۔23مارچ تجدید وفاکا دن 

آزاد قوموں کے لیے ہردن نئی آب وتاب کے ساتھ جلوہ گرہوتا ہے ۔روشنی کی ہرکرن دامن میں خوشیاں بکھیرتی ہے ۔پھول محبت بانٹتے ہیں ،آزاد ہوائیں مساوات کے نغمے سناتی ہیں ،بادل تھم کردادوتحسین پیش کرتے ہیں ۔گوشہ گوشہ ،پتہ پتہ خوشحالی کی نوید سناتا ہے ۔جب بھی ہم کسی ملک کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک خاص موڑ ضرور پاتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں مسلمان سالہا سال سے سال حکمرانی کررہے تھے ،انگریزوں نے ہندؤں کے ساتھ ملی بھگت کرکے مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کرکیا۔برطانیہ ایسٹ انڈیا کی ملی بھگت سے برصغیر پر قابض ہوگیا بعدازاں انگریزوں نے مکاری اورعیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانان ہند کو زندگی کے تمام شعبوں میں پیچھے رکھا ۔جان بوجھ کر ان پر معاشی پابندیاں لگائیں گئیں ،علامہ اقبال ،مولانا جوہرعلی ،قائداعظم محمدعلی جناح اورمسلم قیادت نے ہندؤں کی اس سازش کو پہچان کر برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ۔آر ایس ایس جو برصغیر کو اکھنڈ بھارت کا روپ دینا چاہتی تھی اپنے عزائم میں ناکام ہوئی تاحال بی جے پی کے رہنما2025تک پاکستان کو فتح کرنے کا راغ الاپ رہے ہیں ۔بی جے پی کا ایک پنڈت تو موجودہ الیکشن کو آخری الیکشن قرار دے رہا ہے ۔آج دشمن کے ناپاک عزائم سے قوم اگاہ ہے ۔بھارت نے کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے ۔پاکستان کو فتح کرنے کا بھارتی ادھورا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا حتی کہ اگر بھارت نے اپنی جنگی منافقانہ روش نہ بدلی تو بھارت کے ساتھ وہ ہوگا جس کے خواب وہ ہمسایہ ملک کے لیے دیکھتاہے ۔بعض بھارتی تھنکر مودی جی کو رائے دے رہے ہیں کہ 2سو رافیل طیارے خریدیے مگر 2رافیل طیاروں کی قیمت پاکستان مخالف نان سٹیٹ ایکٹرز کو معاونت کے لیے صرف ہونی چاہیے ۔تاکہ پاکستان کو اندرونی اعتبار سے کمزور کیا جاسکے ۔اجیت دوول کا پاکستانی میں کاروائی پر بیان بھارت سوچ کی عکاسی کرتاہے ۔23مارچ کے موقع پرہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے چاہییں۔ تقریباب ،سیمینار منعقد کرتے وقت ہمیں یہ عہدکرنا چاہیے کہ ہم بحثیت قوم وطن عزیز کی نظریاتی اورزمینی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کریں گے۔ہمیں قرارداد کی اصل روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کرنی چاہیے ۔اس قرارداد میں دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ ہواکہ ہندو اورمسلم دوقومیں ہیں،انکارہن سہن تہذیب وتمدن مختلف ہے۔ مسلمان اپنا ایک علیحدہ اسلامی تشخص رکھتے ہیں ۔اسی لیے وہ ایک علیحدہ ریاست قائم کریں گے جہاں آئین وقانون اسلامی تعلیمات کے ہم آہنگ ہوگا کوئی بھی ایسا قانون منظور نہیں کیا جائے گا جو اسلامی تعلیمات کے متصادم ہو۔بدقسمتی سے گزشتہ دنوں شراب پرپابندی کے قانون پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ۔وڈیروں اورجاگیرداروں نے اس بل پر چپ سادھے رکھی کسی پارٹی کی طرف سے اس بل پر واضح موقف قائم نہ کیا گیا جو قابل افسوس عمل تھا۔اسلامی ریاست میں اسلام کو پابندسلال کرنے کے لیے مغربی آقاؤں کی اشیرباد پر نت نئے انداز اپنائے جاتے ہیں ۔کراچی میں ہوئے مستورات کے مظاہرے میں عورتوں کے ہاتھوں میں جو بینرزتھے وہ کس فکر کے عکاس تھے۔عورت کی آزادی کے نام پر شادی نہیں طلاق ،نکاح نہیں آزادانہ دوستی ،کریم ٹرانسپورٹ کی جانب سے فکری بے حیائی پرمبنی اشتہار کس کی ایماپر اویزاں کیا گیا ۔جب اسلامی فکری بنیادوں پر کھلے چھپے حملے ہوں گے تب سوال تواٹھیں گے ۔9فیصد سیکولر طبقہ 91فیصد لوگوں پر اپنی فکر مسلط نہیں کرسکتا ارباب اقتدار کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔اسلام امن کا دین ہے ۔اسلام پسند امن کے داعی ہیں ۔اسلام معاشرے میں اقلیتوں کو اتنے حقوق میسر ہیں جتنے اسلام پسندوں کو ہیں ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر لوگوں کے سامنے پیش کی جائے ۔پاکستان اسلام کا قلعہ ہے ۔نیوزی لینڈ میں ہوئے حملے میں مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ترکی نے اپنا وفد بھیج کرثابت کیا وہ عالم اسلام کے ساتھ ہے پاکستان کو بھی ایسا کرنا چاہیے تھا مگر ذاتی مسائل میں الجھی حکومت کو یہ خیال مگرنہیں آیا۔23مارچ کو پاکستان کی قیادت میں فیصلہ کرلیا تھا کہ مسلمانان برصغیر کے وطن میں قانون کی حکمرانی ہوگی ،مگربدقسمتی سے ہم یہ بھول گئے ،خان صاحب میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد سابق وزیراعظم خاقان عباسی پر تنقیدکے نشترچلایا کرتے کہ نااہل شخص ریاستی انتظامی امور میں شریک نہیں ہوسکتا مگر یہی کام جہانگیرترین پارلیمانی کمیٹی میں بیٹھ کرکرے تو نیا پاکستان کی صدائے دلنواز بلندہوتی ہے ۔23مارچ کو ہمیں عزم کرنا چاہیے کہ قانون اورانصاف سب کے لیے برابر ہوگا۔مگر افسوس کہ پنجاب حکومت نے ممبرانِ پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اورمراعات میں ہوشربا اضافہ کیا اس وقت جب لوگ فاقے مررہے ہیں مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے بیروزگاری میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔معیشت کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ وطن دشمن قوتیں ہمارا مذاق اڑا رہی ہیں ۔المیہ نہیں تواورکیا ہے کہ حکمران وطن عزیز میں اپنا علاج نہیں کرواسکتے جہاں 22کروڑ لوگ زندگیاں گزار رہے ہیں ۔
23مارچ کو ہمیں عزم کرناچاہیے کہ قائداعظم بہترین لیڈر تھے ان کے رہنمااصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اگے بڑھا جاسکتا ہے ۔ہندوستان کے ایک رہنما جسونت سنگھ نے کہا تھا: آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوتی۔ اس میں ایک پیغام ضرور پوشیدہ ہے کہ محمد علی جناح نہ سہی مگر جناح جیسے کھرے اور مضبوط کردار کے حامل لیڈر اگر آج بھی ہمیں میسر آجائیں تو پاکستان کی پوزیشن مستحکم اور مضبوط ہوسکتی ہے۔
23مارچ کو ہمیں 65,71,48کو نہیں بھولنا چاہیے جس دشمن نے ہم پر تین جنگیں مسلط کیں وہ دشمن اب بھی کوئی مہم جوئی کرسکتا ہے ۔ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے ۔نریندری مودی کی انتہاپسندی نے ہمیں یقیناًمتحدکیا ہے ۔ہماری قیادت کو چاہیے کہ اتحادی فضاء کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے موثراقدامات کرے ۔سیاسی عدم استحکام وطن عزیز کے لیے قطعا درست نہیں ہے ۔خان صاحب اگر وطن عزیز کے لیے ابھی نندن کو رہا کرسکتے ہیں ،مودی سے ہاتھ ملاسکتے ہیں ،مذاکرات کرسکتے ہیں توخاں صاحب کیوں نہیں ملک کے لیے شہباز شریف،نواز شریف،آصف زرداری ،بلاول بھٹو،سراج الحق ،فضل الرحمان سے بات کرتے ،بات کرنی چاہیے ۔اپوزیشن سے بات کرنا مقتدر حکومت کے لیے فرض ہے ۔
23مارچ کویوم پاکستان مناتے وقت ہمیں داخلی اور خارجی مسائل کاجائزہ لینا چاہیے جو زندہ اور بیدار قوموں کا شیوہ ہے ۔ پاکستان علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی قدرو قیمت اور ضرورت کا ادراک رکھتا ہے ۔سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی قدرقیمت بہت بڑھ چکی ہے دنیا کو پاکستان کی اورپاکستان کو پرامن دوستوں کی اشدضرورت ہے ۔یاد رہے کہ پاک وطن غلبہ اور تسلط حاصل کرنے اور جارحیت اور توسیع پسندی کی ہر صورت کے خلاف ہے ۔ پاکستان کو اسلامی تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کا گہوارہ بنانے ، اسلامی اور تیسری دنیا سے اس کے رشتوں کو استوار کرنے اور قوموں کی برادری میں اسے ممتاز اور سرفراز رکھنے ، اسے بنی نوع انسان کی خدمت اور دستگیری کے قابل بنانے کے لئے لازم ہے کہ پاکستان کے عوام کی یکسوئی اور یکجہتی کے تمام لوازم فراہم کئے جائیں اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ اگر وہ اپنے اندر وہی جذبہ پھر سے زندہ کر لیں جس کا اظہار انہوں نے تحریک پاکستان کی صورت میں کیا تھا تو وہ پاکستان کو ایک رفیع الشان اسلامی و فلاحی مملکت بنانے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور بیرونی سازشوں کو بھی ناکام بنا سکتے ہیں۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بجافرمایا کہ قوم میں 65ء والا جذبہ ہے ۔ہمیں اس جذبے کا احترام کرتے ہوئے اسے مزید سے مزید مضبوط کرنا ہے ۔
نظریہ پاکستان ہی ملک کی ترقی وبقا کا ضامن ہے، 23مارچ تجدید عہدوفا کا دن ہے آج اسی جذبہ کو بیدار کرنے کی ضرورت اور ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگاتاکہ بانی پاکستان قائداعظمؒ کا ایک جمہوری، اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔آج دو قومی نظریہ کی اہمیت واضح نظرآرہی ہے ۔وہ دانشور جو امن کی آشا کا راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے وہ بھی مودی اوراجیت دوول کی حرکات پر شرمندہ ہیں ۔ دوقومی نظریہ کی سمجھ اب بھارتی مسلمانوں کو بھی آنے لگی ہے 250بھارتی مسلمانوں نے پاکستان میں سکونت کے لیے درخواست دی ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کو دکھائیں کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا پاکستان کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال ؒ کا شاہین بن کر ہرمیدان میں ترقی اورخوشحالی کے لیے سرسبز پرچم بلندکریں گے۔خدا تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو، پاکستان زندہ باد!

حصہ

جواب چھوڑ دیں