اپریل فول اور اسلام

مغربیت پسندی اور انگریزوں کی ڈیڑھ سوسالہ غلامی کاہی یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان بلا سوچے سمجھے رسم و رواج کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں، وہ یہ تک سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ رسم کیسی ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟کیوں منائی جاتی ہے یہ رسم؟ حد یہ ہے کہ اپنی بربادیوں کا جشن مناتے ہیں اور انھیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا، وہ یہ سمجھ کر مغرب کی تقلید کرتے ہیں کہ اس کے بغیر کامیابی کا تصور ممکن نہیں! اور شریعت مطہرہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے اسے قطعی فراموش کردیتے ہیں۔
اپریل کے مہینہ کے ابتدائی ایام میں انسانیت کے ساتھ کس طرح کا کھیل کھیلا جاتا ہے سبھی جانتے ہیں، یہ مہینہ دوسروں کے ساتھ جھوٹ بول کرسنگین مذاق کرنے اور انھیں بے وقوف بنانے کا مہینہ ہے، اس رسم کا نام ہے ’’اپریل فول‘‘۔۔اس دن لوگ بطور تفریح جھوٹ بول کر اور دھوکا دیکر اپنے دوست و احباب کو پریشان کرتے ہیں، کوئی کسی کو فون کرکے کہتا ہے کہ آپ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے یا تمہاری ماں کا انتقال ہوگیا ہے،کوئی کسی عورت کو فون کرکے کہتا ہے کہآپ کے شوہر نے آپ کو تین طلاقیں دے دی ہیں وغیرہ وغیرہ،جو کہ بعض اوقات قیمتی انسانی زندگی کے ضائع ہونے کا سبب بن جاتی ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے اس طرح کی غلط بیانیاں اور جھوٹ گوئیاں فی نفسہٖ حرا م ہیں اور یہود و نصاریٰ سے مشابہت کی وجہ سے گناہ کبیرہ بھی ہوگاقرآن میں جگہ جگہ جھوٹ اور دھوکے بازی کی مذمت کی گئی ہے اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹی باتیں بنائے اس کیلئے ہلاکت ہے ہلاکت ہے۔شریعت میں جھوٹ بولنے کی قطعی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی کسی مخصوص دن میں وہ جھوٹ بولنی کی اجازت دیتی ہے۔افسوس ہے آج مسلمانوں پر کہ وہ اپنی تاریخ بھلا کر اپنی بربادی پر رونے اور بیدار ہونے کے بجائے مزید دوچار لوگوں کو ساتھ لیکر کسی کا مذاق اڑاتے ہیں!!! یہ بیوقوفی نہیں ہے تو کیا ہے بلکہ مہا بے وقوفی ہے!۔
اپریل فول کی حقیقت کیا ہے؟ اس میں آراء، مختلف ہیں: مفتی تقی صاحب کی تحقیق کہتی ہے کہ اس کی اصل یا تو بت پرستی ہے یا توہم پرستی یا پیغمبر خدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔
جبکہ مورخین مسلمانوں کے زوال اور ان کی بربادی کا قصہ سناتے ہیں،اس قصہ کو بیان کرنے میں تو مورخوں کا اختلاف ہواہے لیکن اکثر اس بات پر متفق ہیں کہ اسی مہینے میں مسلمانوں کو دھوکا دیکر دریا برد کیا گیا تھا۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ اسپین جس پر مسلمانوں نے تقریباً ہزار سال حکومت کی اسے حاصل کرنے کے لئے عیسائی حکومتیں مسلسل جدو جہد کرتی رہیں تاکہ اسلام کاخاتمہ کرسکیں،لیکن انھیں کامیابی نہ ہوئی،آخر میں انھوں نے اسپین میں اپنے جاسوس بھیجے تاکہ وہ پتا لگائیں کہ مسلمانوں کے پاس ایسی کون سی قوت ہے جو انھیں شکست کھانے سے روکتی ہے، جاسوسوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر ان کی طاقت کا جو راز معلوم کیا وہ ایمان کی پختگی تھی، چنانچہ جب مغرب کو اس راز کا علم ہواتو اس نے اسپین میں شرابوں کی فراہمی کا اور حسین و نوخیز لڑکیاں بھیجنے کا کام شروع کردیا، مسلمانوں کا نوجوان طبقہ خصوصیت سے اس کے نشانے پر تھا، دھیرے دھیرے مغرب کا یہ زہر مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرتا گیا اور بالآخر عیسائیوں نے اسپین کو فتح کرہی لیا، فتح کے بعد اسپین کی زمینوں پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فوجی؛ گھوڑے پر سوار ہوکر جب گلیوں سے گذرتے تھے تو ان کے گھوڑوں کی ٹانگیں مسلمانوں کے خون سے سَنی ہوتی تھیں، اس قتل عام کے بعد بھی حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، اب بظاہر اسپین میں کوئی مسلمان نظر نہیں آرہاتھالیکن عیسائیوں کو یہ یقین تھا کہ کچھ مسلمان اب بھی بھیس بدل کر چوری چھپے اسپین میں رہ رہے ہیں، عیسائی انھیں باہر نکال نے کی تدبیریں سوچنے لگے اور ایک منصوبہ بنایا، پورے ملک میں اعلان کردیا گیا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان اپنے ممالک میں بھیج دئیے جائیں گے اس لئے وہ غرناطہ میں جمع ہوجائیں چونکہ ملک میں امن و امان قائم ہوچکا تھا اس لئے مسلمانوں کو خود سامنے آنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا، ’قصر الحمراء‘ کے نزدیک ایک بڑے میدان میں خیمے لگائے گئے اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، جب مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوگا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہوگئے، حکومت نے ان کی ہمت افزائی کی اور یکم اپریل تک ان کی خوب مہمان نوازی کرتی رہی آخر یکم اپریل کا دن آگیا اور تمام مسلمانوں کو بحری جہازوں میں بٹھایا گیا، ان مسلمانوں میں بوڑھے، جوان، عورتیں، دودھ پیتے بچے اور کئی مریض بھی تھے، عیسائی جرنیلوں نے انھیں الوداع کہا اور جہاز وہاں سے چل دیئے جب جہاز سمندر کے بیچ و بیچ پہونچے تو منصوبہ بندی کے تحت ان میں بارود سے سوراخ کردئیے گئے اور یوں ہمارے اپنے مسلمان بھائی سمندر کی گہرائی میں ابدی نیند سوگئے،اس کے بعد پورے اسپین میں عیسائیوں نے جشن منایا کہ کس طرح ہم نے اپنے دشمنوں کو بے وقوف بنایاپھر رفتہ رفتہ یہ دن اسپین سے نکل کر پورے یورپ میں’’فتح عظیم کا دن‘‘ بن گیاجسے انگریزی میں کا نام دیا گیایعنی’’یکم اپریل کے بیوقوف‘‘۔
آج بھی عیسائی دنیااس دن کی یاد کو بڑے اہتمام سے مناتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔
افسوس صد افسوس!!! یہ فضول اور بے ہودہ رسم مسلم معاشرے کا جزو بن چکی ہے اور مسلمان اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی و بربادی پر خوشی کا دن مناتے ہیں!
نبی ﷺکا ارشاد ہے کہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انھیں کے ساتھ قیامت میں اٹھایا جائے گا، جو مسلمان اپریل فول مناتے ہیں انھیں اس سے باز آجانا چاہئے ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کا انجام یہود و نصاریٰ کے ساتھ ہو، مسلمانوں کو ایسی رسموں سے بچنا چاہئے اور جن کے پاس طاقت و قوت ہے انھیں اپنی طاقت کو بروئے کار لاکر اس منحوس رسم پر پابندی لگانے چاہئے۔
اللہ ہماری آنکھیں کھول دے!

حصہ

1 تبصرہ

  1. خون کے آنسو رلانے والا مضمون
    اللہ تعالیٰ ہمیں بہتری کی توفیق عطا فرمائے آمین

جواب چھوڑ دیں