رائٹرز بلاگرز ورکشاپ

“جسارت بلاگ” کے تحت خواتین قلم کاروں اور بلاگرز کی ورکشاپ کا جب دعوت نامہ موصول ہوا تو  دل میں بہت خوشی محسوس ہوئی اور ساتھ میں جوش و ولولہ دونوں شامل ہوگئے تھے کیونکہ بلاگ لکھنے والوں میں نئے نئے جو داخل ہوئے تھے سرٹیفیکیٹ بھی ملیں گےتو فوراً ہی اپنا پہلا سرٹیفیکیٹ یاد آیا جو مجھے پہلی مرتبہ بلاگ لکھنے پر کراچی کی سطح پر بلاگ مقابلے میں “اول” آنے پر ملا تھا اور خوشی کےوہ لمحات بھی یاد آگئے اس کے علاوہ کچھ دن پہلے “دوم انعام” بھی حاصل کیا بلاگ  مقابلے میں تو جانے کی لگن  مزید اور بڑھ گئی۔

ہم جیسے نئے لکھنے والوں کے لئے ایک بہت اہم اور معلوماتی پلیٹ فارم مہیا کیا جا رہا ہے بیٹھے بٹھائے سیکھنے کے مواقع ملیں گے۔

شیڈیول کے مطابق پروگرامز کا آغاز ہوا رجسٹریشن تو پہلے ہی فون پر کروا دی تھی لہذا ٹائم ضائع کیے بغیر ہم نے اپنی ساتھی بہن تبسم رضوان کے برابر والی سیٹ منتخب کی ۔پروگرام کی ابتدا اللہ تعالیٰ کے بابرکت کلام سے آغاز کیا  ۔باقاعدہ پروگرام کی ابتداجناب ڈاکٹر اسامہ شفیق جو کہ اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ کراچی ہیں انہوں نے سوشل میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں بہت ہی اہم معلومات فراہم کیں ۔انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریبا سولہ سے اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے ہمیں کس طرح سنبھل کر اس میڈیا کے فتنے سے بچتے ہوئے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانی ہے ۔جھوٹ دھوکا بازی ان سب کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔

 اس کے بعد دوسرا سیشن درست املا کیسے لکھیں، شروع ہوا جواطہر ہاشمی صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ جسارت نے پیش کیا۔ پھولی ہوئی سانس  کےباوجودانہوں نے بتایا کہ زیادہ تر اخباروں میں املا کی غلطیاں بہت ہو رہی ہیں اگر آپ کو معلوم کرنا ہے تو اردو کی لغت موجود ہے اس میں کسی بھی الفاظ کی صحیح ادائیگی اور درستگی  معلوم کی جاسکتی ہے۔

چائے کے وقفے میں تواضع چائے بسکٹ سے کی گئی،ساتھ ساتھ اپنی ساتھی بہنوں سے ملاقات کا موقع بھی مل گیا،جو کہ خواتین کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے، وقفہ کے  بعد قلم کار، دانشورمحترم جناب شاہ نواز فاروقی نے تحریر کا فن اور مطالعہ کی اہمیت کو بہت ہی زبردست انداز میں بیان کیاکہ ہمیں موجودہ صورتحال میں کن کن چیلنجز کا سامنا ہے اور باطل نے ہر دائرے میں قبضہ کیا ہوا ہے اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنےمذہب،تہذیب اورتاریخ کو پڑھنا ہو گا جاننا ہوگا سمجھنا ہوگا ،لوگوں کو ان سب کے بارے میں بتانا ہوگا اس کے لیے انہوں نے کتاب  کے پڑھنے پر زور دیا کہ ذہن کی بقا میں ہی تہذیب کی،دین کی مذھب کی بقا ہے۔

اس کے بعد اسریٰ غوری صاحبہ نے بلاگ کیا ہے، کیسے لکھیں، اور اس کی تکنیکی لوازمات، کیا ہیں کے بارے میں بہت سے اہم پوائنٹس بتائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بہت سی اہم معلومات فراہم کیں۔

آخر میں اختتامی کلمات ڈاکٹر واسع شاکر چیف ایگزیکٹیو روزنامہ جسارت نے  ادا کیے ۔انہوں نے بلاگ لکھنے پر بہت زور دیا اور وعدہ لیا کہ مہینے میں کم از کم ایک بار بلاگ ضرور لکھیں۔

پروگرام کے اختتام میں خوشی خوشی ایک ہاتھ میں سرٹیفکیٹ اور دوسرے  ہاتھ میں لنچ کا ڈبہ لیےاپنی ساتھی بہن کے ساتھ گاڑی میں روانہ ہوگئے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں