ایک سے زائد شادیاں؟

مردوں کو ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہئیں یا نہیں، ایک خالصتاً عالمانہ بحث ہے اس لئے اس کی گہرائی میں جائے بغیر ایک عام مسلمان کی حیثیت اپنی ناقص معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے میں چند باتیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا اور امید کرونگا کہ جہاں میں غلط ہوں وہاں صاحب علم نہ صرف مجھے ٹوکیں بلکہ رہنمائی بھی کریں تاکہ نہ صرف مجھے بلکہ دیگر مسلمانوں اور ان معترضین کو جو ایک سے زائد شادیوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، ان کو بھی رہنمائی حاصل ہو سکے اور وہ کسی ایسی اجازت سے جو اللہ نے اپنے بندوں کو از خود دی ہو، اس کی مخالفت کرنے کے گناہ سے محفوظ رہ سکیں۔

میرے آج کے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی اصل وجہ مصر کے سب سے اہم اسلامی ادارے جامعہ الاظہر کے امام الاکبر کا یہ فرمان ہے کہ “ایک سے زائد شادیاں کرنا بچوں اور خواتین کے لیے ناانصافی کا باعث بن سکتا ہے۔ شیخ احمد الطیب نے فرمایا کہ “کثرت ازدواج پر عمل بعض اوقات ایسے ہوتا ہے جس سے قرآن کو سمجھنے کی کمی ظاہر ہو”۔ انھوں نے اس بیان کا اظہار اپنے ہفتہ وار ٹیلی وژن پروگرام اور سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا۔

اس بیان کے بعد بحث کا چھڑ جانا لازمی تھا جس کی وجہ سے جامعہ الاظہر کو وضاحت دینی پڑی کہ گرینڈ امام نے ایک سے زیادہ شادی کرنے پر پابندی نہیں لگائی۔ انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ یک زوجگی عمومی طور پر قاعدہ ہے جبکہ کثرت ازدواجی ایک غیر معمولی عمل ہے۔ شیخ احمد الطیب کے مطابق “جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں ہی کرنا چاہییں وہ سب غلط کہتے ہیں”۔

میں شیخ احمد الطیب کی اس بات سے اپنی رائے کو قریب پاتا ہوں کہ “جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ شادیاں ہی کرنا چاہییں وہ سب غلط کہتے ہیں” اس لئے کہ قرآن نے یہ اجازت ضرور دی ہے کہ ایک سے زائد شادیاں کی جائیں لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ ایک سے زیادہ شادیاں ہی کی جائیں۔ میری ناقص معلومات کے مطابق ایک سے زائد شادیوں کی اجازت مشروط ہے اور اگر وہ تمام شرائط جس کا ذکر رب العزت نےکیا ہے، ملحوظ رکھے بغیر شادی یا مزید شادیاں کی جائیں گی وہ نہ صرف انصاف کے برعکس ہوگا بلکہ سخت ظلم اور گناہ کی بات ہوگی۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے خود شیخ احمد الطیب فرماتے ہیں کہ “قرآن میں یہ ہے کہ مسلمان مرد اگر ایک سے زیادہ شادی کرنا چاہے تو اُسے انصاف کے تمام تقاضے پورا کرنا ہوں گے اور تقاضے پورے نہ کرنے کی صورت میں ایک سے زیادہ شادی کرنا اس پر ممنوع ہے”۔

انصاف کی تقاضوں میں جو باتیں آتی ہیں ان میں سب کے ساتھ برابراور یکساں سلوک، معاشی ضرورتوں کا بوجھ اٹھانا، ہر ایک کیلئے الگ الگ رہائش کا انتظام اور وہ حقوق جو زن و شو میں ہوتے ہیں ان کا ہر صورت میں پورا کیا جانا لازمی ہے اورسب سے بڑھ کر یہ بات جس کو قرآن میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ شادی کا مقصد ضرورت ہے لذت کوشی نہیں، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ “اللہ دلوں کا حال خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ شادیاں ضرور کرو لیکن اس میں منشا لذت کوشی نہ ہو بلکہ ضرورت ہو”۔

یوں تو ایک شادی بھی محض ستانے یا ظلم کرنے کیلئے کی جائے تو سخت پکڑ کی بات اور گناہ ہے اس لئے کہ شادی کا مقصد مودت اور محبت ہے، زندگی کو جنت بنانا ہے جہنم نہیں اس لئے اگر شادی کرنے کے بعد اپنی یا آنے والی کی زندگی کو دوزخ بنا دیا جائے تو وہ ایک شادی بھی کسی لحاظ سے جائز نہیں۔ ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے چھٹکارے کیلئے اسلام نے خلع و طلاق کا نظام دیا ہے۔ گوکہ خلع یا طلاق ایک ایسا فعل ہے جس کو جائز ہوتے ہوئے بھی نہایت کریہہ سمجھا گیا ہے لیکن زندگی کو ایک مسلسل اذیت سے بچانے کیلئے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ دونوں میں جو یہ سمجھتا ہو کہ زندگی کو ایک ساتھ مزید گزارنا اپنی اور اپنی آنے والی نسل کے لئے سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں، وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہو نے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

شیخ احمد الطیب کسی حد تک یہ بات درست کہتے ہیں کہ ایک شادی کے ہوتے ہوئے ایک اور شادی اور پھر شادیوں پر شادیاں کرنا اصل میں قرآن کے مطالعے یا اس کو سمجھنے کی کمی ہے۔ کسی بات کی اجازت ہونا ایک الگ بات ہے لیکن اس اجازت کا فائدہ اٹھانا اور ان باتوں کا لحاظ رکھنا جس کی روشنی میں کوئی اجازت دی گئی ہوایک الگ بات ہے۔ اس بات کو اگر آج کل کی جدید دنیا میں سمجھنا ہو تو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر ملک اپنی اپنی سرحدیں رکھتا ہے۔ کسی ملک نے دنیا کی کسی بھی فرد پر یہ قدغن کبھی نہیں لگائی ہوگی یا لگائی ہوئی ہے کہ وہ اس کی حدود میں داخل نہ ہو سکے لیکن کسی بھی ملک میں داخل ہونے کیلئے کچھ قواعدہیں اور ان کو پورا کئے بغیر حدود کو پار کرنا سخت خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے لیکن شرائط پورے ہونے کے بعد آنے والے کو نہ صرف مکمل اجازت حاصل ہوجاتی ہے بلکہ اسے خوش آمدید بھی کہا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ایک فرد کیلئے ایک سے زائد شادی کی حقیقی ضرورت ہو تو اس پر اسلام پابندیاں لگانے کی بجائے اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسا کرے لیکن وہ تمام شرائط جس کا اسے پابند بنایا جارہا ہے ان کو حتی المقدور پورا کرے ورنہ وہ سخت گرفت میں آسکتا ہے۔

ان چند باتوں کو سامنے رکھا جائے تو اجازت اور اجازت نہ ہونے میں ایک بہت باریک سا فرق ہے یعنی یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کے اجازت ہے بھی اور نہیں بھی۔ عام حالات میں، جس کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شرعی مجبوری، ضرورت یا معاشرے کو برائیوں سے محفوظ رکھنے کا کوئی سوال اٹھتا ہو تو ایسا کیا جانا جائز ہی نہیں بلکہ کار ثواب ہے بصورت دیگر اسلام ایسا کرنے یا اس کو مرد کی شان بنالینے کیلئے جائز قرار نہیں دیتا۔

ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت کبھی کبھی کسی معاشرے کی ایک ضرورت ہی نہیں، مجبوری بھی بن جایا کرتی ہے۔ آج کل کی دنیا میں اس انداز کی جنگیں نہیں ہوا کرتی تھیں جو جدید ہتھیاروں کے ساتھ ہوا کرتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ایک ایک جنگ میں صبح سے شام تک اسی اسی ہزار مرد کٹ مر جایا کرتے تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ خواتین جنگ کا حصہ بنیں اور قتل کردی جائیں۔ آج بھی بے شک محاذ جنگ پر مرد ہی کام میں آتے ہیں لیکن بمباری اور شہروں پر گولہ و بارود کی زد میں مردو زن سبھی آیا کرتے ہیں اس لئے خواتین اور مردوں کے تناسب میں کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑتا۔ اب تصور کریں کہ اگر لاکھوں کی تعدا میں مرد کسی جنگ یا جنگوں میں کام آجائیں تو ان کے حصے کی خواتین کہاں جائیں گی؟۔ کیا ان خواتین کو آزاد اور بے سہارا چھوڑدیا جائے؟، کیا معاشرے کو اخلاقی تباہی کے خطرے کا شکار کر دیا جائے یا پھر ان کو مناسب ٹھکانا دے کر ان کو نہ صرف بے یارومدد گار پھرنے اور معاشرے کو خطرے میں دالنے سے بچا لیا جائے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی ایک اور صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت سے معاشرے میں خواتین کی تعدا مردوں کی نسبت بہت زیادہ بڑھ جائے۔ کوئی بتائے کہ ایسی صورت میں اس کے علاوہ کیا اور بھی راستہ ہے جس سے معاشرے کو بگاڑ سے بچایا جاسکتا ہے؟

اسلام میں ایک سے زائد شادیاں کرنے پر مغربی اور غیر مسلم معاشرے میں بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ اس تنقید کو کسی حد تک متعصبانہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے معاشرے یا مذہب میں ایسی کوئی اجازت یا گنجائش موجود نہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر وہ معاشرہ جو مردوں کو (ضرورت اور مجبوری کی صورت میں) ایسی اجازت نہیں دیتا ان سب میں اخلاقی برائیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ جن کی وجہ سے وہ تباہی و بربادی کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ نصف سے زیادہ آبادی کو تو اس بات ہی کی خبر نہیں کہ وہ کس کی اولاد ہیں اور جن کو خبر ہے ان میں سے بھی واضح تعدا کو یہ علم ہے کہ وہ ان کے قانونی والدین نہیں۔ جس معاشرے کا یہ حال ہو پھر اس معاشرے کے انسانوں اور جانوروں میں وہ کونسی قدر ہے جس کو وجہ امتیاز سمجھا جائے؟۔ ایسے معاشرے میں ایک سے زائد شادی کی پابندیوں اور خواتین کو حد سے زیادہ قانونی حقوق نے شادی مشکل اور زنا کو سہل بنا کر رکھ دیا ہے۔

ہمارا معاشرہ بھی تیزی کے ساتھ اسی جانب گامزن ہے۔ کوئی اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں کہ ہر محلے، گاؤں، قصبے اور شہر میں بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ ہوتا جارہا ہے یہاں تک کے فعل بد کے بعد قتل ایک کھیل بن کر رہ گیا ہے لیکن کوئی اس بات کو سجھنے کیلئے تیار نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ اس کا سبب خود ہمارا معاشرہ ہی ہوگا۔ یا تو شادیاں آسان نہیں رہی ہونگی یا پسند کی شادی کر نے والے کو واجب القتل سمجھا جاتا ہوگا یا پھر کسی نہ کسی طرح کسی جائز راستے کو بند کر دیا گیا ہوگا۔ جہیز ایک لعنت اور بے روزگاری ایک گناہ عظیم گنی جانے لگی ہوگی یا خواتین کی آبادی مردوں سے متواجز ہونے کی وجہ سے بچیوں کا گھر سے بھاگ کر بے راہ رو ہوجانا بھی ایک عذر ہوگا۔ کوئی نہ کوئی ایسا جواز ضرور ہوگا جس کی وجہ سے معاشرہ مسلسل انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

 وہ رب جس نے انسانوں کو پیدا کیا اسے از ازل تا ابد انسانوں کی ہر قسم کی ضرورت کا علم ہے اسی لئے اس نے پوری انسانیت کیلئے ایک نظام بنا کر انسانوں کو انسان بنے رہنے کیلئے اصول و قوائد بھی بنا کر دیدیئے جس میں زنا کو حرام اور شادیوں کو حلال کیا گیا۔ اب یہ انسانوں کا اپنا کردار ہے کہ وہ معاشرے میں ایک باوقار اور پاکیزہ طریقے سے زندگی گزاریں اور انسان بن کر رہیں یا پھر جانوروں کی طرح ہر جگہ ہاتھ اور منھ مارتے پھریں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں