بچے خداداد صلاحیتیں لے کردنیا میں آتے ہیں ۔جو بچے خداداد صلاحیتوں سے لیس ہوتے ہیں انھیں غیر معمولی یا خداداد صلاحیتوں کے حامل بچوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔خداداداورغیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اپنی ذہنی استعداد کی بنا ء پر اسکول میں ہر ایک کے منظور نظر ہوتے ہیں ۔ غیر معمولی اکتسابی صلاحیتوں کے حامل طلبہ اسکول میں اپنے ہم عمر بچوں سے ذہانت اور دیگر استعدادوں میں اعلی ہوتے ہیں۔ مار لینڈ رپورٹ کے مطابق ’’غیر معمولی یا خداداد، اعلی صلاحیتوں ،ذہانت،سودمند اختراعی فکر اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل نصابی و دیگر بصری اور نفسی حرکی(ذہنی عمل کے تحت انجام دینے والیPsycho-motor )سرگرمی کو انجام دینے والے طلبہ کو کہاجاتا ہے۔‘‘ ٹرمن اور اوڈین (Terman and Oden) کے مطابق غیر معمولی بچے نہ صرف جسمانی بناوٹ وسماجی ہم آہنگی سے لیس ہوتے ہیں بلکہ وہ شخصی خصائل،نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں میں عام بچوں سے اعلی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ڈبلیو۔بی۔کولسنک(W.B.Kolesnik)کے مطابق لفظ غیر معمولی ہر اس بچہ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جو اپنے ہم عمر بچوں میں پائی جانے والی صلاحیتوں میں سے چندصلاحیتوں میں بہتر و ممتاز ہوتا ہے اور یہی اوصاف و صلاحیتیں اسے سماجی زندگی کے معیار اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے میں غیر معمولی شراکت دارکے طور پر پیش کرتی ہیں۔ خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے لئے مرتب کردہ تدریسی منصوبوں کی نظر میں خداداد کی اصطلاحی تعریف میں چند اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین تمام اختلافی نظریات کو پس پشت رکھ کرخداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے لئے خصوصی توجہ اور بہترین نصابی پروگرام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ خداداد یا غیر معمولی بچے منفرد اور زیرک قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں۔پیچیدہ سوالات کو نہایت آسانی اور اعلی تکنیک سے حل کرتے ہیں۔یہ گہری بصیرت اور اعلی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔غیر معمولی خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ اعلی درجہ کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں ۔ خصوصی توجہ اور دلچسپی کے ذریعہ اگر ان کی رہنمائی کی جائے تو یہ سماج میں اپنا گرانقدر کردار انجام دیتے ہیں۔خداداد صلاحیتوں کے حامل بچے نصابی اور دیگر صلاحیتوں کے اعتبار سے اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف اور منفرد ہوتے ہیں لیکن جسمانی نشوونما،سماجی برتاؤ اور جذباتی ردعمل میں اپنے ہم عمر بچوں سے مناسبت رکھتے ہیں ۔انہیں صرف ان کی تعلیمی زمرے میں اعلی ذہانت کی وجہ سے خدادا یا غیر معمولی طالب علم کے طور پر جانا جاتا ہے۔غیر معمولی بچوں کی تدریسی خدمات کی انجام دہی میں پہلا اور سب سے اہم کام ان میں پائی جانے والی غیر معمولی صلاحیتوں سے ادراک حاصل کرنا ہوتا ہے۔جب غیر معمولی بچوں کی صلاحیتوں کا ادراک ہوجاتا ہے تب ضروری ہے کہ استاد تعلیمی طور پر غیر معمولی اور بعض شعبوں یا زمروں میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں فرق کو ملحوظ رکھیں۔طلبہ کی کارکردگی کی بناء پر ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے لیکن استعداد ی پیمائش(Skill Test)،ذہانتی پیمائش(Intelligence Test)اور تخلیقی پیمائش(Creative Test)ان کی خدادا د صلاحیت کی نوعیت کا صحیح نتیجہ پیش کرتے ہیں۔
بہتر نگہداشت،ہمت افزائی ،بہترین تدریسی احکامات،آزاد مطالعاتی پرواجکٹس،خداداد صلاحیتوں کے فروغ اور بہتری کے لئے مناسب موقعوں کی فراہمی غیر معمولی طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔اگر مذکورہ نکات کا لحاظ نہیں رکھا گیا تب ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے یا پھر یہ صلاحیتیں غلط سمت اختیار کرنے کی وجہ سے سماجی مطابقت پیداکرنے میں کئی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان غیر معمولی بچوں کا مستقبل تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔اگر اساتذہ بچوں کی غیر معمولی صلاحیتوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں یا پھر ان کی تدریسی سرگرمیاں اعلی معیار اور بہتر تدریسی تقاضوں سے مبراء ہوتی ہیں تب خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ میں نہ صرف عدم مطابقت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ وہ نفسیاتی اور تعلیمی مسائل کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ اعلی درجہ کی معلومات رکھنے والی و انفرادی تدریس ، طلبہ کی صلاحیت اور دلچسپی سے ہم آہنگ موثر تدریسی لائحہ عمل اور طلبہ میں تعلیمی امکانات کو فروغ دینے والے مواقعوں کی فراہمی کے ذریعے خدادا د صلاحیتوں کے حامل طلبہ کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ میں تمام طلبہ کو بہترین تعلیم و تدریس دینے کا پنہاں داعیہ بھی غیر معمولی طلبہ کے لئے بہتر و مناسب تعلیمی لائحہ عمل ترتیب دینے کی طر ف مائل رکھتا ہے۔غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کی صلاحیتوں کو کسی بھی طو ر پر پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ کی کاوشیں ضروری ہوتی ہیں۔اساتذہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ میں پائے جانے والی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پرحسب ذیل دو گروہ میں تقسیم کریں تا کہ صلاحیتوں کے اعتبار سے طلبہ کی مناسب رہبری ورہنمائی انجام دی جاسکے۔
(1)خداداد ذہنی صلاحیت کے حامل یا تعلیمی طور پر قابل اور دیگر زمروں میں قابلیت سے لیس یا عاری طلبہ۔
(2)تعلیمی طور پر اوسط یا دیگر زمروں میں غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ۔
غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کے اوصاف؛۔غیرمعمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں اعلی ذہانت اور تعلیمی صلاحیت ، اعصابی نظا م اور دماغ کی اعلی درجہ کی کارکردگی کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ غیر معمولی یا خداداد صلاحیتیں جینیاتی طور پر ورثے میں ملتی ہیں یا پھر مناسب و سازگار ماحول کے ذریعے انھیں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔تعلیمی طور پر غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کی نشاندہی اور مناسب نگہداشت کے ذریعے طلبہ کی اکستابی رفتار کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔غیر معمولی یا خداداد صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی چند نمایا ں خصوصیات کو ذیل میں پیش کیاگیاہے۔
(1) ذہنی آزمائش(I.Q Test)ا وہ طلبہ جن کا (I.Q)ذہنی میقاس 125یا اس سے اونچا ہوتا ہے وہ بچے عام طو ر پر ذہنی طو ر پر خداداد اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔
(2)غیر معمولی بچوں میں ذہنی صلاحیت جیسے قوت حافظہ ،قوت فکر،استدلال،تخیل،تجزیہ،ترکیب اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اعلی ہوتی ہے۔
(3)غیر معمولی بچے وسیع علم حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی اعلی درجہ کی ہوتی ہے۔
(4)ذہنی طو ر پر غیر معمولی صلاحیت کے حامل بچوں میں حقائق اور واقعات کا علم اعلی درجہ کا ہوتا ہے۔جب کہ ان کے ہم عمر وں کے لئے یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے۔
(5)ان میں اعلی درجہ کی قوت تجسس پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے علم کے حصول میں بے چین رہتے ہیں۔حتی کہ کبھی سنے اور پڑھے گئے حقائق کو بھی وہ حافظے میں بہ آسانی محفوظ رکھ لیتے ہیں۔
(6)تجریدی نظریات اور خیالات کو بیان کرتے ہیں اور اپنے ہم جماعت ساتھیوں سے بہت پہلے اپنے تعلیمی کام کو مکمل کر لیتے ہیں۔زیرک مشاہدے کے حامل ہونے کی وجہ سے حالات و واقعات سے معلومات اور نتائج اخذ کرنے کے متحمل ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اغلاط کی نشاندہی میں بھی یہ بہت تیز ہوتے ہیں۔
(7)مشکل پیچیدہ ذہنی کام کو نہایت آسانی و اطمینان کے ساتھ انجام دینے کے قابل ہوتے ہیں اور سوالات کے حل اور مسائل کو حل کرنے میں یہ بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
(8)عملی سرگرمیاں(Practical Work)کو معلنہ وقت سے پہلے ہی مکمل کر لیتے ہیں عملی کام کی انجام دہی میں کئی غیر معمولی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اعلی عملی کام کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
(9)سوال کو حل کرنے کے لئے متبادل طریقے اور ضابطوں کو استعمال کرتے ہیں۔مختلف اور متبادل طریقوں کے استعمال سے یہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(10) غیر معمولی بچوں میں جذباتی استحکام پایا جاتا ہے۔یہ خود اعتماد ،پر امید ،صابر و شاکر ہوتے ہیں۔ان کی دلچسپیاں اعلی معیار کی ہوتی ہیں۔یہ حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے کسی بھی چیز کو استدلال کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں۔یہ حصول علم کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔
خداداد صلاحیتوں کے حامل بعض بچے تعلیمی سطح پر اوسط درجے کا مظاہرہ کرنے کے باوصف چند مخصوص اعلی صلاحیتوں کی بناء پر فن موسیقی،مصوری،نقاشی ،رقص اور تخلیقی ادب کے ذریعہ اپنی اعلی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔بچوں کی ان مخفی صلاحیتوں کی کسی ذہنی امتحان(Intelligence Test) کے ذریعہ شناخت نہیں کی جاسکتی ہے۔ان اوصاف اور صلاحیتوں کا دلچسپی سے مربوط (Interest Inventory)
امتحانات کے ذریعہ پتہ لگایا جا سکتا ہے۔استاد کی جانب سے بچوں کی خاص دلچسپی والے زمروں میں اٹھایا جانے والا ایک ادنی سا قدم ان کی مخصوص صلاحیت کو پروان چڑھانے میں مددگار ہونے کے علاوہ زندگی میں ان کے اہداف کے حصول کی تحریک بن جا تا ہے۔بچوں کے بہترین اوصاف اور صلاحیتوں کی مسلسل حوصلہ افزائی ،رہنمائی اور مواقعو ں کی فراہمی کے ذریعہ ان کے مظاہروں کو اعلی معیار کا بنایا جاسکتا ہے۔ان امور کی انجام دہی کے وقت استاد کو دوسرے گروہ کے محنتی اور جفاء کش طلبہ میں تمیز کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اوسط درجہ کے محنتی طلبہ تھوڑی سی جفاکشی اور محنت کے بل پر امتحانات میں اعلی نشانات کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ایسے طلبہ کو غیر معمولی طلبہ کے گروپ سے علیحدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے مسائل؛۔غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ جبء غیر مناسب اور ناسازگار تعلیمی ماحول کی وجہ سے اساتذہ کی معلنہ معیار کے مطابق مظاہر ہ کرنے کے تلخ تجربات سے دوچار ہوتے ہیں تب وہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے سخت جد وجہد کر نا پڑتا ہے۔ماحول سے مطابقت نہ کرنے کی وجہ سے ان کی بلند و بالا آرزؤئیں اور خواہشات چکناچور ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بتدریج ذہنی اور جذباتی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایسے نامساعد حالات میں ان کا برتاؤ نہایت جارحانہ اور مشکوک ہوجاتا ہے۔اساتذہ کے لئے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی ضرورتوں اور مسائل کا علم رکھنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ بچوں سے کسی امکانی لاپرواہی اور بدسلوکی سے پرہیز کر سکیں۔غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ جب تعلیمی ماحول اور تدریسی سرگرمیوں کو اپنی قابلیت سے کمتر اور غیر معیاری محسوس کر تے ہیں تب وہ مایوسی کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔ذیل میں غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں پائے جانے والے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
(1)غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اپنی علمی پیاس اور تجسس کی وجہ سے متعدد سوالات،بہتر تفہیم اور استدلال کی جب استاد سے مانگ کرتے ہیں بعض مرتبہ ان کو استاد کی برہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اساتذہ کا غیر صحت مند رویہ بچوں میں مایوسی کو پیدا کرنے کا باعث ہوجاتا ہے۔اساتذہ کو اس طرح کے غیر معلمانہ و غیر منصفانہ ردعمل سے مکمل اجتناب کرنا چاہیئے۔
(2)اساتذہ جب بچوں کے متوقع سوالات کا اطمینان بخش جواب نہیں دیتے ہیں تب وہ مایوس ہونے کے علاوہ دباؤ کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔
(3)عام بچوں کی طر ح جب اساتذہ ان کو بھی وہی کام تفویض کرتے ہیں تب وہ کام میں دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں۔تفویض کردہ کام کو بے کیف پانے سے ان میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے ۔
(۴)اپنی غیر معمولی صلاحیت کی بناء پر جب وہ کمرۂ جماعت میں سرگرم حصہ لیتے ہیں تب جماعت کے دیگر طلبہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے بجائے اس کو تسلط پر محمول کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو مستردشدہ تسلیم کرنے لگتے ہیں۔
(5)اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ عدم مطابقت کا شکار ہوجاتے ہیں۔بعض مرتبہ ان کا رویہ انتہائی تحکمانہ ہوجاتا ہے۔دوسروں کو حقیر اور کمتر سمجھنے لگتے ہیں اور جب خود کو دوسروں سے علیحدہ کرنے کو کوشش کر تے ہیں تب ان کی سماجی مہارتیں اور استعدادیں پروان چڑھنے سے قاصر رہتی ہے۔
(6) ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے کرم کتابی (کتابی کیڑا) اور استاد کا پٹھو کہنے کی وجہ سے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلباء تحقیر و تضحیک اور طعن و تشنہ کا شکا ر ہوجاتے ہیں۔
(7)غیرمددگار ماحول ،ضرورت اور درکار وسائل میں پائی جانی والی خلیج سے ان کی تعلیمی ترقی پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے منفی رجحانات ان میں پرورش پانے لگتے ہیں اور وہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(8) اعلی صلاحیتوں سے متصف ہونے کے باوجود سماجی ہم آہنگی کے فقدان کے باعث یہ خود کو تنہا و اداس پاتے ہیں۔ بچوں میں پائے جانے والے اس بحران پر ان کے ذہنی رجحانات اور ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے قابو پایا جاسکتا ہے۔اساتذہ کی جانب سے فراہم کردہ مشفق اور صحت مند تعلیمی ماحول غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلباء کے بیشتر مسائل کو ازخود ختم کر دیتا ہے۔
غیر معمولی بچوں کی تعلیم میں اساتذہ کا کردار؛۔ہر اسکول میں تجربہ کار اور بہترین اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ان بچوں کی صلاحیتوں کی نہ صرف نشاندہی و شناخت کا کام انجام دے سکے بلکہ ان کی صلاحیت کا ادارک کرتے ہوئے ،ان کی ذہانتی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مبسوط و خاص تعلیمی لائحہ عمل تیار کرے۔ان کی مسلسل حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان میں ذوق و شوق کے جذبہ کو سرد نہ پڑنے دیں اور ان میں احساس جاگزیں کریں کہ ان کی خواہشات و تمناؤ ں کی تکمیل کے تما م سامان و اسباب استاد کی دسترس میں ہیں۔غیر معمولی بچوں کے لئے علیحدہ جماعت کا انتظام یا پھر ان کو دیگر بچوں سے الگ کرنے کی کسی بھی کوشش کو دانشوارانہ فعل سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ہے۔اس طرح کے بچوں کا تناسب تمام اسکول میں ایک یا دو فیصد ہوتا ہے ان کے لئے علیحدہ تعلیمی انتظام کی وجہ سے زائد مصارف کا بوجھ اسکول انتظامیہ کو برداشت کرنا پڑئے گا۔ غیر معمولی صلاحیت کے بنیاد پر ان کو دوہری ترقی(Double Promotion) دینا بھی کسی بھی طو ر پر قابل قبول فعل نہیں مانا جائے گا کیونکہ یہ اعلی جماعت کے طلبہ سے ذہانتی طو ر پر بہتر تو ہیں لیکن یہ جذباتی طور پر،سماجی اور جسمانی طو رپر یقیناًاونچی جماعت کے طلبہ سے پیچھے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ عدم آہنگی کا شکا ر ہوسکتے ہیں۔اس تناظر میں اتنا ہی ضروری ہے کہ اساتذہ مروجہ ڈھانچے میں بہت زیادہ ترمیم و تبدیلی کے ایسے تعلیمی لائحہ عمل کو اپنائے جو بچوں میں فراست و ذکاوت،قابلیت اور پوشیدہ صلاحیتوں کو فروغ دے سکیں۔غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کی تدریس میں استاد کے کردار پر درجہ ذیل نکات سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
(1) اساتذہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ اور کسی مخصوص صلاحیت کے حامل طلبہ کی علیحدہ شناخت کرتے ہوئے انھیں مناسب مواقع فراہم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کو یقینی بنائیں تاکہ ان کی صلاحیتوں کو استحکام حاصل ہو اور وہ اور بہتر مظاہر ہ کے متحمل ہوسکیں۔
(2)اساتذہ بچوں کو ان کی خاص اور پوشیدہ خداداد صلاحیت سے واقف کروائیں اور اس کے بہتر استعمال کے لئے رہنمائی و رہبر ی کے فرائض انجام دیں۔
(3)اساتذہ بچوں میں عدم مطابقت اور عدم ہم آہنگی جیسے پیدا ہونے والے مسائل پر طلبہ میں خود ضبطی (Self-control)کو فروغ دیتے ہوئے قابو پائیں۔
(4)بہترین اکتسابی تجربات ،اور زیادہ سے زیادہ اکتساب کو فروغ دینے والے حالات جو کہ طلبہ کی ذہانت اور قابلیت کے عین مطابق ہو ں فراہم کرتے ہوئے اساتذہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ میں احسا س طمانیت کو جاگزیں کرسکتے ہیں۔
(5)بچوں کی کارکردگی اور کامیابی پر ان کی تعریف و توصیف کی جائے۔استاد کی جانب سے کی جانے والی تعریف و توصیف بچے میں توانائی بھر دیتی ہے اور وہ مزید بہتری کی جانب پیش قدمی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
(6)خداداد صلاحیت کے حامل طلبہ کوغیر معمولی طلباء کے ساتھ کام کرنے کا مواقع فراہم کیا جائے جیسے باہمی اکتساب وغیر ہ جس کی وجہ بچوں کی اعلی صلاحیتیں اور پروان چڑھنے لگتی ہیں۔
(7)بچوں کو ان کی دلچسپی اور لیاقت کی سطح پر ان کے پسندیدہ تعلیمی میدان کے انتخاب کا مواقع فراہم کریں۔ان کے پسندیدہ تعلیمی میدان میں وسعت و فروغ پیدا کرنے کے لئے ان کی مسلسل رہبری و رہنمائی انجام دیں۔
(8)بچوں میں چالینجنگ جذبے کے فروغ کے لئے بہترین موضوعات و مواد فراہم کریں جس سے ان میں تنقیدی فکر ،وسعت اور تخلیقیت پیدا ہوسکے۔
اساتذہ غیر معمولی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کے فروغ اور ان میں احساس طمانیت پیدا کرنے کے لئے بہترین تعلیمی لائحہ عمل کی فراہمی اور عمل آوری کو یقینی بنائیں۔خاص طور پر اعلی درجات کے موضوعات کی تدریسی سرگرمیوں میں شمولیت کے ذریعہ طلبہ کی تعلیم کو پرکیف بہ معنی اور زندگی سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ایک اچھے تعلیمی نظام کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی صلاحیتوں کو دریافت کرے،ان میں شعور پیدا کرے،اور ایساماحول فراہم کرے جس سے یہ صلاحیتیں پختہ ہوجائیں اور جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں تو علم و ادب،صنعت و حرفت،نظم و نسق،تعلیم و تدریس،طب و جراحت،فنون لطیفہ اورسائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں انھیں بھر پور طریقہ سے بروئے کار لائیں۔اعلی اقدار کو ان کے شعور کا حصہ بنایا جائے اور اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے میں حق پرستی،انصاف پسندی،ذمہ داری،خوش خلقی،رحم دلی،کریم النفسی اور اعلی ظرف جیسی صفات پیدا کرسکیں۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
متذکرہ طلباء کی شناخت اور رہنمائی سے متعلق اساتذہ مکمل عبور رکھتے ہوئے وسائل فراہم کرنا چاہیے
مضمون تفصیلی اور تدریسی عمل میں معاون ہے