فحش گو ئی برائے فروخت ہے

   ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔جینز،شارٹس میں ملبوس لڑکے لڑکیاں یہاں وہاں نظر آرہی تھیں۔بیٹھنے کی جگہ  ملنا مشکل ہو گئی تھی ۔اسٹیج سج چکا تھا ۔

سب کو انتظار تھا کہ کب پروگرام شروع ہو ۔یہ منظر ہے کراچی ڈیفنس کے ایک آرٹ پروگرام کا جسے میڈاسکول کے نام سے ایک ادارے نے مرتب کیا ہے ۔

اس پروگرام کے احوال سے پہلے ہم بات کرتے ہیں اسٹینڈ اپ کامیڈین (stand up comedian ) کے پرگرام کی ۔یہ اصطلاح یورپ سے انڈیا میں  وارد ہو ئی اور وہاں سے اب آہستہ آہستہ پاکستان کارُخ کر رہی ہے ۔ان اسٹیج پروگراموں میں سامنے موجودحاضرین  کو مختلف تنقید ی مذاق اور باتوں سے ہنسایا جا تا ہے ۔  جب تک یہ پروگرام تہذیب و تمدن  کے دائرے میں تھے اس میں کو ئی مضائقہ نہ تھا لیکن اب خطرناک حد تک ان پرگرام کے  ذریعے فحش مذاق و حرکات کی ترغیب و نمائش کی جا رہی ہے ۔یعنی یوں کہہ لیں کہ فحش گو ئی کو  عام کیا جا رہا ہے ۔  قابلِ فکر اور غور طلب بات یہ ہے کہ بڑے غیر محسوس انداز سے اسے پاکستان کے اندر بھی شروع کر دیا گیا ہے جو بہت ہی پریشان کُن صورتحال کو  جنم دے سکتا ہے ۔

اب بات کرتے ہیں اس پروگرام کی جہاں چند دوست احباب یہ کہہ کر لے گئے کہ مزاح سے بھر پو ر اس پروگرام کا لُطف لیا جا ئے ۔ 600 کا ٹکٹ لے کر جب اندر داخل ہو ئے تو حاضرین کی تعداد نے اُمید دلائی کہ یقیناََ   یہ ایک اچھا کامیڈین ہو گا کہ اس قدر نوجوان موجود ہیں ۔میزبان نے آتے ہی کہا کہ یہ  پرگرام صرف بالغ افراد کے لیے ہے ۔ اب تو دلچسپی اور بڑھ گئی کہ ایسا کیا ہے اس میں ۔ اس کامیڈین نے جن کانام میں جان کر نہیں لکھ رہا جن فحش الفاظ سے آغاز کیا وہ ناقابلِ بیان ہے ۔ ہم بمشکل 15 منٹ وہاں رُک پائے ۔ گندے مذاق، فحش گو ئی ، مرد و عورت کے نازک اعضا ء کی  تذلیل، تنقیدی انداز غرض وہ کون سے گندے اور غلیظ الفاظ ہو ں گے جو اس میزبان کے منہ سے ادا نہ ہو ئے ہوں ۔ مزید قابلِ افسوس بات یہ  کہ دولتمند گھرانوں کے برگر کلاس بچے نہ صرف اس سے خوب لُطف اندوز ہو رہے تھے بلکہ خوب داد دیتے ہو ئے خود بھی اس میں شرکت کو  ثواب  سمجھ کر ،کر رہے تھے ۔ہم استغفار پڑھتے ہو ئے با ہر آنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ دُرست ہے کہ ہم بھی کو ئی عالم فاضل یا  مولوی نہیں ہیں لیکن اس غلاظت کا تصور ممکن نہیں ۔ رنج و الم اس بات پر بھی کہ لڑکیاں ، اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیٹیاں  نہ صرف اس فحش گو ئی پر قہقہے لگا رہیں تھیں بلکہ خود بھی حصہ لے رہیں تھیں ۔میں سوچنے پر مجبور تھا کہ یہ سب کیا ہے ؟کئی دن گزرنے کے باوجود میں اپنے ذہن کو خالی نہ کر سکا ۔

کیا یہ مُلک اس بے حیا ئی کے لیے بنا تھا ؟ اتنی قربانیاں شہیدوں نے اس لیے دیں ؟ کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو فحش گو بنا سکیں ۔کیا اس چیز کی آزادی کے طلب گار تھے ہم ۔ سچ  بتاؤں تو دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے ۔ یہ ہم ایک ایسا بیچ بونے جا رہے ہیں جس سے صرف تباہی کی فصل ہی اُگے گی ۔ مجھے یہاں آپ ؐ کی حدیث ِ مبارکہ یا د آرہی ہے کہ آپؐ نے فرمایا” تم مجھے اپنی شرم گا ہوں اور زبان کی ضمانت دو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں”۔ ہم کیا کر رہے ہیں ہماری نوجوان نسل کیا کر رہی ہے پیسے دے کر ہم اپنے لیے جہنم کا حصہ خرید  رہے ہیں ۔ میری اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ فوری طور پر اس طرح کے پروگراموں کا نوٹس لے کر ان پر پابندی لگا ئی جا ئے ۔ جس طرح شیشہ

بار پر پا بندی لگا ئی گئی اس طرح ان کی روک تھام کا بندبست کیا جا ئے بصورتِ دیگر یہ غلاظت کا طوفان ہماری پو ری قوم کو بہا لے جا ئے گا ۔ ساتھ ساتھ میری والدین سے بھی گزارش ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ پیسے کہاں خرچ کرتے ہیں اپنا وقت کہاں صرف کرتے ہیں یاد رہے  بُرائی کے اندر بہت کشش ہو تی ہے انسان اُس کی جانب بڑی جلدی راغب ہو تا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں سخت سزاؤں اور قوانین کے ذریعے اس کی روک تھام کی کو شش کی گئی ہے ۔

قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جا ئے بیدار ہو جا ئیں ورنہ دنیا کی تباہی کے ساتھ ساتھ قبر اور  آخرت  عذاب بھی ہمارا منتظر ہو گا ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں