سی پیک پروجیکٹ سے پاکستان کی سیاحت انڈسٹری کو فروغ ملے گا

پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ارضِ زمین پر جنت کا ایک ٹکڑا ہے اور دُنیا کی ہر نعمت وافر انداز میں میسر ہے۔ پاکستان میں بہتے ہوئے دریا، چشمے اور ساحل سمندر کراچی و گوادر کا انمول تحفہ ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کی سبزیاں، فروٹس، گوشت کی ہر اقسام مثلاً بکرے، گائیں، مرغیاں اور ہر قسم کی مچھلیاں و مرغابیاں ہر موسم میں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تاریخی مقامات، جھیلیں، خوبصورت وادیاں، بہتے ہوئے چشمے اپنی مثال آپ ہیں۔ دراصل سیر و سیاحت انسانی فطرت کے بنیادی تقاضے ہیں۔ زندگی اور معاشرے کا سارا حسن ہی حرکت اور عمل سے قائم ہے۔ سیر و سیاحت بھی انسان کی حرکت و عمل کے مظہر ہیں۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ جو لوگ سیر و سیاحت اور ایسی ہی دوسری جسمانی فعالیتوں کے عادی نہیں ہوتے وہ سست اور کاہل ہوتے ہیں اور خود کے لئے ایک بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ سیر و سیاحت سے نہ صرف معلومات حاصل ہوتی ہیں اور ذہن تازہ ہوتے ہیں بلکہ یہ جسمانی قوت کو قائم رکھنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے لوگ مواقع بھی تلاش کرتے ہیں اور موزوں مقامات بھی۔ ایسے بھی علاقے موجود ہیں جہاں کوئی رنگا رنگی نہیں اور جنہیں معاشرہ میں ابھی تک کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ہے مگر ان علاقوں کے لوگ جو کہ فطری حسن سے بھی مالا مال ہیں اور جن کے علاقوں کو تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے اگر سیر و سیاحت نہیں کرتے تو کفرانِ نعمت ہے۔ ہمارا اپنا ملک پاکستان اپنے قدرتی مناظر کے لئے ساری دُنیا میں مشہور ہے اس پر اس کی تاریخی عظمت سونے پر سہاگہ ہے۔ دور دراز سے اس کی کشش سیاحوں کو اس ملک میں کھینچ لاتی ہے مگر ہم میں سے کتنے ہی لوگ وہ بھی ہیں جو گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق نہ اس حسن سے واقف ہیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں کو قدرت نے بخشا ہے اور نہ ہی انہیں پاکستان کی تاریخی اہمیت معلوم ہے۔
چین کی سیاحت کو فروغ دینے والے ادارے نے اعداد و شمار جاری کئے ہیں کہ چین سے سیاحوں نے پچھلے سال دُنیا کے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ سیاحتی دورے کئے تھے اور اس سیاحتی دورے کے دوران انہوں نے ایک ارب 20 کروڑ امریکی ڈالرز خرچ کئے تھے لیکن چینی سیاح اپنے گرد و نواح کے پڑوسی ممالک میں سیاحت کے مراکز گھومنے میں دلچسپی رکھتے ہیں چین کے سیاحوں نے مغربی ممالک میں سیاحت کے دوران سیاسی عدم استحکام اور سیاحوں کو دستیاب سہولتوں میں بہت خامیاں محسوس کی ہیں جبکہ ان کے پڑوسی ممالک ان کے لئے اچھا ماحول میسر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان سیاحت کے لئے بہت ہی پرکشش مقام ہے جو کہ روڈ سے زیادہ سفر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں جبکہ امریکہ کے مشہور رسالے فوربس (Forbes) نے اپنی اشاعت میں یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان دُنیا کے تقریباً 10 ٹھنڈے مقامات رکھتا ہے جہاں 2019 ؁ء میں سیاح سیر کر سکتے ہیں۔ 1950 ؁ء سے چینی سیاح پاکستان آرہے ہیں انہیں نہ صرف تمام سفارتی مراعات اور رعایتیں فراہم کی جاتی ہیں بلکہ انہیں ویزاکی سہولت بغیر ویزا فیس کے دستیاب ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان زبانوں کو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ مقامی ادارے انہیں ہر مقام پر مترجم مہیا کرتے ہیں تاکہ انہیں کوئی مشکل نہ ہو اور انہیں مالی مدد کے لئے تمام بڑے بینکوں نے چائنا ڈیسک قائم کئے ہوئے ہیں اور مزید سہولت کے لئے Ali Pay نام کی اسکیم شروع کی ہے تاکہ وہ مقامی مصنوعات خرید سکیں اس کی اہم وجہ پاکستان اور چین نے معیشت کی ترقی کے سلسلے میں CEPEC قائم کیا ہے اور اس سے روڈ اور علاقے کو ترقی ملے گی جسے BRI کہتے ہیں ان دو وجوہات کی وجہ سے چینی باشندے پاکستان کی سیاحت کے لئے آتے ہیں۔ قراقرم ہائی وے جسے دوستانہ ہائی وے کہا جاتا ہے اس کے تعمیر ہونے سے چین کا خود مختار صوبہ جیانگ او گور، گلگت بلتستان سے منسلک ہو گیا ہے اور دونوں ممالک اس راستے پر اپنا حصہ بٹا رہے ہیں جب سے سی پیک کا افتتاح ہوا ہے روزانہ ایک شاندار لگژری بس سروس لاہور سے کاشی جو کہ جیانگ صوبہ میں واقع ہے سیاحوں کو لے کر جاتی ہے اور جو سیاح اس خرچ کو برداست نہیں کر سکتے ہیں ان کے لئے حکومت پاکستان نے سستے داموں والی بس سروس شروع کر دی ہے۔ اس خطے کو مزید فعال کرنے کے لئے حکومت پاکستان شمالی علاقہ جات کے پہاڑی سلسلوں میں بہترین ہل اسٹیشن قائم کر رہی ہے اور پاکستان کے شمال میں ٹیکسلا شہر جس کا ہزاروں سال پر محیط آثار قدیمہ موجود ہے کیونکہ چین کی تہذیب میں بدھ مذہب کا فلسفہ بہت شامل ہے اور ساتویں صدی میں ٹینگ کے دور حکومت میں چینی ان قدیم تہذیب کو دیکھنے کے لئے پاکستان کا کافی دورہ کرتے تھے اور پاکستان کے تاریخی تہواروں جیسے بسنت پنجاب اور چلم جوشی چترال میں منایا جاتا ہے اور تمام علاقے کی تہذیب کو اُجاگر کرتا ہے اس سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
چینی سیاح سخت سردی کے موسم سے جو چین کے شمال میں واقع ہوتا ہے وہ گوادر پورٹ پر نومبر سے فروری کے درمیان آتے ہیں اور انہیں پاکستان میں تمام سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں غرض کہ سی پیک سے دونوں ممالک کی سیاحت کو فروغ ملے گا۔
حصہ

جواب چھوڑ دیں