ویلنٹائن ڈے کی تاریخ

ایک انگریز مصنف جان پا رکنس نے 2004 میں ایک کتاب بعنوانconfessions of economic hitman تحریر کی۔اس میں وہ لکھتا ہے کہ جب میں افریقہ میں تھا تو میں نے دیکھا کہ جہاں غربت و افلاس میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی کلاس بھی پیدا ہو رہی ہے جو میکڈونلڈ بھی جاتی ہے،KFC بھی کھاتی ہے۔اور مقامی تہواروں کو شان و شوکت سے منانے کی تقریبات کا اہتمام بھی بڑے وسیع پیمانے پہ کرتی ہے۔گویا کلچر یا تہذیب دو حصوں میں منقسم ہو تی جا رہی ہے۔جس کے ایک حصے میں غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ زندگی کی تنگدستیوں،مجبوریوں،سہولیات کی عدم دستیابی اور مسائل و مشکلات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ۔اہل ثروت،وڈیرے اور فیوڈل اپنی بنائی ہوئی سلطنت میں زندگی کی رعنائیوں ،دلچسپیوں اور عیاشیوں اور مستِ پندار میں فیلِ مست کی سی مستیوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔کلچر اور تہذیب کو دراصل ان لوگوں کے بنائے ہوئے اصول و فکر وعمل کا محتاج کر دیا ہے۔کہ صاحب کا کتا ’’ٹومی ‘‘ اور غریب کا بچہ کتے سے بھی بد تر زندگی گزارنے پہ مجبور۔ویلنٹائن ڈے بھی ایسے ہی افرادِ اشرافیہ کا بنایا ہوا ایسا کھیل ہے جس نے دورِ حاضر میں ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔کہ گھر میں روٹی پکے نا پکے محبوب کو پھول،چاکلیٹ اور ٹیڈی بیئر ضرور بھیجنا ہے۔ویلنٹائن ڈے کے بارے میں مختلف روایات ہم تک پہنچتی ہیں ان میں سے جو روائت سکہ بند خیال کر لی گئی ہے کچھ اس طرح سے ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم پر ایک بادشاہ کلاڈیس دوم کی حکومت تھی اس نے نوجوان نسل پر ایک فتویٰ جاری کیا جس کی رو سے کوئی بھی مرد و زن شادی نہیں کروا سکتا ہے۔وجوہات اس نے جو بیان کیں وہ کچھ اس طرح سے تھیں کہ شادی سے انسان دو طاقتوں سے محروم ہو جاتا ہے، ایک جسمانی قوت اور دوسری دماغی قوت۔دوسری وجہ یہ تھی کہ شادی کرکے مرد بیوی اور بچوں کی وجہ سے بزدل ہو جاتا ہے تاہم ایک اور وجہ جو سب سے اہم تھی وہ یہ تھی کہ کلاڈئیس دوم کے عہد میں روم سلطنت کو بہت وسعت مل رہی تھی اور بادشاہ کاخیال تھا کہ اگر سپاہی شادی کرلیں گے تو ان کی فوج میں وہ جذبہ اور ہمت و طاقت نہیں رہ پائے گی جس کی وجہ سے آج اس کی سلطنت وسیع سے وسیع تر ہوتی جار ہی ہے۔یہ فتویٰ جب روم کے کوچہ بازار میں زبانِ زد عام ہوا تو ایسے میں روم کے ایک چرچ کا پادری تھا جس کا نام تھا ویلنٹائن ،اس نے بادشاہ کلاڈئیس کے فتویٰ کے خلاف آواز اٹھائی اور لوگوں کو شادی کی ترغیب اور محبت کی شادی و اہمیت پر لیکچر دینے شروع کر دئیے۔وہ نہ صرف لیکچر دیتا بلکہ محبت کرنے والے جوڑوں کو چرچ بلا کر ان کی شادیاں بھی کرواتا۔یہ بات کسی طور بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچ گئی تو غصہ کے عالم میں کلاڈئیس نے ایک شاہی فرمان جاری کیا جس کی رو سے ویلنٹائن کو جیل میں بند کر دیا۔اب یہاں دو روایات ملتی ہیں ایک یہ کہ اسے بادشاہ کلاڈئیس کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور دوسری روائت کے مطابق جیلر کی بیٹی سے پیار ہو گیا تھا۔جیلر کی بیٹی چونکہ آ نکھوں کی روشنی سے محروم تھی اور جیلر اکثر ویلنٹائن سے دعا کی درخواست کرتا تھا۔ویلنٹائن کی دعا سے جیلر کی بیٹی کی بینائی واپس آگئی تو اس نے ویلنٹائن کو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔دونوں کو پہلی ملاقات میں پیار ہو گیا۔اس بات کی اطلاع جب بادشاہ کی ہوئی تو اس نے ویلنٹائن کا سر قلم کرنے کا شاہی فرمان جاری کر دیا جس کی تعمیل میں ویلنٹائن کو 14 فروری269 ء کو سزا کے طور پہ سر تن سے جدا کر دیا گیا۔موت سے قبل اس نے اپنی محبوبہ کو ایک محبت بھرا خط لکھا جس کے آخر میں اس نے لکھا from your valentine ۔آج بھی جب دو پیار کرنے والے ایک دوسرے ویلنٹائن کارڈز کا تبادلہ کرتے ہیں تو آخر میں یہی فقرہ لکھتے ہیں۔ایک امریکی سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کارڈز کا تبادلہ اس دن ہوتا ہے۔دیگر تحائف ،سرخ پھول،کیوپڈ گفٹ،چاکلیٹ اور ٹیڈی بئیر اس کے علاوہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دن جسے دنیا اب یومِ محبت کا نام دیتی ہے لمحہ فکریہ ہونا چاہئیے کہ کیا صرف ایک دن ہی محبت کی تخصیص کا ہونا چاہئیے یا سال کے تین سو پینسٹھ دن۔اس کا جواب میرا مذہب دیتا ہے کہ انسان کا تو خمیر ہی محبت کی مٹی ہے۔ایثار،محبت ،قربانی اور انس سے ہی انسان مکمل ہوتا ہے۔اپنی بات کی مضبوطی کے لئے صرف ایک دلیل کو ہی کافی خیال کرتا ہوں۔ایک مزدور باپ سال کے 365 دن ہر صبح مزدوری پہ جاتا ہے۔سارا دن بوجھ اٹھاتے اٹھاتے وہ اپنے بچوں کی بھوک میں اپنی بھوک کو ہی بھول جاتا ہے۔شام کو تھکا ہارا جب وہ گھر آتا ہے تو اس کی بیٹی بیٹے جب گھر کی دہلیز پہ اس کا ایک مسکراہٹ سے استقبال کرتے ہیں تو اس کی سارے دن کی تھکاٹ رفو چکر ہو جاتی ہے۔صرف ایک بار بیٹی کے پاپا کہنے پر ہی وہ دن بھر کی بھوک،تھکاوٹ،اور خواہشات کا گلہ دبا کر اپنی بیٹی کو گلے لگا لیتا ہے۔یہ ہے ایک مزدور باپ کا مسرت بھرا لمحہ جو اسے شانِ سکندری سے بھی ممتاز کردیتا ہے۔یہ محبت ایک دن کی محتاج نہیں بلکہ سال کے کل دنوں پہ محیط ہوتی ہے جس میں کوئی ٹیڈی بیئر،گلاب،چاکلیٹ یاپھول نہیں،بس محبت ہی محبت ہے وہ بھی بے لوث اور غیر مشروط۔بلاشبہ کسی بھی معاشرے کی تہذیب میں روایات،رواجات،تہوار اور زبان و ادب، کلچر کے اجزائے ترکیبی خیال کئے جاتے ہیں اور مضبوط روایات ہی مضبوط کلچر کا باعث بنتا ہے۔تاہم کسی بھی تہوار یا رواج اور اندازِ زندگی کو اگر مخصوص دائرے سے باہر نکل کر کریں گے تو اس میں خوبصورتی کی بجائے بگاڑ اورمنفی اثرات کے پیدا ہونے اوران کا پھیلنا اس قدر بھر پور ہو جائے گا کہ جس کی گرفت سے بچنا محال ہو جائیگا۔اور یہ سب اقدار ایک دن کلچرکی شان کی بجائے ننگِ تہذیب خیال ہونا شروع ہو جائیگا۔لہذا مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے عمل پیرائی اس قدر کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں جس سے آپ کا بھی سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔وگرنہ۔۔چھلک اٹھتا ہے وہ پیمانہ جو بھر جاتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں