(جزیرۃ العرب سے عمرہ)
سفرِ ِ سعادت
ہمیں جزیرۃ العرب میں داخل ہوئے تیسرا دن تھا جب صاحب نے دفتر سے آتے ہی خوشخبری سنائی: ’’عمرہ کا پروگرام بن رہا ہے ان شاء اﷲ‘‘۔ کب، کیسے، کس کے ساتھ ؟؟ ایک ساتھ کئی سوال ذہن پر ابھرے، ہم نے فوراً تلبیہ پڑھنی شروع کر دی، آج تو گویا قسمت کھل گئی تھی۔ اگلے دو تین دن تیاریوں میں گزر گئے، یہ سفر مبارک بھی تھا اور عین سعادت بھی۔ نئے احرام خریدے گئے (حالانکہ پاکستان سے آنے والے سامان میں بھی ایک احرام خاص طور پر رکھا گیا تھا)، ہمیں آنے والی جمعرات کو ’’حملے‘‘ کے ساتھ جانا تھا، (’’حملہ‘‘ سعودی عرب میں بس کے ذریعے سفرِ سعادت کے لئے مستعمل ہے، شاید ہر عمومی سفر کے لئے بھی استعمال ہوتا ہو، ہم نے تو عمرے والی بسوں کے ہی عقب میں لکھے ہوئے دیکھا)، اور اس سفر کا خوشگوار پہلو یہ تھا کہ ہمارے نئے نئے دوست احباب ہمراہ تھے، یعنی اپنی کمیونٹی کے افراد اکٹھے عمرہ کرنے جا رہے تھے، ایک تو سفرِ شوق اور پھریہ قرآن کے تعلق سے جڑنے والوں کا سفربھی تھا، بس خوشی کے سارے لوازمات پورے ہو رہے تھے، اور جس کے نہ جانے کی خبر ملتی اس پر ہمیں بھی افسوس ہوتا۔
۱۳ اکتوبر کو سفر شروع ہونا تھا، اس سے پہلے ہی ہم نے خوب زادِ راہ (جوسسز، پانی، پھل، کھانا، وغیرہ) اکٹھا کر لیا، بچے اور صاحب واپس آئے تو سب کچھ تیار تھا، انہوں نے جلدی جلدی تیار ہو کر سامان باہر رکھا، ایک ڈاکٹر صاحب ہمیں لینے آگئے اور دن ڈھائی بجے سے قبل ہم مقررہ مقام پر پہنچ گئے، تقریباً سبھی لوگ پہنچ چکے تھے، بس میں داخل ہوئے تو قدرے گرمی کا احساس ہوا، اس سفر مبارک کا آغاز ہی شکوے سے نہیں ہونا چاہئے، ہم نے خود کو دعا کی جانب متوجہ کیا، آہستہ آہستہ سب افراد سیٹوں پر بیٹھ گئے، اگلی سیٹوں سے آواز بلند ہوئی، گاڑی میں ٹھنڈک کافی کم ہے، ہمارے صاحب نے ہماری طرف دیکھ کر تائید چاہی، ہم دعا کی کتاب کو پنکھا بنائے ہوا لے رہے تھے، ڈرائیور بولا: ’’صاب بس سپیڈ پکڑے گی تو ٹھنڈک بھی ہو جائے گی‘‘، ہمیں گرمی کا احساس ہوتا تو کھڑکی سے جھانک کر سپیڈ کا اندازہ کرنا چاہتے، گاڑی فراٹے بھر رہی تھی، اور اسی رفتار سے پسینہ چوٹی سے ایڑی کا سفر طے کر رہا تھا، ہم نے پھر بے بسی سے دائیں بائیں دیکھا، سبھی گرمی سے بے حال نظر آئے، سوائے ڈرائیور کے، جسے یقین تھا کہ سفر شروع ہونے پر اے سی کام کرنے لگے گا۔ چھوٹے بچے بس کی رفتار پکڑنے اور اے سی کے تکنیکی تعلق سے بے خبر منہ کھول کر رونے لگے، اب انتظامیہ کو بھی احساس ہوا کہ دس گیارہ گھنٹے کا سفر اس تنور میں نہ ہو سکے گا، انہوں نے ڈرائیور کو ذرا درشتی سے اے سی تیز کرنے کو کہا، ڈرائیور نے اپنا بیان دہرانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اسے ڈانٹ کر بس روکنے کا حکم دیا، ڈرائیور نے بس کنارے کی جانب کر کے روک دی، امیر صاحب نے موبائل نکالا اور حملہ آفس کا نمبر ملایا: ’’میں ۔۔۔۔۔ بات کر رہا ہوں، آپ نے جو بس بھیجی ہے اسکا اے سی کام نہیں کر رہا، ہم فلاں جگہ کھڑے ہیں دوسری بس بھیجو ‘‘، دوسری جانب سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی، مگر یہ کیا، دوسری جانب کی آواز (یعنی پورا مکالمہ ہمیں بھی سنائی دے رہا تھا، ) اور یہ آواز ہمارے اندازے کے مطابق گاڑی کے اگلے حصّے میں سے آرہی تھی، ایک صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو متوجہ کیا: ’’یہ تو ڈرائیور کا نمبر ملا دیا ہے آپ نے، وہی جواب دے رہا ہے‘‘، اس گفتگو کے بعد بس میں ٹھنڈک میں اضافہ تو نہ ہو سکا، البتہ سواریوں کے مزاج میں شگفتگی ضرور پیدا ہو گئی۔
پھر بس چلنے کا اشارہ ہوا، کہ بریدہ اپنے دفتر چلو، وہاں جا کر بس تبدیل کرواتے ہیں، حملہ والوں سے بات بھی ہو گئی، اور بریدہ میں ایک پٹرول پمپ پر بس روک لی گئی، نمازِ عصر کا وقت تھا، خواتین مصلی النساء (عورتوں کا نماز کا حصّہ) میں داخل ہو گئیں، اور مرد مسجد کے مرکزی حصّے میں۔ نماز ادا کر کے خواتین کمر سیدھی کرنے کو لیٹ بھی گئیں، اور آہستہ آہستہ باہر سے چائے کافی اور بچوں کی آئسکریم وغیرہ آنی شروع ہوگئی، وقت گزرنے کے ساتھ یہ خیال بھی پریشان کر رہا تھا کہ وقت گزر رہا ہے، کچھ خواتین ذکر اذکار میں، کچھ میل ملاقات میں مشغول تھیں جب کسی بچے نے آکر آواز لگائی: ’’دوسری بس آگئی!!‘‘، سب تیز قدموں سے باہر نکلے، مگر یہ کیا؟ اس بس سے مسافر باہر نکل رہے تھے، یعنی یہ دوسری عمرہ زائرین بس تھی! سب پھر واپس آگئے، اس عزم کے ساتھ کہ اب کے مصدقہ اطلاع کے بغیر باہر قدم نہ نکالیں گے۔ ایک مرتبہ پھر باہر آجانے کی آواز آئی، مگر اکثر خواتین ٹس سے مس نہ ہوئیں، پھر مردوں میں سے کسی کی آواز آئی، باہر آجائیں، باہر وہی بس کھڑی تھی، سابقہ تنور! ہم ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئے، بیٹھ کر فضا کا جائزہ لیا، گرمی میں کچھ کمی محسوس ہوئی، یہ آفتاب کے مغرب کی جانب جھک جانے کے سبب تھا، یا واقعی اے سی کی کارکردگی بہتر ہو گئی تھی ، ابھی ہم شش و پنج میں تھے کہ ایک صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا، بھئی راستے میں تمہارا اے سی تنگ تو نہیں کرے گا، ڈرائیور نے پورے یقین سے کہا: ’’صاحب اے سی بالکل ٹھیک کام کرے گا، بلکہ اتنا ٹھنڈا کرے گا کہ آپ کو کمبل کی ضرورت پڑے گی‘‘، اس آخری دعوے کو سب نے ہی مبالغہ سمجھا، بلکہ مسکرا کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا، اب اسے کیا ٹوکنا، پہاڑی محاورہ ہے: ’’کَچھ گھوڑا تے کَچھ مدان‘‘، یعنی گھوڑا بھی موجود ہے اور میدان بھی، ابھی تصدیق ہوا چاہتی ہے۔ ابھی سفر شروع ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ڈرائیور کے دعوے کی تصدیق شروع ہو گئی، پہلے تو اے سی کے سوراخوں سے نکلنے والی ٹھنڈک نے سب کو مسرور کیا، سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا، بلکہ دماغ ٹھنڈے ہوئے تو زادِ راہ کے تھیلے بھی ڈھیلے ہونے لگے، کہیں سے جوس نکلے، کہیں سے پھل، جو بھی اپنا تھیلا ڈھیلا کرتا سوغاتیں بس کے اندر چاروں جانب پھیل جاتیں، ایک صاحب کھجور اسکے خوشوں سمیت لائے ہوئے تھے، اور سب سواریاں حسبِ ضرورت اور حسبِ خواہش اپنی پسند کی کھجوریں چن رہی تھیں، مجھے نبی رحمت ﷺ کے وہ صحابی یاد آگئے جو نبی ﷺ اور اصحاب کو اپنے باغ میں لے گئے تھے اور کھجور کا خوشہ لا کر آ پ کے سامنے رکھا تھا، اور استفسار پر کہا تھا کہ میں چاہتا تھا کہ آپ ﷺ اپنی پسند سے کھجوریں چن کر تناول فرمائیں، واقعی یہاں بھی خوشے میں لگی ہوئی کھجوریں پکی ہوئی بھی تھیں، ادھ پکی بھی اور کچھ سخت بھی، سب لوگ حسبِ ذائقہ لیتے جا رہے تھے، ڈاکٹر ادی (سندھی میں بہن کو کہتے ہیں، انہیں اسی نام سے بلوانا پسند ہے) ڈھیر سارے انڈے ابال کر لائی تھیں، جو بس میں ’’آنڈے، گرم آنڈے‘‘ کی صدا کے ساتھ تقسیم ہو رہے تھے، سینڈوچز بھی تھے، اور مٹھائی بھی، یہ اجتماعی سفر کی برکت تھی کہ جو کچھ بھی پیش ہوتا سب کو بانٹ کر کچھ بچ بھی رہتا، بس میں دو چار جگہ کوڑا ڈالنے کے لئے تھیلے باندھ دیے گئے تھے، اور اتنی خوشگوار فضا اور پیٹ پوجا کے بعد دعائیں مانگتے ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے، اورعمرہ زائرین آہستہ آہستہ نیند کی وادی میں پہنچ گئے، بس میں یہاں وہاں ہلکی پھلکی حرکت اور زادِ راہ کھلنے اور اب کی بار ان سے بچوں کے کمبل چادریں سویٹر وغیرہ نکلنے شروع ہوئے، جو لوگ حملہ بس کے ذریعے عمرے کے عادی تھے وہ پورے لوازمات کے ساتھ موجود تھے، جب کے ہم جیسے نوواردوں نے صاحب کی اکلوتی ٹوپی بھی بس کے نچلے حصّے میں بیگ میں محفوظ رکھی ہوئی تھی۔ ایک بیگم صاحبہ نے بچوں کے ٹھنڈے ہونے کی دہائی دی، ڈرائیور سے فرمائش کی گئی کہ اے سی ذرا آہستہ کر دو، وہ ٹس سے مس نہ ہوا، کچھ دیر بعد باصرار مطالبہ دہرایا گیا، پھر بھی کچھ نہ ہوا، آخر ایک ذمہ دار صاحب نے حکم دے کر کہا: ’’اے سی آہستہ کر دو، بچے ٹھنڈے ہو رہے ہیں‘‘، ڈرائیور نے بھی سپاٹ لہجے میں جواب دیا: ’’صاحب اے سی کی تار انجن کے ساتھ ایڈجسٹ کی تھی، اے سی آہستہ کروں تو انجن بند ہو جاتا ہے‘‘، اس خبر نے ہماری رہی سہی حرارت بھی منجمد کر دی، ہم نے آرام سے ہینڈ بیگ سے دوپٹہ نکال کر صاحب کی طرف بڑھا دیا، جو بس کی کھڑکی کا پردہ لپیٹ کر خود کو برفانی لہروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
نمازِ مغرب کے لئے بس روکی گئی تو واپسی پر سب کے ہاتھ میں چائے یا کافی کے کپ تھے، ٹھنڈی ٹھنڈی بس میں گرم گرم کافی عجب مزا دے رہی تھی، زادِ راہ میں سے انڈے اور بسکٹ وغیرہ بھی نکل آئے تھے، قافلے کے لڑکے بس کی پچھلی نشست میں اکٹھے ہو گئے تھے، اور کچھ سہیلیاں ایک طرف!
ہماری بس شاید عفیف شہر سے گزری تو یہاں نماز کا وقت تھا، مسجد سے نماز کی آواز آرہی تھی اور بازار سنسان، دکانیں انواع واقسام کے سامان سے لدی ہوئی تھیں مگر نہ کوئی بیوپاری تھا نہ خریدار!! سعودی عرب میں آنے کے بعد یہ خوبصورت منظر دل میں کھب کر رہ گیا، قرآن کی آیۃ ’’والذین ان مکناھم فی الارض لأقاموا الصلاۃ ۔۔ ‘‘ کا عملی نمونہ!!
کچھ دیر بعد بس نے رفتار آہستہ کی اور اعلان ہوا کہ یہاں پر نمازِ عشاء اور عشائیہ کا وقفہ ہے، نیچے اترے، کھانے کے لوازمات اٹھائے، سامنے سرائے نما عمارت تھی جس پر تحریر تھا، ’’شقق مفروشہ مجاناً‘‘، یعنی یہ کارپٹڈ چھوٹے چھوٹے حجرے فری آف کاسٹ ہیں، یہاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر جس حجرے پر چاہے قبضہ کر لیجئے، اور کھانا کھا کر باقیات سمیٹ لیجئے، اگرچہ کئی حجرے ایسے تھے جہاں کھانے والوں نے بعد والوں کی سہولت کا خیال نہیں رکھا تھا، سب نے انتہائی کم وقت میں توشہ دان کھولے، ہر ایک اپنا کھانا نکال کر دوسرے حجرے والوں کو بھجوا دیتا، یہاں بھی بچے بہترین قاصد بنے ہوئے تھے، کھانے اور نماز سے فارغ ہو کر بس میں پہنچے تو جہاں چائے کی خوشبو منتظر تھی، وہاں کچھ اصحاب نئے کمبل خرید کر مزے سے لپیٹے بیٹھے تھے۔
باقی سفر اس حال میں گزرا کہ ہم سردی سے بچنے کے لئے کبھی ہاتھوں کی گرمائش سے کام لیتے اور رگڑ کے اصول سے ایک پاؤں سے دوسرے کو گرم کرتے، ہمارے ساتھ بیٹھی صاحبزادی بھی رگوں میں خون جمنے کی شکایت کر رہی تھی، اور بیٹا اپنے گالوں پر ہاتھ پھروا کر بہادر بننے کی کوشش کر رہا تھا، کہ وہ کتنی بہادری سے سردی کا مقابلہ کر رہا ہے، دانت بجائے بغیر!! خدا خدا کر کے میقات آیا، ہم تو خوش تھے، کچھ دیر مسجد میں وقت گزار آئیں گے، مگر مردوں نے اگلا سفر احرام میں گزارنا تھا، اب بے رحم اے سی کے مقابلے میں تلبیہات کی گرمی تھی، مردوں کے کمبل اتر چکے، سر ڈھانپ نہیں سکتے، کوئی سلا کپڑا، بنا ہوا سویٹر پہن نہیں سکتے، مگر تلبیہہ کی پکار نے سب کو گرم کر دیا، بقیہ سفر کہیں سے سردی کی آواز نہ سنائی دی، ہم خواتین تو ویسے ہی مزے میں تھیں، ہمارا لباس ہی ہمارا احرام تھا، سوائے چہرہ کھولنے کے!!!
ابتدائے سفر میں ہونے والی تاخیر نے ہمارا کافی نقصان کر دیا تھا، ہم مکہ پہنچ کر بھی حرم کی نمازِ فجر سے محروم تھے، ہوٹل میں نمازِ فجر ادا کر کے ہم عمرے کے مناسک کی ادائیگی کے لئے نکل کھڑے ہوئے، باہر نکلے تو کچھ اندازہ نہ تھا کہ حرم کتنا دور ہے، ایک صاحب سے سمت معلوم کر کے چلنا شروع کر دیا، ایک ٹیکسی حرم کی آواز لگا کر کھڑی بھی ہوئی مگر ہم نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی، اتنے طویل سفر نے ویسے بھی تھکا دیا تھا، قدموں کی رفتا ر آہستہ ہونے لگی، صاحب کافی آگے نکل جاتے، پھر رک کر ہمارا انتظار کرتے، ہمارے گھٹنے سے اٹھنے والی ٹیسیں ہمیں بار بار مجبور کر دتیں اور ہم تلبیہہ کے بجائے آیاتِ شفا پڑھنے لگتے، آخر کارصاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں ہماری حالت کا اندازہ ہوا، ایک ٹیکسی رکی اور ہم اس میں بیٹھ گئے، جس نے حرم کے کافی قریب اتار دیا، حرم میں داخل ہوئے تو اشراق کا وقت تھا، ایک خوبصورت صبح!! حرمِ کعبہ کی صبح کا کیا کہنا!!مطاف میں قدم رکھا تو ایسے لگا ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہے، جسم کی بھی اور روح کی بھی!!
خانہ کعبہ کی پرشکوہ عمارت پوری شان سے کھڑی تھی، اسکے گرد گردش کرتے پروانے، اﷲ سے رحمت اور مغفرت مانگ رہے تھے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں اور اور آگ سے نجات کے خواہش مند تھے۔ اس دن اور اس وقت طواف کرنے میں بہت مزا آرہا تھا، یہ ہماری بہت بڑی حسرت تھی کہ اﷲ اپنے گھر کے کہیں قرب و جوار میں آباد کر دے، اور ہم بار بار حاضری دے سکیں، اور یہ دعا کئی برس کے انتظار کے بعد پوری ہوئی تھی، اس عمرے کی شان ہی نرالی تھی، اور اسکا سرور بالکل جدا!!
طواف کے سات چکر پورے کر کے ’’واتخذوا من مقام ابراہیم مصلّی‘‘ پڑھتے ہوئے مطوفین کے دائرے سے نکل کر مقام ابراہیم کے عین پیچھے پہنچے اور دو رکعت نماز ادا کی، دعا مانگتے ہوئے کعبہ نگاہوں کے سامنے تھا، اپنے وجود کی کم مائیگی کا احساس ہو رہا تھا، اور رب کی بے انتہا رحمتوں کا، بے اختیار دل سے دعا نکلی: ’’ربّ اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ وعلی والدیّ وان اعمل صالحاً ترضاہ، ۔۔۔ ‘‘(اے اﷲ مجھے توفیق دے کے میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پرکی ہیں، اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو راضی ہو جائے ۔۔ )۔
آبِ زم زم سے سیراب ہو کر صفا مروہ کی جانب چلے، لیکن سعی کی جانب اٹھتے قدم ڈگمگانے لگے، میری ٹانگوں کی ہمت جواب دینے لگی، وہیں سعی کے ایک ستون کے ساتھ کچھ دیر کے لئے بیٹھ گئی، میاں اور بچے پریشان، سب مل کر اﷲ سے دعا مانگنے لگے، اسی رب نے ہمت دی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے شروع کئے، صفا سے مروہ تک پہنچتے دو مرتبہ سستانے کو بیٹھی، حضرت ھاجر ؑ نے سات چکر کیسے لگائے ہوں گے، پانی کی تلاش بھی اور زمین پر لیٹے بچے کی فکر بھی، سبز روشنیوں کے درمیان جب شوہر اور بیٹے اور دنیا کے تمام مرد بھاگ بھاگ کر اس سعی کا اکرام کر رہے ہوتے ، میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی حضرت ھاجرؑ کے کردار کو سوچتی چلی جاتی، وہ تمام نعمتیں جو انکے ذریعے ہمیں ملیں، ان میں ایک زم زم بھی ہے، جو دوا بھی ہے، سیرابی بھی اور شفا بھی، اسکے فضائل اتنے ہیں کہ جس نیت سے استعمال کریں وہی حاصل ہوتی ہے، اور حضرت عبد اﷲؓ اسے قیامت کے دن حشر کے میدان کی پیاس سے بچنے کی دعا کے ساتھ پیتے!!
سعی کے چوتھے چکر میں جب مروہ سے صفا کی جانب جا رہے تھے، تو درمیان میں سیڑھیوں کے پاس ایک وہیل چیئر رکھی تھی، صاحب نے بیٹے سے کہا، ذرا دیکھنا کسی کی تو نہیں ہے، ہم جب تک وہاں پہنچے اسے کسی نے نہ لیا، بلکہ جو لوگ اس کے پاس بیٹھے تھے وہ بھی اٹھ کر چلے گئے، ہم نے دیکھا تو اسکے سائیڈ پر لکھا تھا ’’وقف للحرمین الشریفین‘‘، بس اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں اس پر بیٹھ گئی، اور باقی کی سعی آسان ہو گئی، اب گزشتہ سب دعاؤں کے ساتھ انکے لئے خاص دعائیں بھی تھیں جو اس کرسی کو دھکیل رہے تھے، خاص طور پر بیٹے کے لئے جو دوہرا اجر کما رہا تھا، پھر اس عطیہ ء حرم کو ہم نے اگلے دن تک استعمال کیا۔ ہمارے بیٹے کو بار بار احساس ہو رہا تھا کہ اسے حرم سے باہر نہیں لے جانا چاہئے، اسے بھی تسلی دلائی کہ یہ اﷲ کے مہمانوں کے لئے عطیہ ہیں، استعمال کریں اور چھوڑ دیں۔
ہم حرم سے باہر نکلے، ٹیکسی لی اور شاہراہ الھجرہ کی جانب رخ کیا، اندازے کے مطابق ہوٹل کے قریب ایک پاکستانی ریستوران کے سامنے ٹیکسی سے اتر گئے، ناشتا لیکر ہوٹل کی جانب چلے، مگر معلوم ہوا، کہ یہ تو ہمارا ہوٹل نہیں ہے، گتا نما ٹرے سے چائے کے چار کپ الٹ کر سڑک پر گر چکے تھے اور ہم ’’جواہرۃ القصر الابیض‘‘ ڈھونڈ رہے تھے، ایک ٹیکسی والے کو ہوٹل کا کارڈ دکھایا تو وہ بولا، اس پر تو انکے ہوٹلوں کی پوری چین کے نام ہیں، آپ نے کس والے میں جانا ہے، اور اس صبح مٹر گشت کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ مکہ میں ہوٹلوں کی کثرت کے ساتھ ناموں کی مماثلت بھی کافی زیادہ ہے، کوئی منارۃ قصر الابیض ہے تو کوئی جواہرۃ القصر الابیض، اور اسی سے ملتے کئی نام۔ ہم نے اسکا انگریزی ترجمہ کیا تو بہت سے ہوٹل ’’وائیٹ ہاؤس ‘‘ تھے، امریکہ کا وائیٹ ہاؤس اس سے زیادہ پر تعیش ہو تو بھی ان قصر الابیض کی شان اس سے کہیں زیادہ تھی، ان میں اﷲ کے مہمان ٹھہرتے ہیں، ہم انہیں سوچوں میں گم تھے جب صاحب نے ٹیکسی روکی اور اس نے کچھ نشانیاں پوچھ کر ہمیں ہمارے ’’قصر الابیض‘‘ میں پہنچا دیا۔
چند گھنٹے بعد ہم پھر جمعہ ادائیگی کے لئے حرم کے باہر موجود تھے، اندر جانے کی گنجائش موجود نہ تھی، اس لئے ہم نے صحن میں ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا، جمعہ ادائیگی کے بعد ہمارے بھانجے مجاہد اور انکی بیگم حرا سے بھی ملاقات ہو گئی، ہم رات تک اکٹھے رہے، رات گئے مجاہد نے ہمیں ٹیکسی لے دی اور اپنے طور پر اسے بہت اچھی طرح راستہ سمجھا دیا، ڈرائیور نے اس وقت تو سر ہلا دیا، مگر راستے کی بھول بھلیوں میں ہوٹل پھر گم ہو چکا تھا، ڈرائیور جو شاہراہ الھجرۃ پر پہنچ کر راستہ پوچھ رہا تھا، بیٹے نے ہمیں نیند سے اٹھایا: ’’ امی جان اسے راستہ بتا دیں،ذرا بتا تو دیں رائٹ ہینڈ کو کیا کہتے ہیں؟ ہم نیم غنودگی میں بولے : سیدھے ہاتھ! اور وہ سر پکڑ کر بولا:’’ اماں جی، عربی میں‘‘ ہمارے عربی جواب سے پہلے ڈرائیور خود ہی ایک جانب مڑ چکا تھا، کیونکہ ٹریفک کی روانی میں خلل آرہا تھا، آخر کار بس گروپ کے ایک ساتھی کو صاحب نے فون کیا تو انہوں نے ڈرائیور کو سمجھایا، یوں ہم رات گئے منزل پر پہنچے۔
اگلی صبح فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد مدینہ کی جانب سفر شروع ہوا، بس فراٹے بھرتی مدینہ کی جانب جا رہی تھی، اور ہمارے دل خوشی سے سرشار!!! جس قدر درود و سلام کا ہدیہ پیش کر سکتے تھے، اسی جانب متوجہ تھے، درمیان میں کچھ دیر آرام بھی کیا، بس راستے میں دو مقامات پر رکی، اور ضروریات کی ادائیگی کے بعد پھر بس چل پڑی، مدینہ آنے سے پہلے ہی اس کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی تھی، ظہر کی نماز کے وقت بس نے حرمِ نبوی کے بالکل قریب اتارا، اذان ہو چکی تھی، قدم تیزی سے صحنِ مسجد کی جانب گامزن تھے، بمشکل صحن میں پہنچے تھے کہ اقامت اور پھر جماعت شروع ہو گئی، جو باوضو تھے وہ پہلی رکعت ہی میں شامل ہو گئے، نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد باب عثمان بن عفان سے مسجدِ نبوی میں داخل ہوئے، بس سے اترتے ہوئے جو ہدایات دی گئی تھیں، ان میں نماز کی ادائیگی کے کچھ دیر بعد کھانے اور پھر واپسی کا پروگرام تھا، مسجدِ نبوی کی اپنی ہی ایک تاریخ تھی، اتنی محبت سے بنائی گئی مسجد نے ہر دور میں محبت ہی کے مناظر دیکھے ہیں، ہر جانب حسن ہی حسن اور درو دیوار سے ٹپکتا نور!! دل چاہتا تھا بس ہماری پیشانی ہو اور حرمِ نبوی کی سرزمین ہو، رب سے مناجات کا اس سے بہتر موقع کہاں ملتا، اتنے تھوڑے سے وقت میں کیا کیا کیا جائے، اﷲ تعالی ہر لمحہ کے اجر کو بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے، اور بار بار حرمین کی جانب لے کر آئے، ہر بار شوقِ ملاقات پہلے سے دو چند ہو جائے، اور اﷲ ہمیں اپنے قلیل لوگوں میں شامل کر لے، آمین۔
وقت ہمارے ہاتھ سے پھسلا جا رہا تھا، کچھ دیر میں واپسی کا بلاوا آگیا، ہم صحنِ مسجد میں پہنچے، گروپ منتظمین نے مزیدار بریانی اور ڈرنکس کا انتظام کر رکھا تھا، ہر خاندان کو انکے افراد کے مطابق کھانا اور سفرہ(ڈسپوزیبل دسترخوان) دیا گیا، مزے دار کھانا تھا، ابھی کچھ ٹائم باقی تھا، ہمیں برقع لینا تھا، رضیہ بہن کی مہارت خوب کام آئی، روانگی کے مقررہ وقت سے پہلے ہم واپس آگئے تھے، اور اب سفر کی آخری منزل شروع ہو گئی، مدینہ سے القصیم، بس میں بیٹھتے ہی اکثر مسافر نیند کی وادی میں کھو چکے تھے، بس پٹرول ڈالنے رکی تو کئی مسافر نیچے اترے، چائے، بسکٹ، ڈرنکس اور کئی لوازمات، بس چلنے کے بعد زادِ راہ کے کئی لفافے ڈھیلے ہو رہے تھے، اور ان سے واپسی کی انٹر ٹینمنٹ کا سامان نکل رہا تھا، کسی نے کھجوریں پیش کیں، کسی نے مٹھائی، کسی نے بسکٹ اور کچھ اور بھی، آنکھیں کھلیں تو گپوں کا سلسلہ بھی چل نکلا، بچے بڑے سب ایک جیسے ہی ہو گئے، کسوٹی کھیل شروع ہوا، اور پتا بھی نہ چلا کہ کب شخصیت بوجھتے بوجھتے فلمیں اور گانے بوجھنے پر آگئے، کئی مسافر اس بے مقصد ایکٹیوٹی پر بے چین ہو رہے تھے، ایک سٹاپ پر بس رکی تو ایک ذمہ دار نے ہولے سے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی، عمرہ سفر سے واپسی پر ایسے گیمز نہیں ہونے چاہئیں، اور یہ تذکیری پیغام ایک سے دوسرے تک بڑی سرعت سے پھیل گیا، بس دوبارہ چلی تو مسافر پھر سنجیدگی اختیار کر چکے تھے، دوبارہ ذکرِ الہی کی جانب متوجہ تھے: ’’آئبون تائبون عابدون، لربّنا حامدون‘‘۔
عشاء کے بعد بس القصیم کی حدود میں داخل ہوئی تو بچوں کو یاد آرہا تھا کہ ان کا ہوم ورک ابھی تک مکمل نہیں ہے، خواتین رات کے کھانے کے لئے فکر مند تھیں ، اور چپکے چپکے انتظامات سوچے جا رہے تھے۔
یہ ایسا سفر تھا جو تا دیر یاد رہے گا، اترنے سے پہلے ایک دوسرے کا شکریہ اور آئندہ کے لئے ایسے ہی سفر کا عہد!!
***
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...