اپنے آپ کامحاسبہ کریں

مسلمانوں نے کم وبیش ایک ہزار سال تک برصغیر پر حکومت کی ہے، لیکن بدقسمتی سے بعض حکمرانوں کے معاملات، ان کے کردار، عیش و عشرت اور اسلام سے دوری کی وجہ سے انگریز سامراج نے ان سے حکومت کو چھین لیا، جس کی بدولت انگریزوں نے پورے برصغیر پرحکومت کر کے اپنے قوانین کو نافذ کیا اور اپنا راج جمالیااور قریباً سو سال تک ہندوستان کے باشندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھااوریہ دور غلامی کا بدترین دور تھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ برصغیر میں قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے 1906ء میں جب اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، تو آپ نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی، کچھ وقت گزرنے کے بعد جب قائداعظم رحمہ اللہ نے کانگریس کو یہ محسوس کر کے چھوڑدیا کہ اس میں تو صرف ہندوؤں کا مفاد ہے اور مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہے تو پھر آپ نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کانگریس کو خیرباد کہہدیا اورمسلمانوں کی ترجمان جماعت’’ مسلم لیگ‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی ، آپ نے’’ مسلم لیگ ‘‘میں شامل ہو کر اسے منظم کیا اور مسلمانوں کے ذہنوں میں اس فکرکو اُجاگر کر دیا کہ اب پاکستان کا مطالبہ کیا جائے، وہ اس وجہ سے کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں بلکہ دو قومیں بستی ہیں اورپھر قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے اس موقف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس بات کا برملااعلان کیا کہ ہندوستان کی تقسیم کی جائے ، آپ کے اس اعلان کے بعد پھرہندوؤں کی مسلمانوں کے ساتھ مخالفت شروع ہو گئی اور ساتھ ہی ہمارے قومی شاعرجنہیں شاعر مشرق سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے علامہ محمد اقبال بھی دو قومی نظریے کے زبردست حامی تھے ،انھوں نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اپنے انداز بیان میں (یعنی اپنے شعروں کے ذریعے)ایک الگ ملک یعنی پاکستان بنانے اور جذبہ آزادی کی تڑپ کومسلمانوں کے دلوں میں پیداکر دیا ۔
ہندوؤں نے اس مطالبے کو ناقابل عمل قرار دیا اور بعض نے اس مطالبے کو مضحکہ خیز قرار دیا،یہاں تک کہ بعض اپنوں نے بھی اسے ناقابل عمل سمجھالیکن قائداعظم رحمہ اللہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں جانتے تھے، بلکہ وہ ناممکن کو ممکن کرنا جانتے تھے ، برصغیر کے مسلمانوں کوشعور دلایا اور انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کر کے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریزحکمرانوں سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا حق منوایا۔قائد اعظم رحمہ اللہ کی قیادت میں یہ کارواں چلتا رہا اور ایسا چلا کہ اس کارواں کو روکنے کا تصور ہی ختم کر دیا، اس تحریک کو روکنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کو استعمال کیا گیا ۔۔۔ لیکن تمام کے تمام ناکام و نامراد رہے ۔
ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کرکے ایک الگ ملک پاکستان کو حاصل کرنا آسان کام نہ تھا، بلکہ یہ راستہ انتہائی طویل اور پُرکٹھن تھا، خون کی ندیاں بہی ،بڑے بڑے محلات میں رہنے والوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں، اپنی جائیدادوں کو چھوڑنا پڑا، اسے حاصل کرنے میں کتنے ہی داعیان دین علماء کرام کو جیلوں میں پابند سلاسل کر دیا گیااور کتنے ہی مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر کے پھر ان کی لاشیں درختوں پر لٹکائی گئیں،کتنی ہی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں کی عفت و عصمت کی دھجیاں اڑادی گئیں،اس کی بنیادوں میں برصغیر کے نڈر لاکھوں مسلمانوں کی شہادتیں شامل ہیں، قربانیاں بہت زیادہ تھیں،لیکن باوجود اس کے مسلمانان ہند نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں بڑی ہی جرأت، بہادری اور جانوں کا نذرانہ پیش کر کے یہ آزادی کے متوالے استقامت کاپہاڑ بن کے اس تصور اقبال رحمہ اللہ کو حاصل کرنے کے لئے اپنے مقصد سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور اپنے اس مضبوط عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
آخر کار قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ اور مسلمانان ہند کی پُرخلوص مسلسل محنتوں اور کوششوں کی بدولت وطن عزیز’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘پوری آب وتاب کے ساتھ دنیاکے نقشے پر معرض وجود میں آگیا۔ جس کا قیام دین اسلام کی مرہون منت ہے اور یہ مدینہ الرسولﷺکے بعد وہ واحد نظریاتی ریاست ہے جو صرف اور صرف دین اسلام کی سربلندی کے لیے اور اس کی ترویج و اشاعت کے لیے معرض وجود میں آئی، لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تب کہیں ہمیں نظریہ پاکستان کی تکمیل کا موقع ملا، یہ اصل میں نظریہ اسلام ہے اور وہ اخوت، مساوات، عدل و انصاف، انسانیت سے ہمدردی، اتحاد و اتفاق ہر وقت، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ نظریہ پاکستان سے مکمل ضابطہ حیات کا تصور عملی طور پر ابھرتا ہے، کہ جس کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارا جائے۔ اسی نظریہ کی خاطر دونوں جہانوں کے سردارپیغمبرحضرت محمدرسول اللہ ﷺ نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھا اور اس کو اپنا مسکن بنایا۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ بچپن ہی سے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ سچے محب رسول بھی تھے۔ انھوں نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم کے نظام کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اسے ملک پاکستان میں نافذ کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ایک مرتبہ کسی کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا:کہ ’’اگرحضرت عمرؓ کو اسلام سے نکال دیا جائے توپھر اسلام کے پاس کیا رہ جائے گا؟‘‘(ماہنامہ خلافت راشدہ اگست،ستمبر2012ء)
قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے ایک مقام پر فرمایا : کہ’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ صرف زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا ، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘ ( یعنی دین اسلام کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق زندگی گزار کر دنیا و آخرت بہتر بنا سکیں)اور فرمایا: ’’ہمارا راہنما اسلام ہے اور یہی اسلام ہماری زندگی کا مکمل ضابطہ ہے‘‘۔ قائد اعظم رحمہ اللہ چاہتے تھے یہاں کے لوگ اپنے مذہب ( یعنی دین اسلام)کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں،جہاں مسلمان آزاد ہوں اور وہ اپنی اقدار کے مطابق ملک و حکومت کے نظام کو چلائیں۔ قائداعظم رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء نے دین اسلام کو عملی طورپر نافذ کرنے کے لیے دن رات کوشش کر کے ہمیں یہ ٹکڑا اور ایک عظیم نعمت خداوندی’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ حاصل کر کے دیا کہ مسلمان اس الگ ملک میں اسلام کے مطابق زندگی گزاریں جس میں کسی قسم کی ان کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے لیکن مقام افسوس کہ جس مقصد کے لیے پیارا ملک پاکستان حاصل کیا ، وہ مقصد ابھی تک عملی تصویر پیش نہ کر سکا،ملک نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اسے اسلام کا قلعہ ہونا چاہیے تھا ، یہاں اسلام کو فوقیت ملنی چاہیے تھی ، قرآن مجید اور حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی طور پر دستور ہونا چاہیے تھا ، ہماری ہمدردیاں آپس میں جسد واحد کی طرح ہونا چاہیے تھی لیکن اے قائداعظم ہم شرمندہ ہیں کہ ابھی تک معاشرے میں دین اسلام کو فوقیت نہ دی گئی بلکہ غیروں کے طورطریقوں کو اپنایا گیا اور رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنا نمونہ و آئیڈیل نہ بنایا گیا ۔
آج اسی بات کی ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح اور اپنے آباؤ اجدادکی ارض پاکستان کی خاطر قربانیوں کا مقصد سمجھتے ہوئے اپنے آپ کا محاسبہ کریں ۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں