یہاں ملتا ہے بن مانگے

(سفرِ سعادت۔ سفرِ حج)
قسط نمبر۳
مدینہ منورہ کی یاد دل میں بسائے ہم مکہ پہنچ چکے تھے، حرم سے دور عزیزیہ کی ایک اقامت گاہ ہمارا مسکن تھی، ہم نے کمرے میں سامان رکھا، وضو کیا، تو باہر گاڑی ہمارے انتظار میں کھڑی تھی، جس نے ہمیں صحنِ مسجد سے باہر کی زیر زمین پارکنگ میں اتار دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ عشاء کے بعد یہیں سے ہمیں واپس لیا جائے گا، ہم احرام میں تھے، عصر کی نماز ادا کر کے عمرہ شروع کیا، اور مغرب عشاء کے دوران مکمل کر لیا، اور اب لگے انتظار کرنے، یہ ۶ ذی الحج تھا، اگلے روز منی جانے کی تیاری بھی کرنی تھی، لیکن بہت دیر انتظار کے بعد بھی گاڑی نہ آئی، آخر مرد حضرات نے ہماری اور شاید اپنی بھی حالت پر رحم کھاتے ہوئے ایک ویگن کو روکا، ہم اس میں بیٹھے تو تھکاوٹ کا اندازہ ہوا، اس روز تک تقریباً تمام حجاج مکہ پہنچ چکے تھے اور خوب رش تھا، ٹریفک بھی اور پیدل لوگ بھی، ہم سے کچھ آگے گاڑی نے ایک حاجی کو ٹکر ماری اور رکے بغیر آگے نکل گئی، اب وہ شخص زمین پر پڑا چیخ چلا رہا تھا، اس نے احرام پہن رکھا تھا، گاڑی اس کی ٹانگوں کے اوپر سے گزر گئی تھی، اور اب سفید احرام پر سرخی پھیلتی جا رہی تھی، کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے کنارے کیا، اور پولیس پہنچ گئی، اس حاجی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں جو منی جانے سے ذرا پہلے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، اور پھر وہ حجۃ الوداع کے سفر کا حاجی بھی یاد آگیا، جسے اس کی اپنی سواری کے جانور نے کچل دیا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے غسل دو اور اسی احرام میں کفن دے دو، اس کا سر ننگا رکھو اور اسے خوشبو نہ لگاؤ، یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتا ہوا اٹھے گا۔ ویگن عزیزیہ کی جانب بڑھی تو سڑک پر معمول کی ٹریفک تھی، اور ڈرائیور نے ایک جانب اتار دیا کہ عزیزیہ آگیا ہے، آپ چلے جائیں، سعودی ڈرائیور کے ایسے رویے پر سب کو اترتے ہی بنی، اور اب عزیزیہ کی شاہرائیں تھیں اور تھکا ہارا قافلہ تھا، گوگل میپ کا زمانہ تھا نہ ہی موبائل فونز کی بہتات تھی، ایک حاجی صاحب کے پاس یہ سہولت میسر تھی، اور انہیں کی عرق ریزی سے ہم اقامت گاہ تک پہنچے۔
اگلی صبح مردوں نے قریبی مسجد میں نماز پڑھی، اور ہم نے دن چڑھے ناشتا کیا، میاں صاحب قریب کے کسی ہوٹل سے عربی ناشتا لائے تھے، جس میں حمص بھی تھا اور فول بھی، پنیر اور مکھن بھی۔
آج رات منی کی جانب روانہ ہونا تھا، اس لئے ایک رونق اور مصروفیت تھی، کوئی کپڑے استری کر رہا ہے، اور کوئی نہانے دھونے میں مصروف، کسی کا مختصر بیگ تیار ہو رہا ہے، اور لوازماتِ زادِ راہ کا دقیق جائزہ لے رہا ہے، ایک کسک تھی دل میں کہ آج حرم نہیں جا سکے، لیکن رات کی بھول بھلیوں کا سوچ کر دل کو تسلی دے رہے تھے، کچھ لوگ حج سے پہلے آخری آرام کر رہے تھے تاکہ جسم مشقت کے لئے تیار ہو جائے،جوں جوں وقت گزر رہا تھا، واش رومز کی جانب بھیڑ بڑھ رہی تھی۔ مغرب تک سب تیار ہو چکے تھے، عشاء کے بعد بس آنی تھی، مرد احرام پہن چکے تھے، ایسے لگ رہا تھا اندر باہر نور کے ’’پرے‘‘ گردش کر رہے ہوں، بس میں بیٹھتے ہی لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونجنے لگیں، اللہ جی ہم اپنی زندگی کے سب سے پیارے سفر کی جانب نکل رہے ہیں، ہم نے تیری پکار پر لبیک کہا ہے، تلبیہ کے ایک ایک لفظ کو ہمارے دل کی آواز بنا دے، اے اللہ تو ہمارا ساتھی ہو جا، یہ سفر سارے کا سارا نیکی اور تقوی کا سفر ہو، اس کا لمحہ لمحہ تیری رضا میں بسر ہو، ہماری کمزور عبادتیں، ٹوٹے پھوٹے الفاظ، سب قبول فرما لے، اے اللہ ہمارے حج کو حجِ مبرور بنا دے، ہماری سعی و جہد کو قبولیت کا شرف عطا فرما دے، ہمارے گزشتہ تمام گناہوں، قصوروں اور لغزشوں کو معاف فرما دے، اے اللہ تو ہمیں پاک کر دے۔۔ آمین ثم آمین
بس نے ابھی حرکت بھی نہ کی تھی کہ باہر کھٹ پٹ سنائی دی، پاکستان ہاؤس سے فون آیا تھا کہ اس گروپ کی ایک خاتون گزشتہ رات سے غائب ہے اور وہ پاکستان ہاؤس میں ہے، آکر لے جائیں۔ ابھی یہی سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کون ہے کہ پاکستان ہاؤس کا اہلکار خاتون کو لیکر آ پہنچا، اوہ ۔۔ یہ تو ماسی پٹھانی ہیں۔ انکی دیورانی نے بتایا کہ وہ گزشتہ رات عمرے کے بعد ہی ان سے بچھڑ گئیں تھیں، اکرم بھٹی صاحب اپنی بھابھی کو وصول کرنے اترے، ماسی کھڑکی کے سامنے آئیں اور مسز بھٹی سے پورے جلال سے پوچھا: ’’میرا سامان کتھے اے‘‘، اور یہ سن کر کہ وہ تو ان کے کمرے میں ہی ہے، انکا غصّہ دو چند ہو گیا، ان دونوں نے نہ تو انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی نہ ہی ان کا سامان ہی ہمراہ رکھا۔اب وہ دونوں اندر گئیں اور کچھ دیر میں تیار ہو کر باہر آئیں، تو پھر بس چلی،اس سہو یا لغزش کا تدارک اکرم بھٹی صاحب نے اس طرح کیا کہ باقی کا سفر حج دونوں خواتین نے ہاتھ تھام کر بلکہ کئی مقامات پردوپٹے باندھ کر کیا، تاکہ وہ سدا اکٹھی رہیں، اسی تلخی کے نتیجے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج ماسی پٹھانی پر فرض تھا، وہ بیوہ ہو چکی تھیں اور محرم کی غیر موجودگی میں اپنے دیور دیورانی کو حج خرچ دے کر ساتھ لائی تھیں۔
ہماری بس عزیزیہ سے منی کی جانب رواں دواں تھی، رش سے بچنے کے لئے رات کو سفر کیا تھا، ورنہ ہمیں کل منی پہنچنا تھا، سڑک سے ہٹ کر کہیں کہیں سعودی نوجوانوں کی ٹولیاں دف بجا تی اور علاقائی رقص کرتی بھی دکھائی دیں، جو ہمارے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔
۵۵ نمبر کیمپ کے قریب بس نے اتار دیا، اب ہم خیمے میں تھے، چودہ مرد اور چودہ خواتین، اگلے حصے کی جانب خواتین چلی گئیں اور باہر کی جانب مرد۔ پھر کچھ ہی دیر میں فیصلہ ہوا کہ درمیان میں رسی باندھ کر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ لٹکا لیا جائے، رات اسی طرح گزری، صبح پردہ ہٹا کر با جماعت نماز ادا کی گئی، جس میں مرد اگلی صفوں، یعنی خواتین کی سائیڈ پر آ گئے اور خواتین پچھلی جانب! اسی کیمپ میں ہمیں حج کا تحفہ ملا جس میں خادمِ حرمین شریفین کی جانب سے چھوٹی چھوٹی چیزیں جو انتہائی ضروری تھیں فراہم کی گئی تھیں، جن میں بے بو صابن، ٹوتھ پیسٹ، برش، کنگھی، سرجیکل ماسک وغیرہ۔
ظہر کے قریب ایک جوڑا کیمپ تلاش کرتا ہوا پہنچا، صفیں باندھے دیکھ کر انہوں نے سب سے پہلے با جماعت نماز پر اعتراض کیا، مرد صاحب تو باہر چلے گئے، خاتون یہ کہہ کر کنارے بیٹھ گئیں، ’’ان امام کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوتی‘‘۔نماز مکمل ہونے کے بعد وہ صاحب بھی آگئے اور لگے کیمپ کی پردہ چادر کو غلط ثابت کرنے، انکے مطابق محرم کے ساتھ حج کرنے کی روح ہی یہ ہے کہ ہر شحص اپنی محرم کے ساتھ ایک چادر لگا کر بیٹھے اور وہ دونوں اکٹھے عبادت کریں، اس طرح اس کیمپ میں چودہ چادریں لگائی جائیں۔ انہیں سمجھانے کی کوشش رائیگاں ثابت ہوئی، ایک صاحب بولے: آپ ہمیں چھوڑیں، اپنی چادر لگائیں اور بیٹھ جائیں، دوسرے نے زیرِ لب تبصرہ کیا: ’’فیر دم وی آپے ای دینا‘‘۔بہر حال وہ صاحب کیمپ اور حج اور خادم حرمین کی شان میں بہت کچھ کہہ کر واک آوٹ کر گئے، انکی بیگم کو ایک دن حرم میں دیکھا تو وہ حرم کے امام کے پیچھے بھی نماز کے لئے نہ اٹھیں۔ محض فقہی مسلک کی بنا پر ہر روز دن میں پانچ مرتبہ ایک لاکھ نمازوں کے اجر سے محرومی!!
منی کے کیمپ کی اپنی ہی شان ہے، کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے کیمپ، یہ اللہ کی فوج ہے، یہ اس کی پکار پر خوشی اور شوق سے دور دراز کا سفر کر کے آنے والے پروانوں کا لشکر ہے، جو اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے نہیں تھکتے، گزشتہ گناہوں کا بوجھ انہیں بار بار لرزا دیتا ہے، زبان استغفار کے کلمات سے تر ہے، اور اس غفور ورحیم سے مغفرت کی آس بھی ہے۔جس حج میں فحش باتیں اور شہوانی کام نہ ہو ، فسق وفجور نہ ہو، وہ حجِ مبرور بن جاتا ہے جس کی جزا جنت ہی ہے۔
آٹھ ذی الحج یوم ترویہ ہے، کہتے ہیں کہ اس روز حاجی پانی جمع کرتے تھے، کیونکہ قدیم زمانے میں مکہ میں پانی کم تھا، تو حج کے لئے ایک دن پہلے منی میں پانی اکٹھا کر لیا جاتا تھا کیونکہ اب حاجی کو ۱۲ یا ۱۳ ذی الحج تک یہاں قیام کرنا ہے، دوسری روایت کے مطابق اس رات حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں، آٹھ ذی الحج کا دن آپ نے اس پر سوچ بچار میں گزارا، اور ۹ ذی الحج کو بیٹے سے اس کا ذکر کیا، جس کا جواب تھا:
’’ یا ابت افعل ما تؤمر، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ (الصافات، ۱۰۲)
ابا جان، کر گزریے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، آپ مجھے ان شاء اللہ صابروں میں سے پائیں گے۔
یوم الترویہ منی کے کیمپ میں تلبیہ پڑھتے، اور حج کی تیاری کرتے گزر گیا، رات سوئے تو آدھی رات کو مائیک پر آواز نے بیدار کر دیا، اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات جانے کے لئے تیار کھڑی ہے، جلدی آجاؤ ۔۔ اور یہ پیغام کیمپ کے چاروں جانب اس شدت سے کیا گیا، کہ کیمپ کے کچھ افراد نے اٹھ کر اسے یہاں سے جانے کو کہا، کیونکہ عرفات جانے کا وقت فجر کے بعد کا طے کیا گیا تھا، ابھی کیمپ والوں کی دوبارہ آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ ایک مرتبہ پھر کان پھاڑتا اعلان پوری طاقت سے کیا جا رہا تھا، کئی کیمپوں سے حاجیوں نے اس کی آوازکو دبانا چاہا، مگر اجرت پر حاصل کی گئی آواز کو اپنا رزق حلال کرنے کی بھی فکر تھی، ہم نے تکیہ سر پر رکھ کر آواز کی لہروں کو کم کرنے کی کوشش کی، اور ناکامی کے بعد وضو گاہ کی راہ لی، وہاں ابھی رش نہیں تھا، وضو کرنے کے بعد طبیعت میں چستی آچکی تھی، اور اب ’’اٹھو حاجی صاحب، بس عرفات کے لئے تیار کھڑی ہے‘‘ کی آواز پر مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی، اس نے کسی کو سونے نہیں دینا، کہہ کر کوئی اور حاجن آنکھیں رگڑتی اٹھ بیٹھتی۔ہم اوّل وقت میں فجر کی نماز ادا کر کے بس میں بیٹھ چکے تھے، تلبیہات سے فضا گونج رہی تھی، اور اب حاجی تلبیہات پڑھ پڑھ کر تھک رہے تھے مگر بس ان سوئے ہوئے حاجیوں کے جاگ جانے تک منتظر کھڑی تھی۔ ابھی اشراق کا وقت تھا کہ بس نے حرکت کی، اور کچھ ہی دیر میں عرفات کے خیموں میں اتار دیا، یہ کھلے خیمے تھے، نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ابھی ہم بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ معلم کی جانب سے ملنے والا دوپہر کا کھانا تقسیم کیا جانے لگا، یعنی ناشتے سے پہلے، کھانا، اور نوالہ منہ میں ڈالا تو اتنی مہربانی کا سبب بھی معلوم ہو گیا، کھانا کافی پرانا تھا، چاول پانی چھوڑ رہے تھے، واپس کرنا چاہا تو ایک تلخی!!
سب کیمپ میں بیٹھے تھے، کوئی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، کوئی دعا اور مناجات میں، جب عقب سے آنے والی ایک آواز نے سب کو چونکا دیا: السلام علیکم حاجی بھائیو، میں بہت پریشان ہوں، حج سے پہلے میری جیب کٹ گئی ہے، اسی میں میری ساری نقدی تھی، اللہ کی خاطر میری مدد کریں، ایک نوجوان پاکستانی اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کے ہمراہ مدد کا خواستگار تھا، (ایسے کئی قصّے ہم اس سے پہلے بھی سن چکے تھے) اسے شاید معلوم نہ تھا کہ اس گروپ میں کرنل صاحب بھی تھے اور میجر صاحب بھی، اکاؤنٹ آفسر بھی اور پروفیسر بھی! سب نے اس پر جرح شروع کر دی، جیب تو کٹ گئی، حاجی کا لاکٹ اور کڑا کہاں ہے، کب آئے؟ مکتب نمبر کیا ہے؟ پاسپورٹ کہاں ہے؟ وہ اتنے سارے سوالوں سے گھبرا گیا، جی میں آپ کو سچ سچ بتاتا ہوں، تین ماہ پہلے عمرہ کے لئے آیا تھا، سوچا حج بھی کر لوں، اس کا پاسپورٹ چیک کیا گیا، اور سمجھایا بھی، جھوٹ بول کر حج؟ میدانِ عرفات میں دھوکہ؟ بس پھر اسے جانے دے دیا۔
عرفات کے کیمپ سے مسجد نمرہ کی جانب مارچ شروع ہو گیا، جو جتنا آگے جانے کے مشتاق تھے وہ تیز قدموں سے آگے چل دیے، کچھ مسجد کے اندر بھی پہنچ گئے، مسجد سے باہر حاجیوں کے لئے حرمین شریفین کے خادموں کی جانب سے لذتِ کام و دہن کا انتظام بھی تھا، راستے میں جگہ جگہ پانی کی بوتلیں حاجیوں کی جانب اچھالی جا رہی تھیں، کہیں آئیس کریم کی گاڑیاں سر راہ کھڑی تھیں کہیں جوس کی بوتلیں، کہیں لبن کی (لسی)۔جو سامنے آجاتا اسے وصول کرتے ہوئے حاجی آگے بڑھ رہے تھے، سڑک کے کنارے صف میں مرد ایک جانب اور خواتین ایک جانب بیٹھ گئیں، اب مجمعے میں بھی تنہائی تھی، ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف تھا، ہاں کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کی سسکی سنائی دے جاتی، وقت گزر رہا تھا، اور سر پر چمکتا سورج پریشان نہیں کر رہا تھا، ہاں گناہوں، قصوروں، حق تلفیوں، بد اخلاقی اور رب کی بندگی میں تساہل ، اور نعمتوں کی بے قدری کا بڑا قلق تھا، اللہ تعالی سے معافی کی امید پر ہاتھ اس کے حضور پھیلے ہوئے تھے، آنکھیں اشک بار تھیں اور دل لرز رہا تھا، اللہ جی حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دیں، اللہ جی یہاں لا کر اکیلا نہ چھوڑ دینا، ہماری کمزور عبادت کو قبول کر لینا، ۔۔آمین۔
خطبہ شروع ہوا، اورہر جانب خاموشی، لاکھوں کے مجمعے میں بھی ایک ہی آواز ببانگِ دہل سنائی دے رہی تھی۔پیچھے والی ساری سڑک بھی صفوں میں تبدیل ہو گئی تھی، نمازِ ظہر اور عصر با جماعت قصر ادا کی گئیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کیمپ واپس پہنچے، کھانا پینا اور دعائیں وقفے وقفے سے جاری تھیں، ابھی مغرب میں کافی وقت تھا جب کیمپ سے باہر بسیں پہنچ گئیں، کیمپوں سے لوگ کھسک کھسک کر بسوں کے پاس پہنچنے لگے، جو ابھی تک مقفل تھیں، لیکن پھر بھی لائنیں بننے اور ٹوٹنے لگیں، اور بسوں کے دروازے کھلتے ہی دھکم پیل شروع ہو گئی، کچھ دیر پہلے سیدھی صفوں میں نماز پڑھتے حجاج کا سلیقہ نجانے کہاں رخصت ہو گیا تھا، کچھ خواتین کو سوار کروانے اور نشستوں پر بٹھانے کی فکر میں پریشان تھے، اور کچھ لوگ رواداری اور تحمل سے بے نیاز بس میں جگہ پانے کے متلاشی! وہ وقت جو مقبولِ دعا ہے، اس سرگرمی میں نکلا جا رہا ہے، بسوں میں بیٹھ کر دعائیں جاری ہیں، بس ڈرائیور بھی حجاج کے لئے ثواب بڑھانے کا ذریعہ ہے، جو ڈانٹ ڈپٹ کر کے زمین پر بیٹھنے پر مجبور کر رہا ہے، احرام میں زمین پر بیٹھنا ایک دقت ہے، حاجیوں کے صبر کا پیمانہ بھی بار بار چھلک جاتا ہے، ’’اوے پٹھانوں، اپنی عورتوں کو تو سیٹوں پر جگہ دے دو، اس بزرگ خاتون ہی کے لئے جگہ بنا دو، کچھ لوگ زیرِ لب بڑبڑاتے ہیں، یہ عجب پٹھان ہیں، پٹھان تو غیرت کی مثال ہیں، اور یہ اپنی خواتین کے لئے بھی جگہ خالی نہیں کر رہے‘‘ کوئی دوسرا حاجی سرگوشی کرتا ہے: ’’حاجی صاحب، چپ ہو جاؤ، احرام کا
پاس کرو، کسی کو عصبیت کے ساتھ عار نہ دلاؤ‘‘، اور حاجی صاحب بآوازِ بلند استغفار شروع کر دیتے ہیں، اسی طرح بار بار دھکے لگنے پر ایک نوجوان طاقت ور حاجی دوسرے حاجی پر پل پڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، ساتھ والے ان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں، یومِ عرفہ ہے بھائی، پتا نہیں حج قبول ہوا بھی کہ نہیں، اگلا دفتر نہ کھولیں بھائی‘‘ ، اور وہ رو پڑتے ہیں، ایک حاجی بڑی عاجزی سے ایسے ہی کسی دھکے پر بے اختیار بولتے ہیں: ’’میں احرام میں نہ ہوتا نا تو پھر تمہیں بتاتا‘‘، اللہ تعالی لوگوں کے قصور معاف فرما رہے ہیں، آج رحمتِ خدا وندی جوش میں ہے، اللہ تعالی اتنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں ایسے پاک کر دیتے ہیں جیسے ابھی ولادت ہوئی ہو،اور کوئی گناہ اس کے نامہء اعمال میں نہ لکھا گیا ہو،اسی لئے ’’شیطان عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن ذلیل ، خوار، حقیر اور خشمناک نہیں رہتا‘‘ پس شیطان اپنے سر پر خاک ڈالتا ہے، اسی لئے تو دوبارہ بندوں سے غلطیاں کروانے میں سرگرم ہوتا ہے۔ بندوں کے اونچے نیچے رویوں کے بیچ بسیں رینگنا شروع کرتی ہیں، اور صبر آزما سفر کے بعد آدھی رات گزر جانے کے بعد مزدلفہ آتا ہے، یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں، ہمراہ کھانے میں سے کچھ ہلکا پھلکا کھایا جاتا ہے، اس کھلے میدان میں اپنے اپنے ساتھیوں کو مجتمع رکھنے کا اہتمام بھی ہے، ایک بزرگ کی طبیعت کچھ خراب تھی، اب انکی بیوی اور بیٹی کاسامان بھی باقی لوگوں نے اٹھا رکھا ہے اور کرنل صاحب اس ثواب کا زیادہ حصّہ سمیٹ رہے ہیں۔اکرم بھٹی صاحب نے اپنی بیگم اور بھابھی کو اکٹھا رکھنے کے لئے انکے دوپٹوں کو گرہ لگوا رکھی ہے، اور خود ان سے آگے چل رہے ہیں۔
رات دھیرے دھیرے ڈھل رہی ہے، بیگ سے ٹیک لگا کر آنکھیں کیا بند کیں، صبح کے جھٹ پٹے میں آنکھ کھلی، پتا چلا سب اسی بے خبری میں یہاں وہاں سوئے پڑے تھے، بھاگ کر وضو خانوں کا رخ کیا، نماز پڑھ کر ساتھی دعا میں مشغول تھے، نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد طلوعِ فجر تک اللہ کا ذکرکثرت سے کرنے کا حکم ہے:
(فاذا افضتم من عرفات فاذکروا اللہ عند المشعر الحرام ۔۔) (البقرۃ، ۱۹۸)
پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو مشعرِ حرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔
رمی کے لئے پتھر چن کر ہم واپس اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔ آج عید کا دن تھا، میاں صاحب کسی افریقی سٹال سے گرما گرم گوشت اور روٹی لے آئے ہیں، اتنا مزے دار کھانا، نمک مرچ کم ہے، لیکن بہت عمدہ پکا ہوا،جس کے ساتھ شوربہ بھی ہے۔
کچھ دیر آرام کے بعد ہم خواتین رمی کے لئے تیار ہو رہی ہیں، اچانک ایک صاحب اپنی بیگم کو بلاتے ہیں، واپس آکر وہ گروپ سے ذرا ہٹ کر بیٹھ جاتی ہیں، پھر دوسری، اور تیسری، آنے والی ہر خاتون کچھ خاموش ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ مرد یہی پروگرام بنا رہے ہیں کہ عورتیں کیمپ میں رہیں، اور انکی رمی نیابتاً مرد کر آئیں، اتنے میں میاں صاحب مجھ سے پروگرا م کا پوچھتے ہیں، میں ذرا تلخی اور دکھ بھرے انداز سے پوچھتی ہوں، پروگرام پوچھنا چاہتے ہیں یا اپنا ارادہ بتانا چاہتے ہیں؟ وہ واقعی مجھ سے پوچھ رہے ہیں، میں خوشی سے ساتھ ہو لیتی ہوں، اور آہستہ آہستہ سب خواتین کو اجازت مل جاتی ہے، سوائے ان کے جو معذور ہیں۔
جمرات کے قریب پہنچتے ہیں تو جہاں تکبیرات کی پر سوز آواز فضا کو معطر کر رہی ہے وہاں ایمبولینس کے سائرن فضا کا سینہ چیر رہے ہیں، اوپر کا حصّہ بند کیا جا چکا ہے، اور کچھ دیر کے لئے نیچے بھی رمی بند ہے، شنید ہے کہ صبح کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے جس میں بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں۔کچھ دیر انتظار کے بعد حجاج پھر رمی کے لئے بڑے شیطان کی جانب بڑھتے ہیں، شروع میں کھلا راستہ آہستہ آہستہ تنگ ہونے لگتا ہے، اور پھر پیچھے سے دھکے کئی قدم آگے لے جاتے ہیں، کبھی دائیں سے دباؤ کبھی بائیں سے، ساتھیوں کے احترام، تحمل، صبر اور برداشت سے عاری ہجوم، ایسا لگتا تھا یہ عرفات میں بلکتے اور معافی مانگنے والوں سے ہٹ کر کوئی گروہ ہے، دائیں بائیں سے نصیحت اور سرزنش کی آوازیں بھی اٹھتی ہیں، مگر شیطان کی چال غالب آگئی ہے، ہم نے گرتے پڑتے خود کو سنبھالتے بڑی مشکل سے رمی کی، مجھے بچاتے ہوئے میاں صاحب گرتے گرتے بچے، جب باہر نکلے تو دونوں جوتیاں اتر یا ٹوٹ کر پاؤں سے الگ ہو چکی تھیں، اسی سے دائیں جانب حلاق سر مونڈنے میں مشغول تھے، اور استعمال شدہ بلیڈ بڑی فراوانی سے زمین پر پڑے تھے، ننگے پاؤں زخمی ہونے کا خطرہ تھا، پاس پڑی ایک ہوائی چپل میں پاؤں ڈالا تو دوسری بھی اسی پاؤں کی ملی، تھوڑا آگے گئے، تو ایک چپل سبز اور ایک نیلی، حاجی صاحب نے وہی پہن لی، حج اسی طرح مرغوب چیزوں کو چھوڑ کر اللہ کی پسند کو اپنا لینے کا سبق ہے، احرام پہنتے ہی عمدہ اور قیمتی کپڑوں، خوشبو، زینت، اور لش پش کرتے جوتوں کو چھوڑا، مکانوں کے آرام کو چھوڑ کر منی، عرفات اور مزدلفہ کے کیمپوں میں مہاجرت کو محسوس کیا، اور یہ رمی تو شیطان سے عملی لڑائی ہی ثابت ہوئی تھی، جس میں سب سے بڑا حوصلہ اور ساتھ اللہ کا تھا، جو سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا، ایسا لگتا اپنے بندوں کی حالت دیکھ کر مسکرا بھی رہا ہے۔
ہم نے ٹیکسی لی اور حرم کے قریب جا اترے، خانہ کعبہ سے ظہر کی اذان سنائی دے رہی تھی، مروہ کے جانب کے ایک صحن میں ہم نے ظہر کی با جماعت دو رکعت پا لی،ہمارے گروپ کے تین خاندان بھی مل گئے، ہماری قربانی ہو چکی تھی،بالوں کی لٹ کاٹ کر احرام کھولا، غسل کیا اور بعد از نماز عصر طوافِ افاضہ شروع کیا۔ہم نے نیچے صحن میں طواف کیا، جہاں لوگوں کی کثرت سے کبھی طواف کسی گوشے میں رک بھی جاتا، آگے سے ہاتھ بلند ہوتااور پیچھے سب لوگ خاموشی سے رک جاتے، اور جونہی راستے کھلتا سب چلنے لگتے، پورے خشوع کے ساتھ، نہ کو ئی تیزی، نہ دھکا اور نہ دل میں ابلتا غصّہ، اگر دھکا لگ بھی جاتا تو یہی احساس غالب رہتا کہ کسی نے جان بوجھ کر نہیں دیا، رش کے سبب لگ گیا ہے، اللہ کے گھر کی کیا شان ہے، اور یہاں سلامتی کے کیا معنی ہیں، وہی ہجوم جو جمرات میں اتنا بے صبرا تھا، حرم کی تغظیم، تکریم، اور ہیبت نے اسے دبا دیا تھا، وللہ الحمد!! آنسو بہہ رہے تھے، عاجزانہ دعائیں بلند ہو رہی تھیں، اور کہیں رب کو چپکے چپکے پکارا اور گڑگڑایا جا رہا تھا، جو جتنا کمزور اور ضعیف تھا، اس کے لئے جگہ کھلی کی جا رہی تھی، میرے دل سے دعا نکلی، اے اللہ تو حرم سے باہر بھی ہمیں ایسا ہی باوقار بنا دے، آمین۔
نمازِ مغرب ادا کر کے سعی شروع کی، صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا، مطاف میں سیکھا ہوا سبق حاجی پھر بھولنے لگے تھے، سبز روشنیوں کے مقام پر دوڑتے ہوئے، دھکے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی!! میرا دل رنج سے بھر گیا، میاں صاحب نے ایسے ہی بھاگتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑ کر کہا، صبح کا اتنا بڑا حادثہ آپ جیسوں ہی کی جلد بازی سے ہوا ہے، اب تو سبق لے لو۔عشاء سے پہلے سعی مکمل ہو چکی تھی، اور دل سے بے اختیار نکلا: اللہ جی حج اتنا آسان ہے، ہم نے حج کر لیا ہے، الحمد للہ، تو اسے قبول کر لینا، حجِ مبرور کی سعادت عطا فرما دے، آمین۔
مروہ کے باہر ہی ہم نے نماز پڑھی اور واپسی پر صاحب نے کہا: آج تو عید ہے، اچھا سا کھانا کھاتے ہیں، سب نے جو کھانا منگوایا، وہ مزے دار تو تھا مگر کافی حد تک ناکافی!! ہم نے سپیشل آفر میں جس مرغی کا آرڈر دیا تھا وہ تو اس کا چوزہ نکلا۔
ہم پانچ فیملیز نے واپسی کے لئے ٹرانسپورٹ کا رخ کیا، صاحب نے کہا بھی کہ گھر فون کر لیتے ہیں، مگر جہاں بھی فون کرنے گئے، رش تھا، اور انتظار کی ہم میں سکت نہ تھی، اب تو یہی دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھیں اور منی اپنے کیمپ پہنچ کر سانس لیں۔
***
(جاری ہے)

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں