمیں حج کا تحفہ ملا جس میں خادمِ حرمین شریفین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جو انتہائی ضروری تھیں فراہم کی گئی تھیں، جن میں بے بو صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، سرجیکل ماسک وغیرہ۔
ظہر کے قریب ایک جوڑا کیمپ تلاش کرتا ہوا پہنچا، صفیں باندھے دیکھ کر انہوں نے سب سے پہلے با جماعت نماز پر اعتراض کیا، مرد صاحب تو باہر چلے گئے، خاتون یہ کہہ کر کنارے بیٹھ گئیں، ’’ان امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘‘۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ صاحب بھی آگئے اور لگے کیمپ کی پردہ چادر کو غلط ثابت کرنے، انکے مطابق محرم کے ساتھ حج کرنے کی روح ہی یہ ہے کہ ہر شحص اپنی محرم کے ساتھ ایک چادر لگا کر بیٹھے اور وہ دونوں اکٹھے عبادت کریں، اس طرح اس کیمپ میں چودہ چادریں لگائی جائیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی، ایک صاحب بولے: آپ ہمیں چھوڑیں، اپنی چادر لگائیں اور بیٹھ جائیں، دوسرے نے زیرِ لب تبصرہ کیا: ’’فیر دم وی آپے ای دینا‘‘۔بہر حال وہ صاحب کیمپ اور حج اور خادم حرمین کی شان میں بہت کچھ کہہ کر واک آوٹ کر گئے، انکی بیگم کو ایک دن حرم میں دیکھا تو وہ حرم کے امام کے پیچھے بھی نماز کے لئے نہ اٹھیں۔ محض فقہی مسلک کی بنا پر ہر روز دن میں پانچ مرتبہ ایک لاکھ نمازوں کے اجر سے محرومی!!
منی کے کیمپ کی اپنی ہی شان ہے، کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے کیمپ، یہ اللہ کی فوج ہے، یہ اس کی پکار پر خوشی اور شوق سے دور دراز کا سفر کر کے آنے والے پروانوں کا لشکر ہے، جو اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے نہیں تھکتے، گزشتہ گناہوں کا بوجھ انہیں بار بار لرزا دیتا ہے، زبان استغفار کے کلمات سے تر ہے، اور اس غفور ورحیم سے مغفرت کی آس بھی ہے۔جس حج میں فحش باتیں اور شہوانی کام نہ ہو ، فسق وفجور نہ ہو، وہ حجِ مبرور بن جاتا ہے جس کی جزا جنت ہی ہے۔
آٹھ ذی الحج یوم ترویہ ہے، کہتے ہیں کہ اس روز حاجی پانی جمع کرتے تھے، کیونکہ قدیم زمانے میں مکہ میں پانی کم تھا، تو حج کے لئے ایک دن پہلے منی میں پانی اکٹھا کر لیا جاتا تھا کیونکہ اب حاجی کو ۱۲ یا ۱۳ ذی الحج تک یہاں قیام کرنا ہے، دوسری روایت کے مطابق اس رات حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آٹھ ذی الحج کا دن آپ نے اس پر سوچ بچار میں گزارا، اور ۹ ذی الحج کو بیٹے سے اس کا ذکر کیا، جس کا جواب تھا:
’’ یا ابت افعل ما تؤمر، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲)
ابا جان، کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔
یوم الترویہ منی کے کیمپ میں تلبیہ پڑھتے، اور حج کی تیاری کرتے گزر گیا، رات سوئے تو آدھی رات کو مائیک پر آواز نے بیدار کر دیا، اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات جانے کے لئے تیار کھڑی ہے، جلدی آجاؤ ۔۔ اور یہ پیغام کیمپ کے چاروں جانب اس شدت سے کیا گیا، کہ کیمپ کے کچھ افراد نے اٹھ کر اسے یہاں سے جانے کو کہا، کیونکہ عرفات جانے کا وقت فجر کے بعد کا طے کیا گیا تھا، ابھی کیمپ والوں کی دوبارہ آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ ایک مرتبہ پھر کان پھاڑتا اعلان پوری طاقت سے کیا جا رہا تھا، کئی کیمپوں سے حاجیوں نے اس کی آوازکو دبانا چاہا، مگر اجرت پر حاصل کی گئی آواز کو اپنا رزق حلال کرنے کی بھی فکر تھی، ہم نے تکیہ سر پر رکھ کر آواز کی لہروں کو کم کرنے کی کوشش کی، اور ناکامی کے بعد وضو گاہ کی راہ لی، وہاں ابھی رش نہیں تھا، وضو کرنے کے بعد طبیعت میں چستی آچکی تھی، اور اب ’’اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات کے لئے تیار کھڑی ہے‘‘ کی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی، اس نے کسی کو سونے نہیں دینا، کہہ کر کوئی اور حاجن آنکھیں رگڑتی اٹھ بیٹھتی۔ہم اوّل وقت میں فجر کی نماز ادا کر کے بس میں بیٹھ چکے تھے، تلبیہات سے فضا گونج رہی تھی، اور اب حاجی تلبیہات پڑھ پڑھ کر تھک رہے تھے مگر بس ان سوئے ہوئے حاجیوں کے جاگ جانے تک منتظر کھڑی تھی۔ ابھی اشراق کا وقت تھا کہ بس نے حرکت کی، اور کچھ ہی دیر میں عرفات کے خیموں میں اتار دیا، یہ کھلے خیمے تھے، نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ابھی ہم بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ معلم کی جانب سے ملنے والا دوپہر کا کھانا تقسیم کیا جانے لگا، یعنی ناشتے سے پہلے، کھانا، اور نوالہ منہ میں ڈالا تو اتنی مہربانی کا سبب بھی معلوم ہو گیا، کھانا کافی پرانا تھا، چاول پانی چھوڑ رہے تھے، واپس کرنا چاہا تو ایک تلخی!!
سب کیمپ میں بیٹھے تھے، کوئی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، کوئی دعا اور مناجات میں، جب عقب سے آنے والی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا: السلام علیکم حاجی بھائیو، میں بہت پریشان ہوں، حج سے پہلے میری جیب کٹ گئی ہے، اسی میں میری ساری نقدی تھی، اللہ کی خاطر میری مدد کریں، ایک نوجوان پاکستانی اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کے ہمراہ مدد کا خواستگار تھا، (ایسے کئی قصّے ہم اس سے پہلے بھی سن چکے تھے) اسے شاید معلوم نہ تھا کہ اس گروپ میں کرنل صاحب بھی تھے اور میجر صاحب بھی، اکاؤنٹ آفسر بھی اور پروفیسر بھی! سب نے اس پر جرح شروع کر دی، جیب تو کٹ گئی، حاجی کا لاکٹ اور کڑا کہاں ہے، کب آئے؟ مکتب نمبر کیا ہے؟ پاسپورٹ کہاں ہے؟ وہ اتنے سارے سوالوں سے گھبرا گیا، جی میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں، تین ماہ پہلے عمرہ کے لئے آیا تھا، سوچا حج بھی کر لوں، اس کا پاسپورٹ چیک کیا گیا، اور سمجھایا بھی، جھوٹ بول کر حج؟ میدانِ عرفات میں دھوکہ؟ بس پھر اسے جانے دے دیا۔
عرفات کے کیمپ سے مسجد نمرہ کی جانب مارچ شروع ہو گیا، جو جتنا آگے جانے کے مشتاق تھے وہ تیز قدموں سے آگے چل دیے، کچھ مسجد کے اندر بھی پہنچ گئے، مسجد سے باہر حاجیوں کے لئے حرمین شریفین کے خادموں کی جانب سے لذتِ کام و دہن کا انتظام بھی تھا، راستے میں جگہ جگہ پانی کی بوتلیں حاجیوں کی جانب اچھالی جا رہی تھیں، کہیں آئیس کریم کی گاڑیاں سر راہ کھڑی تھیں کہیں جوس کی بوتلیں، کہیں لبن کی (لسی)۔جو سامنے آجاتا اسے وصول کرتے ہوئے حاجی آگے بڑھ رہے تھے، سڑک کے کنارے صف میں مرد ایک جانب اور خواتین ایک جانب بیٹھ گئیں، اب مجمعے میں بھی تنہائی تھی، ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف تھا، ہاں کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی سسکی سنائی دے جاتی، وقت گزر رہا تھا، اور سر پر چمکتا سورج پریشان نہیں کر رہا تھا، ہاں گناہوں، قصوروں، حق تلفیوں، بد اخلاقی اور رب کی بندگی میں تساہل ، اور نعمتوں کی بے قدری کا بڑا قلق تھا، اللہ تعالی سے معافی کی امید پر ہاتھ اس کے حضور پھیلے ہوئے تھے، آنکھیں اشک بار تھیں اور دل لرز رہا تھا، اللہ جی حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دیں، اللہ جی یہاں لا کر اکیلا نہ چھوڑ دینا، ہماری کمزور عبادت کو قبول کر لینا، ۔۔آمین۔
خطبہ شروع ہوا، اورہر جانب خاموشی، لاکھوں کے مجمعے میں بھی ایک ہی آواز ببانگِ دہل سنائی دے رہی تھی۔پیچھے والی ساری سڑک بھی صفوں میں تبدیل ہو گئی تھی، نمازِ ظہر اور عصر با جماعت قصر ادا کی گئیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کیمپ واپس پہنچے، کھانا پینا اور دعائیں وقفے وقفے سے جاری تھیں، ابھی مغرب میں کافی وقت تھا جب کیمپ سے باہر بسیں پہنچ گئیں، کیمپوں سے لوگ کھسک کھسک کر بسوں کے پاس پہنچنے لگے، جو ابھی تک مقفل تھیں، لیکن پھر بھی لائنیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، اور بسوں کے دروازے کھلتے ہی دھکم پیل شروع ہو گئی، کچھ دیر پہلے سیدھی صفوں میں نماز پڑھتے حجاج کا سلیقہ نجانے کہاں رخصت ہو گیا تھا، کچھ خواتین کو سوار کروانے اور نشستوں پر بٹھانے کی فکر میں پریشان تھے، اور کچھ لوگ رواداری اور تحمل سے بے نیاز بس میں جگہ پانے کے متلاشی! وہ وقت جو مقبولِ دعا ہے، اس سرگرمی میں نکلا جا رہا ہے، بسوں میں بیٹھ کر دعائیں جاری ہیں، بس ڈرائیور بھی حجاج کے لئے ثواب بڑھانے کا ذریعہ ہے، جو ڈانٹ ڈپٹ کر کے زمین پر بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے، احرام میں زمین پر بیٹھنا ایک دقت ہے، حاجیوں کے صبر کا پیمانہ بھی بار بار چھلک جاتا ہے، ’’اوے پٹھانوں، اپنی عورتوں کو تو سیٹوں پر جگہ دے دو، اس بزرگ خاتون ہی کے لئے جگہ بنا دو، کچھ لوگ زیرِ لب بڑبڑاتے ہیں، یہ عجب پٹھان ہیں، پٹھان تو غیرت کی مثال ہیں، اور یہ اپنی خواتین کے لئے بھی جگہ خالی نہیں کر رہے‘‘ کوئی دوسرا حاجی سرگوشی کرتا ہے: ’’حاجی صاحب، چپ ہو جاؤ، احرام کا
پاس کرو، کسی کو عصبیت کے ساتھ عار نہ دلاؤ‘‘، اور حاجی صاحب بآوازِ بلند استغفار شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح بار بار دھکے لگنے پر ایک نوجوان طاقت ور حاجی دوسرے حاجی پر پل پڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، ساتھ والے ان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، یومِ عرفہ ہے بھائی، پتا نہیں حج قبول ہوا بھی کہ نہیں، اگلا دفتر نہ کھولیں بھائی‘‘ ، اور وہ رو پڑتے ہیں، ایک حاجی بڑی عاجزی سے ایسے ہی کسی دھکے پر بے اختیار بولتے ہیں: ’’میں احرام میں نہ ہوتا نا تو پھر تمہیں بتاتا‘‘، اللہ تعالی لوگوں کے قصور معاف فرما رہے ہیں، آج رحمتِ خدا وندی جوش میں ہے، اللہ تعالی اتنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں ایسے پاک کر دیتے ہیں جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو،اور کوئی گناہ اس کے نامہء اعمال میں نہ لکھا گیا ہو،اسی لئے ’’شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل ، خوار، حقیر اور خشمناک نہیں رہتا‘‘ پس شیطان اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے، اسی لئے تو دوبارہ بندوں سے غلطیاں کروانے میں سرگرم ہوتا ہے۔ بندوں کے اونچے نیچے رویوں کے بیچ بسیں رینگنا شروع کرتی ہیں، اور صبر آزما سفر کے بعد آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ آتا ہے، یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں، ہمراہ کھانے میں سے کچھ ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے، اس کھلے میدان میں اپنے اپنے ساتھیوں کو مجتمع رکھنے کا اہتمام بھی ہے، ایک بزرگ کی طبیعت کچھ خراب تھی، اب انکی بیوی اور بیٹی کاسامان بھی باقی لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اور کرنل صاحب اس ثواب کا زیادہ حصّہ سمیٹ رہے ہیں۔اکرم بھٹی صاحب نے اپنی بیگم اور بھابھی کو اکٹھا رکھنے کے لئے انکے دوپٹوں کو گرہ لگوا رکھی ہے، اور خود ان سے آگے چل رہے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے، بیگ سے ٹیک لگا کر آنکھیں کیا بند کیں، صبح کے جھٹ پٹے میں آنکھ کھلی، پتا چلا سب اسی بے خبری میں یہاں وہاں سوئے پڑے تھے، بھاگ کر وضو خانوں کا رخ کیا، نماز پڑھ کر ساتھی دعا میں مشغول تھے، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوعِ فجر تک اللہ کا ذکرکثرت سے کرنے کا حکم ہے:
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام ۔۔) (البقرۃ، ۱۹۸)
پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
رمی کے لئے پتھر چن کر ہم واپس اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ آج عید کا دن تھا، میاں صاحب کسی افریقی سٹال سے گرما گرم گوشت اور روٹی لے آئے ہیں، اتنا مزے دار کھانا، نمک مرچ کم ہے، لیکن بہت عمدہ پکا ہوا،جس کے ساتھ شوربہ بھی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد ہم خواتین رمی کے لئے تیار ہو رہی ہیں، اچانک ایک صاحب اپنی بیگم کو بلاتے ہیں، واپس آکر وہ گروپ سے ذرا ہٹ کر بیٹھ جاتی ہیں، پھر دوسری، اور تیسری، آنے والی ہر خاتون کچھ خاموش ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد یہی پروگرام بنا رہے ہیں کہ عورتیں کیمپ میں رہیں، اور انکی رمی نیابتاً مرد کر آئیں، اتنے میں میاں صاحب مجھ سے پروگرا م کا پوچھتے ہیں، میں ذرا تلخی اور دکھ بھرے انداز سے پوچھتی ہوں، پروگرام پوچھنا چاہتے ہیں یا اپنا ارادہ بتانا چاہتے ہیں؟ وہ واقعی مجھ سے پوچھ رہے ہیں، میں خوشی سے ساتھ ہو لیتی ہوں، اور آہستہ آہستہ سب خواتین کو اجازت مل جاتی ہے، سوائے ان کے جو معذور ہیں۔
جمرات کے قریب پہنچتے ہیں تو جہاں تکبیرات کی پر سوز آواز فضا کو معطر کر رہی ہے وہاں ایمبولینس کے سائرن فضا کا سینہ چیر رہے ہیں، اوپر کا حصّہ بند کیا جا چکا ہے، اور کچھ دیر کے لئے نیچے بھی رمی بند ہے، شنید ہے کہ صبح کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے جس میں بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں۔کچھ دیر انتظار کے بعد حجاج پھر رمی کے لئے بڑے شیطان کی جانب بڑھتے ہیں، شروع میں کھلا راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہونے لگتا ہے، اور پھر پیچھے سے دھکے کئی قدم آگے لے جاتے ہیں، کبھی دائیں سے دباؤ کبھی بائیں سے، ساتھیوں کے احترام، تحمل، صبر اور برداشت سے عاری ہجوم، ایسا لگتا تھا یہ عرفات میں بلکتے اور معافی مانگنے والوں سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے، دائیں بائیں سے نصیحت اور سرزنش کی آوازیں بھی اٹھتی ہیں، مگر شیطان کی چال غالب آگئی ہے، ہم نے گرتے پڑتے خود کو سنبھالتے بڑی مشکل سے رمی کی، مجھے بچاتے ہوئے میاں صاحب گرتے گرتے بچے، جب باہر نکلے تو دونوں جوتیاں اتر یا ٹوٹ کر پاؤں سے الگ ہو چکی تھیں، اسی سے دائیں جانب حلاق سر مونڈنے میں مشغول تھے، اور استعمال شدہ بلیڈ بڑی فراوانی سے زمین پر پڑے تھے، ننگے پاؤں زخمی ہونے کا خطرہ تھا، پاس پڑی ایک ہوائی چپل میں پاؤں ڈالا تو دوسری بھی اسی پاؤں کی ملی، تھوڑا آگے گئے، تو ایک چپل سبز اور ایک نیلی، حاجی صاحب نے وہی پہن لی، حج اسی طرح مرغوب چیزوں کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اپنا لینے کا سبق ہے، احرام پہنتے ہی عمدہ اور قیمتی کپڑوں، خوشبو، زینت، اور لش پش کرتے جوتوں کو چھوڑا، مکانوں کے آرام کو چھوڑ کر منی، عرفات اور مزدلفہ کے کیمپوں میں مہاجرت کو محسوس کیا، اور یہ رمی تو شیطان سے عملی لڑائی ہی ثابت ہوئی تھی، جس میں سب سے بڑا حوصلہ اور ساتھ اللہ کا تھا، جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا، ایسا لگتا اپنے بندوں کی حالت دیکھ کر مسکرا بھی رہا ہے۔
ہم نے ٹیکسی لی اور حرم کے قریب جا اترے، خانہ کعبہ سے ظہر کی اذان سنائی دے رہی تھی، مروہ کے جانب کے ایک صحن میں ہم نے ظہر کی با جماعت دو رکعت پا لی،ہمارے گروپ کے تین خاندان بھی مل گئے، ہماری قربانی ہو چکی تھی،بالوں کی لٹ کاٹ کر احرام کھولا، غسل کیا اور بعد از نماز عصر طوافِ افاضہ شروع کیا۔ہم نے نیچے صحن میں طواف کیا، جہاں لوگوں کی کثرت سے کبھی طواف کسی گوشے میں رک بھی جاتا، آگے سے ہاتھ بلند ہوتااور پیچھے سب لوگ خاموشی سے رک جاتے، اور جونہی راستے کھلتا سب چلنے لگتے، پورے خشوع کے ساتھ، نہ کو ئی تیزی، نہ دھکا اور نہ دل میں ابلتا غصّہ، اگر دھکا لگ بھی جاتا تو یہی احساس غالب رہتا کہ کسی نے جان بوجھ کر نہیں دیا، رش کے سبب لگ گیا ہے، اللہ کے گھر کی کیا شان ہے، اور یہاں سلامتی کے کیا معنی ہیں، وہی ہجوم جو جمرات میں اتنا بے صبرا تھا، حرم کی تغظیم، تکریم، اور ہیبت نے اسے دبا دیا تھا، وللہ الحمد!! آنسو بہہ رہے تھے، عاجزانہ دعائیں بلند ہو رہی تھیں، اور کہیں رب کو چپکے چپکے پکارا اور گڑگڑایا جا رہا تھا، جو جتنا کمزور اور ضعیف تھا، اس کے لئے جگہ کھلی کی جا رہی تھی، میرے دل سے دعا نکلی، اے اللہ تو حرم سے باہر بھی ہمیں ایسا ہی باوقار بنا دے، آمین۔
نمازِ مغرب ادا کر کے سعی شروع کی، صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، مطاف میں سیکھا ہوا سبق حاجی پھر بھولنے لگے تھے، سبز روشنیوں کے مقام پر دوڑتے ہوئے، دھکے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی!! میرا دل رنج سے بھر گیا، میاں صاحب نے ایسے ہی بھاگتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑ کر کہا، صبح کا اتنا بڑا حادثہ آپ جیسوں ہی کی جلد بازی سے ہوا ہے، اب تو سبق لے لو۔عشاء سے پہلے سعی مکمل ہو چکی تھی، اور دل سے بے اختیار نکلا: اللہ جی حج اتنا آسان ہے، ہم نے حج کر لیا ہے، الحمد للہ، تو اسے قبول کر لینا، حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دے، آمین۔
مروہ کے باہر ہی ہم نے نماز پڑھی اور واپسی پر صاحب نے کہا: آج تو عید ہے، اچھا سا کھانا کھاتے ہیں، سب نے جو کھانا منگوایا، وہ مزے دار تو تھا مگر کافی حد تک ناکافی!! ہم نے سپیشل آفر میں جس مرغی کا آرڈر دیا تھا وہ تو اس کا چوزہ نکلا۔
ہم پانچ فیملیز نے واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا رخ کیا، صاحب نے کہا بھی کہ گھر فون کر لیتے ہیں، مگر جہاں بھی فون کرنے گئے، رش تھا، اور انتظار کی ہم میں سکت نہ تھی، اب تو یہی دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھیں اور منی اپنے کیمپ پہنچ کر سانس لیں۔
***
(جاری ہے)
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...