ہمارے بچے ہمارا سر مایہ

بچے، اللہ رب العلمین کا خوبصورت تحفہ ہیں. کائنات کی سب سے معصوم،پیاری مخلوق ہیں،بچے، ہمارا سرمایہ ہیں۔ آج کے بچے کل ملت کے مقدر کا ستارہ،ملک و ملت کے معمار، پشتبان، پاسبان ہیں.اور انکی حیثیت  امت کے فرد کی بھی ہے..بچوں کی شخصیت، کردار کی تعمیرو تربیت نہایت توجہ طلب اہم مرحلہ ہے.جس طرح عمارت کی بنیادمضبوط ہوگی تو عمارت مضبوط پائیدار ہوگی.بچوں کی تربیت کے لئے محبت، خلوص، فکر، محنت،وقت، توجہ، پلاننگ بہت ضروری ہے..اللہ تعالی کا حکم ہے..

قو انفسکم واھلیکم نارا..(سورہ تحریم).

اور  بچائواپنے آپ کو اور اپنے  اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے..

والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے فکر ،دعا، اور عملی اقدامات، کوشش کریں. سب سے پہلے ضروری ہے کہ بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے  والدین،گھر کے افراد گھر کے ماحول  کو پاکیزہ بنائیں. نبی ﷺکی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھر پور کوشش کریں. والدین کا کردار، گھر کا ماحول بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے. جہاں غیر اسلامی ماحول ہو. لڑائ جھگڑے، گالی گلوچ، جھوٹ، مفاد پرستی، اسراف و تبذیر، مادیت پرستی ، بے حیائ، فحش فلمیں، ڈرامے، گانے چلتے ہوں .،وہاں بچوں کا اسلامی طرز ذندگی اختیار کرنا.، صاِلح بننا دشوار،، جھنم کی آگ سے بچانا مشکل ہے.اللہ کا حکم ہے.

صبغۃ اللہ.ومن احسن من اللہ صبغۃ.(سورہ البقرہ).

اللہ کا رنگ اختیار کرو..اور اللہ کے رنگ سے اچھا  کونسا رنگ ہو سکتا ہے..

ہمارے گھر، ہمارے کردار، ہمارے لباس، کھانا پینا، سونا جاگنا، دینا لینا، معاملات، گفتگو، سجاوٹ، بناوٹ، تقریبات، رہن سہن، غرضیکہ عمومی سے لیکر خصوصی معاملات زندگی تک، سب پر اللہ کا رنگ غالب کرنے کی پر خلوص،بھر پور سعی وجہد ہو.تو بچوں پر بھی اسکا رنگ غالب آئے گا.ماں کی گود بچے کا پہلہ مدرسہ ہے.صد افسوس کہ آج مائیں اپنی حقیقی حیثیت، ذمہ داری فراموش کرچکی ہیں. والدین کی اکثریت مقصد زندگی کےمعنی و مفہوم سے ناآشنا ہیں. اکثر گھرانوں میں نماز ،تلاوت قرآن،کی پابندی کی جاتی ہے لیکن فحش فلموں، ڈراموں، گانوں، بے حیائی سے بچنے کا اہتمام ضروری نہی سمجھا جاتا..یہی وجہ ہے آج ہمارے گھروں میں غیر اسلامی طرز معاشرت پروان چڑھ رہی ہے..بچے اسلامی تہذیب و اقدار سے نا بلد ہیں.خاندا نی نظام زوال پذیر ہے.ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو نظام زندگی کے بجائے جزو زندگی بنا لیا ہے.اسلام میں نماز، روزہ، حج فرض ہی اسلئے کیا گیا تھا.کہ ان عبادات سے قوت حاصل کی جائے.جوبرآئ سے بچنے،روکنے میں اور  نیکی پھیلانے ،قائم کرنے میں معاون و مددگار ہو.بے حیائ،برآئ کو برداشت کرنا اخلاقی جرم ہے..صحت مند معاشرہ عورت کے صحت مند کردار کے بغیر محض دیوانے کاخواب ہے..خواتین میں بچوں کی تربیت کے لئے شعور بیدار کرنا ضروری ہے..سائنس کی تحقیق کے مطابق بچے کے ابتدائ چند سال اسکی ز ندگی کے اہم ترین سال ہوتے ہیں. لہذا چھوٹی عمر سے ہی بچوں میں اللہ کی محبت، وحدانیت، فکر آخرت پیدا کرنا.،حیا کی آبیاری کرنا ضروری ہے.یہ وہ مضبوط بنیادیں ہیں جو اسے باکردار،امانت دار، ،صالح، متقی بنائیں گی..بچوں کع میڈیا کے شیطانی اثرات سے بچائیں. انھیں بتائیں یہ ہمارے دشمنوں کے چالیں ہیں.ہمارے بچے یہ دیکھ کر شیطان کے، جھنم کے راستے پر چلیں.اور اپنا مقصد ذندگی، منصب بھول جائیں.جنت گنوادیں..اپنے بچوں کوانبیاء کرام، صحابہ کرام، اولیاء کرام کے قصے، جنت دوززخ،  کے بارے میں کہانیاں سنائیں. حدیث مبارکہ ہے. باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے.اس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم  و تربیت ہے..

دنیا کی اعلی تعلیم ،ڈگریوں پر زور ہے.تربیت کی ذمداری نہ تعلیمی ادارے پوری کرتے ہیں نہ والدین..جتنا د نیاوی تعلیم کی فکر کی جاتی ہے.دینی تعلیم کا بھی انتظام کریں .قرآن،تفسیر، حدیث کے لئے بھی استاد  رکھیں. ہمارے نبی نے فرمایا تھا. اپنے بچوں کو تیراکی ،گھوڑسواری، تیر ،تلوار،نیزہ بازی سکھانا. غیر مسلم اپ ے تعلیمی اداروں میں سوئمنگ،شوٹنگ ،جنگی تربیت دے رہے ہیں. ہمارے یہاں بچوں کو بسنت، پتنگ بازی.، ویلنٹائن ڏے، موسیقی، رقص کی تعلیم و ترغیب دی جارہی ہے.والدین  کی ذمداری ہے اپنے بچوں کو شیطانی تہذیب کے سیلاب میں بہنے سے بچائیں.اپنے سرمائے کو محفوظ بنائیں. ہمارے بچے ہماری جنت، ہماری آںکھوں کی ٹھنڈھک.، بچوں کی اسلامی خطوط پر بہترین پرورش کریں. تاکہ ہماری اخلاقی، تہذیبی اقدار ،روایات ہمارے معاشرے، گھروں میں ذندہ، مضبوط ہوں.اور ہماری نسل نو مستحکم، پرامن، معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں روشن مستقبل کی نوید بن کر پروان چڑھے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں