نوجوانوں کو مواقع دیں

نوجوان نسل کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 63 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ہماری بدقستمی یہ ہے کہ وہ ملک جس کی آبادی کا آدھے سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے وہ دوسروں کے سامنے دستِ نگر ہے، ہم نہ صرف ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں بلکہ اسلامی ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔

بحیثیت ایک استاد یہ سوال ہمیشیہ میرے سامنے موجود رہتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کیا کررہے ہیں؟ ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرا کام اپنے طالب علموں کی رہنمائی کرنا ہے، ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرکے آنے والے وقتوں کے لیے ان کو معاشرے کا فعال رکن بنانا ہے، انسانیت کا سبق پڑھا کر انسانیت کی معراج سے متعارف کروانا ہے۔مگر ہمارے معاشرے کا المیہ اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں پر قفل لگائے ہوئے ہیں ہم نے اپنی آنکھوں پر ایسی عینک لگائی ہوئی ہے جس سے ہمیں صرف وہ لوگ کامیاب نظر آتے ہیں جو یا تو ڈاکٹر ہیں یا انجینیر ہیں۔ ہم اکیسیویں صدری میں پہنچ گئے مگر سوچ ہماری کہیں بہت پیچھے ہی رہ گئی ہے ۔ ہم بناء عقل و شعور کے اکیسویں صدی میں داخل ہونے والی قوم ہیں۔ہماری نوجوان نسل جو کہ آبادی کا 63 فیصد ہے تہلکہ مچاسکتی ہے، انقلاب برپا کرسکتی ہے، دنیا کو تہہ و بالا کرسکتی ہے مگر افسوس صدا افسوس کہ ہم نے ان کے ذہنوں اور سوچوں کو یر غمال بنا کر رکھا ہے ہم نے ان کے لاشعور میں یہ بات بہت اچھی طرح سے بیٹھا دی ہے کہ ڈاکٹر یا انجینیر ہی کامیابی کی علامت ہے۔

ہر بچہ کسی نہ کسی انفرادیت کے ساتھ جنم لیتا ہے اس کے اندر کوئی نہ کوئی خوبی پوشیدہ ہوتی ہے ، ہر بچہ تخلیقی طور  پر منفرد ہوتا ہے ۔ اس کے دماغ میں نت نئے اور اچھوتے خیالات ہوتے ہیں۔ کوئی بہت اچھا موسیقارہوتا ہے ، کوئی بہترین تیراک ہوتا ہے۔ کسی کے اندر فنون دستکاری کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کوئی بہت اچھا مصور بن سکتا ہے۔ ہر کوئی ذہن اور صلاحیت کے اعتبارسے مختلف ہوتا ہے۔مگر افسوس کے بچہ جو قدرتی صلاحیتیں لیکر دنیا میں آتا ہے اس پر معاشرہ ، والدین ، دوست احباب ، اساتذہ اپنی خواہشات اور مرضی کو مسلط کرکے اس سے قدرتی صلاحیتوں کو چھین لیتے ہیں۔ اور اسی اپنی دقیانوسی سوچ کے تحت ڈاکٹر یا انجینیر بننے پر اکساتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بسا اوقات وہ بچہ وہ نوجوان نہ تو اچھا انسان بن پاتا ہے نہ کامیاب ڈاکٹر و انجینیر۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں نوجوان نسل کو ان کی انفرادیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ہمارا ملک بھی زندگی کے تمام شعبہ جات میں ترقی کرسکے، ہماری نوجوان نسل نہ صرف جسمانی طور پر مضبوط اور مستحکم ہے بلکہ دماغی طور پر بھی بہت زرخیز ہے بس والدین کے مثبت رویے اور حکومت کی جانب سے مواقع ملنے کی دیر ہے یہ قوم دنیا کے نقشے پر اس طرح ابھرے گی کہ تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔

ایک عام شہری اس وقت ایک لاکھ 20 ہزار کا قرض دار صرف ان نااہل حکمرانوں اور ان کے عیاشیوں کی وجہ سے ہے۔ مستقبل کے معماروں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اس قوم کے لوگ چور ہیں اس کی مثال کولر میں زنجیر سے بندھا گلاس کا دیتے ہیں‘ لیکن اس قوم کے معماروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کولر کو بھی لگانے والا ایک عام انسان تھا اور اس نے یہ کام محض ثواب کے لیے کیا تھا۔ اس قوم کے بچوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو لوگ اس کا بٹوا تک چرا لیتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس قوم کے ہی وہ فرد ہوتے ہیں جو اس زخمی کو اسپتال لے پہنچاتے ہیں۔ اس قوم کے نوجوانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ مساجد سے ان کی چپلیں چوری ہوجاتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مساجد بھی کسی ایسے انسان نے تعمیر کی جو اپنے محدود اور لامحدود وسائل سے اس کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔ اس قوم کے سپوتوں کو یہ نہیں بتایا جاتا جب اس ملک میں زلزلہ آتا ہے تو قوم کا ہر فرد چاہے بوڑھا ہو یا بچہ، مرد ہو یا عورت اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی مددکے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں‘ اپنے بستر‘ کپڑے سب ان کے لیے حاضر کردیتے ہیں۔ وطن عزیز کے کسی بھی شہر میںدھماکا ہوتا ہے تو لوگ جوق در جوق ان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں‘ اسپتالوں میں خون کا عطیہ دینے والوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے نوجوان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری قوم سو رہی ہے‘ ہماری قوم مردہ اور بے حس ہے اورشاید یہ ہماری نااہلی ہے کہ نوجوان آج اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتے ۔

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

حصہ

جواب چھوڑ دیں