یوم پاکستان پر امیر جماعت کا خطاب

پاکستان میں جتنی بھی قومی تقاریب ہوتی ہیں وہ نہایت پُروقار اور جوش و خروش کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں۔ 14 اگست کی تقریب تو اتنی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے کہ اس کا آغاز یکم اگست سے ہی ہو جا تا ہے اور 14 اگست کے بعد بھی اس دن کومختلف حوالوں سے یاد کیا جاتا رہتا ہے۔ یہی حال 23 مارچ کا ہے۔ 23 مارچ آنے سے کہیں پہلے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر اس کی آمد آمد کا ذکر شروع ہوجاتا ہے اور 23 مارچ گزر جانے کے باوجود بھی کسی نہ کسی حوالے سے 23 مارچ کی تقاریب کا انعقاد اور ذکر ہوتا رہتا ہے۔

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے بھی 23 مارچ کی ایسی ہی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بہت خوبصورت باتوں سے شرکائے محفل کو مستفید کیا۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مجلس پاکستان سعودی عرب کے زیراہتمام یوم پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ “پاکستان عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔ مدینہ کی ریاست کے بعد دنیا میں پاکستان دوسری ریاست ہے جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ پاکستان کے آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیاگیاہے لیکن (بد قسمتی سے) اس آئین پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک اس سمت ایک قدم بھی نہیں اٹھا یا گیا۔ سودی اور قرضوں کی معیشت معاشی استحکا م میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جماعت اسلامی نظریہ پاکستان پر ایمان رکھنے والے لوگوں کو متحدکرنے کی جدوجہد کر رہی ہے تاکہ قیام پاکستان کے اس عظیم مقصد کو حاصل کیا جاسکے جس کے لیے ہمارے بڑوں نے تاریخ انسانی کی ناقابل فراموش قربانیاں دی تھیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد پاکستان کے لیے کی جانے والی ہجرت اور دی جانے والی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ پاکستان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز اور اسلام کا قلعہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امت کے اتحاد کی کوشش کی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالم اسلام اپنے مسائل خود حل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو بے پناہ وسائل سے مالا مال کر رکھاہے۔ 9 کروڑ مربع کلو میٹر پر پھیلے اور 60 آزاد ریاستوں پر مشتمل عالم اسلام کو اللہ تعالیٰ نے وسیع ترین سمندروں، تیل کے 75 فیصد ذخائر سے نوازا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلم ممالک کو اپنی الگ مسلم اقوام متحدہ بنانی چاہیے تاکہ مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے موثر طور پر آواز اٹھائی جاسکے اور دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی انتہا پسندانہ کاروائیوں کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنایا جاسکے۔ مسلمانوں کا قتل عام رکوانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے بھی عالم اسلام کا اتحاد ناگزیر ہے”۔ (یہ سارے کا سارا متن آج، 24 مارچ 2019 کو شائع ہونے والے روزنامہ جسارت سے لیا گیا ہے)۔

امیر جماعت کے اس خطاب سے چنیدہ کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں جس کی تردید ممکن ہو۔ تارخ عالم میں پاکستان وہ دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اور بلا شبہ پاکستان بنانے کی اس جد و جہد میں جو قربانیاں برصغیر کے مسلمانوں نے دیں وہ ناقابل فراموش ہیں لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ان افراد کی کوئی قدر و منزلت بھی ہے؟۔ کیا آدھے سے زیادہ آبادی جس کی قربانیاں ایک صدی سے بھی زیادہ کی تھیں ان کو ہم نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے خلاف نہیں کر لیا تھا اور یوں ہم 1971 ہی میں اپنے جسم کا آدھے سے زیادہ حصہ گنوانہیں بیٹھے تھے۔ المیہ اس پر ہی نہیں رکا بلکہ آج تک ہم باقی ماندہ پاکستان میں بچ جانے والے انسانوں کو غداری کی اسناد تقسیم نہیں کرتے پھر رہے؟۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہم قومی تقریبات کو نہایت شدومد کے ساتھ مناتے ہیں اور ان کا ذکر کئی کئی دن پہلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان تقریبات کو دیکھ کر جو پیغام پوری دنیا کے پاس جاتا ہے وہ یہی ہوتا ہے جیسے پاکستان عوامی جد و جہد سے نہیں بلکہ سلاطین کی طرح غیروں کے ساتھ لشکر کشی کر کے حاصل کیا گیا تھا۔ ایک طاقتور لشکر اپنی شمشیریں لہراتا اٹھا، اس نے ایک دوسری سلطنت پر حملہ کیا اور ایک بہت وسیع علاقے کو اپنے قبضے میں لیکر اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ حقیقت اس کے بالکل ہی بر عکس ہے اس لئے کہ اتنی عظیم آزادی نہایت پسے ہوئے، کچلے ہوئے، بے کس، بے بس اور بے ہتھیار انسانوں نے صرف اور صرف نطریہ کی طاقت کے ذریعے حاصل کی تھی اور وہ نظریہ نظریہ اسلام تھا جس کیلئے آج بھی لوگ کٹ مرنے کیلئے تیار ہیں۔ ان باتوں کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ ایسے قومی دنوں کو جس طرح پاکستان میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اپنی افواج کی شان و شوکت کا مظاہرہ جس انداز میں کیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ غلط یہ ہے کہ ہم ان ایام کو مناتے ہوئے کبھی قربانیاں دینے والی ان عظیم ہستیوں کا تذکرہ تک نہیں کرتے جن کی جدوجہد کی صلے میں ہمیں آزادی کی دولت نصیب ہوئی۔ کن کن عظیم ہستیوں کا خون اس میں شامل ہے، کون اس پاکستان کو بنانے والے تھے، انھوں نے قوم کی خاطرکیا کیا کچھ لٹایا، کس طرح انھوں نے اپنے آپ کو پاکستان کیلئے وقف کیا، کیا ان کا تذکرہ ایسے مواقعؤں پر کیا جانا ضروری نہیں؟۔ حد یہ ہے کہ کیا بابائے قوم محمد علی جناح، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، قائد ملت لیاقت علی خان، نواب بہادر یار جنگ اور علامہ اقبال جیسے عظیم لیڈروں کے یوم ولادت یا یوم وفات کو بھی ہم اسی شد و مد کے ساتھ مناتے ہیں؟، کیا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کئی کئی دن ان کی تعلیمات اور قربانیوں کا ذکر کرتا نظر آتا ہے؟۔ جب پاکستان بنانے والے صف اول کے رہنماؤں کی تعلیمات اور قربانیوں کا ہی قوم کو علم نہیں ہوگا تو وہ تاریخ اور مقصد پاکستان کو کیسے سمجھ سکےگی؟۔

امیر جماعت کی یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ عالم اسلام کے پاس سب کچھ ہے لیکن اگر نہیں ہے تو وہ ان میں اتحاد کا نہیں ہونا ہے۔ وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ وسائل کے لحاظ سے تمام عالم اسلام مالامال ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندر سے قیادت کو نکالا جائے، ایک پلیٹ فارم پر آیا جائے اور مسلمانوں کے مسائل خود حل کئے جائیں۔ جہاں جہاں بھی مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں ان کو ظلم سے نجات دلائی جائے۔ کسی پر انحصار کرنے کی بجائے خود انحصاری اختیار کی جائے۔ اسلامی نظام کو عملاً نافذ کیا جائے۔ یہی سب ہوگا تو مسلمان دنیا اور آخرت میں سرخ رو ہوسکیں گے ورنہ ذلت و خواری مقدر بن کر رہ جائے گی۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں