’’میرے خُواب ریزہ ریزہ‘‘ 

رات گئے اُردو ناول پڑھتے ہوئے اُس کے پنوں میں کہیں اپنے وجود کے بکھرے ریزے تلاش کرنے لگی تھی وہ…مَن ہی مَن اپنی خیالی دنیا کی کئی کٹھن منزلیں طے کر چکی تھی.. شاید سفر زیادہ طویل نہیں تھا مگر پرخار رستوں پر ننگے پاؤں چلتے چلتے اس کے پیر زخمی ہو گئے تھے،وہ لڑکھڑاتی ہوئی کبھی بائیں اور کبھی دائیں جانب ہوا کے جھونکوں کے آگے خود کو بے بس مان کر بے سود وہیں سمندر کنارے خاکسار ہو گئی،،،اس کی آنکھوں میں روشنی کی جو آخری کرن بچی تھی وہ بھی اب بجھ سی گئی تھی، اور بچی کچھی اُمید بھی کچھ مہینوں پہلے اُس سے چھین لی گئی تھی، وہ خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھی، اُس کی زندگی میں کوئی ایسا انسان بچا ہی نہیں تھا جس کے ساتھ وہ اپنی تمام تر تکلیفیں بانٹ سکتی۔۔۔ناول کے صفحات کھڑکی سے آنے والی ہوا سے پلٹتے رہے، اور (مائرہ) اپنی خیالی دنیا میں مکمل ڈوب چُکی تھی، جہاں سے اس وقت تو اس کی واپسی ہر گز ممکن نہیں تھی……کچھ دیر تک سمندر کنارے آنکھیں موندیں ٹھنڈی ریت کے لمس کو محسوس کرنے کے بعد اُس کے خیالوں میں ایک اجنبی سا چہرا جگمگایا اور ہربڑی میں بیڈ کیساتھ پڑے ٹیبل سے گُلدان زمین پر جا گرا……. اور امیّ جو کہ سو رہیں تھیں شور کی آواز سنتے ہی تکیے کے نیچے پڑی ٹارچ جلا کر اُسکا رُخ اسکی جانب موڑتے ہوئے بیٹھ گئیں۔۔ ’’مائرہ میں یہیں ہوں بیٹا کوئی بُرا خواب دیکھ لیا کیا؟؟‘‘۔ دوسری جانب مکمل خاموشی چھا گئی…..امیّ کی یکے دیگرے دسوں آوازوں بعد جواب آیا جی امیّ! میں ٹھیک ہوں آپ سو جائیں۔!!! ٹوٹے گُلدان کے ٹکڑے چنتے ہوئے اُسکا دھیان اب بھی اُسی انجان چہرے کی کھوج میں تھا……… وہ جانتے ہوئے بھی انجان بن رہی تھی کہ یہ چہرہ اور کسی کا نہیں، اُسی انسان کا ھے جس کی وجہ سے آج وہ اس حال میں تھی.. ابھی وہ اسی کشمکش میں تھی کہ تکیے کی نیچے پڑا فون وائبریٹ کرنے لگا، نمبر دیکھ کر…… ایک لمحہ کو تو جیسے وہ سکتے میں ہی آ گئی۔ وہ نمبر اور کسی کا نہیں عثمان کا تھا،،، وہ جس وقت سے خود کو بچا رہی تھی وہی اس کے سامنے آ کھڑا تھا اُس نے نا چاہتے ہوئے بھی میسج تو پڑھ لیا تھا…. مگر اُس کا جواب دینے جتنا حوصلہ اُس میں نہیں رہا تھا۔اُس نے فون کو واپس تکیے کے نیچے رکھ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی، فروری کی وہ ٹھنڈی رات اُس کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی، اُسے آج بھی وہ وقت نہیں بھولا تھا جب وہ اپنے بے نام رشتے کو بچانے کیلئے اپنی عزت نفس تک کو اس کے قدموں تلے روند چکی تھی، اُس نے ہر ممکن کوشش کی تھی عثمان کو روکنے کیلئے مگر اُن جناب کو اپنی شہرت اور خوابوں کو پورا کرنا تھا، جو شاید اُس سے الگ تھے۔۔۔جن کیلئے اُس نے ایک جیتی جاگتی انسان مائرہ کی بَلی چڑھا دی تھی۔ اُس رات اور اُس کے بعد بھی کہیں راتوں تک وہ سکون سے سو بھی نہیں پائی تھی اُس کے کانوں میں عثمان کے کہی الفاظ کسی ریڈیو کی مانند چل رہے تھے….. ’’مائرہ یہ سب اتنا آسان نہیں ھے، میں اپنے گھر والوں کو ہمارے دو سال کے ریلیشن شپ کے پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ھوں… اور پھر میری امیّ نے مجھے اپنی قسم دی ھے کہ مجھے شادی اُن کی مرضی سے ہی کرنی ھے….دیکھو!!میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا””…….. آخر میرا کیا قصور تھا؟ اگر اس مقام پر لا کر یوں مجھے ذلیل و خوار ہی کرنا تھا تو شروعات میں ہی کیوں نہ چھوڑ دیا؟؟؟ مجھے خود کا چھوڑا نہ ہی کسی اور لائق، میں اب کسی اور کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں؟؟؟ اگر اتنی ہی فرمانبرداری تھی گھر والوں کیلئے تو میرے ساتھ دو سال وقت گزاری کا جواز ہی کیا تھا؟؟؟ایسے بہت سے سوالات اُسے اپنی ہی نظروں میں شرمندہ کر رہے تھے، اور وہ تمام تر آنسو،،،،، اُن کا کیا؟؟ جو میری آنکھوں سے قطار در قطار بہہ رہے تھے، اور سِسکیاں کمبل کے آخری سِرے میں منہ کو لاکھ چھپانے کے باوجود بھی رُک نہیں رہیں تھیں۔وہ سب رائیگاں گیا تھا، میں کوشش کی آخری سطح پر بھی تمہیں روک نہیں پائی تھی۔ تو پھر تمھارا ایک میسج will u miss meکا جواب میں کیسے دے سکتی ہوں، جو لڑکی خود کو یاد نہ کرتی ہو، وہ کسی اور کو کیسے یاد کر سکتی ھے،،،،، جو خود چلتی پھرتی زندہ لاش ہو اسے بھلا کسی سے کیا سروکار؟
جو خود اپنے وجود کی بکھری کرچیاں ساحل کنارے گہری خاموشی میں ڈھلتے سورج کی کرنوں میں ڈھونڈتی ہو، وہ___کسی کو کیا یاد کرے گی ھاں…؟؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں