کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اور عالمی بے حسی‎

تین جون  ۱۹۴۷ کے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت برصغیر کی ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے بارے میں جو اصول طے ہوئیے تھے ان میں یہ بات واضح تھی کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا ہے.مگر بھارت کی ہٹ  دھرمی اور ریاستی جبری قبضہ کی طویل ترین حکمت عملی نے مسئیلہ کشمیر کے حل میں ستر سال سے روڑے اٹکائیے ہوئیے ہیں.بات صرف بھارتی قبضے اور ظلم و ستم تک محدود نہیں بلکہ عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کی اس اہم مسئیلہ سے چشم پوشی اور اسکے منصفانہ حل سے روگردانی کی وجہ سے کشمیریوں پر ریاستی مظالم اور قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری ہے.
اہلیان کشمیر کے جدوجہد آزادی سے بھرپور جذبات کو ظلم و جبر کی پالیسی کے ذریعے دبانا بھارت کی انتہائیی احمقانہ حکمت عملی سمجھی جارہی ہے.لیکن اس تنازع کا ایک فریق ہونے کے باوجود حکومت پاکستان کا مسئیلہ کشمیر پر مؤقف انتہائیی  کمزور اور غیر ضروری مصلحتوں کا شکار رہا ہے.کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کی طویل ترین تاریخ میں بہت کم ہی ایسے مواقع آئیے ہیں جب کھل کر جراُت مندی سے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کی تائیید وحمایت کی ہے.حالانکہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائییوں اور بہنوں کی قربانی اور ان پر جاری ظلم و ستم پر انتہائیی غم و غصہ کا شکار اور انکی آزادی کے دل سے خواہاں ہیں.مگر حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات کا فقدان ہے.
نوجوانان کشمیر ستر سال سے اپنے حق خود ارادیت کی طویل جنگ لڑرہے ہیں جسے کسی جبر سے دبایا نہ جاسکا.۲۰۱۶ میں مجاہدین کشمیر کے کمسن ہیرو برہان مظفر وانی کی شہادت نے اس جدوجہد میں ایک نئیی  روح پھونکی ہے.جسے ختم کرنے کیلیئیے پوری بھارتی فوجی مشنری حرکت میں آگئیی ہے.مقبوضہ کشمیر میں ۲۰۱۸ کا سال سب سے زیادہ خونریز سال رہا جس میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ساڑھے چار سو کے قریب افراد شہید ہوئیے.
۔2019 میں مقبوضہ کشمیر میں عام انتخابات بھی ہونے ہیں.مگر اس طرح کے نام نہاد الیکشن اور پانچ سے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے شدت پسندی اور خونریزی میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے کمی نہیں.
۔2016 سے شروع کیئیے گئیے پیلٹ گن کے استعمال سے اب تک سترہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جو یا تو مکمل یا جزوی طور پر بینائیی سے محروم ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان اور بچے ہیں.ان انسانیت سوز مظالم کے باوجود عالمی تنظیموں کی جانب سے بھارت پر کوئی دباؤ نہیں ہے کہ وہ ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے باز آجائیے.دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبرداروں کو کشمیر و فلسطین میں جاری مردم کش مظالم نظر نہیں آتے نہ اس بارے میں انکا کوئی مضبوط اصولی مؤقف سامنے آیا.اقوام متحدہ میں بھی قراردادوں سے آگے بات نہیں بڑھتی.خون مسلم کی ارزانی پر مسلم ممالک کی بے حسی اور چشم پوشی سب سے زیادہ شرمناک اور افسوسناک ہے.
عالمی بے حسی اور غیر منصفانہ رویہ کی وجہ سے بھارت خود کو کشمیری عوام پر ظلم وستم کرنے میں کسی بھی قسم کی جواب دہی سے آزاد سمجھتا ہے.کشمیر پاکستان کیلیئیے انتہائی اہم ہے.ہماری قومی خود مختاری اور سلامتی کیلییے کشمیری باشندوں کی خواہش کے مطابق کشمیر کا پاکستان سے الحاق انتہائی اہمیت کا حامل ہے.کیونکہ پاکستان سے الگ ایک علیحدہ ریاست کے طور پر کشمیر کا بھارت کی دخل اندازی اور اندرونی سازشوں سے محفوظ رہنا ممکن نہیں .کیونکہ بھارت اپنی سرحدوں سے ملحق کمزور ریاستوں میں مسلسل دخل اندازی اور سرحدی دراندازیوں کا مرتکب ہوتا رہتا ہے.نیپال, سری لنکا اور برما میں بھارتی سرحدی جارحیت اور سازشی دخل اندازی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں .جو کہ ایک کمزور کشمیری ریاست میں بھی جاری رہ سکتی ہیں .قائد اعظم کی فکری دور اندیشی اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلیئیے لازم و ملزوم ہیں.کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی خوددار ریاست اور خودمختار قوم یہ بات برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے حوالے کردے.

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں