فارمولا مائنس تھری اورکنٹرولڈ جمہوریت

وطن عزیز میں تجزیہ نگاروں کی بھرمار ہے ۔تجزیہ نگار کی مختلف اقسام ہوسکتی ہیں ۔جیسے ٹی وی پر بیٹھے بائیں بازوں اوردائیں بازو کے تجزیہ نگار۔مختلف سیاسی پارٹیوں کا دفاع کرنے والے تجزیہ نگار،اخبارات میں لکھنے والے تجزیہ نگار۔سوشل میڈیا کے نیم تعلیم یافتہ تجزیہ نگار ،دیہات میں پنڈال ،حجام،پان شاپ،چائے والے کے پاس بیٹھ کر سیاست کی پہلیوں کو سلجھانے کی بجائے الجھانے والے کٹر خاص پارٹی کے تجزیہ نگار۔میں دیہات سے ہوں میرا ایسے کٹر پارٹی نواز تجزیہ نگاروں سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ روز اک چائے کے کھوکھے پر بیٹھے چار ادھیڑ عمرکے سیاسی ارسطو ؤں کے درمیان مائنس فور فارمولا زیربحث تھا ۔ گفتگو گرم د م تھی میں بھی خاموشی سے باادب طریقے سے ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔چائے والے سے پانچ کپ چائے کہا اوران کی گفتگو میں شامل ہوگیا وہ اس قدر متحیر مکالمہ کررہے تھے کہ میں دم بخود ہوئے جارہا تھا ۔وہ ملک کی نازک جمہوری تاریخ کے کتاب کے ورق الٹ رہے تھے ۔بابا قائداعظم رحمہ اللہ کے ناگہانی موت پر سنجیدہ تبصرہ ارشاد فرمارہے تھے ۔محترم فاطمہ جناح کااپنی نششت پر ہارنا اوربعدازاں قتل ،مجیب الرحمان کا اکثریت حاصل کرنا اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کا اسے قبول نہ کرنا پھر وطن عزیز کا دولخت ہونا بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کاعدالتی قتل پیچھے کون تھا ۔وہ سوال اٹھا رہے تھے 1971سے پہلے والی سیاسی پارٹیاں کہاں ہیں ؟ وہ کیوں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں ۔جنرل ضیاء الحق کو لانے والا کون تھا اور اس کی شہادت کے پیچھے کون تھا ۔وہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ایم کیوایم میں مائنس الطاف حسین وقت کی ضرورت تھا مگر مسلم لیگ ن میں مائنس نواز شریف کی کیاضرورت تھی ؟موصوف فرمارہے تھے بلاشبہ چورو ں کا احتساب ہونا چاہیے مگر پانامہ کے ساڑھے تین سو کرداروں پر کیوں ہاتھ نہیں ڈالا جاتا ۔جو بیوروکریٹ کرپشن میں ملوث ہیں انہیں کیوں نہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ؟ طاقت کا اصل مرکز پس پردہ قوتیں ہیں جو ہمیشہ ہی خود کومحفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہیں ۔ایک سوال پر کہ ان قوتوں کے پیچھے فوج ہے سب کا اتفاق تھا نہیں ان قوتوں کے پیچھے مافیا ہے جو وطن عزیز کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی میں مائنس آصف علی زرداری کی تیاریاں جاری ہیں ۔اک زرداری سب پہ بھاری والی کہاوت کا خاتمہ یقینی نظر آتاہے ۔پی پی پی جو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیے جارہی ہے وہ سب فضول اوربیکار ہیں ۔اب وہ وقت گزر چکاہے جب احتجاج اوردھرنوں کے زور پر اپنے فیصلے منوائے جاتے تھے ۔تبدیلی کا راستہ صرف اورصرف انتخاب ہیں انتخابات کے علاوہ کوئی اوردوسرا راستہ نہیں ہے۔یہ بھی ممکن ہے جو قوتیں ایم کیوایم کے لیے مائنس الطاف،مسلم لیگ ن کے لیے مائنس نواز اور پی پی پی کے لیے مائنس زرداری کی پلاننگ کررہی ہیں وہی قوتیں کل مائنس عمران کا بھی خواب دیکھ سکتی ہیں ۔اگر ایسا کچھ ہوا تو پھر دما دم مست قلند ر ہی ہوگا۔
موصوفوں کی تجزیوں میں اک قدر مشترک تھی ہماری قوم کا قوت حافظہ کمزور ہے ۔ہر نئے منتخب ہوئے حکمران کے لیے ایسے ہی جذبات پیدا کیے گئے جیسے آج عمران خان کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبے ماند پڑتے گئے ۔جن باتوں سے مجھے اتفاق ہوا وہ یہ تھیں ۔نوزائیدہ حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل میں تاحال ناکام ہے۔مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ دی ہے۔ڈالر کی مصنوعی اڑان سے وزیراعظم بے خبر تھے کیوں نہ وزیراعظم نے ان بے خبروں کی خبرگیری کی جنہوں نے وطن عزیز کی معیشت کو کھربوں کا ٹیکہ لگا دیا ۔نیب کے خوف سے سرمایادار بے چین ہیں وطن عزیز کو نقصان ہورہا ہے ۔ملکی ترقی اورخوشحالی کے پہیوں میں ہوا نکل رہی ہے۔تجاوزات کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات میں پلاننگ کا فقدان تھا۔گرین لائن ٹرین میں اربوں کا اضافہ ہورہا ہے مگر بزدار حکومت اسے مکمل کرنے میں پوری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔بہت سے سیاسی رہنماؤں کے نا م ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں حکومت کیا چاہتی ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔
وطن عزیز میں تعلیم کا معیار ناقص ہے۔ سرکاری ملازمین سکول چلارہے ہیں۔کمپنیوں کے مالکان ہیں۔سرکاری ڈاکٹرہسپتال چلارہے ہیں۔سیاسی ملازمین صحافت اورسیاست میں ملوث ہیں۔بہتریہی ہوگا کہ انصاف عدل پر مبنی ہو اگر سیاسی بنیادوں پر فیصلے ہوئے تواس کے اثرات منفی ہوں گے۔وطن عزیز میں عدل کے نفاذکی ضرورت ہے ۔اردو زبان کو فروغ دیے گئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسے دفتری زبان کے طور پر نافذکیا جانا ضروری ہے ۔ججزکو بابند بنایا جانا چاہیے کہ وہ فیصلہ اردو زبان میں تحریر کرے ۔فیصلہ انگریزی زبان میں تحریر کرنا بائیس کروڑ لوگوں کی قومی زبان کی توہین ہے۔این ٹی ایس کے پیپرز اردو زبان میں کرائے جانے چاہییں ۔سکولوں میں نصاب میں موجود کتابوں کی زبان صرف اردو ہی ہونی چاہیے۔اردو زبان کا تحفظ مدارس نے کیا ہے ۔
وطن عزیز میں ملاوٹ کا بازار گر م ہے ۔ہرچیز میں ملاوٹ کرنے والے ہرشہر اورہرگلی میں موجود ہیں۔اشیائے خوردونوش کو ملاوٹ سے پاک کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جانے چاہییں۔ایک ارسطو نے تویہاں تک کہہ دیا کے مائنس فارمولا فور تک نہیں فائیوتک جائے گا۔ بلاول بھٹول کو بھی مائنس کیا جائے گا۔شہباز شریف احتساب کرنے والے ذمہ داروں کی کلاس لیں گے نیب والے اور ایف بی آر والے شہباز شریف کو واضاحتیں دیں گے ۔نیب والوں اور ایف بی آر والوں کو تیار رہنا چاہیے ۔اس شخص کے سامنے جوابدہ ہوں گے جس کے خاندان کے خلاف احتساب کا لٹو گزشتہ دوسال سے گھمایا جارہا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہویہ لٹو منتخب حکومت کے اس ٹولے کے گرد گھوم جائے جو سابق حکومتوں میں کرتا دھرتا تھے اورپی ٹی آئی کی چھتری تلے چھپ کر اپنے گناہوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔اشارہ سمجھ جائیے کون کون کہاں سے آیا وضاحت کی ضرورت نہیں ہے سبھی کو سب معلوم ہیں ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں