سوچو ! سوچنا بے حد ضروری ہے

قرآن پا ک کی پہلی آیت میں جہاں علم و قلم کا ذکر ہے وہیں 750مقامات پر انسان کو غو ر و فکر اورتفکر کی دعوت دی گئی ہے اور اسے سوچ وفکر پر مائل کیا گیا ہے۔قرآن کی بے شمار آیات کائنات میں بکھری اللہ کی لاتعداد نشانیوں پر غورو فکر کی ہمیں دعوت دیتی ہیں۔ قرآن کبھی ہماری توجہ ہواؤں کی تصریف و تصرف کی جانب مبذول کرواتا ہے تو کبھی سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش، دن رات اور موسم کی تبدیلیوں پر غوروفکر اور سوچنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔ قرآن میں کہیں نباتات کی روئیدگی اور اس کی مختلف منازل حیات کا ذکر ملتا ہے تو کہیں حیوانات کی تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائدکے متعلق غورو خوص کا تذکرہ دیکھنے میں آتاہے۔کہیں عالم آفاق میں واضح قدرت الہی کے شواہد کی جانب توجہ کی اپیل دیکھنے میں آتی ہے تو کہیں اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کی تلقین وتاکید بھی واضح انداز میں کی گئی ہے ۔الغرض قرآن کامعتدبہ حصہ انسان کو اپنے اندر و باہر کی دنیا میں سوچنے اورغورو فکر کرنے کی مسلسل دعوت دیتاہے ۔ یوں تو ہر کوئی سوچنے اور غور وفکر کی اہمیت سے واقف ہے لیکن ایسے کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں غور و فکر کرناجانتے ہیں اور اسے مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ایک مشہور فلسفی کے شہرۂ آفاق قول کی روشنی میں ہم سوچ اور شخصیت کے درمیان پائے جانے والے اٹوٹ رشتے کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ’’چونکہ میں سوچ سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔‘‘ سوچنے کی صلاحیت انسان میں ودیعت کردی گئی ہے۔ انسان میں دماغ کا پایا جانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے غورو فکر کی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے۔ خالق کائنات کا انسان کو غورو فکر کی صلاحیت سے سرفراز کرنا خود اس بات کا اعلان ہے کہ وہ تحقیق اور جانچ و پرکھ کی راہ پر گامزن رہے۔ لیکن لوگوں نے غور و فکر اور تحقیق اور تدبر کو خاص لوگوں سے وابستہ کرکے خود کو غوروفکر اور تدبر سے آزاد کر لیا ہے۔یہ ایک غلط رجحان ہے۔ جب اللہ نے ہر آدمی کو غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت سے سرفراز فرمایا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کو مناسب طریقے سے بروئے کار لائیں۔
ہمارا نظامِ تعلیم ذہن کی جن چند خاص صلاحیتوں کو نکھارنے اور بروئے کار لانے پر اپنی تمام توجہ صرف کرنے پر اکتفا کیئے ہوئے ہے جس میں حافظے اور یاداشت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حافظے اور یاداشت کی اہمیت سے کوئی سرموئے انحراف نہیں کرسکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف حافظے اور یاداشت کو ہی اہمیت دی جائے اور دیگر ذہنی صلاحیتوں کو یکسر نظرانداز کردیا جائے۔اس صورت حال کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔جب تک طلبہ کو باقاعدگی سے سوچنے اور غوروفکر سکھانے کا اہتمام نہیں کیا جائے گا تب تک بچوں میں اس صلاحیت کے ابھرنے ،نکھرنے اور پروان چڑھنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایسی امیدیں بہت کم ہی حقیقت میں ڈھلتی ہیں۔سوچنے اور غوروفکر سکھانے کے باقاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ پہلے خود یہ سمجھنے کی کوشش کر یں کہ سوچنا کیا ہے ؟یہ کس طرح انجام پاتا ہے اور اسے کس طرح بہتر بنا یا جاسکتا ہے؟یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ انسانی ذہن خیالات کی آماجگاہ ہے اس میں ہر پل نت نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔نظام کائنات میں بکھری اطلاعات و معلومات خیالات کی صورت میں انسان کے ذہنی اسکرین پر نشر ہوتی رہتی ہے۔ خیالات کو وصول کرنے اور انہیں معنی و مفہوم فراہم کرنے میں فطرت نے انسان کو آزاد رکھا ہے۔آدمی موصول شدہ خیالات کو جس زاویہ نظر سے دیکھتا ہے وہ اس کا طرز فکر کہلاتا ہے۔اگر طرز فکر میں ہمدردی ،ایثار و قربانی کا رنگ پائے جاے تو آدمی اپنے ہر خیال کو مثبت اور تعمیری انداز میں لیتا ہے اگر طرز فکر منفی ،خودغرضی اور لالچ کے زیر اثر ہو تب وہ ہر خیال کو منفی انداز میں اپنائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے ان کا مشن انسان کو وحدانیت،صلہ رحمی،ہمدردی،ایثار و قربانی ،محبت اور بھائی چارے کی خوبیوں سے متصف کرنا تھا۔انسان جب یہ خوبیوں سے متصف ہوجاتا ہے تب اس کی فکر تعمیری ہوجاتی ہے اور تعمیر کے خوگر انسان کسی بھی قسم کی تخریبی فکر و سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں۔معلمی چونکہ ایک انبیائی مشن ہے اس لئے ضرور ی ہے کہ اساتذہ طلبہ کو مثبت اورتعمیری انداز میں سوچنے اور غورو فکر کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔اس مضمون میں طلبہ میں سوچنے اور غوروفکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے والے عناصر و عوامل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے تعلیمی محقق جان گڈلاڈ(John Goodlad) کی تحقیق کے مطابق ایک بڑی تشویشناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ اساتذہ کمرۂ جماعت کے اپنے معلنہ وقت میں ایک فیصد وقت بھی بچوں کو غور وفکر اور توجیہ واستدلا ل پر مائل کرنے پر صرف نہیں کررہے ہیں۔اکثر اساتذہ بچوں کی یاداشت سے چند معلومات کے اعادہ یا باز آوری کو ہی درس و تدریس اور اخذ واکتساب سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کمرۂ جماعت میں صرف سیکھی ہوئی باتوں او رمعلومات کو رواجی و روایتی انداز میں اگلانے کے عمل سے بچے غو ر و خوص اورفکرو تدبرسے دورہوتے جار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ حقیقت میں ہمارے کلاس رومس میں بچوں کو سرے سے سوچنایاغورو فکرکرنا سکھایا ہی نہیں جارہا ہے اور نہ ہی اس صلاحیت کو پروان چڑھانے والے اقدامات و تدابیر اساتذہ سر انجام دے رہے ہیں۔واضح طور پر اساتذہ کو احساس ہونا چاہئے کہ صرف نصابی مہارتوں جیسے اچھاپڑھنے کے طریقے جان لینے،حقائق کو یادکرنے،مظاہرہ کردہ تجربات دہرانے،متن پڑھنے اور لکھنے سے بچوں میں غور و فکر اور تدبر کی تربیت کی انجام دہی قطعی نا ممکن ہے۔کلاس روم میں اکتسابی سرگرمیوں کے دوران اگر طلبہ کو سوچنے اور غور و فکر کرنے کی مہارت سکھادی جائے تو یہ معلومات کاحصول اور اس پر عمل آوری میں مددگار ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے معلومات ا ور اشیاء کو استدلالی(منطقی) انداز میں تنقید و تجزیہ کی کسوٹی پر پرکھنے لگتے ہیں ۔سوچنے کی صلاحیت سے بچے اپنے تخیل کو تخلیقی روپ میں ڈھال دیتے ہیں۔فروغ تعلیم کے لئے کوشاں اساتذہ کمرۂ جماعت میں غور و فکر کا ماحول پیدا کرتے ہوئے طلبہ کو سوچنے اور غو ر و فکر کا سلیقہ و طریقہ سکھائیں اور غور و فکر کو پروان چڑھانے میں معاون وسائل و مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ایک اچھے اور بہتر مفکر و مدبر بن سکیں۔اساتذہ تدریجاً تمام مناسب و موزوں مواقع کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ میں از خود غور و فکر کرنے اور سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں۔
جدیدتحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طلبہ میں بہتر غور و فکر ( سوچنے )کی عادت فطری طور پر فرو غ نہیں پاتی ہے ۔انہیں ترغیب و تحریک کے ذریعہ بتدریج غور و فکر کا عادی بنا یا جاسکتا ہے۔یہ بات میں یہاں بیان کرنا بے حد ضروری سمجھتا ہوں کہ کمرۂ جماعت میں روز مرہ کی تدریس کے دوران مناسب منصوبہ بندی،توجہ اور نتیجہخیز طریقہ ہائے تدریس کے ذریعے اساتذہ بچوں میں غور و فکر کی صلاحیت کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں وقوع پذیر حالات کو مناسب انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ایسے سوالات ، اکتسابی ذمہ داریاں اور تعلیمی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں جو انہیں غور وفکر پر مائل کرسکے۔ تعلیمی سرگرمیوں اور اسباق پر مبنی سوالات کے روایتی اور مروجہ سکہ بند جوابات دینے سے طلبہ کو باز رکھیں۔ حقائق و واقعات کو نئے زاویہ سے دیکھنے اورسوچنے کی تاکید و تلقین سے طلبہ میں غورو فکر کی صلاحیت فروغ پانے کے علاوہ انہماک ، توجہ اور بہتر تفہیم کی صلاحیت بھی از خو د پروان چڑھنے لگتی ہیں اور ان کے ذہن میں نئے نظریات سر ابھار نے لگتے ہیں۔اساتذہ روایتی طریقہ تدریس پر ہر گزاکتفاء نہ کریں اور یا د رکھیں کہ آج کا دور مسابقت ،جدیدیت اور سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے اور آئے دن زندگی کے ہر شعبے میں تیز رفتار تبدیلیاں وقوع پذیر ہیں اگر اساتذہ طلبہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تب ان کی تدریس و تعلیم بے رنگ و بے مقصد ہوکر رہ جائے گی۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں اختراعی تدریسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کو تخلیقی و اختراعی انداز میں غوروخوص اور فکر و تدبر کے قابل بنائیں۔سوچنے کی اضافی مشقوں سے طلبہ میں غورو فکر کی عادت پروان چڑھتی ہے۔حاصل کردہ علم و معلومات پر گہرائی و گیرائی سے غورو فکر کے عادی ہوجاتے ہیں اس کے علا وہ گہرے دھیان کی عادتطلبہ میں تخلیقی تخیلات اور اختراعی نظریات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل کوناقدانہ انداز میں حل کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔تمام تدریسی و اکتسابی مہارتوں کے فروغ کے لئے مشق بے حد ضروری ہے تاکہیہ عادتیں طلبہ کی زندگی کا جزو لاینفک بن جائے اور وہ ایک مطمین اور اور آسودہ زندگی بسر کرسکیں۔
دماغ میں محٖفوظ کردہ معلومات کی توضیع و تشریح کے معیار کا راست تعلق غوروفکر اورسوچنے کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔دماغ کا بالائی حصہ(Frontal Lobe)سوچنے،غوروفکر اور تجزیہ کا اہم مرکز ہوتا ہے۔دماغ کے اس حصہ کو لگاتار سوچنے ،غوروفکر اور توجیہ و تعلیل سے متحرک رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دماغ اپنی یاداشت میں معلومات کو الفاظ،تصاویر،خیالات،رجحانات اور حقائق وغیرہ کئی شکلوں میں ذخیرہ کرتا ہے۔جب آدمی سوچتا ہے تو دماغ کو ان اشیاء،خیالات، واقعات،تصاویر،رجحانات اور حقائق کو تلاش کرنے ان کا تقابل و تجزیہ کرتے ہوئے ذخیرہ شدہ معلومات کو مربوط کرنے کا حکم دیتا ہے۔سوچنے کے عمل کے دوران نئی معلومات پیدا ہوتی ہیں۔ توضیع و تشریخ کردہ معلومات سے پیدا شدہ خیالات کا تعلق دماغ کو فراہم کردہ سرگرمیوں کی مقدار اور قوت فکر پر منحصر ہوتاہے۔دماغ کے معلومات پر عمل آوری(Information Processing) کی صلاحیت کو ادراکی صلاحیت (Cognition capacity)کہاجاتا ہے۔ مواد کی تیز یافت بازیابی کے لئے معلومات کو دماغ میں منظم اور معنی خیز انداز میں ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔سوچنے اور غورو فکر سے دماغ میں جمع کردہ معلومات و مواد کے درمیان بہتر رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ مختلف دماغی سرگرمیوں توجیہ و استدلال اورغوروفکر کے ذریعے دماغی زرخیزیت و صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
سوچ کے مختلف مرحلے
تخیل (Mental Manipulation) و استدلال (Mental Exploration) ذہنی عمل ہے جس کا راست تعلق سوچ اور غورو فکر سے پیوست ہوتا ہے۔1976کی بلوم کی تقسیم(Bloom’s Taxonomy) کے مطابق غورو فکر اور سو چنے کی مہارت چھ مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اساتذہ کی ان چھ مراحل سے واقفیت و آگہی جہاں انہیں ایک بہتر مفکر بناتی ہے وہیں طلبہ میں سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور عام و سادہ واقعات کو بھی مختلف اندازہ سے سوچنے کی صلاحیت سے لیس کردیتی ہے۔ جب یہ چھمتذکرہ مہارتیں دانشمندانہ انداز سے اکتسابی مطالبات (Learning Challenges)سے مربوط کر دی جاتی ہے تب یہ اہم دانشوارانہ آلات(Intellectual Tools)کا کام انجام دیتی ہیں۔
(1)پہلا مرحلہ ،علم(knowledge)؛۔یہ مرحلہ معلومات کی حقیقی بازیافت(Factual Recall)پر مشتمل ہوتا ہے۔اس مرحلے میں یاد کیئے ہوئے یا ذخیرہ کردہ مواد کی بازیافت انجام پاتی ہے۔بازیافت یا یاداشت کی جانچ پر مبنی سوالات سے غورو فکر اور سوچنے کے اس مرحلے کو تحریک حاصل ہوتی ہے۔
(2)دوسرا مرحلہ سمجھ،فہم یا ادراک (Comprehension)؛۔طلبہ جب کسی خاص فکر و خیال کی وضاحت کرتے ہیں تب یہ فکری مرحلہ برسرکار ہوتا ہے سمجھاو، وضاحت کرو،فرق کرو اور درجہ بندی کر و وغیرہ جیسے سوالات سمجھ ،فہم و ادراکی مرحلہء فکر (Comprehension)کے فروغ میں معاون ہوتے ہیں۔
(3)تیسرا مرحلہ اطلاق(Application)؛۔طلبہ کو جب چند کلیات،ضابطوں ،اصولوں،رجحانات، کسی ایک نئے نکتہ نظر سے کسی کلیے ،رجحان یا اصول کی تعمیم(Generalisation)کے اظہار کے لئے سوالات کیئے جاتے ہیں تب اطلاقی مرحلہ فکر مہمیز ہوتاہے۔معلومات کے اطلاق پر مبنی سوالات و مواقع غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہیں اور معلومات و علم کی پختگی میں بھی اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
(4)چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)؛۔جب طلبہ کوچیزوں کے درمیان مماثلت،رشتے اورفرق کا پتا لگا کر ان کا تجزیہ کرنے کو کہاجاتا ہے تب غورو فکر اور سوچ کا چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)فعال ہوجاتا ہے۔یہ مرحلہ چونکہ عمدہ دانشوری اور بہترین معلومات پر مبنی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ پایے کی غورو فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
(5)پانچواں مرحلہ ترکیب /آمیزش(Synthesis)؛۔اس میں مرحلے میں سوچ و فکر کا اعلیٰ مظاہر ہ دیکھنے میں آتا ہے۔یہ مرحلہ سنجیدہ فکراور اعلیٰ ذہانت پر مشتمل ہوتا ہے جہاں طلبہ اپنے حافظے میں محفوظ خیالات اور حاصل کردہ معلومات ،نظریات و رجحانات کو مجتمع کرتے ہوئے نئے نتائج اخذ کرنے اور نئے خیالات ونمونوں کی ترکیب و آمیزش میں مصروف رہتے ہیں۔غوروفکر اور سوچ کا یہ مرحلہ نہایت تخیلاتی اور کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔
(6) چھٹواں مرحلہ تعین قدر،تشخیص(Evaluation)؛۔اس مرحلہ غورو فکر میں طلبہ سے قابل قدر فیصلے صادر ہوتے ہیں۔فکرانگیزتجزیہ،موثر تعین و تشخیص(Effective Assessment)،موازنہ و برعکس(Compare and Contrast)سوچ طلبہ کواہم تنائج اخذ کرنے کے قابل بناتی ہے۔متذکرہ مواقع و حالات کی فراہمی کو تعلیمی عمل میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بہتر طریقے سے سوچنے کی حوصلہ افزائی کریں؛۔
طلبہ کے سیکھنے (اکتساب)کی پیشرفت میں سوچ اور غورو فکر کا عنصر سب سے نمایاں کردار اداکرتاہے ۔ اساتذہ بچوں کوایسے وسائل و مواقع فراہمکریں جو ان کی سوچ اور غورو فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں معاون و مددگار ہوں۔ آزادانہ غورو فکر کے لئے اساتذہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ طلبہ کومثبت غوروفکر کاعادی بنائیں تاکہ وہ اکتسابی عمل کو پورے جوش و خروش اور جذبے سے تمام عمر انجام دے سکیں۔ اچھی اور کارآمد عادات کی سعی و کاوش پر تعریف و توصیفکے ذریعے ، تخلیقی صلاحیتوں ، قو ت تخیل کی برقراری کو یقینی بناتے ہوئے اور مثبت و ساز گار ماحول کی فراہمی کے ذریعے اساتذہ بچوں میں آزادانہ سوچ اورغورو فکر کی عادت کو پروان چڑھانے میں کامیاب حاصل کرسکتے ہیں۔مختلف حالات میں تاثرات کی عکاسی کرنے والے متنوع متعدد سوالات کے ذریعے بھی سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ طلبہ کوازخود تفکر کی عادت سے متصف کریں تاکہ وہ موقع ومحل کے مطابق کامیاب طریقے سے مطالب و معنی کو اخذکرسکیں۔اساتذہ اپنی متحرک و موثر تدریس کے ذریعے نوخیز ذہنوں کو عقل و دانش اور تفکر کی ایسی سطحوں پر لے جاتے ہیں جہاں وہ خود کو آزدانہ طور پر غور وفکر اور سوچنے کی متحمل پاتے ہیں۔طلبہ کو ایسے حالات سے دوچار کریں کہ غوروفکر کے علاوہ ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہو اور سوچنا ان کے لئے اشد ضروری ہوجائے۔طلبہ سے ان کے اسکول کی تقریبات وپروگراموں کی منصوبہ بندی ، مختلف سرگرمیوں کے انعقاد ،نظم و ضبط کی برقراری میں معاون تدابیر تعلیمی ،تفریحی ،کھیل کود کی سرگرمیوں اور دیگر انتظامی و تنظیمی امور پر تبادلہ خیال کے ذریعے ازخود تفکر اور غورو خوص کی عادت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ غور وفکر کے مادے کو مہمیز کرنے میں معاون چند سوالات باقاعدگی سے طلبہ کو تفویض کریں۔ اساتذہ طلبہ کی گفتگو کو موثربنانے کے لئے ان کی زبان دانی پر توجہ مرکوز کریں۔سماجی تعامل(میل ملاپ) اور معلومات کا ذخیرہ عمدہ سوچ اور غوروفکر کے اہم باب(دروازے) کہلاتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کو غورو فکر اور سوچنے پر مائل کرنے کے لئے کمرۂ جماعت میں منظم اور محتاط طریقے سے تبادلہ خیال کا اہتمام کریں۔مختلف عقائد ،نظریات و ثقافت کے حامل افراد سے بچو ں کو متعارف کروائیں تاکہ ان سے میل میلاپ اور ارتباط کے وجہ سے سوچنے اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو بال و پر حاصل ہوسکے۔بچوں کو مطالعہ کتب پر مائل کریں اور مطالعہ کردہ کتابوں کے خاص مواد پر اپنے تجزیاتی،ناقدانہ اور تخلیقی آرا پیش کرنے کو کہیں ۔یہ سرگرمیاں سوچنے کی مہارتوں کو فروغ دینے میں بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ (جاری ہے)

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں