قرآن پا ک کی پہلی آیت میں جہاں علم و قلم کا ذکر ہے وہیں 750مقامات پر انسان کو غو ر و فکر اورتفکر کی دعوت دی گئی ہے اور اسے سوچ وفکر پر مائل کیا گیا ہے۔قرآن کی بے شمار آیات کائنات میں بکھری اللہ کی لاتعداد نشانیوں پر غورو فکر کی ہمیں دعوت دیتی ہیں۔ قرآن کبھی ہماری توجہ ہواؤں کی تصریف و تصرف کی جانب مبذول کرواتا ہے تو کبھی سورج ،چاند ،ستاروں کی گردش، دن رات اور موسم کی تبدیلیوں پر غوروفکر اور سوچنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔ قرآن میں کہیں نباتات کی روئیدگی اور اس کی مختلف منازل حیات کا ذکر ملتا ہے تو کہیں حیوانات کی تخلیق اور ان سے حاصل ہونے والے فوائدکے متعلق غورو خوص کا تذکرہ دیکھنے میں آتاہے۔کہیں عالم آفاق میں واضح قدرت الہی کے شواہد کی جانب توجہ کی اپیل دیکھنے میں آتی ہے تو کہیں اپنے اندر کی دنیا میں جھانکنے کی تلقین وتاکید بھی واضح انداز میں کی گئی ہے ۔الغرض قرآن کامعتدبہ حصہ انسان کو اپنے اندر و باہر کی دنیا میں سوچنے اورغورو فکر کرنے کی مسلسل دعوت دیتاہے ۔ یوں تو ہر کوئی سوچنے اور غور وفکر کی اہمیت سے واقف ہے لیکن ایسے کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں غور و فکر کرناجانتے ہیں اور اسے مناسب طور پر بروئے کار بھی لاتے ہیں۔ ایک مشہور فلسفی کے شہرۂ آفاق قول کی روشنی میں ہم سوچ اور شخصیت کے درمیان پائے جانے والے اٹوٹ رشتے کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ’’چونکہ میں سوچ سکتا ہوں اس لئے میں ہوں۔‘‘ سوچنے کی صلاحیت انسان میں ودیعت کردی گئی ہے۔ انسان میں دماغ کا پایا جانا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسے غورو فکر کی صلاحیت سے متصف کیا گیا ہے۔ خالق کائنات کا انسان کو غورو فکر کی صلاحیت سے سرفراز کرنا خود اس بات کا اعلان ہے کہ وہ تحقیق اور جانچ و پرکھ کی راہ پر گامزن رہے۔ لیکن لوگوں نے غور و فکر اور تحقیق اور تدبر کو خاص لوگوں سے وابستہ کرکے خود کو غوروفکر اور تدبر سے آزاد کر لیا ہے۔یہ ایک غلط رجحان ہے۔ جب اللہ نے ہر آدمی کو غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت سے سرفراز فرمایا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر اس کو مناسب طریقے سے بروئے کار لائیں۔
ہمارا نظامِ تعلیم ذہن کی جن چند خاص صلاحیتوں کو نکھارنے اور بروئے کار لانے پر اپنی تمام توجہ صرف کرنے پر اکتفا کیئے ہوئے ہے جس میں حافظے اور یاداشت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حافظے اور یاداشت کی اہمیت سے کوئی سرموئے انحراف نہیں کرسکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف حافظے اور یاداشت کو ہی اہمیت دی جائے اور دیگر ذہنی صلاحیتوں کو یکسر نظرانداز کردیا جائے۔اس صورت حال کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔جب تک طلبہ کو باقاعدگی سے سوچنے اور غوروفکر سکھانے کا اہتمام نہیں کیا جائے گا تب تک بچوں میں اس صلاحیت کے ابھرنے ،نکھرنے اور پروان چڑھنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن ایسی امیدیں بہت کم ہی حقیقت میں ڈھلتی ہیں۔سوچنے اور غوروفکر سکھانے کے باقاعدہ اہتمام کے لئے ضروری ہے کہ اساتذہ پہلے خود یہ سمجھنے کی کوشش کر یں کہ سوچنا کیا ہے ؟یہ کس طرح انجام پاتا ہے اور اسے کس طرح بہتر بنا یا جاسکتا ہے؟یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ انسانی ذہن خیالات کی آماجگاہ ہے اس میں ہر پل نت نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔نظام کائنات میں بکھری اطلاعات و معلومات خیالات کی صورت میں انسان کے ذہنی اسکرین پر نشر ہوتی رہتی ہے۔ خیالات کو وصول کرنے اور انہیں معنی و مفہوم فراہم کرنے میں فطرت نے انسان کو آزاد رکھا ہے۔آدمی موصول شدہ خیالات کو جس زاویہ نظر سے دیکھتا ہے وہ اس کا طرز فکر کہلاتا ہے۔اگر طرز فکر میں ہمدردی ،ایثار و قربانی کا رنگ پائے جاے تو آدمی اپنے ہر خیال کو مثبت اور تعمیری انداز میں لیتا ہے اگر طرز فکر منفی ،خودغرضی اور لالچ کے زیر اثر ہو تب وہ ہر خیال کو منفی انداز میں اپنائے گا۔اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے ان کا مشن انسان کو وحدانیت،صلہ رحمی،ہمدردی،ایثار و قربانی ،محبت اور بھائی چارے کی خوبیوں سے متصف کرنا تھا۔انسان جب یہ خوبیوں سے متصف ہوجاتا ہے تب اس کی فکر تعمیری ہوجاتی ہے اور تعمیر کے خوگر انسان کسی بھی قسم کی تخریبی فکر و سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں۔معلمی چونکہ ایک انبیائی مشن ہے اس لئے ضرور ی ہے کہ اساتذہ طلبہ کو مثبت اورتعمیری انداز میں سوچنے اور غورو فکر کرنے کی تربیت کا اہتمام کریں۔اس مضمون میں طلبہ میں سوچنے اور غوروفکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے والے عناصر و عوامل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے تعلیمی محقق جان گڈلاڈ(John Goodlad) کی تحقیق کے مطابق ایک بڑی تشویشناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ اساتذہ کمرۂ جماعت کے اپنے معلنہ وقت میں ایک فیصد وقت بھی بچوں کو غور وفکر اور توجیہ واستدلا ل پر مائل کرنے پر صرف نہیں کررہے ہیں۔اکثر اساتذہ بچوں کی یاداشت سے چند معلومات کے اعادہ یا باز آوری کو ہی درس و تدریس اور اخذ واکتساب سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کمرۂ جماعت میں صرف سیکھی ہوئی باتوں او رمعلومات کو رواجی و روایتی انداز میں اگلانے کے عمل سے بچے غو ر و خوص اورفکرو تدبرسے دورہوتے جار رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ حقیقت میں ہمارے کلاس رومس میں بچوں کو سرے سے سوچنایاغورو فکرکرنا سکھایا ہی نہیں جارہا ہے اور نہ ہی اس صلاحیت کو پروان چڑھانے والے اقدامات و تدابیر اساتذہ سر انجام دے رہے ہیں۔واضح طور پر اساتذہ کو احساس ہونا چاہئے کہ صرف نصابی مہارتوں جیسے اچھاپڑھنے کے طریقے جان لینے،حقائق کو یادکرنے،مظاہرہ کردہ تجربات دہرانے،متن پڑھنے اور لکھنے سے بچوں میں غور و فکر اور تدبر کی تربیت کی انجام دہی قطعی نا ممکن ہے۔کلاس روم میں اکتسابی سرگرمیوں کے دوران اگر طلبہ کو سوچنے اور غور و فکر کرنے کی مہارت سکھادی جائے تو یہ معلومات کاحصول اور اس پر عمل آوری میں مددگار ثابت ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے معلومات ا ور اشیاء کو استدلالی(منطقی) انداز میں تنقید و تجزیہ کی کسوٹی پر پرکھنے لگتے ہیں ۔سوچنے کی صلاحیت سے بچے اپنے تخیل کو تخلیقی روپ میں ڈھال دیتے ہیں۔فروغ تعلیم کے لئے کوشاں اساتذہ کمرۂ جماعت میں غور و فکر کا ماحول پیدا کرتے ہوئے طلبہ کو سوچنے اور غو ر و فکر کا سلیقہ و طریقہ سکھائیں اور غور و فکر کو پروان چڑھانے میں معاون وسائل و مواقع فراہم کریں تاکہ وہ ایک اچھے اور بہتر مفکر و مدبر بن سکیں۔اساتذہ تدریجاً تمام مناسب و موزوں مواقع کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ میں از خود غور و فکر کرنے اور سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھائیں۔
جدیدتحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طلبہ میں بہتر غور و فکر ( سوچنے )کی عادت فطری طور پر فرو غ نہیں پاتی ہے ۔انہیں ترغیب و تحریک کے ذریعہ بتدریج غور و فکر کا عادی بنا یا جاسکتا ہے۔یہ بات میں یہاں بیان کرنا بے حد ضروری سمجھتا ہوں کہ کمرۂ جماعت میں روز مرہ کی تدریس کے دوران مناسب منصوبہ بندی،توجہ اور نتیجہخیز طریقہ ہائے تدریس کے ذریعے اساتذہ بچوں میں غور و فکر کی صلاحیت کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں وقوع پذیر حالات کو مناسب انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ایسے سوالات ، اکتسابی ذمہ داریاں اور تعلیمی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں جو انہیں غور وفکر پر مائل کرسکے۔ تعلیمی سرگرمیوں اور اسباق پر مبنی سوالات کے روایتی اور مروجہ سکہ بند جوابات دینے سے طلبہ کو باز رکھیں۔ حقائق و واقعات کو نئے زاویہ سے دیکھنے اورسوچنے کی تاکید و تلقین سے طلبہ میں غورو فکر کی صلاحیت فروغ پانے کے علاوہ انہماک ، توجہ اور بہتر تفہیم کی صلاحیت بھی از خو د پروان چڑھنے لگتی ہیں اور ان کے ذہن میں نئے نظریات سر ابھار نے لگتے ہیں۔اساتذہ روایتی طریقہ تدریس پر ہر گزاکتفاء نہ کریں اور یا د رکھیں کہ آج کا دور مسابقت ،جدیدیت اور سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے اور آئے دن زندگی کے ہر شعبے میں تیز رفتار تبدیلیاں وقوع پذیر ہیں اگر اساتذہ طلبہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کریں گے تب ان کی تدریس و تعلیم بے رنگ و بے مقصد ہوکر رہ جائے گی۔ اساتذہ کمرۂ جماعت میں اختراعی تدریسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کو تخلیقی و اختراعی انداز میں غوروخوص اور فکر و تدبر کے قابل بنائیں۔سوچنے کی اضافی مشقوں سے طلبہ میں غورو فکر کی عادت پروان چڑھتی ہے۔حاصل کردہ علم و معلومات پر گہرائی و گیرائی سے غورو فکر کے عادی ہوجاتے ہیں اس کے علا وہ گہرے دھیان کی عادتطلبہ میں تخلیقی تخیلات اور اختراعی نظریات کی پیدائش کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل کوناقدانہ انداز میں حل کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔تمام تدریسی و اکتسابی مہارتوں کے فروغ کے لئے مشق بے حد ضروری ہے تاکہیہ عادتیں طلبہ کی زندگی کا جزو لاینفک بن جائے اور وہ ایک مطمین اور اور آسودہ زندگی بسر کرسکیں۔
دماغ میں محٖفوظ کردہ معلومات کی توضیع و تشریح کے معیار کا راست تعلق غوروفکر اورسوچنے کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔دماغ کا بالائی حصہ(Frontal Lobe)سوچنے،غوروفکر اور تجزیہ کا اہم مرکز ہوتا ہے۔دماغ کے اس حصہ کو لگاتار سوچنے ،غوروفکر اور توجیہ و تعلیل سے متحرک رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔دماغ اپنی یاداشت میں معلومات کو الفاظ،تصاویر،خیالات،رجحانات اور حقائق وغیرہ کئی شکلوں میں ذخیرہ کرتا ہے۔جب آدمی سوچتا ہے تو دماغ کو ان اشیاء،خیالات، واقعات،تصاویر،رجحانات اور حقائق کو تلاش کرنے ان کا تقابل و تجزیہ کرتے ہوئے ذخیرہ شدہ معلومات کو مربوط کرنے کا حکم دیتا ہے۔سوچنے کے عمل کے دوران نئی معلومات پیدا ہوتی ہیں۔ توضیع و تشریخ کردہ معلومات سے پیدا شدہ خیالات کا تعلق دماغ کو فراہم کردہ سرگرمیوں کی مقدار اور قوت فکر پر منحصر ہوتاہے۔دماغ کے معلومات پر عمل آوری(Information Processing) کی صلاحیت کو ادراکی صلاحیت (Cognition capacity)کہاجاتا ہے۔ مواد کی تیز یافت بازیابی کے لئے معلومات کو دماغ میں منظم اور معنی خیز انداز میں ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔سوچنے اور غورو فکر سے دماغ میں جمع کردہ معلومات و مواد کے درمیان بہتر رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ مختلف دماغی سرگرمیوں توجیہ و استدلال اورغوروفکر کے ذریعے دماغی زرخیزیت و صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
سوچ کے مختلف مرحلے
تخیل (Mental Manipulation) و استدلال (Mental Exploration) ذہنی عمل ہے جس کا راست تعلق سوچ اور غورو فکر سے پیوست ہوتا ہے۔1976کی بلوم کی تقسیم(Bloom’s Taxonomy) کے مطابق غورو فکر اور سو چنے کی مہارت چھ مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اساتذہ کی ان چھ مراحل سے واقفیت و آگہی جہاں انہیں ایک بہتر مفکر بناتی ہے وہیں طلبہ میں سوچنے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور عام و سادہ واقعات کو بھی مختلف اندازہ سے سوچنے کی صلاحیت سے لیس کردیتی ہے۔ جب یہ چھمتذکرہ مہارتیں دانشمندانہ انداز سے اکتسابی مطالبات (Learning Challenges)سے مربوط کر دی جاتی ہے تب یہ اہم دانشوارانہ آلات(Intellectual Tools)کا کام انجام دیتی ہیں۔
(1)پہلا مرحلہ ،علم(knowledge)؛۔یہ مرحلہ معلومات کی حقیقی بازیافت(Factual Recall)پر مشتمل ہوتا ہے۔اس مرحلے میں یاد کیئے ہوئے یا ذخیرہ کردہ مواد کی بازیافت انجام پاتی ہے۔بازیافت یا یاداشت کی جانچ پر مبنی سوالات سے غورو فکر اور سوچنے کے اس مرحلے کو تحریک حاصل ہوتی ہے۔
(2)دوسرا مرحلہ سمجھ،فہم یا ادراک (Comprehension)؛۔طلبہ جب کسی خاص فکر و خیال کی وضاحت کرتے ہیں تب یہ فکری مرحلہ برسرکار ہوتا ہے سمجھاو، وضاحت کرو،فرق کرو اور درجہ بندی کر و وغیرہ جیسے سوالات سمجھ ،فہم و ادراکی مرحلہء فکر (Comprehension)کے فروغ میں معاون ہوتے ہیں۔
(3)تیسرا مرحلہ اطلاق(Application)؛۔طلبہ کو جب چند کلیات،ضابطوں ،اصولوں،رجحانات، کسی ایک نئے نکتہ نظر سے کسی کلیے ،رجحان یا اصول کی تعمیم(Generalisation)کے اظہار کے لئے سوالات کیئے جاتے ہیں تب اطلاقی مرحلہ فکر مہمیز ہوتاہے۔معلومات کے اطلاق پر مبنی سوالات و مواقع غوروفکر اور سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہیں اور معلومات و علم کی پختگی میں بھی اہم کردار انجام دیتے ہیں۔
(4)چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)؛۔جب طلبہ کوچیزوں کے درمیان مماثلت،رشتے اورفرق کا پتا لگا کر ان کا تجزیہ کرنے کو کہاجاتا ہے تب غورو فکر اور سوچ کا چوتھا مرحلہ تجزیہ(Analysis)فعال ہوجاتا ہے۔یہ مرحلہ چونکہ عمدہ دانشوری اور بہترین معلومات پر مبنی ہوتا ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ پایے کی غورو فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
(5)پانچواں مرحلہ ترکیب /آمیزش(Synthesis)؛۔اس میں مرحلے میں سوچ و فکر کا اعلیٰ مظاہر ہ دیکھنے میں آتا ہے۔یہ مرحلہ سنجیدہ فکراور اعلیٰ ذہانت پر مشتمل ہوتا ہے جہاں طلبہ اپنے حافظے میں محفوظ خیالات اور حاصل کردہ معلومات ،نظریات و رجحانات کو مجتمع کرتے ہوئے نئے نتائج اخذ کرنے اور نئے خیالات ونمونوں کی ترکیب و آمیزش میں مصروف رہتے ہیں۔غوروفکر اور سوچ کا یہ مرحلہ نہایت تخیلاتی اور کارآمد تصور کیا جاتا ہے۔
(6) چھٹواں مرحلہ تعین قدر،تشخیص(Evaluation)؛۔اس مرحلہ غورو فکر میں طلبہ سے قابل قدر فیصلے صادر ہوتے ہیں۔فکرانگیزتجزیہ،موثر تعین و تشخیص(Effective Assessment)،موازنہ و برعکس(Compare and Contrast)سوچ طلبہ کواہم تنائج اخذ کرنے کے قابل بناتی ہے۔متذکرہ مواقع و حالات کی فراہمی کو تعلیمی عمل میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بہتر طریقے سے سوچنے کی حوصلہ افزائی کریں؛۔
طلبہ کے سیکھنے (اکتساب)کی پیشرفت میں سوچ اور غورو فکر کا عنصر سب سے نمایاں کردار اداکرتاہے ۔ اساتذہ بچوں کوایسے وسائل و مواقع فراہمکریں جو ان کی سوچ اور غورو فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں معاون و مددگار ہوں۔ آزادانہ غورو فکر کے لئے اساتذہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ طلبہ کومثبت غوروفکر کاعادی بنائیں تاکہ وہ اکتسابی عمل کو پورے جوش و خروش اور جذبے سے تمام عمر انجام دے سکیں۔ اچھی اور کارآمد عادات کی سعی و کاوش پر تعریف و توصیفکے ذریعے ، تخلیقی صلاحیتوں ، قو ت تخیل کی برقراری کو یقینی بناتے ہوئے اور مثبت و ساز گار ماحول کی فراہمی کے ذریعے اساتذہ بچوں میں آزادانہ سوچ اورغورو فکر کی عادت کو پروان چڑھانے میں کامیاب حاصل کرسکتے ہیں۔مختلف حالات میں تاثرات کی عکاسی کرنے والے متنوع متعدد سوالات کے ذریعے بھی سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ طلبہ کوازخود تفکر کی عادت سے متصف کریں تاکہ وہ موقع ومحل کے مطابق کامیاب طریقے سے مطالب و معنی کو اخذکرسکیں۔اساتذہ اپنی متحرک و موثر تدریس کے ذریعے نوخیز ذہنوں کو عقل و دانش اور تفکر کی ایسی سطحوں پر لے جاتے ہیں جہاں وہ خود کو آزدانہ طور پر غور وفکر اور سوچنے کی متحمل پاتے ہیں۔طلبہ کو ایسے حالات سے دوچار کریں کہ غوروفکر کے علاوہ ان کے لئے کوئی چارہ نہ ہو اور سوچنا ان کے لئے اشد ضروری ہوجائے۔طلبہ سے ان کے اسکول کی تقریبات وپروگراموں کی منصوبہ بندی ، مختلف سرگرمیوں کے انعقاد ،نظم و ضبط کی برقراری میں معاون تدابیر تعلیمی ،تفریحی ،کھیل کود کی سرگرمیوں اور دیگر انتظامی و تنظیمی امور پر تبادلہ خیال کے ذریعے ازخود تفکر اور غورو خوص کی عادت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ غور وفکر کے مادے کو مہمیز کرنے میں معاون چند سوالات باقاعدگی سے طلبہ کو تفویض کریں۔ اساتذہ طلبہ کی گفتگو کو موثربنانے کے لئے ان کی زبان دانی پر توجہ مرکوز کریں۔سماجی تعامل(میل ملاپ) اور معلومات کا ذخیرہ عمدہ سوچ اور غوروفکر کے اہم باب(دروازے) کہلاتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ کو غورو فکر اور سوچنے پر مائل کرنے کے لئے کمرۂ جماعت میں منظم اور محتاط طریقے سے تبادلہ خیال کا اہتمام کریں۔مختلف عقائد ،نظریات و ثقافت کے حامل افراد سے بچو ں کو متعارف کروائیں تاکہ ان سے میل میلاپ اور ارتباط کے وجہ سے سوچنے اور غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو بال و پر حاصل ہوسکے۔بچوں کو مطالعہ کتب پر مائل کریں اور مطالعہ کردہ کتابوں کے خاص مواد پر اپنے تجزیاتی،ناقدانہ اور تخلیقی آرا پیش کرنے کو کہیں ۔یہ سرگرمیاں سوچنے کی مہارتوں کو فروغ دینے میں بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...