بیروزگاری اورحکومتی اقدامات

یوں تو وطن عزیز میں اتنے سارے مسائل ہیں کہ اگر روزانہ سب پر مرحلہ وار لکھا جائے توہزاروں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں ،کچھ ذاتی مصروفیت ہے ۔ان دنوں ہمارے سکول میں بچوں کے لیے سالانہ تقریب تقسیم انعامات ہونے جارہی ہے ۔جس میں وطن عزیز کی معروف ومشہور شخصیات تشریف لارہی ہیں۔آج ایک دوست سے ملاقات کے بعد بیروزگاری کے مسئلہ نے مجھے کافی پریشان کیا ہے ۔یقین جانیے موجودہ صورتحال پریشان کرنے والی بھی ہے ۔ہم ایسے سماج میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں ہرطرف مایوسی ناامیدی بڑھتی جارہی ہے ۔تبدیلی سرکار کی سمت مایوس کن جبکہ اپوزیشن کا کردار قابل تعریف نہیں ہے ۔لوگ آسانی کی تلاش میں ہیں مگر مسائل ان کا دامن سے چمٹتے جارہے ہیں ۔خواہشات کی نہ ختم ہونی والی پرتیں ہیں مگر انہیں پلٹنے کے لیے سرمایہ نہیں ہے ۔خوبصورت مردوزن روزگار کی تلاش میں اپنی جوانیاں ضائع کررہے ہیں۔سمال انڈسٹری کی رونا رونے والے بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔بھوک اورفاقہ کشی کی کش مکش میں لوگ ایڑیاں رگڑ رگر کر دم توڑ رہے ہیں اورصاحبان اقتدار ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے میں مصروف ہیں ۔
روزگار کے نام پر ہر ماہ سرکاری وغیرسرکاری نوٹیفیکشن جاری کیے جاتے ہیں ۔افسوس کے پیسے بٹورکر ملازمتیں منسوخ کردی جاتی ہیں ۔یا آٹھ دس نوکریوں کے لیے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں اورہزاروں لوگوں سے موصول ہونی والی فیس کو ہڑپ کرلیا جاتا ہے حتی کہ انٹرویو کے لیے آنے والے قو م کے نونہال سپوتوں کے لیے صاف پانی اور سائبان کا بھی بندوبست نہیں کیا جاتااس بے سرکاری بے حسی پر کیا کہاجائے ۔ روزگار کے مسئلے کو لے کر کتنے ہی نوجوانوں کو یہ کہہ کر حقارت سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ روزگار کے قابل نہیں ہیں اسی لئے بیروزگار ہیں۔ لیکن حقیقت میں بیروزگاری کی اصل وجوہات کیا ہیں اور سرمایہ داری میں یہ کس طرح نہ صرف یہ بڑھتی ہے بلکہ یہ موجودہ نظام کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے اس بات کو اپنی تحریروں میں نہ صرف عظیم انقلابی کارل مارکس اور اینگلز نے بہت اعلیٰ طریقے سے سمجھایا ہے ۔کسی اورموقع پر تفصیل لکھ چھوڑوں گا۔
دولت چندہاتھوں میں مرکوز ہوچکی ہے ۔معیشت پر سرمایادار لوگ قابض ہیں جو بے رحم صفات سے متصف ہیں ۔انسانیت کو تباہ وتار کرنے کے لیے نت نئے منصوبے تیارکرتے ہیں ۔ترقی پذیر ممالک پر قبضہ جمائے رکھنے کے لیے ان کی باہمی لڑائی کے سامان سے لے تباہی کے بعد والی کنسٹرکشن سبھی ان سورماؤں کی چال کا حصہ ہوتا ہے۔اس فلسفہ کو وہ لوگ کیا کیا جانیں جن کے مفادات بیرون ممالک میں موجود ہیں ۔سیاسی مافیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وطن عزیز کے 20سے 30لاکھ افراد ہرسال روزگار کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں مگربدقسمتی سے حکومت سالانہ 1لاکھ لوگوں کو بھی صحیح معنوں میں ایڈجسٹ نہیں کرپاتی ،سالہاسال کی اس حکومتی بے حسی کی وجہ سے آج صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ وطن عزیز کے تقریبا 94لاکھ افراد بے روزگاری کی منڈی میں داخل ہوچکے ہیں ۔حکومت اوراپوزیشن کرپشن ،کرپشن ،چور،چور کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔منصوبہ بندی کا نام نشان تک نہیں ہے ۔
سالانہ تقریبا 5سے 7لاکھ لوگ بیرون ملک مزدوری کرنے جاتے ہیں ،تقریبا 20فیصد مایوس ہوکر ناکام لوٹ آتے ہیں ،سعودی عرب کے حالیہ اقدامات سے پاکستانیوں کی شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔پاکستانی پاسپورٹ کی قدر دنیا میں 102ویں نمبرہے ۔اگر حقیقی بات کی جائے تو ہردوسر ا پاکستانی بے روزگار ہے ۔افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ وہ کام کرنے پر مجبور ہے جسے وہ ناپسند کرتاہے ۔مجبوری اورفاقہ کشی کی وجہ سے ناپسندیدہ کام کرنے پر مجبورہیں ۔اس جیسی متعدد مثالیں ایسی ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے ۔سیاسی مافیہ وطن عزیز کے لوگوں کی حالت سدھارنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔غربت، لاعلاجی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل کو تسلیم کرنے کے بجائے انہیں پچھلی حکومت کی نااہلی کا یا پھر ان کا بویا کاٹنے کا جواز فراہم کرتے ہیں، ایسے ہی بھاشنوں سے ہماری پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن نوجوانوں کو ہمیشہ رسوا اور مایوس رکھنے کی حکمرانوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آج پاکستان میں بیروزگاروں کی ایک ایسی فوج تیار ہوچکی ہے جو اپنے اوپر ہونے والی اس معاشی دہشتگردی کے خلاف لڑنے کو تیار ہے، سرمایہ داری کا اپنا پیدا کیا ہوا ہتھیار اب اسی کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔
موجودہ حکومت نوجوانوں کو ایک کروڑ روزگار کا نعرہ لے کر اقتدار میںآئی ہے مگر بدقسمتی سے پانچ ماہ گزرجانے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے ۔اگر پاکستان کی افرادی قوت کا تعلیمی معیار دیکھا جائے تو 70فیصد مردوزن پڑھے لکھے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ 29 فیصد کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے 100 میں سے 64 نوجوان شہروں میں آباد ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 24 سال کی عمر کے 10.8 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد ممالک کے ساتھ موازنہ کریں تو وطنِ عزیز میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے یہ شرح کچھ یوں ہے ؛ سنگار پور 1.8 فیصد بھوٹان 2.4 فیصد مالدیپ اور نیپال میں 3.2 فیصد بھارت 3.5 فیصد کوریا 3.7 فیصد بنگلہ دیش 4.1 فیصد چین 4.6 فیصد سری لنکا 5 فیصد ہے۔
وطن عزیز میں توپہلے ہی بیروزگاری کا قحط پڑا ہوتھا مگر موجودہ حکومت نے اس میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں میڈیا سے وابستہ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں ۔ہزاروں لوگوں کے گھر مسمار کردیے گئے ہیں ،ہزاروں کی دوکانیں مسمار کردی گئیں ہیں ۔بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ درست اقدام ہے لوگ سرکاری زمین پر قابض تھے ۔اب وہ بازیاب کروالی گئیں ہیں ،کیا یہ بہتر نہیں تھا پہلے منصوبہ بندی کی جاتی لوگوں کو متبادل روزگار فراہم کیا جاتا تاکہ ہزاروں چولہے ٹھنڈے نہ پڑتے مگر جذبات کی لہروں کے ساتھ بہنے والوں سے کیا کہا جائے اورکیا کہا جائے ان وزیران ومشیران سے جن کا مقصد صر ف کرپشن کرپشن کی رٹ لگانا ہے ۔ وطن عزیز میں اوربھی درد ہیں اس درد کے سوا گر صاحب اقتدار حوش کے ناخن لیں ۔
گزشتہ دوسال سے احتساب کاتماشا لگانے والوں نے وطن عزیز کا کیا بھلا کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جن کی سوچ اورفکر میں اخلاص ہوتا ہے ۔جہاں اپنے کردار پر کالے دھبے ہوں وہاں نصرت کی نوید نہیں آتی ۔احتساب کا آغاز گھر سے کیا جاتا تو اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر احتساب کا ارادہ کرلیا ہے پھر صحیح معنوں میں اسے سرانجا م دیا جائے ۔قومی خزانہ لوٹنے والوں اورقومی زمین ہتھیانے والوں کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے ۔ تاکہ آئندہ قومی خزانہ اورقومی زمین پر کوئی قبضہ کرنے کی جرت نہ کرسکے ۔بیروزگاری وطن عزیز کا بنیادی مسئلہ ہے اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں